عالم اور اعتماد



عالم اور اعتماد
 ( Abu Yahya ابویحییٰ)

ایک عالم اور محقق وہ شخص ہوتا ہے جو علم کی روایت کے تمام پہلوؤں سے واقف ہوتا ہے اور پھر کسی معاملے میں اپنے فہم کے مطابق ایک رائے قائم کرتا ہے۔ عالم کا علم اور تحقیق اسے اس بات کا حقدار بناتے ہیں کہ وہ اپنی بات پورے اعتماد کے ساتھ بیان کرے اور دوسرے اہل علم کی غلطی کو واضح کرے ۔ یہ ایک عالم کا حق ہے جو اس سے چھینا نہیں جا سکتا۔ مگر اس سے جو توقع کی جا سکتی ہے وہ  یہ کہ وہ کسی دوسرے کے نیت پر حملہ نہ کرے ، ان کا تمسخر نہ اڑائے اور اس بات کے لیے تیار رہے کہ اس کی غلطی اگر اس پر واضح کر دی جائے تو وہ اپنی رائے سے رجوع کر لے گا۔ معاملات اگر یوں رہیں تو کبھی تعصب پھیلے گا نہ فرقہ واریت وجود میں آئے گی۔

خرابی اس وقت ہوتی ہے جب وہ لوگ کسی معاشرے میں عالم بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں جو علم کے صرف ایک پہلو سے واقف ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے علاوہ کسی اور نقطہ نظر کو سنجیدگی اور کھلے دل سے پڑھا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ درحقیقت جن بزرگوں کے نام پر وہ کھڑے ہوتے ہیں وہ ان کی علمی وراثت اور استدلال سے بھی واقف نہیں ہوتے ۔

ایسے لوگ عملی زندگی میں اتر کر کبھی کسی دوسرے کانقطہ نظر نہیں سمجھ سکتے ۔ اگر کبھی دوسروں کی بات سننا بھی پڑے تو ہمدردری سے سمجھنا تو دور کی بات ہے وہ سنتے ہوئے بھی بات کا جواب سوچتے رہتے ہیں ۔ یہی یکطرفہ علم بلکہ کم ترین علم کے حاملین پھر فروعی اور جزوی اختلاف کی بنیاد پر دوسرے اہل علم کی نیت بلکہ ایمان کا فیصلہ کر دیتے ہیں ۔

یہی پہلے اور دوسرے گرہ کا حقیقی فرق ہے ۔ پہلا گروہ صاحبان علم کا ہوتا ہے جو علم کی پوری روایت سے واقف ہوتے ہیں ۔ دوسرا گروہ علم کی روایت سے تو کیا اپنے بزرگوں کی علمی روایت سے بھی واقف نہیں ہوتا۔ پہلا گروہ اگر پورے اعتماد سے کسی چیز کی تردید کر رہا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے ان کی علم اور تحقیق ہوتی ہے ۔ دوسرا گروہ جب پورے اعتماد سے کسی کی تردید کرتا ہے تو اس کے پیچھے گروہی عصبیت کارفرما ہوتی ہے ۔ پہلا گروہ ایک نئی اور مختلف بات کو بھی ہمیشہ توجہ سے سنتا ہے کہ وہ پہلے ہی علم کی روایت میں بہت سے نئی اور مختلف باتوں سے واقف ہوتا ہے ۔ دوسرا گروہ ایک نئی اور مختلف بات سنتے ہی متوحش ہوجا تا ہے کہ اس نے ساری زندگی اپنے نقطہ نظر کے علاوہ کوئی دوسری بات سنی ہی نہیں ہوتی۔

پہلا گروہ بھی گرچہ اپنی رائے کے دفاع کے لیے تیار رہتا ہے ، مگر جانتا ہے کہ اس کی رائے غلط ہو سکتی ہے ۔ جبکہ دوسرا گروہ اپنی رائے کو آخری حق سمجھ کر دفاع کرتا ہے ۔ پہلا گروہ انسانی علم اور فہم کی محدودیت کا شکار ہوکر غلطی کرسکتا ہے ، مگر واضح دلیل آنے پر اپنی رائے سے رجوع کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے ۔ دوسرا گروہ خود کو نبی اور رسول کے مقام پر سمجھتا ہے اور اپنے فہم کو وحی الٰہی خیال کر کے کسی ترمیم و تبدیلی کو کفر و ایمان کا مسئلہ بنا دیتا ہے ۔

ایک عام آدمی کے سامنے دونوں گروہوں کے لوگ بظاہر دین کے نمائندوں کے طور پر آتے ہیں ۔ مگر یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دو طرح کے لوگوں میں فرق کرنا سیکھے ۔ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ لہجے کے اعتماد سے دھوکہ نہ کھائے ۔ بلند و بالا دعووں سے مرعوب نہ ہو۔ وہ سوال کرے اور جواب چاہے ۔ وہ دریافت کرے اور دلیل مانگے ۔ علما کو انسان سمجھے ، نبی نہ بنائے ۔

اس دنیا میں عالم اور عامی دونوں امتحان میں ہیں ۔ عالم کا امتحان یہ ہے کہ علم کے تمام پہلوؤں سے ابتدائی واقفیت سے قبل کلام نہ کرے اور غلطی واضح ہوجانے پر اپنی رائے سے رجوع  کر لے ۔ عامی کا امتحان یہ ہے کہ وہ دونوں فریقوں میں فرق کرنا سیکھے اور علما کو نبی اور ان کی آراء کو ایمانیات نہ بنائے ۔ وہ دوسرے اہل علم کو بدنام کرنے کی مہم نہ چلائے ۔

علم روشنی ہے جو نظر آ جاتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ تعصبات کی عینک اتار کر دیکھا جائے ۔

2 تبصرے:

  1. آجکل ایسے عالم نہیں ہوتے ۔ آجکل عالم وہ ہوتا ہے جو سب کو غلط کہے اور اگر کوئی اُس کی غلطی ثابت کرنے کی کوشش کرے تو اُسے دھکے دے کر بگا دے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جی درست فرمایا آپ نے ۔۔۔۔ جبھی تو علم کا بیڑہ غرق اور طالب علموں کا ستیاناس ہے :)

      حذف کریں