اب سمجھ میں آتا ہے



اب سمجھ میں آتا ہے


پیار کی کہانی میں
کس جگہ ٹھہرنا تھا؟
کس سے بات کرنا تھی؟
کس کے ساتھ چلنا تھا؟
کون سے وہ وعدے تھے
جن پہ جان دینا تھی؟
کس جگہ بکھرنا تھا؟
کس جگہ مکرنا تھا؟
کس نے اس کہانی میں
کتنی دور چلنا تھا؟
کس نے چڑھتے سورج کے
ساتھ ساتھ ڈھلنا تھا؟
اب سمجھ میں آتا ہے

اُس نے جو کہا تھا سب
ہم نے جو سنا تھا تب
کس طرح ہلے تھے لب
کس طرح کٹی تھی شب
ہم نے ان سنی کر دی
بات جو ضروری تھی
کس قدرمکمل اور
کس قدر ادھوری تھی
وہ جو اک اشارہ تھا
ذکر جو ہمارا تھا
وہ جو اک کنایہ تھا
جو سمجھ نہ آیا تھا
اب سمجھ میں آتا ہے

جان کے ہی دشمن تھے
جان سے جو پیارے تھے
ہم جہاں پہ جیتے تھے
اصل میں تو ہارے تھے
راہ جس کو سمجھے ہم
راستہ نہیں تھا وہ
واسطہ دیا جس کو
واسطہ نہیں تھا وہ
کس نے رد کیا ہم کو؟
کس نے کیوں بلایا تھا؟
جس کو اتنا سمجھے ہم
کیوں سمجھ نہ آیا تھا؟
اب سمجھ میں آتا ہے

اب سمجھ میں آیا جب
زندگی اکارت ہے
دیر سے سمجھ آئی
ایسی اک بجھارت ہے
زندگی کے بھیدوں کو
ہم نے اب سمجھنا تھا
تب سمجھ بھی آتی تو
ہم نے کب سمجھنا تھا
آنکھ جب پگھل جائے
اور شام ڈھل جائے
زندگی کی مٹھی سے
ریت جب نکل جائے
بھید اپنے جیون کا
تب سمجھ میں آتا ہے
سب سمجھ میں آتا ہے

رضی الدین رضی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں