دیکھ ہمارا کیا رنگ کر دیا
تحریر: محمودالحق
کون جانتا ہے کہ رات دن سے الگ کیسے ہوتی ہے اور دن رات میں کیسے چھپ جاتا ہے۔چاندنی راتوں میں سمندر پر لہریں کیوں رقص کرتی ہیں۔آسمانوں سے پانی برس کر پھلوں پھولوں میں رنگ و خوشبو کے رنگ کیسےبکھیر دیتا ہے۔ چاہنے اور پانے کے انداز جدا ، رنگوں کی ترتیب الگ رہتی ہے۔ رنگ ونور کی برسات صفحات پر اترے تو آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔مگر جب قلب پہ اُترے تو روح میں خوشگوار احساسِ حیرت کو جاگزیں کر دیتی ہے۔
آرٹس کے مضامین پڑھنے والا سائنسی توجیحات پر سر کھجانے سے آگے نہیں بڑھتا۔ کیونکہ وہاں سوچ داخلہ بند کے آویزاں بورڈ سے استقبال کرتی ہے۔ قربت کا مضمون پڑھنے والے محبت کے مفہوم سے ہمیشہ ناآشنا رہتے ہیں۔پانے کا جنون احساس کے لگن سے کبھی ہم رکاب نہیں ہوتا۔بہشتی زیور بحر طور زمینی زیور سے بدرجہا بہتر بھی ہے اور لازوال و لافانی بھی ۔
جن چیزوں کی اہمیت انہیں پانے کے بغیر مکمل نہ ہو تو ایک سے بڑھ کر ایک کی تلاش کے سلسلے ختم نہیں ہوتے۔ جیولری ، کپڑے ، جوتے کا نیا ڈیزائن اور کار کانیا ماڈل ،گلے میں لٹکے ہیرے کے ہار اور گیراج میں کھڑی نئی گاڑی کو بھی بے وقعت کر دیتی ہے۔ بچے جن کھلونوں کے لئے زمین پرسر پٹختے ہیں۔ پھر نیا دیکھ کر انہی کھلونوں کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔
مگر اس کے مقابلے میں قدرت اور فطرت سے محبت رکھنے والے آپس میں دست و گریباں نہیں ہوتے۔ پانے کے لئے حسد و رقابت کی بھٹی میں نہیں جلتے۔چاہت بہت ہوتی ہے مگر طلب نہیں کہ جان پر بن آئے۔ان کا جینا آسان ہوتا ہے ۔حقیقی خوشی سے سرشار ہوتا ہے۔صرف محسوس کرنے سے ہی قربت کے احساس سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ایک کے بعد ایک روح میں سماتا چلا جائے توتشنگی بڑھ جاتی ہے مگرتڑپ نہیں ۔
میلوں پھیلے گلستان میں ہزاروں رنگ بکھیرتے خوشبو پھیلاتے پھول دیکھنے والوں کوسحر میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا جاذبیت سے جذبیت بڑھا دیتا ہے مگر پہلے کی محبت کم نہیں کرتا۔ انہیں توڑ کر گھر وں میں سجایا نہیں جاتا بلکہ قلب ِروح کے گلدان میں بسایا جاتا ہے۔خوشبو سے خود کومہکایا جاتا ہے۔ اظہار ِخیال قلبِ حال پر فوقیت نہیں رکھتا۔لفظ تو پھول کی مانند ہیں ۔کوئی انہیں گلستان میں مہکتا دیکھ کر محبت کا شکار ہوتا ہے تو کوئی انہیں توڑ کر کتابوں میں چھپا کر چپکے چپکے روتا ہے۔
سکول میں پڑھنے والے طالب علم چاہے پہلی پوزیشن سے کامیابی کے زینہ پر قدم رکھیں یا صرف پاس ہونے پر اکتفا کر پائیں۔ مگر بیس کمروں کے سکول کو بیس ہزار طالبعلم میرا سکول کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کے برعکس ہوٹل یا ہوسٹل میں سالہا سال رہنےکے بعد بھی اسےاپنا نہیں کہہ پاتے۔
زندگی میں صرف دیکھنے سے مفہوم جانے نہیں جا سکتے۔زندگی میں درپیش حالات و واقعات کی کھائیوں سے دوبارہ ابھر کر سمجھے جا تے ہیں۔ کتابوں سے مطالب ومعنی تلاش کئے جا سکتے ہیں مگر مفہوم نہیں۔
بہت خوب آپ بہت اچھا لکھتی ہیں خدا کرے زور قلم اور زیادہ
جواب دیںحذف کریںلکھتی رہئے :)
میم-عین
یہ میری تحریر نہیں ہے۔۔ میں نے نیچے لکھاری کا نام لکھا ہے :)
حذف کریں