ہم نے پاکستان کو کیا دیا ؟
تحریر شکور رسول
دُنیا میں سینکڑوں قومیں بستی ہیں ہر قوم کی اپنی زبان،اپنی پہحان،اپنا رنگ، اپنی نسل اور سب سے بڑھ کر اپنی زمین ہوتی ہیں جس پہ وہ اپنی مرضی کی زندگی گزارتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر قوم کی پہچان ہر چیز سے بڑھ کراُن کی زمین ہوتی ہیں یعنی اُن کامُلک۔اور ہر قوم اپنی پہچان پہ فخر محسوس کرتی ہیں۔ دُنیا اِدھرسے اُدھرہوجائے لیکن کوئی بھی قوم اپنے ملک کے بارے میں کچھ بُورا بھلا برداشت نہیں کرسکتی۔ یہ کوالٹی جسں قوم میں پائی جاتی ہیں وہ زندہ قوم کہلاتی ہیں۔ پاکستان دُنیا کا وُہ بد نصیب ملک ہیں جہاں کے اکثر لوگوں میں یہ سوچھنے اور کہنے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے کہ (پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے ؟ ) اگر میرا اندازہ غلط نہیں تو یہ قوم دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنے ملک کے بارے میں اِسطرح کے عجیب و غر یب خیالات رکھتی ہیں۔ اگر آپ بھی اِن سے مِلتے جُلتے خیالات رکھتے ہیں تو آپ کو بہت بہت مبارک ہو کیونکہ آپ بھی اُن لوگوں کی سازش کا نشانہ بن چکے ہیں جو کسی بھی طرح وطنِ عزیز کو توڑنے کا تہیہ کر چُکے ہیں۔ لیکن اُن کو شاید اِس بات کا علم نہیں کہ پاکستان قیامت تک قا ئم رہنے کیلئے بنا ہے۔ یہ ملک صِرف زمین کا ٹکڑا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے رازوں میں سے ایک راز ہیں۔ اِس ملک کو توڑنے کے خواب دیکھنے والے صرف اپنا وقت اور وسا ئل ضایع کر رہے ہیں۔ اُ ن کے منصوبے اپنی جگہ، لیکن آ ج اِس قوم سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے، تو کیا ہم نے بھی پاکستان کو کچھ دینا گواراہ کیا ہے؟۔
ٓآ ج سے ۶۴سال قبل ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو جب پاکستان کا وجود بنا،تو یہاں کے لوگوں میں تو ایک نیا جذبہ تھا ہی،بلکہ سرحد پار سے تقریبا۱۲ میلین سے ذائدلوگ دیوانہ وار ہجرت کرتے آئے۔ جن میں سے آدھے بھی پاکستان نہ پہنچ سکے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہجرت کبھی نہیں ہوئی۔ بس اِک جنون تھا، عشق تھا، دیوانگی تھی۔ اُنہوں نے کسی سے نہ پوچھا کہ پاکستان نے ہمیں کیادیا؟ یا پاکستان نے ہمیں کیا دینا ہے؟۔کسی نے یہ نہ پوچھا کہ پاکستان میں ہمیں کیا ملے گا؟ اور ہماری سیکورٹی اور رہائش کا کیا انتظام ہو گا ؟ بس یہ لوگ دیوانوں کی طرح آتے رہے۔ مشرقی پنجاب،لودیانہ،جلندھروغیرہ کے اسّی ہزارمربع کلومیٹر میں کوئی مسلمان زندہ نہ بچ سکا۔چالیس لاکھ سے ذائد مسلمان اغوا ہوئے، لیکن وہ پاکستان کو نظرانداز نہ کر سکے کیونکہ اُنہوں نے ہر حال میں پاکستان آنے کا اِرادہ کرلیا تھا۔ دہلی سے ایک ٹرین نکلتی، اور مشرقی پنجاب میں پوری کی پوری کاٹ دی جاتی۔اور یہاں صرف لاشیں پہنچھتی،مگر وہ جنونی بار بار اُن ٹرینوں میں سوار ہو کر مرنے کیلئے تیار ہو جاتے۔ کیونکہ اُنہیں یہ بات سمجھا دی گئ تھی کہ اگر اِس وقت کسی نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا تو اُس کی دنیاوآخرت تباہ و برباد ہو کہ رہ جائے گی۔ ماناکہ آج کے پاکستان میں ہزاروں تکالیف ہیں،دانا لوگ کہتے ہیں کہ
(Trouble comes not alone but in a battalion) لیکن پھر بھی آپ کبھی بھوکے نہیں سو ئے ہونگے،آپ کبھی ننگے نہیں ہو ئے معا ف کیجے لیکن آپ کی ماؤں بہنوں کی عزّت پہ ہاتھ نہیں ڈالے گئے، آپ کے گھروں سے آپ کو نکالا نہیں گیا اور نہ ہی آپ کو ہجرت کرنا پڑی، اِسلئے شکایتں کِس بات کی؟ ہماری موجودہ نسل کو یہ معلوم ہونا چاہئے،کیونکہ اِنہوں نے آنے والی نسلوں کو بتانا ہے کہ اِن کے بزرگوں کو گھررں سے نکالا گیا، اُن کو سرِعام لٹکا یا گیا، اُن کی ماؤں بہنوں کی عصمتیں پامال ہوئیں، اُنہیں لوٹا گیا، لیکن اُنہوں نے تو کبھی پاکستان کو بُرا بھلا نہیں کہا، اور نہ ہی کسی سے شکایت کی۔ اِسلئے کہ اُن کو پتہ تھا کہ پاکستان ہی ہماری پہچان ہے۔ پاکستان نے ہمیں وہ نعمت دی ہے جس کا کوئی نعملُ البدل نہیں، جس کی قیمت کا کوئ اندازہ نہیں۔ اِس ملک نے ہمیں وہ نعمت دی ہے جس کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے اور اِس نعمت کو جاننے کیلئے آپ کوکشمیر، افغانستان، عراق یا پھر فلسطین کا رُخ کرنا ہو گا۔ اِسلےأ کہ وہ لوگ پَل پَل اِس نعمت کے حصول کیلےؤ جدّوجہد کر رہے ہیں۔ مگر اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے کہ اُن کو یہ نعمت کب نصیب ہو گی۔ اِس نعمت کا نام آذادی ہے، خودمختاری ہے۔ یہ نعمت اِک پہچان ہے جو صرف اور صرف پاکستان کے وجور سے وابستہ ہے۔ آپ دُنیا میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کسی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں پٹھان ہو، پنجابی ہو، سندھی ہو یا بلوچی ہو، آپ کو صرف یہی کہنا پڑے گا کہ میں پاکستانی ہو۔ اِس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہیں کہ پاکستان ہمارا ملک ہیں اور یہ ملک ہماری پہچان ہے۔
اِسلےأ سب کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ پاکستان نے ہمیں جو کچھ دینا تھا وہ ۶۴ سال پہلے دے چکا ہے۔ اَب جو کچھ بھی کرنا ہے ہم نے کرنا ہے، جو کچھ بھی دینا ہے ہم نے دینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستان کو وہ سب کچھ دینے میں کامیاب ہوتے ہیں جو ہمارے آباواجداد کی خواہیش تھی، جس کا خواب علّامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا، جس کی جدّوجہد قائداعظمؒ نے کی تھی۔ جس کیلئے لیاقت علی خان نے اپنی شہادت پیش کی۔
آج کے اِس دور میں ہر طرف ملک دُشمن عناصر سازشوں میں مصروف ہیں، جبکہ ہم ایک طرف دہشتگردی اور فرقہ واریت کا شکار ہیں، تو دوسری طرف بدعنوان اور کرپٹ حکمران ہمارے اوپر مسلّط ہیں۔ ٹرانسپرنسی اِنٹرنیشنل کے مطابق اِس سال کرپشن میں کئ گُناہ اِضافہ ہوا ہے۔ اِس کے علاوہ مہنگاأی اور غربت سے تنگ عوام قدرتی آفات کا بھی شکار ہیں،جسکی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اَربوں ڈالر کا نقصان ہوچُکا ہے۔ ریڈ کراس کے اندازے کے مطابق پِچھلے سال آنے والے سیلاب سے پورے پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ متاثر ہوؤ جبکہ صوبہ سِندھ میں آنے والے حالیہ سیلاب سے بھی لاکھوں لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی،جبکہ ملک میں سیاسی بے چینی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اِن حالات میں اگر ہم غیروں کی سازِشوں کا نشانہ بن جائنگے تو یہ اِک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہو گا۔ اسلأے بحثیّتِ قوم ہماری ذمہ داری ہیں کہ اِن حالات میں غیروں کے اِشاروں پر چلنے کے بجائے آپس میں اِنسانیّت کا اِحساس بڑھائیں غمزدہ پاکستانی بھائیوں کی ہر مُمکن مددکرے۔ اِور اپنے جذبات کا اظہار اِس انداز میں کرے، کہ اگر حکومت کے خلاف بات کرنی ہو تو بے شک کرے کیونکہ یہ آپ کا شرعی، آئینی اور جمہوری حق ہے، لیکن اِ س ملک کے خلاف بات کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ یہ ملک صرف حکمرانوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا نہیں، یہ ملک سترہ کروڑ پاکستانیوں کا ہے۔ اِس پر آپ کا بھی اُتنا ہی حق ہے جِتنا اِیلیٹ کلاس کے لوگوں کا ہے۔ اِس ملک کو ہم سب نے آگے لے کر جانا ہے۔ اِسلئے یہ نہ سوچیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا، بلکہ یہی سوچیں کہ ہم نے آج تک پاکستان کو کیا دیا،اور کیا دینا چاہئے؟جان ایف کینیڈی نے خوب کہا تھا کہ
ask not what your country can do for you, ask what you can do for your country
تحریر شکور رسول
دُنیا میں سینکڑوں قومیں بستی ہیں ہر قوم کی اپنی زبان،اپنی پہحان،اپنا رنگ، اپنی نسل اور سب سے بڑھ کر اپنی زمین ہوتی ہیں جس پہ وہ اپنی مرضی کی زندگی گزارتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر قوم کی پہچان ہر چیز سے بڑھ کراُن کی زمین ہوتی ہیں یعنی اُن کامُلک۔اور ہر قوم اپنی پہچان پہ فخر محسوس کرتی ہیں۔ دُنیا اِدھرسے اُدھرہوجائے لیکن کوئی بھی قوم اپنے ملک کے بارے میں کچھ بُورا بھلا برداشت نہیں کرسکتی۔ یہ کوالٹی جسں قوم میں پائی جاتی ہیں وہ زندہ قوم کہلاتی ہیں۔ پاکستان دُنیا کا وُہ بد نصیب ملک ہیں جہاں کے اکثر لوگوں میں یہ سوچھنے اور کہنے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے کہ (پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے ؟ ) اگر میرا اندازہ غلط نہیں تو یہ قوم دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنے ملک کے بارے میں اِسطرح کے عجیب و غر یب خیالات رکھتی ہیں۔ اگر آپ بھی اِن سے مِلتے جُلتے خیالات رکھتے ہیں تو آپ کو بہت بہت مبارک ہو کیونکہ آپ بھی اُن لوگوں کی سازش کا نشانہ بن چکے ہیں جو کسی بھی طرح وطنِ عزیز کو توڑنے کا تہیہ کر چُکے ہیں۔ لیکن اُن کو شاید اِس بات کا علم نہیں کہ پاکستان قیامت تک قا ئم رہنے کیلئے بنا ہے۔ یہ ملک صِرف زمین کا ٹکڑا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے رازوں میں سے ایک راز ہیں۔ اِس ملک کو توڑنے کے خواب دیکھنے والے صرف اپنا وقت اور وسا ئل ضایع کر رہے ہیں۔ اُ ن کے منصوبے اپنی جگہ، لیکن آ ج اِس قوم سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے، تو کیا ہم نے بھی پاکستان کو کچھ دینا گواراہ کیا ہے؟۔
ٓآ ج سے ۶۴سال قبل ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو جب پاکستان کا وجود بنا،تو یہاں کے لوگوں میں تو ایک نیا جذبہ تھا ہی،بلکہ سرحد پار سے تقریبا۱۲ میلین سے ذائدلوگ دیوانہ وار ہجرت کرتے آئے۔ جن میں سے آدھے بھی پاکستان نہ پہنچ سکے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہجرت کبھی نہیں ہوئی۔ بس اِک جنون تھا، عشق تھا، دیوانگی تھی۔ اُنہوں نے کسی سے نہ پوچھا کہ پاکستان نے ہمیں کیادیا؟ یا پاکستان نے ہمیں کیا دینا ہے؟۔کسی نے یہ نہ پوچھا کہ پاکستان میں ہمیں کیا ملے گا؟ اور ہماری سیکورٹی اور رہائش کا کیا انتظام ہو گا ؟ بس یہ لوگ دیوانوں کی طرح آتے رہے۔ مشرقی پنجاب،لودیانہ،جلندھروغیرہ کے اسّی ہزارمربع کلومیٹر میں کوئی مسلمان زندہ نہ بچ سکا۔چالیس لاکھ سے ذائد مسلمان اغوا ہوئے، لیکن وہ پاکستان کو نظرانداز نہ کر سکے کیونکہ اُنہوں نے ہر حال میں پاکستان آنے کا اِرادہ کرلیا تھا۔ دہلی سے ایک ٹرین نکلتی، اور مشرقی پنجاب میں پوری کی پوری کاٹ دی جاتی۔اور یہاں صرف لاشیں پہنچھتی،مگر وہ جنونی بار بار اُن ٹرینوں میں سوار ہو کر مرنے کیلئے تیار ہو جاتے۔ کیونکہ اُنہیں یہ بات سمجھا دی گئ تھی کہ اگر اِس وقت کسی نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا تو اُس کی دنیاوآخرت تباہ و برباد ہو کہ رہ جائے گی۔ ماناکہ آج کے پاکستان میں ہزاروں تکالیف ہیں،دانا لوگ کہتے ہیں کہ
(Trouble comes not alone but in a battalion) لیکن پھر بھی آپ کبھی بھوکے نہیں سو ئے ہونگے،آپ کبھی ننگے نہیں ہو ئے معا ف کیجے لیکن آپ کی ماؤں بہنوں کی عزّت پہ ہاتھ نہیں ڈالے گئے، آپ کے گھروں سے آپ کو نکالا نہیں گیا اور نہ ہی آپ کو ہجرت کرنا پڑی، اِسلئے شکایتں کِس بات کی؟ ہماری موجودہ نسل کو یہ معلوم ہونا چاہئے،کیونکہ اِنہوں نے آنے والی نسلوں کو بتانا ہے کہ اِن کے بزرگوں کو گھررں سے نکالا گیا، اُن کو سرِعام لٹکا یا گیا، اُن کی ماؤں بہنوں کی عصمتیں پامال ہوئیں، اُنہیں لوٹا گیا، لیکن اُنہوں نے تو کبھی پاکستان کو بُرا بھلا نہیں کہا، اور نہ ہی کسی سے شکایت کی۔ اِسلئے کہ اُن کو پتہ تھا کہ پاکستان ہی ہماری پہچان ہے۔ پاکستان نے ہمیں وہ نعمت دی ہے جس کا کوئی نعملُ البدل نہیں، جس کی قیمت کا کوئ اندازہ نہیں۔ اِس ملک نے ہمیں وہ نعمت دی ہے جس کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے اور اِس نعمت کو جاننے کیلئے آپ کوکشمیر، افغانستان، عراق یا پھر فلسطین کا رُخ کرنا ہو گا۔ اِسلےأ کہ وہ لوگ پَل پَل اِس نعمت کے حصول کیلےؤ جدّوجہد کر رہے ہیں۔ مگر اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے کہ اُن کو یہ نعمت کب نصیب ہو گی۔ اِس نعمت کا نام آذادی ہے، خودمختاری ہے۔ یہ نعمت اِک پہچان ہے جو صرف اور صرف پاکستان کے وجور سے وابستہ ہے۔ آپ دُنیا میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کسی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں پٹھان ہو، پنجابی ہو، سندھی ہو یا بلوچی ہو، آپ کو صرف یہی کہنا پڑے گا کہ میں پاکستانی ہو۔ اِس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہیں کہ پاکستان ہمارا ملک ہیں اور یہ ملک ہماری پہچان ہے۔
اِسلےأ سب کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ پاکستان نے ہمیں جو کچھ دینا تھا وہ ۶۴ سال پہلے دے چکا ہے۔ اَب جو کچھ بھی کرنا ہے ہم نے کرنا ہے، جو کچھ بھی دینا ہے ہم نے دینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستان کو وہ سب کچھ دینے میں کامیاب ہوتے ہیں جو ہمارے آباواجداد کی خواہیش تھی، جس کا خواب علّامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا، جس کی جدّوجہد قائداعظمؒ نے کی تھی۔ جس کیلئے لیاقت علی خان نے اپنی شہادت پیش کی۔
آج کے اِس دور میں ہر طرف ملک دُشمن عناصر سازشوں میں مصروف ہیں، جبکہ ہم ایک طرف دہشتگردی اور فرقہ واریت کا شکار ہیں، تو دوسری طرف بدعنوان اور کرپٹ حکمران ہمارے اوپر مسلّط ہیں۔ ٹرانسپرنسی اِنٹرنیشنل کے مطابق اِس سال کرپشن میں کئ گُناہ اِضافہ ہوا ہے۔ اِس کے علاوہ مہنگاأی اور غربت سے تنگ عوام قدرتی آفات کا بھی شکار ہیں،جسکی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اَربوں ڈالر کا نقصان ہوچُکا ہے۔ ریڈ کراس کے اندازے کے مطابق پِچھلے سال آنے والے سیلاب سے پورے پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ متاثر ہوؤ جبکہ صوبہ سِندھ میں آنے والے حالیہ سیلاب سے بھی لاکھوں لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی،جبکہ ملک میں سیاسی بے چینی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اِن حالات میں اگر ہم غیروں کی سازِشوں کا نشانہ بن جائنگے تو یہ اِک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہو گا۔ اسلأے بحثیّتِ قوم ہماری ذمہ داری ہیں کہ اِن حالات میں غیروں کے اِشاروں پر چلنے کے بجائے آپس میں اِنسانیّت کا اِحساس بڑھائیں غمزدہ پاکستانی بھائیوں کی ہر مُمکن مددکرے۔ اِور اپنے جذبات کا اظہار اِس انداز میں کرے، کہ اگر حکومت کے خلاف بات کرنی ہو تو بے شک کرے کیونکہ یہ آپ کا شرعی، آئینی اور جمہوری حق ہے، لیکن اِ س ملک کے خلاف بات کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ یہ ملک صرف حکمرانوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا نہیں، یہ ملک سترہ کروڑ پاکستانیوں کا ہے۔ اِس پر آپ کا بھی اُتنا ہی حق ہے جِتنا اِیلیٹ کلاس کے لوگوں کا ہے۔ اِس ملک کو ہم سب نے آگے لے کر جانا ہے۔ اِسلئے یہ نہ سوچیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا، بلکہ یہی سوچیں کہ ہم نے آج تک پاکستان کو کیا دیا،اور کیا دینا چاہئے؟جان ایف کینیڈی نے خوب کہا تھا کہ
ask not what your country can do for you, ask what you can do for your country
آپ سب کو پاک کا یوم آذادی مبارک ہو
جواب دیںحذف کریں