طوفان اور مزار


طوفان اور مزار
 (نوٹ یہ مضمون 2010 کے طوفان کے موقع پر لکھا گیا تھا)

بحیرہ عرب میں پیدا ہونے والا پیٹ (Phet) نامی طوفان 6 جون کی رات سندھ کے ساحلی شہر بھنبھور سے ٹکراکر ختم ہوگیا۔ ابتدا میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ یہ طوفان کراچی اور اس کے مضافات سے ٹکرائے گا۔ تاہم مسقط اور گوادر میں تباہی مچانے والا یہ طوفان جو ابتدا میں کیٹگری 3 کا ایک طوفان تھا، پہلے کیٹگری 1 کے ہلکے طوفان میں بدلا اور پھر ہوا کا رخ آخری وقت میں بدلنے کے باعث کراچی سے ٹکرائے بغیر گزر گیا۔ کراچی شہر پر اس کا اثر صرف اتنا ہوا کہ طوفان سے قبل یہاں وقفے وقفے سے تیز بارش ہوئی۔ تاہم طوفان اس شہر سے کنارہ کرکے گزر گیا اور اس کا زیادہ تر نزلہ حیدرآباد اور اندرونِ سندھ کے دیگر شہروں پر گرا۔

شہر کراچی جو اس طرح کی کسی ناگہانی کو جھیلنے کے لیے آخری درجہ میں ایک ناتواں شہر ہے، تمام تر توقعات کے برخلاف حیرت انگیز طور پر اس پوری آفت سے محفوظ رہا۔ گرچہ تھوڑی بہت بارش بھی اس شہر میں نو انسانی جانوں کا نقصان کرگئی لیکن اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر یہ شہر طوفان کا براہِ راست نشانہ بن جاتا تو یہاں کس درجے کی تباہی آتی۔

کراچی ایک ساحلی شہر ہونے کے باوجود اکثر طوفانوں سے بچا رہتا ہے۔ عوام الناس میں اس حوالے سے یہ چیز مشہور ہے کہ اس شہر کے تمام ساحلی علاقوں پر بعض بزرگوں کے مزارات ہیں جو اس شہر کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ تصورات ایک ایسی قوم میں پھیلے ہوئے ہیں جو حاملِ قرآنِ عظیم ہے۔ قرآنِ مجید اس یاددہانی سے بھرا ہوا ہے کہ اللہ کے سوا انسانوں کا نہ کوئی مددگار ہے اور نہ کوئی اور حامی و ناصر اور محافظ۔ اس کا کوئی نیک بندہ کبھی اپنے آپ کو اس حیثیت میں پیش نہیں کرسکتا۔ یہ صرف شیطان ہے جو لوگوں کے ذہن میں مشرکانہ اوہام پیدا کرتا رہتا ہے۔

حالیہ طوفان پیٹ نے قرآنِ مجید کی اس بات کو ایک عجیب انداز سے ثابت کیا ہے۔ کراچی کے متعلق چونکہ ابتدا سے یہ بات معلوم تھی کہ یہ شہر اس طوفان کا متوقع نشانہ بنے گا، اس لیے یہاں رہنے والے صلحا اللہ تعالیٰ سے مسلسل عافیت کی دعا کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سن لی اور نسبتاً کم اور خوشگوار بارش کے ساتھ یہ معاملہ ٹل گیا۔ تاہم اس کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی ہوا۔ ساحلِ سمندر پر واقع ایک معروف بزرگ کے مزار کے احاطے میں واقع لنگر خانے کی دیوار گرگئی جس کے نتیجے میں 9 زائرین زخمی ہوگئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاموش پیغام تھا۔ وہ یہ کہ انسانوں کی پناہ اور عافیت صرف ایک ہستی کے ہاتھ میں ہے، وہ تنہا اللہ کی اپنی ذات ہے۔ اس کے علاوہ کوئی انسان اپنا تحفظ کرنے کی کوئی قدرت نہیں رکھتا تو دوسروں کی کیا حفاظت کرے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کا ایک ہی حامی و ناصر ہے۔ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے اور ہر کسی کو زندگی دیتا ہے۔ وہ ہر کسی کا سہارا ہے اور ہر شے کو تھامے ہوئے ہے۔ ہر چیز اس کی ملکیت ہے اور اسے ہر چیز کا مکمل علم رہتا ہے۔ تمام طاقت اور اقتدار کا مالک۔ اسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ۔ وہ مخلوق کی حفاظت سے لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں تھکتا۔ مخلوق تمام تر اس کی محتاج ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کے کسی فیصلے میں مداخلت کرسکے۔ اس کے حضور اپنی بات پیش کرنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ عاجزی، پستی اور اس کی بڑائی کا اعتراف۔

اللہ کے نیک بندے اس بات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ہر مشکل میں اللہ کی طرف گڑگڑاکر رجوع کرتے ہیں۔ اس کے حضور عاجزی اور منت سماجت کے ساتھ فریاد کرتے ہیں۔ خدا کی رحمت ایسے ہی بندوں کی طرف متوجہ ہوتی اور ان کی سمت بڑھنے والے ہر طوفان کا رُخ موڑ دیتی ہے۔ چاہے یہ طوفان ان کی اجتماعی زندگی میں آرہا ہو یا ان کی انفرادی زندگی میں۔

اس کے برعکس جو لوگ غیر اللہ میں جیتے ہیں، وہ سرابوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ عنقریب وہ جان لیں گے کہ ان کے حصے میں صحرا کی پیاس کے سوا کچھ نہیں آیا۔
 
ابو یحیٰیٰ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں