ہمارا دماغ


۔ دماغ آپ کے وجود کا وہ اہم حصہ جو آپ کو چیزیں سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے ۔ آپ اپنے آس پاس کی چیزوں، حالات و واقعات کے بارے میں جو رائے قائم کرتے ہیں وہ اسی دماغ کےکارخانے میں آپ کی تمام حسوں سے گزر کر قائم ہوتی ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ آپ اور آپکا دماغ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ مگر اس دنیا فانی کے اندر آپ کا دماغ ہی آپ کے تمام فیصلوں پر حاوی ہوتا ہے جو مادی وجود رکھنے والی ان تمام چیزوں کے بارے میں آپ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ جو آپ کو اس دنیا میں نظر آتی ہیں ۔ آپکا دماغ دو طریقوں سے کام کرتا ہے ۔ ایک کسی بھی چیز کے بارے میں صرف اس حد تک انفارمیشن لے کر فیصلہ کرلیتا ہے جتنی اسے ضرورت ہوتی ہے مثلاً آپ کسی تحریر کے شروع میں ہی فیصلہ کرلیتے ہیں کے وہ آپکے پڑھنے کے لائق ہے بھی یا نہیں یا کسی بھی سوال کے بارے میں صرف مطلوبہ انفارمیشن لے کر جواب حاصل ہوجاتا ہے اگر میں آپ سے پوچھوں کےموسیٰ ؑ طوفان سے پہلے اپنی کشتی میں ہر اقسام کے جانور کتنی تعداد میں لے کر گئے تھے؟ تو اگر آپ کا جواب بھی دو ہے تو یہ سوال دوبارہ پڑھیں۔ اور دوسرا طریقہ جو ہمارا دماغ استعمال کرتا ہے وہ slow thinking کہلاتا ہے جو ہمارا دماغ صرف خاص مواقعوں پر استعمال کرتا ہے جہاں اسے اس کی ضرورت محسوس ہو جیسے اگر میں کہوں 26x36=اب آپکے دماغ کو پتہ ہے اسے آپ حل کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے اسے ٹائم چاہئے وہ ٹائم لے گا اس کام کے لئے ۔ لیکن زیادہ تر آپکا دماغ جو طریقہ استعمال کرتا ہے وہ fast thinking ہی ہے جس میں کسی بھی چیز کو وہ ساری حصوں سے فوراً پرکھ کر فیصلہ قائم کردیتا ہے ، جسے آپ کو ماننا پڑتا ہے اور اسی کے مطابق آپ کوئی فعل انجام دیتے ہیں ۔ لیکن پہلا والا طریقہ ہر معاملے میں صیح نہیں ہوتا اس کی مثال آپ یوں لے سکتے ہیں " جلدبازی شیطان کا کام ہوتی ہے" دماغ کی اس خرابی پر قابو پانے کے لئے مختلف مذاہب کے لوگ yoga, medidation ,vaspana جیسی چیزیں استعمال کرتے ہیں جس سے وہ اپنے دماغ کی اس جلد بازی کی حرکت پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اچانک ملنے والی خوشی پر جو آپکا ری ایکشن ہوتا ہے بعض اوقات آپکو شرمندہ کردیتا ہے ، کسی غمگین خبر پر بھی کچھ اسطرح کا ری ایکشن کرتے ہیں ہم لوگ ، حتیٰ کے غصہ بھی اچانک اور انتہا کا غصہ بھی دماغ کے اسطرح کام کرنے سے آتا ہے ۔ اور ہم اپنے دماغ کے اس طریقہ کام کرنے کی وجہ سے اپنی بہت ساری انرجی ان جذبات کی نظر کردیتے ہیں جس کا کوئی حاصل نہیں ۔ آج سےچودہ سو سال پہلے ہمارے مذہب نے ہمیں اس خرابی پر قابو پانے کے لئے ایک exercise بتا دی ہے جو بیک وقت آپکی بندگی کے ساتھ ساتھ آپ میں صبر اور تحمل مزاجی پیدا کرتی ہے اگر اسے اسکی اصل روح کے مطابق ادا کی جائے تو یہ ورزش آپکے روز مرہ کی زندگی میں لئے گئے تمام فیصلوں میں مددگار ثابت ہوگی ۔ اور آپ میں صبر اور تحمل مزاجی پیدا کر کے آپ کو اس خرابی پر قابو پانے میں کافی حد تک مدد دے گی اسی ورزش کو کچھ لوگ extremeلیول تک لے جاتے ہیں جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں کیوں کے ایک مقررہ حد کے بعد آپ کا دماغ بہت بری طرح بغاوت پر اتر آتا ہے اور ایک جنگ عظیم آپ کے وجود میں شروع ہوجاتی ہے جس کے آخر میں وہ یا تو مادیت کے غلام بن جاتے ہیں یا بندگی میں کوئی مقام پا لیتے ہیں ، ظاہر ہے آپکا موجودہ وجود ایک مادی وجود ہے جو جو محض کچھ عرصے کیلئے آپکو عطا کیا گیا ہے اس کے بعد آپ اس مادی وجود کے بغیر ایک ابدی زندگی گزاریں گیں تو اس مادی وجود کی ضرورتیں بھی مادی ہے اور انہی ضرورتوں کے تحت آپکا دماغ آپکو فیصلے عطا کرتا ہے ۔


آپکا دماغ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے شعور اور لاشعور ۔ شعور آپ کے دماغ کا بہت چھوٹا حصہ ہوتا ہے جو آپ کے وجود کو وجود مانتا ہے اور اس طرح آپ کے فیصلے کب کیا کرنا ہے کرتا ہے ۔ جب آپ سائیکل چلانا سیکھتے ہیں تو آپکا شعور اس کام میں پیش پیش ہوتا ہے کہ کس طرح بیلنس کرنا ہے کس طرح پیڈل چلانے ہیں کب بریک مارنا ہے کب رفتار تیز کرنی ہے ان سب کاموں میں جب ہم بہتر طریقے سے مہارت حاصل کرلیتے ہیں تو یہ سارا ڈیٹا ہمارے لاشعور میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ جب ہم اگلی بار سائیکل کی سواری کرتے ہیں تو کسی خود کار مشین کی طرح آسانی سے انجام دے دیتے ہیں کیوں کہ ہم اب وہ کام اپنے لا شعور سے کررہے ہوتے ہیں ۔ لاشعور ہمارے دماغ کا بہت بڑا حصہ رکھنے والا حصہ ہوتا ہے جس میں آپ کے گرد و نواح کی تمام انفارمیشن خواہ وہ آپ کے کام کی ہوں یا نہ ہو اسٹور ہوتی جاتی ہیں اتنی باریک باریک ڈیٹیل تک آپ کے لا شعور میں منتقل ہوجاتی ہیں جن کے بارے میں آپ شعوری طور پر وہم و گمان تک نہیں کرسکتے ۔ آپ اپنے شعور میں صرف وہ چیزیں ہی لاتے ہیں جن چیزوں کی جس حد تک آپ کو ضرورت ہو باقی سب آپ کے لاشعور میں saveرہتی ہیں جو آپ کے خیالات ، جذبات اور موڈ تک بنانے میں کردار ادا کرتی ہیں یہ ایک ایسا عمل ہے جس پر آپ چاہتے ہوئے بھی قابو نہیں پاسکتے ۔ آپ کا لاشعور لاشعوری طور پر بہت ایسی کام کرتا ہے جس میں آپ کچھ نہیں کرسکتے مثلاً آپ کا سانس لینا ، آپ کے دل کا دھڑکنا، کھانے کا ہضم کرنا اور کسی بھی چیز کے متعلق آپ کے جذبات بنانا کوئی انسان کبھی بھی اپنے لاشعور کے متعلق شعور نہیں رکھ سکتا اور اس پر قابو پانا بھی لوہے کے چنے چبانے کے جیسا ہے ۔ آپ کا لاشعور ارد گرد کے ماحول جو آپ دیکھتے سمجھتے سنتے ہیں اس کے مطابق آپ کا سراپا تعمیر کرتا ہے ۔ جیسے اکثر بچپن سے عام طور پر ایک خؤف بچوں میں پایا جاتا ہے کہ وہ اندھیرے سے ڈرتے ہیں ظاہر ہے یہ خوف کوئی پیدا ہونے کے ساتھ تو نہیں لایا ہوگا نہ یہ خوف بچپن سے آپ کے اندر ڈالا جاتا ہے کبھی ماں باپ بھائی بہنوں یا کسی بڑے کی زبانی آپ کو اندھیرے سے ڈرایا جاتا ہےکوئی خؤفناک فلم ڈرامہ دیکھ کر یہ خوف آپ کے اندر سرایت کرجاتا ہے ایک خاص عمل ہوتا ہے hammering کاجس کے مقصد مسلسل ایک چیز بول بول کر آپ کے لاشعور کو یقین دلانا کہ یہ حقیقت ہے مسلسل ایک چیز سن کر ہمارا لاشعور اس بات پر ایمان لے آتا ہے اور جب اندھیرے سے سامنا ہوتا ہے تو غیر محسوس طریقے سے ہم ڈر جاتے ہیں ۔
بس یہی طریقے استعمال کر کے دجالی قوتیں مسلسل اپنا تسلسل قائم کرنے کے لئے بچپن سے ہمارے ذہنوں کے ساتھ کھیلتی رہتی ہیں یہ گھناؤنا کھیل عمر کے اسی حصہ سے شروع ہوجاتا ہے جب ہم اپنی شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہیں۔ جب ہم کارٹون دیکھنا شروع کرتے ہیں کہانیاں پڑھنا شروع کرتے ہیں جن میں اکثر اوقات ایک سپر ہیرو دکھایا جاتا ہے جو مختلف قوتوں کا حامل ہوتا ہے اور دنیا کا مسیحا ہوتا ہے بچپن میں ہر بچہ خود کو کھیل میں اسی مشہور سپر ہیرو سے تشبیہ دینا شروع کردیتا ہے اور اس جیسا بننا چاہتا ہے اور اس سے کافی انسپائر ہوجاتا ہے اور اس سو کے ساتھ بڑا ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسیحا آئگا دنیا کو بچانے والا تو وہ مختلف قوتوں کا حامل ہوگا۔یہ بھی س ہے کہ ہم میں سے تقریباً سب ہی اسی سو چ کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں ۔ جیسا کے میں نے اوپر بیان کیا کے اندھرے سے حقیقت سامنا کرنے پرہی وہ ڈر ہمارے اندر غیر محسوس انداز سے سرایت کر کے ہمیں محسوس ہوتا ہے تو اس طرح اللہ ہی بہتر جانتا ہے جب کوئی ایسی عجیب و غریب طاقتوں والا ہمارے سامنے آئے گا تو ہم میں سے کتنے غیر محسوس طریقوں سے اس کو نجات دہندہ مان لیں گیں ۔ اور یہ معاملات صرف ہمارے ساتھ نہیں پوری دنیا کی بات کررہا ہوں میں اس فتنہ سے بچاؤ کا واحد بہترین حل وہی hammering کا طریقہ ہے جو ہم خود پر استعمال کرسکتے ہیں اور وہ صرف ہماری روزانہ کی عبادات سے ہمارے ایمان کے پختہ ہونے پر ہی ممکن ہے۔اس طرح فتنوں کے اس دور میں ٹی وی کے ذریعے اور بہت سی چیزیں ہمارے لا شعور میں ڈالی جاتی ہیں جن میں کچھ خاص گانوں میں میں بیک گراونڈ کے الفاظ ہوتے ہیں جو ہمارا شعور تو نہیں سمجھ پاتا لیکن ہماری لاشعور با خوبی saveکرلیتا ہے جو ہمیں تشدد اور فحاشی کی تعلیم دیتا ہے ۔ اگر اسکی مثال ایسے لی جائے کے کچھ عرصے پہلے تک جو چیزیں ہم فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے جیسے نا چ گانے وہ آج کل اکثریت کا معمول ہے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ایوارڈ شو دیکھنا ایک نہایت معمولی بات ہے ۔ اس طرح visually ہمارے ذہن میں ایک آنکھ کا نشان اس طرح ڈالا جاتا ہے کے ہمیں محسوس تک نہیں ہوتا اس بات کے ثبوت کے لئے آپ صرف گوگل کریں دیکھیں جو فلمیں ڈرامے اور کارٹون آج تک آپنے دیکھے ان میں کتنوں میں آپ نے اس نشان کو لاشعور میں جانے کی اجازت دی بات پھر وہی ہے جب یہ نشان اپنی پوری طاقت کے ساتھ جلوہ پذیر ہوگا تب اس کے آگے آپ کے لاشعور کی انفارمیشن آپ کو کیا فیصلے اور جذبات عطا کرتی ہے۔ اللہ ہم سب کو اس فتنہ کے دور میں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ایمان کی حالات میں موت عطا کرے آمین ۔۔

تحریر: اُسامہ علی

2 تبصرے: