مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب
جمعۃ المبارک 16 رمضان المبارک 1439ھ بمطابق 1 جون 2018
عنوان: غیب اور آخرت پر ایمان کے ثمرات
ترجمہ: عاطف الیاس
منتخب اقتباس:
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں، اسی پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیں اور اسی سے معافی مانگتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتی ہو آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کے پاکیزہ اہل بیت پر، نیک اور روشن پیشانیوں والے صحابہ کرام پر، تابعین پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
فرمان الٰہی ہے:
’’وہی گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب فضل ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘
(غافر: 3)
آخرت کی خوب تیاری کرو۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اس دن کی رسوائی اور مصیبت سے بچو، کہ جب تم اللہ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہو گا‘‘
(البقرۃ: 281)
عبادت فرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اللہ کی بندگی صحیح انداز میں بجا لائی جا سکے اور لوگوں میں پرہیز گاری پیدا کی جائے۔
سنو! آپ کے مہینے کے دن کم ہونے لگے ہیں، اب عبادتیں بڑھا لو۔ رمضان کے دو حصہ گزرنے لگے ہیں مگر افضل ترین حصہ تو ابھی باقی ہے۔ رمضان المبارک کی آخری راتیں نیکی کے میدان مقابلہ کرنے والوں کے لیے بہترین موقع ہے اور اجر کمانے والوں کے لیے شاندار وقت ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اتنی زیادہ عبادت کرتے تھے جتنی عبادت وہ دیگر دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
آخری عشرے میں ایک ایسی رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ فرمانِ نبوی ہے:
جس نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ لیلۃ القدر کی عبادت کی اس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
سیدہ عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی کے آخری سال تک رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کرتے رہے اور پھر آپ ﷺ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے:
’’ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک‘‘
(القدر: 1-5)
یہ مہینہ نماز، دعا اور قرآن کا مہینہ ہے۔ یہ صدقہ خیرات، توبہ اور احسان کا مہینہ ہے۔ یہ مسلمانوں کی فتوحات کا یادگار مہینہ ہے۔ اس مہینے میں جتنا ہو سکے، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ سے امیدیں وابستہ رکھو اور خوش ہو جاؤ۔
قرآن کریم رمضان المبارک میں نازل ہوا تو اسے اس صبح صادق کی حیثیت دی گئی کہ جس کے پہلے انسانیت اندھیری رات میں تھی۔ قرآن کریم کے نور سے سارے اندھیرے مٹ جاتے ہیں۔ اگر امت اسلامیہ ہدایت حاصل کرنے کے لیے اسی کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات بھی سمیٹ دے اور اس کی راہ آسان فرما دے۔
امت کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ ہر وقت قرآن کریم سے جڑی رہے۔ پیاسوں کی طرح اسی کا ٹھنڈا پانی پیے۔ اسے صرف پڑھنے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ اس کے معانی پر غور وخوض کرے، تامل اور تدبر کرے، تاکہ لوگوں کی سوچ بھی اسی میں آنے والے مسائل سے جڑ جائے۔ وہ انہی کے متعلق بات کریں، توحید، آخرت اور رسالت پر گفتگو کریں، ان ہی عقائد، شرائع اور اخلاق کو درست سمجھیں جنہیں قرآن کریم نے درست ٹھہرایا ہے۔ ہر چیز کو اتنی ہی اہمیت دیں جتنی قرآن کریم نے دی ہے۔ نہ کم کریں اور نہ زیادہ۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو ہم حقیقی معنوں میں قرآن کریم کی طرف لوٹ آئے ہیں اور امت کو آج اس چیز کی بڑی ضرورت ہے۔
اللہ کے بندو!
جو قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے، اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم نے آخرت اور موت کے بعد زندگی کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اسے بار بار دھرایا گیا ہے اور اسے واضح کرنے کے لیے بہت سی مثالیں اور دلیلیں دی گئی ہیں۔ قرآن کریم میں تین جگہوں پر نبی اکرم ﷺ کو آخرت کے آنے پر قسم کھانے کا حکم دیا گیا۔ فرمایا:
’’منکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ان سے کہو نہیں، میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر ضرور تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہے، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے‘‘
(التغابن: 7)
اسی طرح فرمایا:
’’پھر پُوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو؟ کہو میرے رب کی قسم، یہ بالکل سچ ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہُور میں آنے سے روک دو‘‘
(یونس: 53)
آخرت پر ایمان لانا ایمان کا ایک ضروری حصہ ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے‘‘
(بقرۃ: 177)
لوگو!
دلوں کی بیماریوں کا بہترین علاج وعظ ہے اور بہترین وعظ آخرت کی یاد ہے، قبروں سے نکلنے اور میدان حشر کو نظروں کے سامنے لانا ہے۔
وہ دن کہ جب لوگوں کے درمیان ہر قسم کے امتیازات ختم ہو جائیں گے، حقائق سامنے آ جائیں گے، آراء اور خود ساختہ افکار کا دروازہ بند ہو چکا ہو گا۔ جس دن ہر انسان اکیلا اللہ کے سامنے پیش ہو گا۔ اس کے ساتھ کوئی نہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی کوئی بات چھپی نہ ہو گی۔ وہ ملاقات بڑی ہولناک ہو گی اور انسان بڑی مشکل میں ہو گا۔ وہ اپنی مکمل عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو گا اور اللہ سے کوئی بات چھپی نہ ہو گی۔ راز کی باتیں بھی اس کے علم میں ہوں گی اور پوشیدہ چیزیں بھی اس کے یہاں ظاہر اور واضح ہوں گی۔
اے مسلمانو!
موت کے بعد نئی زندگی کا آغاز، فنا کے بعد دوسری حیات کی ابتدا اور قیامت کے دن کی ہولناکیاں دیکھ کر نیک لوگوں کے دل ڈر جاتے ہیں، عبادت گزاروں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں اور پختہ یقین رکھنے والوں کے دل لرز اٹھتے ہیں۔
وہ دن دوسرے دنوں کی طرح کا نہیں ہو گا۔ جب ساری دنیا پر کوئی زندہ چیز نظر نہ آ رہی ہو گی۔ ساری دنیا میں عجب سناٹا ہو گا، ساری مخلوقات فنا ہو چکی ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ بادلوں کو بارش برسانے کا حکم دے گا۔ چالیس دن تک پھوار کی مانند تیز بارش ہوتی رہے گی اور اس بارش سے لوگوں کے جسم پھر سے سبزی کی طرح اگنے لگیں گے۔ اس وقت لوگوں کے جسم فنا ہو چکے ہوں گے۔ بس کمر کا آخری گول حصہ ہی بچا ہو گا۔ اسی حصے سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو پھر سے پیدا کرے گا۔
پھر اسرافیل صور میں پھونکے گے اور سب لوگوں کی روحیں واپس ان کے جسموں میں ڈال دی جائیں گی۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے‘‘
(یٰس: 51)
قبریں کھل جائیں گی اور سب مدفون باہر نکل آئیں گے۔ آدم سے لے دنیا کے آخری لمحے تک آنے والے لوگ اکٹھے ہوں گے۔
فرمانِ الٰہی ہے:
’’ایک ہی زور کی آواز ہو گی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیے جائیں گے‘‘
(یٰس: 53)
اب آپ ذرا تصور کیجیے کہ وہ وقت کتنا ہولناک ہو گا جب زمین پھٹے گی اور لوگ اپنی قبروں سے نکل آئیں گے اور سب اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’بس ایک ہی جھڑک ہو گی اور یکایک یہ اپنی آنکھوں سے (وہ سب کچھ جس کی خبر دی جا رہی ہے) دیکھ رہے ہوں گے‘‘
(الصافات: 19)
جب لوگ قبروں سے نکلیں گے تو وہ کبھی اِدھر جائیں گے تو کبھی اُدھر۔ ایک دوسرے کو لگتے رہیں گے۔ کسی کو معلوم نہ ہو گا کہ کیا کرنا ہے اور کس طرف جانا ہے۔ کبھی آپ نے بکھرے ہوئے پروانے دیکھے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے‘‘
(القارعۃ: 4)
لوگوں سے کہا جائے گا: لوگو! اپنے رب کی طرف آ جاؤ۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا اور آوازیں رحمان کے آگے دب جائیں گی، ایک سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے‘‘
(طٰہٰ: 108)
یوں فرمایا:
’’اُس روز آدمی اپنے بھائی۔ اور اپنی ماں اور اپنے باپ۔ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا‘‘
(عبس: 34-37)
اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور جس د ن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا اس کا ارشاد عین حق ہے اور جس روز صور پھونکا جائیگا، اس دن اسی کی بادشاہت ہو گی‘‘
(الانعام: 73)
ایک شخص کو قبر سے نکالا جائے گا تو وہ تلبیہ پڑھ رہا ہو گا۔ لبیک اللہم لبیک، کیونکہ وہ حالت احرام میں فوت ہوا تھا، دوسرا شخص قبر سے نکالا جائے گا تو اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ رنگ خون کا ہو گا مگر خوشبو مشک کی ہو گی۔ یہ شخص شہید ہو گا۔
اور مجرم اس حال میں گھیر کر لائے جائیں گے کہ خوف کے مارے ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہوں گی، دل ڈرے ہوئے ہوں گے، کچھ کی نظریں شرم کے مارے نیچی ہوں گی اور کچھ کی نظریں آسمان سے لگی ہوں گی۔ کافروں کو منہ کے بل چلایا جائے گا۔
ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے نبی! کافر اپنے منہ کے بل کس طرح چلے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا جس نے دنیا میں اسے پاؤں پر چلنے کی صلاحیت دی ہے وہ اسے قیامت کے دن منہ کے بل نہیں چلا سکتا؟ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ان لوگوں کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں گے، اندھے، گونگے اور بہرے اُن کا ٹھکانا جہنم ہے جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے‘‘
(الاسراء: 97)
اس مجمع میں کہ جس میں اولین واخرین موجود ہوں گے، دھوکہ دینے والوں کے علم بلند کیے جائیں گے۔ بتایا جائے گا کہ فلان کی غداری ہے اور یہ فلاں کا دھوکہ ہے۔
جس شخص نے ناحق مسلمانوں کا مال غصب کیا ہو گا وہ اسے اپنی کمر پر اٹھا کر لائے گا، چاہے وہ سونا چاندی ہو یا کوئی اور چیز۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
دیکھنا! ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم اپنی کندھے پر بلبلاتے اونٹ کو اٹھا کر لاؤ اور پھر مجھ سے کہو: اے اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے! اس وقت میں کہوں گا: میں نے تمہیں خبردار کر دیا تھا۔ اب تجھے اللہ سے میں نہیں بچا سکتا۔
فرمانِ الٰہی ہے:
’’زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی‘‘
یعنی جب اللہ تعالیٰ لوگوں میں فیصلہ کرنے کے لیے جلوہ فرما ہو گا تو زمین روشن ہو جائے گی۔
’’کتاب اعمال لا کر رکھ دی جائے گی‘‘
جس میں ہمارے اعمال لکھے ہوئے ہوں گے۔
’’انبیاء حاضر کر دیے جائیں گے‘‘
جو اپنی اپنی امتوں پر گواہ ہوں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔
’’تمام گواہ حاضر کر دیے جائیں گے‘‘
جو کہ اولاد آدم کے اعمال لکھ چکے ہوں گے اور ان پر گواہ ہوں گے۔
’’لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہ ہوگا‘‘
(الزمر: 96)
اس دن چہرے یا تو سفید چمکتے ہوں گے یا پھر کالے سیاہ۔ میزان ہلکے یا پھر بھاری۔ نامہ اعمال یا تو لوگوں کے دائیں ہاتھوں میں ہوں گے یا پھر بائیں ہاتھوں میں۔
اللہ اکبر! کتنا ہولناک منظر ہو گا! فرمانِ الٰہی ہے:
’’ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے‘‘
(المعارج: 4)
اللہ اولین اور آخرین کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے۔ سارے جہان کو زبان مل جائے گی، سب اللہ تعالیٰ کے سامنے گویا ہوں گے اور اس کے فیصلوں اور عدل کی تعریف کریں گے۔ ساری مخلوقات اس کی ثنا کرے گی۔
قتادۃ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کی ابتدا اپنی تعریف سے کی، فرمایا:
’’تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے‘‘
(الانعام: 1)
پھر قیامت کے فیصلوں کا اختتام بھی اپنی تعریف پر فرمایا۔ فرمایا:
’’اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد اور تسبیح کر رہے ہوں گے، اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا، اور پکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ ربّ العالمین کے لیے‘‘
(الزمر: 75)
فرمانِ الٰہی ہے:
’’رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھَلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہو گا، تو وہ یقیناً اُس (جہنم) سے دُور رکھے جائیں گے۔ اس کی سرسراہٹ تک نہ سُنیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔ وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘
(الانبیاء: 101-103)
بعدازاں! اے مسلمانو!
آخرت پر اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان سے انسان کی زندگی کا رخ درست ہو جاتا ہے۔ اسی ایمان سے جسم کے اعضا فرمان برداری میں لگ جاتے ہیں۔ گناہوں اور کوتاہیوں سے بچ جاتے ہیں۔ قرآنی آیات بھی یہی بیان کرتی ہیں کہ فرمان برداری اور ایمان بالیوم الآخر میں بہت گہرا تعلق ہے۔
اللہ کے بندو!
آخرت پر ایمان لانے سے انسان ایک نیا شخص بن جاتا ہے۔ جو اپنے اخلاق، مبادی اور نظریات میں بالکل مختلف شخص ہوتا ہے۔ آخرت پر ایمان رکھنے والا اور اس کے لیے محنت کرنے والا دنیا کے لیے جینے والے جیسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ زندگی کے کسی بھی معاملے میں ان دونوں کا فیصلہ ایک نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی سوچ ہے جس کی بنیاد پر وہ چیزوں کا وزن کرتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں۔
آخرت پر ایمان سے دل میں آنے والے شکوک وشبہات دور ہو جاتے ہیں اور اگر یہ ایمان کمزور پڑ جائے تو شکوک وشبہات بڑھ جاتے ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں اگر تمہارے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے پس تم اُنہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیاں کرتے رہیں۔ (یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لیے کرنے دے رہے ہیں کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے دل اِس (خوشنما دھوکے) کی طرف مائل ہوں اور وہ اس سے راضی ہو جائیں اور اُن برائیوں کا اکتساب کریں جن کا اکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں‘‘
(الانعام: 112-113)
اے مسلمانو!
آخرت پر ایمان رکھنے والے کا ضمیر مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان نہیں رہتا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عفو ودرگزر اور رحمت کی امید رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ یہ ہولناک دن ضرور آئے گا اور اس دنیا کے بعد ایک اور زندگی ضرور ملے گی۔ جب وہ دنیا کی کسی چیز سے محروم ہو جاتا ہے تو وہ آخرت کے حوالے سے امید رکھتا ہے کہ وہاں اسے ساری نعمتیں نصیب ہو جائیں گی۔ جب بھی اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتا ہے۔ جب دنیا کی نعمتیں دیکھتا ہے تو اسے آخرت کی نعمتیں یاد آتی ہیں۔
فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا، اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے‘‘
(العنکبوت: 64)
وہ دنیا میں ویسا ہی رہتا ہے جیسا اللہ تعالیٰ نے اسے رہنے کا کہا ہے۔ وہ لوگوں پر احسان کرتا ہے۔ وہ زمین کو آباد کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے دنیا کی بگڑی چیزیں آخرت میں سنور جائیں گی اور دنیا میں اگر باطل غالب ہے تو وہ آخرت میں ضرور رسوا ہو گا۔
اے اللہ! ہمیں آخرت پر مکمل ایمان رکھنے والا بنا۔ ڈر والے دن ہمیں امن نصیب فرما اور جنت میں داخل فرما!
اے اللہ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما! ہمارے عیب چھپا، ہمارے معاملات آسان فرما! اور ہماری نیک خواہشات پوری فرما! اے اللہ! ہمیں، ہمارے والدین کو، آباء واجداد کو اور ان کی نسلوں کو، ہماری بیویوں کو اور ہماری نسلوں کو معاف فرما! یقینًا تو دعا سننے والا ہے۔
اے اللہ! ہمارے روزے، قیام اور دعائیں قبول فرما! ہمارے نیک اعمال قبول ومنظور فرما! یقینًا تو سننےاور جاننے والا ہے۔ ہماری توبہ قبول فرما! یقینًا تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘
(الصافات: 180-182)