کل، ایک دھوکہ


⟳ کل، ایک دھوکہ ⟲


(تحریر: محمد فہیم عالم، لاہور)
بشکریہ: اردو ورڈ

اگر ہم اپنے گرد و پیش اور اپنی زندگی کے شب و روز پر نظر دوڑائیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ہم کس طرح غیرمحسوس طور پر "کل" کے اندھے سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔

حالانکہ لفظ "کَل" ہماری زندگی میں ایک دھوکہ ہے جسے ہم نے کام سے جی چرانے کے لئے بہانے کے طور پر تراشا ہوا ہے۔

طالب علم کہتا ہے امتحان کی تیاری کل سے شروع کروں گا؛
 بے نمازی سوچتا ہے کہ نمازوں کی پابندی کل سے شروع کروں گا۔
 لیکن وہ کل کبھی نہیں آتی۔

اگر آپ آج کا کام کل پر چھوڑیں گے تو کل کا کام کب کریں گے؟
 یاد رکھئے! آپ کا آج آپ کے کل کے لئے زادِ راہ ہے۔ عقلمندوں کے ہاں ہمیں کل کا لفظ نہیں ملتا، ہاں! البتہ بےوقوفوں کی جنتریوں میں یہ لفظ بکثرت پایا جاتا ہے۔

‏ایک دانا کا قول ہے کہ…
"گزشتہ کل تو فوت ہو چکا، اور آئندہ کل کی تو صرف اُمید ہے، اور کام تو آج ہی ہوسکتا ہے"۔

‏اس لئے اپنے آج کے لمحات کو غنیمت جانئے۔ کل کا کام آج کیجئے اور آج کا کام ابھی کیجئے۔
 اس لئے کہ آج تو آپ کے ہاتھ میں ہے جبکہ کل کا آپ کی زندگی میں آنا یقینی نہیں،
 کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کل تو آئے لیکن آپ نہ ہوں!! 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⟳ کل، ایک دھوکہ ⟲ (تحریر: محمد فہیم عالم، لاہور) بشکریہ: اردو ورڈ اگر ہم اپنے گرد و پیش اور اپنی زندگی کے شب و روز پر نظ...

ادب کی ضرورت اور اہمیت ... خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 21 دسمبر 2018


ادب کی ضرورت اور اہمیت۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ
14 ربیع الثانی 1440 بمطابق 21 دسمبر 2018
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 14 ربیع الثانی 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "ادب کی ضرورت اور اہمیت" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ ادب انسان کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے، اس کے ہوتے ہوئے کسی اور شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ ادب یہ ہے کہ: انسان کے گفتار اور کردار میں تقوی الہی نظر آئے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کریں، نیز ادب کو محض فصاحت و بلاغت میں محصور کر دینا مناسب نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ: ماں کا کردار ہر معاشرے میں کلیدی ہوتا ہے چنانچہ اگر آپ اپنی بیٹی کو اچھی ماں بنا دیں تو وہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کر سکتی ہے۔ کتب احادیث میں خصوصی طور پر ادب کے عنوان کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ ادب کا صلہ اور بدلہ بہت عظیم ہوتا ہے چنانچہ با ادب شخص کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں محلات کی ضمانت دی ہے۔ سلف صالحین ادب سیکھنے اور سکھانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے مملکت سعودی عرب میں ہونے والی بارشوں پر اللہ کا شکر ادا کیا اور ان بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہریالی کی سیر کرنے کے آداب بھی بتلائے اور کہا کہ راستوں ، اور سائے دار جگہوں پر گندگی مت پھیلائیں یہ مذموم اعمال ہیں، آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔

↲ منتخب اقتباس ↳

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ تعالی نے ہمیں کتاب و سنت کے ذریعے بہترین انداز میں ادب سکھایا، ہم پر اپنی فضل کی بہاریں برسائیں، ہمیں اپنی وسیع رحمت کے زیر سایہ رکھا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک، میں اسی کی جانب دعوت دیتا ہوں اور خود بھی اسی کی جانب انابت کرتا ہوں۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے رسول ہیں، آپ کو حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا، اعلی اخلاق کے بعد کسی حسب نسب کی ضرورت نہیں رہتی، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے ، دردو و سلام کے ذریعے ہمیں وافر اجر اور عظیم ثواب ملے گا۔

مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو ؛ کیونکہ متقی کامیاب ہوں گے اور حد سے تجاوز کرنے والے بد بخت تباہ و برباد ہوں گے،
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
 اے ایمان والو! اللہ سے کما حقہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام پر۔[آل عمران: 102]

ادب انسان کا شرف ہے، ادب پر مبنی شرف کی وجہ سے حسب و نسب کے شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ شرف بلند ہمتی سے حاصل ہوتا ہے، بوسیدہ ہونے والی ہڈیوں سے نہیں!

مَا ضَرَّ مَنْ حَازَ التَأَدُّبَ وَالنُّهَى
أَلَّا يَكُوْنَ مِنْ آلِ عَبْدِ مَنَافِ

ادب اور دانشمندی حاصل کرنے والے کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ عبد مناف کی آل میں سے نہیں ہے

شرف اور خوبی یہ ہے کہ ادب انسان کے رگ و پے میں رچ بس چکا ہو۔

زَانُوْا قَدِيْمَهُمْ بِحُسْنِ حَدِيْثِهِمْ
وَكَرِيْمِ أَخْلَاقٍ وَحُسْنِ خِصَالِ

بہترین لوگوں نے حسن گفتگو، اچھے اخلاق اور خوبیوں کی بدولت اپنی نسل کو قدر فراہم کی

فَطُوْبَى لِقَوْمٍ أَنْتَ فَارِعُ أَصْلِهِمْ
وَطُوْبَاكَ إِذْ مِنْ أَصْلِهِمُ أَنْتَ فَارِعُ

آفرین ہے تمہارے خانوادے پر جس کے تم سپوت ہو، اور تم پر بھی آفرین ہے کہ تم ان کی اولاد ہو۔

ادب: قابل ستائش کلام اور کام کا نام ہے۔

ادب: اعلی کردار اور مذموم چیزوں کو ترک کرنے کا نام ہے۔

ادب: بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کا نام ہے۔

ادب: حسن اخلاق کو کہتے ہیں۔ فرمان باری تعالی: 
{وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ} [القلم: 4] 
کی تفسیر میں عطیہ عوفیؒ کہتے ہیں: "مطلب یہ ہے کہ: آپ بہت عظیم ادب کے مالک ہیں۔"

ادب: تقوی اور اطاعت الہی بجا لانے اور نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔

أَدَّبْتُ نَفْسِيْ فَمَا وَجَدْتُ لَهَا
بِغَيْرِ تَقْوَى الْإِلَهِ مِنْ أَدَبِ

میں نے اپنے آپ کو با ادب بنانا چاہا تو مجھے تقوی الہی کے علاوہ کہیں بھی ادب نہیں ملا۔

مجاہدؒ اللہ تعالی کے فرمان: 
{قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ} [التحريم: 6] 
کی تفسیر میں کہتے ہیں: "اپنے آپ اور اہل خانہ کو تقوی الہی کی تلقین کرو اور اسی کے ذریعے انہیں با ادب بناؤ"

قَدْ يَنْفَعُ الْأَدَبُ الْأَحْدَاثَ فِيْ مَهَلٍ
وَلَيْسَ يَنْفَعُ عِنْدَ الْكَبْرَةِ الْأَدَبُ

نو عمر افراد کو ابتدا میں ادب سکھانا مفید ہو سکتا ہے، لیکن بڑھاپے میں نہیں ۔

إِنَّ الْغُصُوْنَ إِذَا قَوَّمْتَهَا اعْتَدَلَتْ
وَلَنْ يَّلِيْنَ إِذَا قَوَّمْتَهُ الْخَشَبُ

کیونکہ گیلی ٹہنی کو سیدھا کرو تو سیدھی ہو جائے گی، لیکن لکڑی بن جانے کے بعد سیدھی نہیں ہوگی

لَيْسَ الْجَمَالُ بِأَثْوَابٍ تُزَيَّنُنَا
إِنَّ الْجَمَالَ جَمَالُ الْعِلْمِ وَالْأَدَبِ

پہنا ہوا لباس ہمیں خوبصورت نہیں بناتا، انسان خوبصورت تو علم اور ادب سے بنتا ہے۔

[عربی زبان میں ادب دعوت دینے کے معنی میں مستعمل ]تو ادب کو ادب اس لیے کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کو اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی دعوت دیتا ہے۔

ادب: اچھی گفتگو، خوبصورت کلام، چاشنی بھری بات، حسین عبارت، بہترین تعامل اور روح و اخلاقیات کی عمدگی کا نام ہے۔

ادب صرف فصاحت، بلاغت، علوم و فنون پر دسترس، اور اشعار یاد ہونے کا نام نہیں ہے، بلکہ ادب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اچھے اخلاق کا مالک ہو۔ دوسروں پر اللہ کی نعمتوں سے خوش ہو۔ حسد اور کینے سے اپنے آپ کو پاک صاف رکھے۔ جس با ادب شخص کی عقل کامل ہو جائے تو وہ کم بولتا ہے اور زیادہ خاموش رہتا ہے، اس کے بول میٹھے ہو جاتے ہیں اور اس کی برد باری عیاں ہوتی ہے۔

وَكُنْ كَرِيْمًا، حَلِيْمًا، عَاقِلًا، فَطِنًا
مُنَزَّهَ الْخُلْقِ عَنْ طَيْشٍ وَعَنْ غَضَبِ

تم سخی، حلیم، عقل مند اور فطین بنو، طیش اور غصے سے یکسر دور رہو

وَصُنْ لِسَانَكَ مِنْ هَجْوٍ، وَمِنْ سَفَهٍ
وَمِنْ مُجَاوَرَةَ الْأَوْبَاشِ، وَالْكَذِبِ

اپنی زبان کو ہجو اور بیوقوفانہ کلام سے محفوظ رکھو، نیز اوباشوں کی صحبت سے دور رہو۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے: تین چیزوں کی بدولت اجنبیت ختم ہو جاتی ہے، مشکوک افراد سے بچاؤ، با ادب رہنا، کسی کو تکلیف نہ دینا۔

يَزِيْنُ الْغَرِيْبَ إِذَا مَا اغْتَرَبَ
ثَلَاثٌ فَمِنْهُنَّ حُسْنُ الْأَدَبِ

مسافر شخص کی اجنبیت تین چیزیں ختم کر دیتی ہیں: اول، حسن ادب

وَثَانِيْةٌ: طِيْبُ أَخْلَاقِهِ
وَيَخْتِمُهُنَّ اجْتِنَابُ الرِّيَبِ

دوم: حسن اخلاق اور آخری ہے مشکوک سرگرمیوں سے اجتناب

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "با ادب شخص کامیاب اور خوش حال ہوتا ہے، جبکہ بے ادب شخص بد بخت اور تباہ حال ہوتا ہے۔ اسی لیے دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کرنے کے لئے ادب کا کوئی ثانی نہیں، بعینہٖ ان سے محرومی کے لئے بے ادبی کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ آپ والدین کے ساتھ ادب کو دیکھیں: کیسے والدین کا ادب کرنے والے کو غار سے خلاصی ملی انہیں چٹان نے محصور کر دیا تھا!؟ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نماز پڑھانے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادب دیکھیں: کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش امام نہ بنے اور کہا: ابن ابی قحافہ کو زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امام بنے۔ ان کے اس ادب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہیں پوری امت کی امامت کا وارث بنا دیا!"

إِنّي لَتُطرِبُني الخِلالُ كَريمَةً
طَرَبَ الغَريبِ بِأَوبَةٍ وَتَلاقي

میں اچھی خوبیوں کو دیکھ کر جھوم اٹھتا ہوں جیسے پردیسی واپس لوٹنے اور ملاقات ہونے پر جھوم جاتا ہے۔

وَتَهُزُّني ذِكرى المُروءَةِ وَالنَدى
بَينَ الشَمائِلِ هِزَّةَ المُشتاقِ

مجھے مروت اور نرم مزاج خوبیوں کا تذکرہ کسی مشتاق کی طرح بے خودی میں مست کر دیتا ہے۔

فَإِذا رُزِقتَ خَليقَةً مَحمودَةً
فَقَدِ اصْطَفاكَ مُقَسِّمُ الأَرزاقِ

لہذا اگر تمہیں کوئی اچھی خوبی مل جائے تو یقیناً رزق تقسیم کنندہ نے تمہیں چنیدہ بنا لیا ہے۔

فَالناسُ هَذا حَظُّهُ مالٌ وَذا
عِلمٌ وَذاكَ مَكارِمُ الأَخلاقِ

کچھ لوگوں کے نصیب میں مال تو کسی کے نصیب میں علم اور کسی کو حسن اخلاق ملتا ہے۔

وَالعِلمُ إِن لَم تَكتَنِفهُ شَمائِلٌ
تُعليهِ كانَ مَطِيَّةَ الإِخفاقِ

تو اگر علم اچھے اخلاق کے زیر سایہ نہ ہو تو یہ علم بھی تنزلی کی جانب گامزن کر دیتا ہے۔

لا تَحسَبَنَّ العِلمَ يَنفَعُ وَحدَهُ
ما لَم يُتَوَّج رَبُّهُ بِخَلاقِ

یہ مت سمجھنا کہ صرف علم ہی مفید ہے! جب تک صاحب علم اخلاقیات سے متصف نہ ہو کوئی فائدہ نہیں!

كَم عالِمٍ مَدَّ العُلومَ حَبائِلاً
لِوَقيعَةٍ وَقَطيعَةٍ وَفِراقِ

دیکھ لو کہ کتنے ہی علم رکھنے والوں نے اپنے علوم کو رخنے ڈالنے، قطع تعلقی اور دشمنی کا ذریعہ بنا دیا!

وَفَقيهِ قَومٍ ظَلَّ يَرصُدُ فِقهَهُ
لِمَكيدَةٍ أَو مُستَحِلِّ طَلاقِ

کتنے ہی فقیہانِ ملت نے اپنی فقاہت مکاری یا طلاق دلوانے کے لئے استعمال کیا!

الأُمُّ مَدرَسَةٌ إِذا أَعدَدتَها
أَعدَدتَ شَعباً طَيِّبَ الأَعراقِ

ماں ایک مکمل تربیت گاہ ہے، اگر تم ایک ماں کی تربیت کر دو تو تم ایک انتہائی اچھا معاشرہ تشکیل دے دو گے

الأُمُّ رَوضٌ إِن تَعَهَّدَهُ الحَيا
بِالرِيِّ أَورَقَ أَيَّما إيراقِ

ماں ایک گلستان ہے، اگر حیا اس کی آبیاری کرے تو بہت ہی پھل آور ثابت ہوتا ہے۔

الأُمُّ أُستاذُ الأَساتِذَةِ الأُلى
شَغَلَت مَآثِرُهُم مَدى الآفاقِ

ماں ان تمام اولین اساتذہ کی بھی استاد ہے، جن کے کارناموں سے افق بھرے ہوئے ہیں۔

رَبُّوا البَناتِ عَلى الفَضيلَةِ إِنَّها
في المَوقِفَينِ لَهُنَّ خَيرُ وِثاقِ

بیٹیوں کی اچھی تربیت کریں، اس کی بدولت وہ دونوں جہانوں میں ثابت قدم رہیں گی۔

وَعَلَيكُمُ أَن تَستَبينَ بَناتُكُم
نورَ الهُدى وَعَلى الحَياءِ الباقي

خیال کرنا جب تمہاری بیٹیاں اپنے گھروں کو سِدھاریں تو نورِ ہدایت اور دائمی حیا ان کی رفاقت میں ہو۔

احادیث کی کتب صحاح، سنن اور مصنفات نے ادب سے متعلقہ احادیث کا خصوصی اہتمام کیا ہے، اہل اسلام کے ہاں ان عظیم کتابوں کے مصنفین نے اپنی کتب میں ادب کے لئے خصوصی عنوان اور ابواب لکھے ہیں۔

آپ صحیح بخاری میں کتاب الادب دیکھ لیں، صحیح مسلم میں بھی کتاب الادب موجود ہے، سنن ابو داود میں کتاب الادب شامل ہے، ایسے ہی سنن ترمذی میں بھی کتاب الادب کو شامل کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کا اسلام میں کتنا بلند مقام اور مرتبہ ہے۔ شریعت اور احادیث میں ادب کو واضح ترین اہمیت دی گئی ہے۔

آداب اور اخلاقیات کے بارے میں احادیث کے ذخیرے میں یہ حدیث بھی ہے جسے ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں جنت کے کنارے پر ایک محل کا ضامن ہوں اس کے لئے جو حق پر ہوتے ہوئے بھی لڑائی نہ کرے، اور جنت کے وسط میں ایک محل کا ضامن ہوں اس کے لئے جو مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے، اور اعلی ترین جنت میں محل کا ضامن ہوں اس کے لئے جس کا اخلاق اچھا ہے) اس حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے۔

ابن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے"

مسلمانو!

اللہ تعالی کی نعمت کا شکر ادا کرو کہ اللہ تعالی نے تمہارے لیے ٹھنڈی ہوائیں ، بارشیں برسانے والے بادل، اور گھن گرج والی گھٹائیں تسلسل کے ساتھ بھیجیں، ان سے پیاسی زمینوں، بنجر صحراؤں، بے آب و گیاہ کھلیانوں ، خشک اور چٹیل پہاڑوں پر بارشیں ہوئیں، ان پر قحط سالی کا راج تھا، تو بارشوں کی وجہ سے سر سبز اور ہرے بھرے ہو گئے، ان پر جڑی بوٹیاں نمودار ہو گئیں، اللہ کے فضل سے تمہاری زمینیں لہلہا اٹھی ہیں، اللہ کی بارش سے تمہارے کھیت اور کھلیان آباد ہوگئے ہیں، اللہ کی رحمت سے تمہارے پہاڑ تک سبزے سے ڈھک گئے ہیں، یہ زرعی پیداوار کا سال ہوگا۔ ان پہاڑوں کا منظر بھی انتہائی سہانا ہو گیا ہے، جو کہ اللہ تعالی کی قدرت، حکمت، رحمت، فضل، رزق اور احسان کی واضح ترین دلیل ہے۔

اپنی نظروں کو اللہ تعالی کے دلفریب مناظر سے لُبھائیں، اور سیر تفریح کے آداب کو مد نظر رکھیں، لہذا کسی بھی ایسی جگہ کو گندگی سے آلودہ مت کریں جہاں پر لوگ سایہ کے لئے بیٹھتے ہوں، یا آرام کرتے ہوں یا سواریاں کھڑی کرتے ہوں، یا کوئی سر سبز جگہ ہو، یا پھل دار درخت ہو، یا پانی پینے کی جگہ ہو یا پیدل، سواری اور گاڑیوں کے چلنے کی جگہ ہو کہیں پر بھی گندگی مت پھیلائیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم لعنت کا سبب بننے والے کاموں سے بچو) تو اس پر صحابہ کرام نے کہا کہ: "اللہ کے رسول! یہ لعنت کا سبب بننے والے کام کیا ہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو لوگوں کے راستے یا سائے میں قضائے حاجت کرے) مسلم

یا اللہ! ہمیں اپنے لطف و کرم کے ذریعے اپنے قریب فرما لے، ہمارا امتحان مت لینا۔ یا اللہ! ہمیں اپنا اطاعت گزار اور ولی بنا لے، یا اللہ! ہمیں حلال پر اکتفا کرنے والا بنا، حرام سے بچنے والا بنا، یا اللہ! ہمیں اپنے فضل سے ہر کسی کی محتاجی سے محفوظ فرما دے، یا رب العالمین!

ادب کی ضرورت اور اہمیت۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ 14 ربیع الثانی 1440 بمطابق...

اکتاہٹ سے بچیے۔ خطبہ مسجد حرام (اقتباس) ۔۔۔ 14 دسمبر 2018

اکتاہٹ سے بچیے۔ خطبہ مسجد حرام (اقتباس) 
امام وخطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی حفظہ اللہ
جمعۃ المبارک 7 ربیع الآخر 1440ھ بمطابق 14 دسمبر 2018ء
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر

ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ وہی کائنات کو پیدا کرنے والا ، دنیا کی ہر چیز کو تخلیق کرنے والا ہے۔ وہی رزق بانٹنے والا ، وہی عطائیں دینے والا اور نوازشیں کرنے والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے، عدل کے مطابق اپنا فضل وکرم عطا فرما دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے اپنی حکمت کے مطابق محروم کر دیتا ہے۔ اس کی عطا کو کوئی نہیں روک سکتا اور اس کی روکی چیز کوئی دے نہیں سکتا۔ اس کے مقابلے میں کسی کی طاقت کام نہیں آ سکتی۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دیے پر راضی، اللہ کے لکھے پر قناعت کرنے والے، اچھے دنوں میں شکر کرنے والے اور برے دنوں میں صبر کرنے والے تھے۔ اللہ کی رحمتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، اہل بیت پر، صحابہ کرام پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر بھی بہت سلامتی نازل ہو۔

اے مسلمانو!

لوگوں کے رزق، آمدنی اور ان کے نصیب صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ ہی یہ چیزیں اپنے بندوں میں تقسیم کرتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے

امام بغوی علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: یعنی وہ جس کا رزق چاہتا ہے، کشادہ کر دیتا ہے، اور جس کا چاہتا ہےتنگ کر دیتا ہے۔ وہی مکمل عدل اور حکمت والا ہے۔

یہ بھی اللہ کی حکمت ہے کہ اس نے لوگوں کے رزق میں فرق رکھا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دیا ہے۔ کسی کو دیتا ہے پھر اُسے اسی چیز سے محروم کر دیتا ہے، کبھی اس کے برعکس کر دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو پہچان نہ سکے اور ان کی ناقدری اور تحقیر کرنے لگے، پھر وہ ان سے تنگ آ جائے اوراس کا دل بھر جائے، وہ ان سے بیزار ہو جائے اور بے تابی میں رہنے لگے۔ یہ چاہتا ہے کہ یہ نعمتیں چھن جائیں اور ان کی جگہ دوسری نعمتیں مل جائیں۔ اس حوالے سے ہمارے لیے پچھلی قوموں میں بہت بڑا سبق ہے۔ بنی اسرائیل نے اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ مَنُّ وسلویٰ کی جگہ کوئی اور کھانا دیا جائے، کہ وہ اس سے اکتا گئے تھے اور تنگ آ گئے تھے چنانچہ انہوں نے اس کی جگہ اس سے کم تر چیز کو اختیار کر لیا۔ ساگ، کھیرے، گندم، دال، پیاز کو پسند کر لیا۔ سب سے افضل اور شاندار کھانوں کو چھوڑ کر انہوں نے ان سےکم تر چیز کا مطالبہ کر دیا۔

اسی طرح قومِ سبأ، جن پر اللہ تعالیٰ نے نعمتوں کی برکھا خوب برسائی اور مشکلات سے مکمل حفاظت عطا فرمائی، انہیں دنیا میں دو عظیم باغ عطا فرمائے، جو پھلوں سے لدے رہتے تھے، ان کے شہر کا ماحول بہترین بنایا، اسے گندگی اور غلاظت سے پاک فرمایا اور انہیں وافر رزق عطاء فرمایا۔ مگر انہوں نے اللہ کے شکر کی بجائے ناشکری اور نعمت سے اکتاہٹ کا اظہار کیا، اور یہ مطالبہ کیا کہ ان کی بستیاں دور دور کر دی جائیں، حالانکہ اس سے پہلے وہ انتہائی قریب رہتے تھے ،آنا جانا انتہائی آسان تھا۔ وہ امن وامان میں بھی رہ کر تنگ پڑ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی اور ان پر سیلاب کا عذاب نازل کر دیا۔ ان کے باغوں کو تلف کر دیا۔ وہی جنتیں، جو دلفریب باغوں سے پھلوں سے گھنے درختوں بھری تھیں، اب بے فائدہ جھاڑیوں کا جنگل بن گئیں۔

اے مسلمانو!

اللہ کی نعمتوں سے اکتاجانا بہت بڑی آفت ہے، جس کی وجہ سے انسان کو موجودہ نعمتوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ جس کے بعد وہ یقینی طور پر یہ تمنا کرے گا کہ وہ اللہ کی دی گئی نعمتوں پرہی راضی رہتا۔ اس آفت کے متعلق ابن القیم علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

یہ بہت عام اور چھپی آفت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چنیدہ اور عطا کردہ نعمت انسان کو میسر ہو اور وہ اس سے اکتا جائے اور اسی اپنی جہالت کی بنا پر ایسی چیز سے تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے لگے جسے وہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے بہتر سمجھتا ہو، جبکہ اللہ تعالیٰ اس کی جہالت کو دیکھتے ہوئے اس کے برے اختیار کو پورا نہ کر رہا ہو بلکہ اس کی بہتر نعمت ہی قائم رکھ رہا ہو، اور وہ اس نعمت سے بہت تنگ آ جائے اور تنگ دل ہو جائے اور اکتاہٹ اپنے عروج کو پہنچ جائے تو اللہ نعمت چھین لے۔ جب وہ اپنی مانگی ہوئی نعمت حاصل کر لے اور پھر گزشتہ اور حالیہ نعمت میں تقابل کرے تو وہ افسوس اور سخت ندامت کا شکار ہو جائے، پھر پچھلی چھنی نعمت کا مطالبہ کرنے لگے۔ ایسی صورت میں اگر اللہ تعالیٰ انسان کو کامیابی اور بہتری عطا کرنا چاہے تو وہ اسے گواہ بنا لیتا ہے کہ یہ دوسری نعمت بھی اللہ ہی کی عظیم نعمت ہے، اسی سے راضی کر دیتا ہے اور شکر کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔

امام طبرانی نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے فلان! تونے کس حال میں صبح کی؟ اس نے کہا، میں اللہ کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے یہی چاہتا تھا۔ یعنی کہ تم اللہ کا شکر اور اس کی حمد وثنا بیان کرو۔

جب ابن المغیرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: اے ابو محمد؟ تونےکس حال میں صبح کی؟ انہوں نے کہا: اللہ کی نعمتوں میں غرق، شکر سے عاجز، ہمارا پروردگار ہم سے بے نیاز ہونے کے باوجود ہمارا پیار جیتنے کی کوشش کرتا ہے اور ہم اس کے محتاج ہونے کے باوجود اسے ناراض کرتے ہیں۔

یہ ہیں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں: جب تک میرے کپڑے مجھے پورے آتے ہیں، میں ان سے کبھی نہیں اکتاتا، میری بیوی جب تک میرے ساتھ اچھی رہتی ہے، میں اس سے بھی نہیں اکتاتا، جب تک میری سواری مجھے اٹھاتی ہے، میں اس سے بھی نہیں اکتاتا۔ اکتاہٹ برے اخلاق میں سے ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا۔ اکتاہٹ واقعی بہت برا اخلاق اور مذموم صفت ہے۔ اس کی وجہ سے انسان اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے، ان سے تنگ پڑتا ہے، رزق میں اللہ کی تقسیم سے ناراض ہوتا ہے۔ یہ بات کتنی بری ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں اور عطاؤں میں ہو، اس کے باوجود وہ نعمتوں سے تنگ پڑ جائے اور نا شکری کرنے لگے۔

ابن القیم علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: انسان کے لیے اللہ کی نعمتوں سے اکتاہٹ سے زیادہ نقصان دہ چیز کوئی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جب انسان اکتا جاتا ہے تو وہ نعمت کو نعمت نہیں سمجھتا، اس پر شکر ادا نہیں کرتا، اس سے خوش بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے تنگ دل ہو جاتا ہے اور اسی کی شکایت کرنے لگتا ہے اور اسے مصیبت سمجھنے لگتا ہے حالانکہ وہ اللہ کی عظیم نعمت ہوتی ہے۔

تو اے مسلمانو! لوگ موجودہ نعمتوں سے کس طرح تنگ پڑ جاتے ہیں، انہیں حقیر کس طرح سمجھنے لگتے ہیں اور کم تر نعمتوں کی تمنا کیوں کرنے لگتے ہیں جبکہ بہتر نعمتیں پہلے سے ہی ان کے پاس ہوتی ہیں؟ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرے سے حسد کرنے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے: فلاں مجھ سے افضل کیوں ہے؟ میں دوسروں سے کم تر کیوں ہوں ؟ اگر کسی نعمت سے کچھ عرصہ سے لطف اندوز ہوتا رہے، توحقارت کے ساتھ کہنے لگتا ہے: کیا ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور نعمت نہیں ہے؟ اللہ کی نعمت سے تنگ ہو جاتا ہے، اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا اور الہ کے دیے پر قناعت نہیں کرتا۔

ایسے لوگ دنیا کو درست نگاہ سے دیکھنا کیوں نہیں جانتے؟ امام مسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیاوی نعمتوں کے حوالے سے کم تر لوگوں کی طرف دیکھو، بہتر لوگوں کی طرف نہ دیکھو۔ ایسا کرنے سے تم اللہ کی نعمتوں کی ناقدری سے بچ جاؤ گے۔

یعنی اگر اللہ کے دیے پر راضی ہو جاؤ گے اور دوسروں کے ہاتھ میں دی گئی نعمتوں پر نظر نہیں اٹھاؤ گے تو شکر کی توفیق ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ انسان اگر قناعت پسندی اپنا لے تو وہ آزاد ہو جاتا ہے اور اگر لالچ میں آ جائے تو غلام بن جاتا ہے۔

بھائیو! موجودہ صورت حال میں بہت سے لوگ اکتاہٹ کا شکار ہیں، تنگ دلی اور مایوسی کے عالم میں ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ تعلق باللہ مضبوط نہیں ہے، فرمان برداری کا فقدان ہے اور منہج الٰہی سے رو گردانی ہے۔ اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ بڑھاپے میں انسان اپنی زندگی سے تنگ پڑ جائے۔ جیسا کہ دورِ جاہلیت کے شاعر نے کہا تھا:

تھک گیا ہوں میں، زندگی کےبوجھ سے

اور جسے اسی سال جینا پڑے، میرے بھائی! وہ تنگ پڑ ہی جاتا ہے۔

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنے آپ کو موت کی بد دعا دے، بھول جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خبردار فرمایا تھا۔ فرمایا:

کسی مصیبت یا تنگی کی وجہ سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر کرنی ہی ہو تو یہ کہے: اے اللہ! جب تک زندگی بہتر ہے، اسے دراز کرتا جا اور جب موت بہتر ہو تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

لوگ وہ بھی ہیں جو اپنے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ احسان کر رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ نیکی کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ان کے ساتھ رہنے کو نا پسند کرنے لگتے ہیں اور ان کی صحبت سے تنگ ہو جاتے ہیں۔ ان کے احسانوں اور ان کے ساتھ تعلق تک کے منکر ہو جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ دشمنی کرنے لگتے ہیں، انہیں اذیت دینے لگتے ہیں، ان سے تنگ پڑنے لگتے ہیں، انہیں نازیبا الفاظ اور جملے سنانے لگتے ہیں، ان کے احساسات مجروح کرنے لگتے ہیں، ان کے فضائل بھول جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کون سی گستاخی ہو سکتی ہے؟ کیا اس نا شکرے کو والدین کے حقوق کا کوئی علم نہیں؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ برا کرنے سے منع فرمایا ہے۔

ایسےلوگ بھی ہیں جو قرآن کریم سیکھنا شروع کرتے ہیں یا دینی علوم سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جلد ہی تنگ پڑ جاتے ہیں اور راستے کو طویل سمجھنے لگتے ہیں۔ ثابت قدم نہیں رہتے بلکہ جلدی مچاتے ہوئے کسی دوسرے علم کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔ علم کو آہستہ آہستہ نہیں سیکھتے اور کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کرتے۔ صبر وتحمل اختیارنہیں کرتے۔

ایسے بھی ہیں کہ لوگوں کو دین کی طرف لانے، انہیں وعظ ونصحیت کرنے اور رہنمائی کرنے میں جن کا بڑا کردرا ہوتا ہے، مگر جب تھوڑا وقت گزرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہی چیز بار بار دھرانے کا، یا اس راستے پر چلنے یا قائم رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یا اس راستے میں ہٹ دھرم یا متکبر کا سامنا ہوتا ہے جو حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے، تو وہ لوگوں کے فائدے سے امید توڑ دیتے ہیں اور مایوس ہو جاتے ہیں اور اس راہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی نیک اور فضیلت والا کام کر رہے تھے۔

ایسے بھی ہیں جو کوئی خیراتی کام کرتے ہیں۔ نیک کام کرتے ہیں یا قرب الٰہی کی غرض سے کوئی عمل سرانجام دیتے ہیں، لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں، محتاجوں اور فقیروں کی مدد کرتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتیں آسان کرتے ہیں، یتیموں کی کفالت کرتے ہیں، لوگوں میں صلح کراتے ہیں، مگر یکا یک ان سب کاموں کو چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ کوئی خاص عذر بھی نہیں ہوتا، نہ کوئی واضح سمجھ آنے والا سبب ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ صرف اکتاہٹ اور تنگی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ نیکی کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے اجر سے محروم ہو جاتے ہیں ۔

اللہ کے بندو!

ہمیں اللہ کی طرف جانے والے راستے پر ثابت قدم رہنا چاہیے اور اپنی سمت درست رکھنے کی کوشش میں رہنا چاہیے۔ گمراہی سے بچنا چاہیے۔ نیکی اور نعمت کی اکتاہٹ سے بھی بچنا چاہیے۔ اور ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے اکتاہٹ کا علاج کرنا چاہیے جو کہ چند چیزوں سے ممکن ہو سکتا ہے۔

اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کیا جائے، کثرت سے دعا کی جائے ، تاکہ ثابت قدمی نصیب ہو جائے اور عمل جاری رہ سکے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیشتر دعا یہی ہوتی تھی کہ

اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما!

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: معاذ! ہر نماز کے بعدیہ دعا کبھی نہ چھوڑنا:

اے اللہ! اپنا ذکر کرنے میں، شکر کرنے میں اور بہتر طریقےسے عبادت کرنے میں میری مدد فرما! سےے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح اکتاہٹ سے بچنے کے لیے اللہ کے ساتھ سچائی اپنانی چاہیے، چیزوں میں سنجیدگی سختی اپنانی چاہیے، تاکہ انسان سستی اور اکتاہٹ کےجوہڑ سے محفوظ ہو جائے۔ 

اکتاہٹ سے بچنے کے لیے امیدوں کم کرنا اور آخرت کو یاد رکھنا چاہیے۔ ہمت دلانے کے لیے یہ بہت کارگر نسخہ ہے اور اللہ کی طرف متوجہ کرنے والا بہترین راستہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ یاد رکھے کہ دنیا، آخرت کی کھیتی ہے جس میں نیک اعمال کمائے جا سکتے ہیں۔

عون بن عبد اللہ بن عتبہ علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: ہم ام الدرداء رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، کچھ بات چیت کی، پھر ہم نے کہا: ہم نے آپ کو اکتاہٹ کا شکار تو نہیں کر دیا۔ انہوں نے کہا: نہیں! ہر گز نہیں۔ میں آپ سے نہیں اکتاتی۔ میں نے ہر عبادت کر کے دیکھی ہے، مگر جب میں نے علم سیکھا اور علم کا دور کیا تو میرا سینہ ٹھنڈا ہو گیا۔

انسان کو چاہیے وہ کبھی مایوس نہ ہو۔ جب بھی غلطی ہو، توبہ کو دہرا لے۔

حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ سے کہا گیا: ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور پھر ان ہی گناہوں کا شکار ہو جاتے ہیں، پھر معافی مانگتے ہیں اور پھر ان ہی گناہوں میں پڑ جاتے ہیں۔ کیا ہم اللہ سے حیا نہ کریں؟ حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ نے فرمایا: شیطان کی تمنا ہے کہ وہ ایسا کرانے میں ہی کامیاب ہو جائے۔ شیطان کی تمنا ہے کہ وہ ایسا کرانے میں ہی کامیاب ہو جائے۔ تو توبہ سے کبھی مت اکتائیے گا۔

اکتاہٹ، تنگ دلی اور تھکاوٹ کا شکار تو گناہ گار کو ہونا چاہیے، اس فاسق کو ہونا چاہیے جو سب کے سامنے کھلے عام گناہ کرتا پھرتا ہے۔ ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ گناہوں سے تنگ آ جائے، ہلاک کرنے والے جرائم سے دور ہو جائے، توبہ قبول کرنے اور گناہوں کو معاف کرنے والے پروردگار کا رخ کرے۔

اے مسلمانو! اپنے پروردگار کے راستے پر چلنے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ کار کو ملحوظ خاطر رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عبادت نہیں چھوڑی، بلکہ وہ ہمیشہ اللہ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے، اسی کا رخ کرتے، اسی کی عبادت میں محو رہتے، کبھی نہ تھکتے، کبھی نہ اکتاتے، کبھی نہ تنگ ہوتے اور کبھی نہ ہمت چھوڑتے۔

اے اللہ! ہم ثابت قدمی کا سوال کرتے ہیں، نیکی میں پیش قدمی اور عبادت کی توفیق کا سوال کرتے ہیں۔ تیری نعمتوں کے شکر کی اور بہترین انداز میں عبادت کی توفیق مانگتے ہیں۔ پاکیزہ دل اور سچی زبان کا سوال کرتے ہیں۔ ہر اس خیر کا سوال کرتے ہیں جسے تو جانتا ہے اور ہر اس شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں جسے تو جانتا ہے۔ جن گناہوں کو تو جانتا ہے ان سے ہم معافی مانگتے ہیں۔ اللہ آپ پر رحم فرمائے!

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

اکتاہٹ سے بچیے۔ خطبہ مسجد حرام (اقتباس)  امام وخطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی حفظہ اللہ جمعۃ المبارک 7 ربیع الآخر 1440ھ ...

آج کی بات ۔۔۔ 21 دسمبر 2018


«« آج کی بات »»

ہر بات کہہ دینے کی نہیں ہوتی، 
کچھ سننے کی بھی ہوتی ہیں ،
کچھ سمجھنے کی ، 
کچھ جذب کر لینے کی 
اور کچھ سہہ جانے کی .....!!!!

«« آج کی بات »» ہر بات کہہ دینے کی نہیں ہوتی،  کچھ سننے کی بھی ہوتی ہیں ، کچھ سمجھنے کی ،  کچھ جذب کر لینے کی  اور ک...

آج کی بات ۔۔۔۔ 19 دسمبر 2018


~√~ أج کی بات ~√~

اِیمان داری چار عادتوں کا پیکج ہے ۔

1 - وعدے/قول کی پابندی 
2 - جھوٹ سے نفرت
3 -اپنی غلطی کا اعتراف کرنا
4 - کسی کی پیٹھ پیچھے برائی سے گریز

~√~ أج کی بات ~√~ اِیمان داری چار عادتوں کا پیکج ہے ۔ 1 - وعدے/قول کی پابندی  2 - جھوٹ سے نفرت 3 -اپنی غلطی کا اعتراف کرن...

آج کی بات ۔۔۔ 12 دسمبر 2018

↩ آج کی بات ↪

انسان تین حالتوں میں سچائی کی انتہا پر ہوتا ہے ،
◀ شدید غصے میں
◀ شدید دکھ میں اور
◀ انتہائی خوشی کے وقت

تعجب کی بات ہے ان تین حالتوں ہی میں انسان زندگی کی اصل لذت سے لطف اندوز ہوسکتا ہے خواہ وہ دکھ کی صورت میں ہو یا خوشی کی صورت میں۔

↩ آج کی بات ↪ انسان تین حالتوں میں سچائی کی انتہا پر ہوتا ہے ، ◀ شدید غصے میں ◀  شدید دکھ میں اور ◀  انتہائی خوشی کے وقت ...

صاف دل؛ ایک عظیم نعمت اور ضرورت - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 07 دسمبر 2018

No automatic alt text available.
صاف دل؛ ایک عظیم نعمت اور ضرورت - 
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
29 ربیع الاول1440 بمطابق 07 دسمبر 2018
امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 29 ربیع الاول1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " صاف دل،،، ایک عظیم نعمت اور ضرورت" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ مادہ پرستی کے دور میں ایک دوسرے کا بازو بننے کی ترغیب بہت ضروری ہے، اور یہ صاف دلی سے ممکن ہے۔ صاف دلی بہت بڑی نعمت بلکہ دنیا کی جنت ہے، اس کی علامت یہ ہے کہ ایمان، تقوی اور عقیدہ توحید کے ساتھ دل میں کینہ، عداوت، کدورت، نفرت، حسد، بغض نہ ہو۔ مسلمانوں کی خوشی پر خوشی محسوس ہو، دوسروں کی خیر خواہی، اشک شوئی اور دکھ درد بانٹنے کا جذبہ موجود ہو، جس کے ساتھ بھی تھوڑا یا زیادہ وقت گزارا ہو اس کے لیے دل صاف ہو۔ صاف دل رکھنے کے اثرات چہرے پر چمک کی صورت میں عیاں رہتے ہیں، اس کی بدولت انسان بلند درجات حاصل کر لیتا ہے۔ دل کو صاف رکھنے کے معاون اسباب ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتلایا کہ: دل میں للہیت، سچائی، تقدیر پر ایمان، تعلیمات الٰہیہ پر عمل، کثرتِ تلاوت، مجاہدۂ نفس، تحائف کا تبادلہ، مسلمانوں کے لئے دعا، زبانی اور عملی ہر طرح سے مسلمانوں کی مدد، شیطانی چالوں سے دوری، اور فضول بحث و تکرار سے اجتناب شامل ہیں۔ پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔

↺ منتخب اقتباس ↻

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہ انتہائی عظیم اور حلم والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی عرش عظیم کا پروردگار ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ کو تمام اخلاق حسنہ کے ساتھ بھیجا گیا، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، تمام صحابہ کرام اور دین قویم پر قائم تابعین اور ان کے پیروکاروں پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی اور اطاعت گزاری کی وصیت کرتا ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا}
 اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا بہت بڑی کامیابی حاصل کر گیا۔[الأحزاب: 71]

مسلمانو!

جب دنیا سے محبت کی نت نئی شکلیں سامنے آ رہی ہوں تو مسلمان میں دوسروں سے محبت اجاگر کرنے والی نصیحت اور وعظ کی ضرورت ہوتی ہے؛ کہ مسلمان دوسروں کے کام آئے، ان کا ہاتھ بٹائے، مسلمانوں کو پہنچنے والی تکالیف دور کرے۔ تو وہ نصیحت یہ ہے کہ انسان کا دل سب کے لئے صاف ہو؛ کیونکہ دل صاف ہو تو مسلمان کی زندگی انتہائی خوش حال ، پر بہار، اور پر مسرت بن جاتی ہے۔

یہ بہت ہی بڑی خوبی اور امتیازی صفت ہے کہ انسان کا دل صاف ہو ، اس کی بدولت مسلمان عظیم اجر بھی حاصل کرتا ہے بلکہ اس کا انجام بھی بہترین ہو گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ} 
قیامت کے دن مال اور بیٹے کچھ فائدہ نہیں دیں گے [88]مگر اس شخص کو جو اللہ کے پاس صاف دل کے ساتھ آئے۔[الشعراء: 88، 89]

ایمان، تقوی، عقیدہ توحید اور یقین کے بعد دل کے صاف ہونے کی علامات میں یہ بھی شامل ہے کہ دل مسلمانوں کے بارے میں کینے، حسد، اور عداوت سے پاک ہو۔ مسلمان اپنے بھائیوں کے ساتھ زندگی گزارے تو اس کا دل صاف ہو، خوشی محسوس کرے اور من پاک ہو۔ مسلمانوں کے متعلق دل میں غبار اور نفرت نہ ہو۔ کینہ، دھوکا، فریب اور مکاری مسلمانوں کے خلاف مت رکھے بلکہ ان کے ساتھ جود و سخا، اخلاق حسنہ، صاف دلی ، نیک نیتی اور پاک ضمیر کے ساتھ رہے؛ اس طرح وہ خود بھی پر سکون رہے گا اور لوگ بھی سکون پائیں گے۔

صاف دلی کی یہ بھی علامت ہے کہ لوگوں نے کبھی بھی ایسے شخص کے بارے میں برے کلمات نہیں سنے ہوتے، انہوں نے کبھی اس کی جانب سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کیا ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی اس وقت تک [کامل] ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے) متفق علیہ

اسلامی بھائیو!

اپنے سینے کو ہر قسم کی کدورت اور ہمہ قسم کے بغض سے پاک صاف رکھنا افضل ترین اعمال میں بھی شامل ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ: "کون سے لوگ افضل ترین ہیں؟" تو اس کے جواب میں فرمایا: (مخموم القلب اور سچی زبان والا شخص افضل ترین ہے) صحابہ نے عرض کیا: "سچی زبان والا تو ہمیں معلوم ہے، لیکن یہ مخموم القلب کون ہوتا ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس سے مراد پرہیز گا ر پا ک صاف شخص ہے جو گنا ہ ،زیادتی ،کینہ اور حسد سے پاک ہو) اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اس کی سند کو منذری اور دیگر محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔

اس حقیقت کو امت کے سلف صالحین نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا، اس لیے انہوں نے دلی صفائی کی خوب ترغیب دلائی جیسے کہ زید بن اسلمؒ ، ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے بیمار ہونے پر تیمار داری کے لئے تشریف لائے تو ان کا چہرہ چمک رہا تھا، اس پر زیدؒ نے کہا: "کیا بات ہے کہ آپ کا چہرہ چمک رہا ہے!" اس پر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "مجھے اپنے دو اعمال کے متعلق زیادہ امید ہے کہ ان کی وجہ سے ہے: ایک یہ کہ: میں کسی بھی غیر متعلقہ معاملے میں زبان نہیں کھولتا اور دوسرا عمل یہ کہ: میرا دل تمام مسلمانوں کے لئے صاف رہتا ہے"

اسلامی بھائیو!

دل کو صاف رکھنے کے معاون اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ للہیت اور سچائی دل میں جا گزین ہو جائے، اللہ تعالی نے بندے کے لئے اس زندگی میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر راضی ہو جائیں، تعلیمات الٰہیہ کی پابندی کریں، قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کریں، ساتھ میں انسان مجاہدۂ نفس کرتے ہوئے دھوکا، کینہ، اور حسد جیسی خبیث بیماریوں کا مقابلہ کرے؛ یہ بھی یاد رکھے کہ ان خبیث بیماریوں کا خود انسان پر جلد یا تاخیر کے ساتھ بہت برا اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح خوب محنت کے ساتھ دعا مانگے کہ اللہ اسے صاف دل عطا کرے، سچی زبان عنایت فرمائے۔ نیز ہر غالی اور نفیس چیز کو محبت، مودت پیدا کرنے کے لئے خرچ کرے تا کہ باہمی بغض اور نفرت کا خاتمہ ہو جائے؛ دلی صفائی کے لئے سب کی سلامتی کو یقینی بنائے، لوگوں کے معاملات میں بلا وجہ دخل نہ دے۔ زیادہ سے زیادہ تحائف اور عطیات دے؛ ان سے مودت پیدا ہوتی ہے اور نفرت ختم ہوتی ہے۔ اسی طرح سب مسلمانوں کے لئے دعا کرے اور اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو معاف کر دے۔ زبانی یا عملی تمام تر ممکنہ صورتوں میں سب کے کام آئے، اس سے مسلمانوں کو خوش رکھنے میں مدد ملے گی؛ کیونکہ مسلمان کا معاملہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی خوشیوں سے خود بھی خوش ہوتا ہے، اور جب انہیں کوئی دکھ یا تکلیف پہنچے تو ان کے درد بانٹ کر اشک شوئی کرتا ہے۔

دلی صفائی کے لئے انسان حالات و واقعات اور رونما ہونے والے روزمرہ مسائل میں بحث و تکرار سے اجتناب کرے؛ کیونکہ ان سے عام طور پر حسد اور نفرت پیدا ہوتی ہے، دلوں میں کدورتیں اور دوریاں آتی ہیں۔ بحث و تکرار کا فائدہ وہاں ہوتا ہے جہاں حق بات کی جستجو ہو، اور کوئی مخلص، خیر خواہ، سچا اور سُچا ، مکمل صلاحیت رکھنے والا صاحب علم گفتگو کرے، نیز تمام کے تمام اخلاقی اور علمی آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا }
 اور لوگوں سے بات کرو تو اچھی کرو۔[البقرة: 83]

صاف دلی دائمی نعمتوں کے حصول کا بہت بڑا دروازہ ہے، سلف صالحین میں سے کسی نے کہا تھا: "پرہیز گاری دین کی بنیاد ہے۔ افضل ترین عبادت رات کی محنت ہے۔ جبکہ جنت کا مختصر ترین راستہ صاف دلی ہے"

اس لیے اپنے دل کو صاف رکھیں، اپنے اندر کسی کے بارے میں کدورت اور نفرت نہ رہنے دیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہدف کو پانے کی خوب ترغیب دی اور اس کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور فرمایا اور کہا: (آپس میں بغض نہ رکھو، نہ ہی باہمی حسد کرو، ایک دوسرے سے منہ مت موڑو، اور اللہ کے بندے ہو کر بھائی بھائی بن جاؤ، کسی بھی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے) مسلم

اس لیے اللہ کے بندو! اللہ کے لیے محبت کرنے والے بن جاؤ، تقوی کی بنیاد پر دوستی کرنے والے بن جاؤ اور ایک دوسرے کو نیکی اور اطاعت کی تلقین کرتے رہو۔

یا اللہ! ہمارے دلوں کو صاف کر دے، یا اللہ! ہمارے دلوں کو صاف کر دے، یا اللہ! ہمیں اپنے گفتار اور کردار میں سچائی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ہمیں نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے سے محبت کرنے والا بنا دے، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! یا غنی! یا حمید! ، یا قابض! یا باسط! یا ماجد! یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں رحمت کی بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمارے ملک اور مسلم ممالک میں بارشیں عطا فرما، یا اللہ! ہمارے ملک اور مسلم ممالک میں بارشیں عطا فرما، یا اللہ! ہمارے ملک اور مسلم ممالک میں بارشیں عطا فرما۔

اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام بھی اسی کی تسبیح بیان کرو ، اور ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں رب العالمین کے لیے ہیں۔

صاف دل؛ ایک عظیم نعمت اور ضرورت -  خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 29 ربیع الاول1440 بمطابق 07 دسمبر 2018 امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس حس...

آج کی بات ۔۔۔۔ 10 دسمبر 2018


سفید کپڑے پر انار کے دانے کے چند چھینٹے گر جائیں تو ساری عمر دھو دھو کر بھی وہ کپڑا واپس پہلے سا سفید نہیں ہوتا۔
 یہ سفید کپڑا آپ کا کردار ہے۔ اسے سنبھال سنبھال رکھیے۔

سفید کپڑے پر انار کے دانے کے چند چھینٹے گر جائیں تو ساری عمر دھو دھو کر بھی وہ کپڑا واپس پہلے سا سفید نہیں ہوتا۔  یہ سفید کپڑا آپ کا...

یقین کی راہ

Image result for ‫دفاع پاکستان‬‎ 

جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی 
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے

وہ چراغ بجھ کے بھی کیا بجھا کہ وہ نور اتنا عجیب تھا 
سرِ عرش سے تہہِ خاک تک سبھی روشنی میں نہا گئے

وہ چلے تو دشت و جبل بھی ان کے قدم کی دھول میں چھپ گئے 
وہ رکے تو سینہ خاک پر نئی داستان سجا گئے

وہ نظر سے جتنے ہی دور تھے دل و جاں سے لاکھ قریب ہیں 
وہ دلیل بن کے حیات کی سبھی فاصلوں کو مٹا گئے

صفِ دشمناں کے قریب جب ہوئے نعرہ زن وہ جری جواں 
مرے دشمنوں کے دل و دماغ پہ وہ رعد و برق گرا گئے

شاعر ۔۔۔ سلیم اللہ

  جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی  جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے وہ چراغ بجھ کے بھی کیا بجھا کہ...

آج کی بات ۔۔۔۔ 04 دسمبر 2018

⇉ آج کی بات ⇇

کبھی کسی کے اچھے مقدر کو حسرت سے تکتے ہوئے اپنی تقدیر بننے کی دعا نہ کرنا ورنہ اُس کے مقدر کے سارے کانٹے بھی اپنی پلکوں سے چننے پڑ جائیں گے.

⇉ آج کی بات ⇇ کبھی کسی کے اچھے مقدر کو حسرت سے تکتے ہوئے اپنی تقدیر بننے کی دعا نہ کرنا ورنہ اُس کے مقدر کے سارے کانٹے بھی اپنی پلکو...

اسلام میں مسلمان کے سماجی حقوق ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 30 نومبر 2018

Image may contain: sky and outdoor

اسلام میں مسلمان کے سماجی حقوق
خطبہ جمعہ مسجد نبوی ( اقتباس)
22 ربیع الاول 1440 بمطابق 30 نومبر 2018
امام و خطیب:  ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 22 ربیع الاول 1440 کا خطبہ جمعہ " اسلام میں مسلمان کے سماجی حقوق" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام میں سماجی حقوق کی بہت اہمیت ہے، ان کی ادائیگی یقینی بنانے کے لئے ان پر ثواب بھی عنایت کیا، ان حقوق پر مشتمل ایک جامع حدیث ذکر کی اور اس کی تفصیلات بھی بتلائیں کہ: سلام در حقیقت پیغام محبت اور امان ہے، سلام کی حقیقت سے آشنا معاشرہ بہت سی خرابیوں سے پاک ہو سکتا ہے۔ کھانے کی دعوت قبول کرنی چاہیے تاہم دعوت میں حاضر ہو کر کھانا تناول کرنا یا نہ کرنا آپ کی چاہت پر منحصر ہے، دعوتوں پر فضول خرچی اسلام کے منافی عمل ہے۔ اچھا مشورہ اور نصیحت بھی مسلمان کا حق ہے، خیر خواہ شخص کسی کے عیوب کی تشہیر نہیں کرتا بلکہ متعلقہ شخص تک محدود رکھتا ہے، کچھ لوگ پگڑی اچھالنے کو نصیحت کا نام دیتے ہیں جو کہ بدنیتی کی علامت ہے۔ چھینک آنے پر الحمدللہ کہنا اور سننے والے کا"یَرْحَمُكَ اللهُ" کہنا بھی مسلمان کا حق ہے، چھینک اللہ کی نعمت ہے جو کہ اللہ کا خصوصی شکر کی متقاضی ہے۔ تیمار داری بھی مسلمان کا حق ہے، تیمار داری کرنا بہت ہی فضیلت والا علم ہے، تیمار داری میں مریض پر دم کرنا چاہیے، تیمار داری جنت میں داخلے، فرشتوں کی دعائیں، اور اللہ کی رحمت لینے کا باعث عمل ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: نماز جنازہ بھی مسلمان کا حق ہے اور دفن تک ساتھ رہنے سے دو احد پہاڑ کے برابر ثواب ملتا ہے، آخر میں انہوں نے کہا کہ ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا معاشرہ انتہائی مضبوط بنیادوں پر قائم رہتا ہے، انہیں کوئی بیرونی طاقت متزلزل نہیں کر سکتی، پھر آخر میں انہوں نے سب کے لئے جامع دعا کروائی۔

↺ منتخب اقتباس ↻

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ اس نے اطاعت گزاری اور حقوق کی ادائیگی کے لئے توفیق دی، اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے اپنے بندوں کو گمراہی اور فسق سے محفوظ رکھا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ تعالی نے حق کو غلبہ عطا کیا اور باطل کو نیست و نابود فرمایا، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے ہمیں اعلی اخلاق کی تبلیغ فرمائی اور نافرمانی سے خبردار کیا۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے جب تک صبح ہوتی رہے اور سورج چمکتا رہے۔

مصروفیات اور مادیت کے سیل رواں کی وجہ سے مسلمان کی توجہ کچھ واجبات اور سماجی تعلقات سے ہٹ جاتی ہے، اور بسا اوقات انہیں بھول جاتا ہے یا عمداً توجہ یہ کہتے ہوئے نہیں دیتا کہ میں یہ کمی ، کوتاہی اور سماجی تعلقات میں سرد مہری بعد میں ختم کر دوں گا؛ پھر اسی امید پر سالہا سال گزر جاتے ہیں اور عمر بیت جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوری بڑھتی جاتی ہے اور دراڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں، زندگی پر خشک سالی کا غلبہ ہو جاتا ہے اور جذبات سوکھ جاتے ہیں۔

اسلام نے سماجی تعلقات کو بھر پور اہمیت دی، سماجی تعلقات پر اتنا اجر بھی مرتب کیا کہ تعلقات میں پہل کرنے کی ترغیب ملے؛ تا کہ دل آپس میں جڑ جائیں، باہمی تعلقات گہرے ہوں ، ایک دوسرے کی ضروریات پوری ہوں، معاشرے کے سب افراد اچھے اخلاق اور بہترین تعامل کو فطرت ثانیہ بنا لیں، پھر میزان بھی نیکیوں سے بھر جائے اور درجات بھی بلند ہو جائیں۔

جس وقت سماجی حقوق ادا کیے جائیں، تو تعلقات مضبوط ہوتے ہیں، جن کی بدولت مضبوط ، آہنی، اور گہری بنیادوں والا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ) پوچھا گیا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کو ن سے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جب تم ملو تو سلام کرو اور جب وہ تم کو دعوت دے تو قبول کرو اور جب وہ تم سے مشورہ طلب کرے تو اس کو خیر خواہی والا مشورہ دو، اور جب چھینک آنے پر الحمدللہ کہے تو اس کے لیے رحمت کی دعا کرو۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں جاؤ۔) مسلم

یہ ایک عظیم حدیث ہے ، یہ حدیث مسلمانوں کی باہمی تعلق داری اور محبت کے آفاق عیاں کرتی ہے، مسلمانوں کی زندگی میں روح پھونکتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ}
 ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، اگر آپ ما فی الارض بھی خرچ کر دیتے تو ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتے تھے؛ لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی ۔ [الأنفال: 63]

◄ایک مسلمان کا دوسرے پر اولین حق محبت اور مودت پر مبنی دعائیہ جملہ ہے جو کہ اہل جنت کا سلام بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو ، آپس میں سلام عام کرو۔) مسلم

سلام دلوں میں محبت سرایت کرنے کا ذریعہ ہے تو کسی بھی دروازے پر اجازت لینے کا سلیقہ بھی ، سلام زندگی کو برکت، ترقی اور فروغ دیتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: 
{فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً }
 جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنوں کو سلام کہا کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ [النور: 61]

سلام در حقیقت پروانۂ امان ہے، اور اہل ایمان کی شان بھی۔ جو بھی سلام کا معنی، مقام، اور اس کی حقیقت و فضیلت سے آشنا ہو جائے تو اس کا باطن پاک ہو جائے، تعامل مہذب بن جائے، اور اس شخص کا معاشرہ بھی دین و دنیا کے اعتبار سے ترقی کر جائے۔

◄مسلمان کا مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ: مسلمان کی کھانے پر دعوت قبول کرے، ولیمے میں شرکت کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرے، اور اس کی خوشی میں شریک ہو، دعوتوں کے تبادلے سے باہمی الفت اور یگانگت کو فروغ ملتا ہے، ایک دوسرے سے ملنے اور ملاقات کا موقع بنتا ہے، جس کی بدولت مسائل بھی تحلیل ہو جاتے ہیں، اہل عقل و خرد ناراضیوں سے تجاوز کر جاتے ہیں، دوریاں ختم ہو جاتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرے، پھر [وہاں پہنچ کر] اس کی مرضی ہے کہ چاہے تو کھانا کھا لے اور چاہے تو نہ کھائے۔) مسلم

دعوت کی قدر و قیمت دعوت پر کیے جانے والے خرچے اور تکلف پر نہیں بلکہ دعوت کا مقصود باہمی بھائی چارے اور مسلمانوں کے آپس میں رابطے سے پورا ہو جاتا ہے، جبکہ دعوتوں میں فضول خرچی یکسر قابل ستائش عمل نہیں ہے، یہ شریعت کے منافی ہے، فضول خرچی سے برکت مٹ جاتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ}
 کھاؤ، پیو اور فضول خرچی نہ کرو، بیشک اللہ فضول خرچی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ [الأعراف: 31]

◄مسلمان کا تیسرا حق یہ ہے کہ: اپنے بھائی کو نصیحت کرے تو نرمی اور پیار کے ساتھ، نصیحت اور مشورہ در حقیقت مسلمان کا اپنے بھائی کے لئے پیغامِ محبت ہوتا ہے؛ کیونکہ مسلمان اپنے بھائی کے لئے ہمیشہ خیر چاہتا ہے اور اسے اپنے بھائی کا نقصان کسی صورت قبول نہیں۔

خیر خواہ شخص کا دین میں بہت عظیم مقام اور مرتبہ ہے، جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اس دن بھی اس کا بہت بلند مقام ہو گا، تو جس وقت خیر خواہ شخص کسی کو نصیحت کرتا ہے تو سُچا آدمی نصیحت کو سن کر کشادہ دلی سے قبول کرتا ہے، نصیحت قبول کر کے بڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ نصیحت گر کے بارے میں بد گمانی نہیں کرتا، یا اس کی غلط توجیہ نہیں کرتا، اسی لیے امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: "اللہ اس شخص پر رحمت فرمائے جو ہمیں تحفے میں ہمارے عیب بتلائے۔"

◄مسلمان کا چوتھا حق یہ ہے کہ چھینک لے کر الحمدللہ کہنے پر چھینک لینے والے کے لئے اللہ سے دعا اور رحمت مانگیں۔ دعا سے ہر ایک خوش ہوتا ہے اور مزید دعا چاہت رکھتا ہے، اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسلمان آدمی کی اپنے بھائی کے لئے پیٹ پیچھے کی دعا مقبول دعا ہوتی ہے، دعا کرنے والے کے سر پر ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کے لئے کہتا ہے: آمین، تمہیں بھی یہی کچھ ملے) مسلم

چھینک اللہ تعالی کی نعمت ہے، چھینک آنے پر اللہ کا شکر اور الحمدللہ پڑھنا اس نعمت کا حق ہے، چھینک لینے والے کے الحمدللہ کہنے پر دعا کرنے اور اللہ کا ذکر کرنے سے شیطان غضبناک ہوتا ہے۔ پھر چھینک لینے والے کے لئے حکم ہے کہ اس کے الحمدللہ کا جواب "یَرْحَمُكَ اللهُ" کہہ کر دینے والے کے لئے مغفرت، ہدایت اور اصلاح احوال کی دعا کرے اور کہے: "يَهْدِيْكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ" کہے، دعا کے ان الفاظ میں ہر طرح کی بہتری مراد ہے۔

◄مسلمان کا مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ جب بیمار ہو تو اس کی تیمار داری کرے ؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض کو کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ایسا بھی ممکن ہے کہ بیماری ہفتوں اور مہینوں تک لمبی ہو جائے، بیماری کے باعث نہ آنکھیں آرام کر سکیں اور نہ ہی ذہن کو سکون ملے، درد اور الم سے کڑھتا اور کروٹیں ہی لیتا رہے، مریض شخص کو ایسی مقبول دعا کی تمنا ہوتی ہے جسے قبول کر کے اللہ تعالی مریض کو شفا یاب فرما دے، اس کے درجات بلند کر دے۔ مریض کو ایسی تیمار داری کی چاہت ہوتی ہے جس سے اس کی تکلیف کم ہو جائے، ایسے بول کی ضرورت ہوتی ہے جو پریشانی میں غم گسار بن جائے، ایسے احساس کی ضرورت ہوتی ہے جو بھائیوں کے قریب ہونے کی اطلاع دے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کا ابھی وقت نہ آیا ہو اور سات بار اس کے پاس یہ دعا پڑھے: "أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ " [ترجمہ: میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت اور بڑائی والا اور عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا عنایت فرمائے ]تو اللہ تعالی اسے اس بیماری سے عافیت دے دے گا) ابو داود

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی وہ مسلسل "خرفۂ جنت" میں رہا)آپ سے پوچھا گیا: اللہ کے رسول! "خرفۂ جنت" کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: (جنت کے چنے ہوئے پھل) مسلم

یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی مسلمان کسی مسلمان کی دن کے کسی بھی حصے میں عیادت کرے تو اللہ تعالی ستر ہزار فرشتوں کو بھیجتا ہے اور وہ اس کے لیے شام تک دعا کرتے ہیں اور اگر رات کو عیادت کرے تو صبح تک اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں) احمد

جب آپ ان حقوق پر غور کریں کہ یہ متنوع، ہر طرح کے اور با مقصد ہیں تو آپ کو یقینی طور پر علم ہو جائے گا کہ مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر ایسے حقوق بھی ہیں جو اس کی وفات تک جاری و ساری رہتے ہیں،
◄ بلکہ وفات بعد بھی کچھ حقوق ہیں کہ: اس کے جنازے کے ساتھ جائیں اور اس کے لئے دعا کریں، یہ مسلمان کی تکریم اور اظہار شان ہے، دوسری جانب اہل ایمان کے ہاں وفا کی حقیقی منظر کشی بھی کرتا ہے، در حقیقت یہی مسلمانوں کے ما بین اخوت کا تقاضا بھی ہے۔

مسلمان فوت ہو جائے تو غسل اور کفن دینے کے بعد اس کا جنازہ ادا کیا جاتا ہے، دعائے مغفرت کی جاتی ہے اور پھر قبر تک اسے رخصت کرنے کے لئے لوگ جاتے ہیں، پھر اسے قبر کی مٹی میں دفن کیا جاتا ہے، پھر قبر کی بھی رکھوالی کی جاتی ہے کہ قبروں کی بے حرمتی نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو کوئی ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے پھر نماز جنازہ اور دفن سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر واپس آتا ہے۔ ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔) متفق علیہ

ایسا معاشرہ جہاں پر حقوق؛ اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ادا کیے جائیں تو وہ معاشرہ انتہائی مضبوط بنیادوں اور اتحاد کا حامل ہوتا ہے، اس معاشرے کے افراد معزز ہوتے ہیں، کسی بھی دشمن کو ایسے معاشرے میں قدغن لگانے کا موقع نہیں ملتا، ان کی بنیادوں کو ہلانے یا باہمی محبت میں رخنے پیدا کرنے میں انہیں کامیابی نہیں ملتی، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}
 ان کے بعد آنے والے کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10]

اللہ کے بندو!

رسولِ ہُدیٰ پر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
 {إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
 اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ [الأحزاب: 56]

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

یا اللہ! ہم تجھ سے تیری رضا اور جنت مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم تیری ناراضی اور جہنم سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے۔ اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، نیز ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں چاہے کوئی جلدی ملنے والی یا دیر سے، یا اللہ ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں چاہے وہ جلد آنے والی ہے یا دیر سے ۔

یا اللہ! ہم تجھ سے شروع سے لیکر آخر تک، ابتدا سے انتہا تک ، اول تا آخر ظاہری اور باطنی ہر قسم کی جامع بھلائی مانگتے ہیں، نیز تجھ سے جنتوں میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری عبادات اور دعائیں قبول فرما، بیشک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے، یا اللہ! ہمیں بخش بھی دے، تو ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}
 ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23] {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201] ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
 اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔

اسلام میں مسلمان کے سماجی حقوق خطبہ جمعہ مسجد نبوی ( اقتباس) 22 ربیع الاول 1440 بمطابق 30 نومبر 2018 امام و خطیب:  ڈاکٹر عبد ا...

انگوٹھا کہانی



ヅ انگوٹھا کہانی ヅ
منقول

 ‏تعلیم انسان کو انگوٹھے کے نشان سے دستخط تک لے گئی،
اور
ٹیکنالوجی دستخط سے انگوٹھے پر واپس لے آئی۔


دنیا گول ہے ヅ ヅ ヅ

ヅ انگوٹھا کہانی ヅ منقول  ‏تعلیم انسان کو انگوٹھے کے نشان سے دستخط تک لے گئی، اور ٹیکنالوجی دستخط سے انگوٹھے پر واپس لے...

آج کی بات ۔۔۔ 01 دسمبر 2018

⟲ آج کی بات ⟳

ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی ہے،
 اسے چھوڑ کر ہم جس چیز میں بھی عزت تلاش کریں گے اللہ ہمیں رسوا ہی کرے گا

⟲ آج کی بات ⟳ ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی ہے،  اسے چھوڑ کر ہم جس چیز میں بھی عزت تلاش کریں گے ال...

نصیحت کے پھول

Related image

نصیحت کے پھول
منقول


ہم میں سے اکثریت یہ سوچ کر کسی کی اچھی نصیحت رد کر دیتی ہے " مجھے سمجھانے سے پہلے خود عمل کرو

یہ ضروری نہیں جو شخص آپکی اصلاح کر رہا ہو ، آپکو سیدھے راستے کی طرف نشاندہی کر رہا ہو ، آپ میں موجود کسی خامی کو دور کرنے کا کہہ رہا ہو وہ شخص خود اپنی ذات میں مکمل ہو ، عیب سے پاک ہو ، سیدھے راستے پر ہو ، 
ہو سکتا ہے وہ شخص بیسیوں خامیوں کا مجموعہ ہو لیکن آپ کو نصیحت کر کے وہ آپ کے اندر موجود کسی خامی کو دور کر کے آپکی ذات کو مکمل کرنا چاہتا ہو ۔ 

سچ پوچھیے تو بہت خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں کوئی نصیحت کرنے والا ملتا ہے ۔ 
گمراہ راہوں پر چلنے سے باز رکھتا ہے ۔۔ 
بظاہر غصہ آتا ہے جب آپ اپنے نفس کی خواہش پر چلنا چاہیں اور کوئی آپ کا بڑا ، آپ کا ہمدرد آپ کو سمجھائے ، آپ کو روکے لیکن جب ہمارے یہ بڑے ، یہ ہمدرد ہم سے منہ موڑ لیتے ہیں ، جب انکا سایہ اٹھ جاتا ہے تو پھر تمام عمر کان اس ایک جملے کو ترستے ہیں:

" بیٹا یہ نا کرو
" دوست ایسا مت کرو
"بھائی آپکی بھلائی کے لیے ہی کہہ رہا ہوں

ان الفاظ کا درد آج بھی سینے میں محسوس کرتا ہوں جب میلے کپڑوں میں ملبوس ایک کم سن بچے کو سگریٹ پیتے دیکھا تو پوچھا " بیٹا سگریٹ کیوں پیتے ہو ؟ کوئی منع کرنے والا نہیں ؟ ابو کچھ نہیں کہتے ؟؟
اسکا جواب میرے پاوں سے زمین کھینچنے کیلئے کافی تھا ۔۔۔ کہنے لگا ۔۔

" میرے ابو مر گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے دوستو ! جہاں سے نصیحت ملے لے لیا کرو ۔۔۔ یہ دیکھے بغیر کہ کہنے والا خود کتنا با عمل ہے ۔۔۔۔


نصیحت کے پھول منقول ہم میں سے اکثریت یہ سوچ کر کسی کی اچھی نصیحت رد کر دیتی ہے " مجھے سمجھانے سے پہلے خود عمل کرو ...

کیا فرق پڑتا ہے

Related image
کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔
تحریر: لبنیٰ سعدیہ عتیق

ــــــــــــــــ
شاید پہلے بھی لکھا ہو۔۔ پھر لکھ دیتی ہوں۔۔۔
بازار میں پیاس لگے، کوئی جوس خریدا، پیا اور خالی ڈبہ بیگ میں رکھ لیا، اسٹرا اور اسٹرا پہ چڑھی پتلی سی پنؔی سمیت۔۔۔۔
گھر لاکر کوڑے دان میں ڈال دیا۔
چاروں طرف کوڑا بکھرا ہوا ہے ایک ڈبے سے کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں
ـــــــــــــــــــ
گھر میں سودا آتا ہے، چائے کی پتؔی، گلوکوز، شیمپو، مچھر بھگائو کوائل، دوا اور اسی طرح کی مختلف اشیاء۔۔۔
سب کے گتے کے ڈبے، بوتل، صاف کاغذ، اسٹیل وغیرہ روزانہ کے کچرے میں پھیکنے کے بجائے ایک صاف شاپر میں جمع کرتی ہوں اور بھر جانے پہ گتا/کاغذ چننے والے کو دے دیتی ہوں، جسے وہ بیچ کر پیسہ کماتا ہے اور یہ اشیاء مکرر گھمائو یعنی ری سائیکلڈ ہوکر دوبارہ استعمال میں آتی ہیں۔۔۔
اتنی درد سری کی ضرورت نہیں، روز کا روز پھینک دوں ۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔۔
ــــــــــــــــ
نناوے فیصد ایسا نہیں ہوتا مگر کبھی بجلی کی مہربانی سے کوئی غذائی شے ناقابل طعام ہوجائے تو اسے باہر جاکر مٹی میں ڈال کر اسے مٹی سے ڈھانپ دیتی ہوں تاکہ مٹی میں مل کر کھاد بن جائے اور کوڑے دان میں سڑ کر بدبو کا باعث نا بنے۔
کھرپی اٹھا کر باہر نکل کر مٹی میں ڈال کر کھرپی سے مٹی ڈالنے سے آسان کوڑے دان میں پھینک دینا ہے۔۔۔ مگر نہیں
ــــــــــــــ
دھلائی کے دوران رکابی و پتیلیوں میں‌ کھانے کے کچھ نا کچھ  ذرے رہ جاتے ہیں۔ چائے بنا کر اسکی پتی بچ جاتی ہے۔ اسکے لئے ایک فاضل چھنؔی رکھی ہے جس سے تمام ذرات و پتی چھان کر برتن دھوتی ہوں تاکہ نکاس کے پائپ میں یہ ذرات جاکر اور جمع  ہو کر رکائو کا باعث نا بنیں۔۔۔
کبھی یہ رکائو آپ کے گھر کی نالی میں ہوتا ہے جس کے لئے آپ کو پیسہ خرچ کر کے خاکروب بلوانا پڑتا ہے اور کبھی یہ رکائو گلی کے گٹر میں ہوتا ہے جہاں سے ’خوشبودار‘ پانی بہہ کر آپ کی ناک کو آتے جاتے معطر کرتا ہے۔
دھلائی میں وقت ذیادہ لگتا ہے ۔۔۔۔ مگر خیر ہے۔۔
ـــــــــــــــ
بازار سے خریداری کر کے آؤ تو دس پندرہ ہر سائز کے شاپر ساتھ  آتے ہیں۔ آسانی تو یہ ہے کہ سامان نکالو اور شاپرز پھینکو مگر سارے شاپر جمع کرلیتی ہوں۔ ہلکا پھلکا کوئی سامان لینا ہو تو گھر سے شاپر لے کر جاتی ہوں اور ساتھ ہی جمع شدہ شاپرز کا بنڈل کسی نا کسی دکاندار کو پکڑا دیتی ہوں جسے وہ عموماً خوشدلی سے قبول کرلیتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــ
معلمہ فردِ واحد ہیں، شاید ان کے کچھ کرنے سے فرق تو کچھ نہیں پڑتا ۔۔۔
شہر کا کچرا کم نہیں ہوتا
تمام سوکھا کچرا مکرر گھمائو کا حصہ نہیں بنتا
تمام گیلا کچرا کھاد نہیں بنتا
گٹر ابلنے سے نہیں رکتا
کینسر کی وجہ بننے والے شاپرز ختم نہیں ہوتے
مگر مگر مگر
ایک احساس بہت خوش کُن ہوتا ہے
کہ
شہر کے پھیلے کچرے معلمہ کا حصہ نہیں ہے
کچھ اشیاء جو دوبارہ قابلِ استعمال ہوئی ہیں ان میں معلمہ کی کاوش شامل ہے
کوئی مسکرانا گلاب معلمہ کی بنائی کھاد کا ثمر ہے
گلی میں بہتا گندے پانی میں معلمہ سے گھر سے نکلا کوئی رکاوٹ ڈالنے والا مادہ شامل نہیں
نالوں میں پھنسے شاپرز میں کوئی معلمہ کا پھینکا ہوا نہیں
کیا آپ کے پاس بھی یہ احساس ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ تحریر: لبنیٰ سعدیہ عتیق ــــــــــــــــ شاید پہلے بھی لکھا ہو۔۔ پھر لکھ دیتی ہوں۔۔۔ بازار میں پیاس لگے، کوئی ...

آج کی بات ۔۔۔ 27 نومبر 2018

 ⇚ آج کی بات ⇛

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جسے عزت دی ہے اس کی عزت کرنا لازم ہے 
لیکن جسے ذلیل کیا اسے ذلیل کرنا ضروری نہیں۔

 ⇚ آج کی بات ⇛ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جسے عزت دی ہے اس کی عزت کرنا لازم ہے  لیکن جسے ذلیل کیا اسے ذلیل کرنا ضروری نہیں۔