آج کا آرٹیکل اسلئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں شیطان کے ممکنہ
حملوں کا ذکر ہے کہ انسان کا نفس کب کہاں پاتا ہے وہ . جی ہاں نفس کوئی ایک
مخصوس حصے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ آپکے ہر عضو میں پایا جاتا ہے آپکا دل
دماغ ہاتھ پیر غرض ہر حصّے کا ایک نفس اور ایک ضمیر ہے ، بعض اوقات ہم دل
کے نفس پر قابو پا لیتے ہیں اور دماغ والے سے ہار جاتے ہیں لہٰذا آج تفصیل
سے اس پر بات ہوگی ..
جیسا کہ میں نے پہلے پچھلی اقساط میں بیان
کیا کہ ابلیس انسان سے زیادہ عمر والا اور تجربہ کار ہے۔ اس نے انسان کو
تخلیق ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور ہمیں احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب
انسان کا پُتلا بے جان پڑا ہوا تھا تو یہ خبیث اس وقت بھی اس پُتلے کی
تحقیر کر تا تھا۔ جسم کے نچلے حصے سے داخل ہو کر منہ سے نکل آتا تو کبھی
منہ میں داخل ہوکر نچلے حصے سے باہر آتا۔ٹھٹا کرتا وغیرہ وغیرہ۔ اس کو ہماری
کمزوریوں کا بھی علم ہے اور ہماری طاقت اور مضبوطی کا بھی۔اسے علم ہے کہ
ہماری کن چیزوں کو چھیڑ کر وہ ہمیں غلط کاموں پر اکسا سکتا ہے اور ہماری کون
سی چیزیں ایسی ہیں جن سے ہمیں غافل کردے تو ہم اپنی طاقتوں کا استعمال
نہیں کر سکتے۔ اللہ جل شانہ نے انسانی جسم کو اچھائی اور برائی دونوں کے
حصول کے قابل بنا یا ہے۔شیطان کو علم ہے کہ ہمارے سفلی جذبات کہاں بھڑکتے
ہیں اور روحانی بالیدگی کہاں سے حاصل ہوتی ہے۔ہماری انہی کمزوریوں کو
چھیڑتا ہے اور ہمیں اپنا گرویدہ بنائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہم لذت اور آرام
کے حصول کی خاطر اس کے غلام بنے رہیں اور وہ ہمیں بھٹکاتا ہوا وہاں تک لے
جائے جہاں جا کر وہ اللہ کی بارگاہ میں یہ کہہ سکے کہ اے مالک میں نے کہا
تھا کہ یہ اس قابل نہیں ہے کہ تیری نیابت کرسکے۔
آئیے اب ہم اپنے جسم پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ شیطان ہم پر قابو پانے کے لیے ہم پر کہاں کہاں حملے کرتا ہے۔
( الف )جسم کے سب سے نچلے دھڑ پر حملہ یعنی جنسی حملہ۔
جنسی جذبہ اللہ نے
انسان کی افزائش نسل کے لیے رکھا ہے اور اس میں مزہ انسان کو اس کی طرف
راغب کرنے کے لیے عطا کیا ہے۔ اس میں لذت بھی ہے اور تخلیق کی کارروائی میں
حصہ لینے کا خوش آئند احساس بھی۔ یہ ایک بڑا ہی شدید اور انتہائی طاقت ور
جذبہ ہے۔ اگر یہ جذبہ اللہ کے احکامات کے مطابق نکاح کے قیود میں رہے تو
کنٹرول میں بھی رہتا ہے اور اللہ کی طرف سے انعام اور روح کی بالیدگی کابھی
ذ ریعہ بن جاتا ہے۔ اور پھر یہ کہ انسانی معاشرے کے نقوش بھی اسی سے
خوبصورت اور خوشنما ہوتے ہیں۔ اگر میں آپکو آج کے دور کے حوالے سے بتاؤں تو
جیسا کہ ہم سب بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ تنہائی میں شیطان بہت تیزی سے
حملہ آوڑ ہوتا ہے اسلئے مومن کو "پاک تنہائی" والا کہا گیا ہے ، پر یہ اتنا
آسان نہیں ہوتا کہ اپنی تنہائی پاک رکھی جا سکے اور پھر مغرب کی تقلید میں
"پرائیویسی" کے نام پر بچوں اور بچیوں کو ایک طرح سے مکمل تنہائی میسر
کردی گئی ، مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے والدین کی ہم پر ہر وقت نظر ہوتی
تھی ایک لگی بندھی زندگی تھی رات نو بجے تک سلا دیا جاتا تھا ٹی وی جہاں
رکھی ہوئی ہوتی تھی وہ ایسی جگہ تھی کہ جہاں تمام گھر والے ایک ساتھ بیٹھ
کر ڈرامہ دیکھا کرتے تھے صرف ایک یا دو چینل ہوئے کرتے تھے ، پر آج نہ صرف
بچوں کے کمرے میں الگ ٹی وی ہیں اور کمپیوٹر ہیں بلکہ مہنگے موبائل دے کر
شیطان کا کام اور بھی زیادہ آسان کردیا گیا آج آپ باوجود کوشش کے اپنے بچوں
کے ہر عمل و حرکت پر نظر نہیں رکھ سکتے . اسی سلسلے میں جب سینٹرل جیل
کراچی جانا ہوا تو جنسی جرائم میں ملوث قیدیوں سے بات کر کے معلوم پڑا کہ
ان میں سے اکثریت گناہ کرنے سے پہلے موبائل یا ٹی وی پر فحش مواد دیکھ رہے
تھے اورپھر شیطان کے اشتعال نے انہیں درندگی کی حد تک گرا دیا۔
.
( ب
)جسم کے درمیانی حصے یعنی پیٹ پر حملہ۔
اللہ پاک کا حکم ہے کہ حلال اور پاک
چیزیں کھاؤاور حرام سے اجتناب کرو۔ اللہ نے ہر دور میں حلال اور حرام
میں امتیاز قائم رکھا ہے اور واضح ہدایات دی ہیں۔ حلال کھانا حلال ذرائع سے
کمایا ہوا حلال مال عطا کر تا ہے۔ یہ جسمانی ترقی ، روحانی بالیدگی اور
معاشرتی حسن پیدا کرتا ہے۔ ابلیس نے پہلے تو حرام مال کمانے پر لگا یا اور
پھر پیزا ، میکڈونلڈ ، ہارڈیز ، کے ایف سی اور دیگر نشہ آور اور نقصان دہ
چیزوں کی طرف راغب کردیا۔ اور ان کے حصول کے لیے حیلوں بہانوں سے لالچ
دلائی کہ وہ رشوت، حرام خوری وغیرہ سے ان کو حاصل کرے۔ میرے باوا جی کہتے
ہیں " جہانگیر پتر انسان جو بھی کھاتا ہے اسکی ذات میں اس شے کے خواص آنے
لگتے ہیں جیسے شراب کے خواص میں بہادری اور بےشرمی شامل ہے اسلئے تو دیکھے
گا کہ شراب پینے کے بعد بزدل سے بزدل آدمی خود کو شیر سمجھنے لگتا ہے اور
بےشرمی کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے ماں بہن کی بھی تمیز نہیں رہتی
ہے ، مغرب والے اگر بےغیرتی میں عروج پر پہنچے ہوئے ہیں تو صرف انکی خوراک
دیکھ وہ شراب پیتے ہیں وہ سور کھاتے ہیں اب سور کے خواص اور ان انسانوں کے
خواص میں کیا فرق ہے جو بہن بھائی کے پاکیزہ رشتے پر بھی گندی نظریں ڈالنے
سے باز نہیں آتے۔
"
( ج )جسم کے اہم حصے دل پر حملہ۔
ہمارا دل حق کی
آماجگاہ ہے۔ حق جو عدل ہے ، محبت ہے ، عقل ہے ، عزت ہے اور انسان کی بلندگی
اور شرف کی علامت ہے۔آج کے دور میں ہم ان تمام چیزوں سے مکمل طور پر عاری
ہوگئے ہیں۔ہم ترقی کی دوڑ میں ایسے بگٹٹ بھاگے جارہے ہیں کہ دوسروں کا دل
توڑنا ، دوسروں کی عزتوں کو پامال کرنا ، کوئی مشکل نہیں۔ صرف اپنا فائدہ
سب سے اہم ہے۔ اس لیے کہ ابلیس کے نظام میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ 'آپ
بھلا توجگ بھلا'۔ محبت ، رواداری ، نرمی ، اخلاص ، اکرام ، ذاتی اغراض سے
بالا ہوکر دوسرے کے لیے کچھ کر دینا اب اس معاشرے میں مشکل ہوتا جارہا
ہے۔اس کے ساتھ ہی ہماری آنکھیں حق کو دیکھنے سے عاری ہوتی جارہیں۔ہم اللہ
کے بتائے ہوئے اصول معاشرت سے دور ہوتے جارہے ہیں پتھر دل ہوتے جارہے ہیں۔
باوا جی کہتے ہیں " جہانگیر پتر آنکھیں حق دیکھنے سے عاری کبھی نہیں ہوتی
ہیں آنکھوں کا کام دیکھنا ہے اور وہ بس دیکھتی ہیں پر اسکے دیکھے کو حق اور
ناحق میں تولنا دل کے فلٹر کا کام ہے دل ہی حق اور باطل کی سوچ کو الگ الگ
کر کے دماغ تک پہنچاتا ہے جو دل ہی پتھر ہوجاۓ کیا وہ کبھی حق اور باطل
میں انصاف کرےگا ؟ اسلئے اپنے دل کو پاک رکھ اور قرآن پاک میں دیکھ کے الله
پاک نے اندھا گونگا بھرا انہیں نہیں کہا جو آنکھ زبان یا کان سے محروم ہیں
بلکہ یہ انہیں ہی کہا ہے جنکے دل کالے ہو چکے ہیں اگر دل کالا ہوجاۓ تو
آنکھ کان زبان سب بیکار ہیں کہ وہ کبھی حق کی طرف نہیں جایئں گے۔
"
(
د )جسم کے بالائی حصہ حلق پر حملہ۔
ہمارا حلق جو ہمیں ایک دوسرے سے رابطہ
کرنے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے ابلیس اس کو خاموش
کرانا چاہتا ہے۔ ہزاروں برسوں سے ہم اپنی محبت ، شفقت ، نفرت ، غصہ سب کا
اظہار اپنی زبان اور حلق سے کرتے چلے آئے ہیں مگر آج کے ابلیسی نظام کے تحت
حلق کا استعمال کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ آج ہم اپنے جذبات دوسروں تک
پہنچانے کے لیے انٹر نیٹ کا سہارا لیتے ہیں ، ایس ایم ایس کرتے ہیں ، کسی
سے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے اس کے نام ایک گانا نشر کرا دیتے ہیں یا پھر
پھول اور کارڈ بھیج دیتے ہیں۔یوں ہم آہستہ آہستہ اپنے ہی خول میں بند ہوتے
جارہے ہیں۔ دوسروں سے سروکار رکھنے کا سلسلہ ختم ہورہا ہے۔ خاموش رہو خوش
رہو۔ اپنے خول میں بند ہوجانے اور اپنے ارد گرد کے حالات سے غیر دلچسپی
شیطان کے اپنے حق میں بہت بہتر ہے۔ انسانیت کمزور پڑتی ہے اور متحدہ محاذ
نہیں ملتا۔ باوا جی کہتے ہیں " پتر اپنی بات اپنی آواز میں پہنچایا کر بعض
اوقات لکھے الفاظ بولے الفاظ کا نعمل بدل نہیں ہو سکتے تو دیکھنا اگر تو
کبھی کسی بہت اپنے سے ناراض ہوجا تو اسکے کسی اور کی طرف سے لاکھ پیغام پر
تو جواب نہیں دے گا پر جب اسکی آواز تیرے کان میں پہنچے گی تو بے اختیار تو اس
طرف دیکھنے پر مجبور ہوگا . آوازوں کی فریکوئنسی ہوتی ہے جو مختلف دلوں پر
مختلف اثر کرتے ہیں جیسے تو ایک بھیڑ میں ہے ہزاروں آوازیں ہوں گی پر انہی
ہزاروں آوازوں میں سے ایک تیری ماں کی آواز ابھرے گی تو سب بھول کر تیرے
کان کھڑے ہوجائیں گے اور تو بے اختیار اس طرف نظر دوڑا دے گا . اسلام کی تبلیغ
کرتے وقت کفار حضور پاک ﷺ کے پاس سے کان بند کر کے گزرا کرتے تھے کہ اگر
انکی آواز کان میں پڑ گئی تو کہیں ہم مسلمان نہ ہوجائیں . خود سوچ
جہانگیر پتر سوہنے محبوب جاناں ﷺ کی آواز آئے اور دل نہ پگھلے یہ بھلا
ممکن ہے ؟
"
( ذ ) تخلیق کے شاہکار دماغ پر حملہ۔
انسانی دماغ جو
سوچ ، فکر ، عمل اور اختیارات کا منبع ہے اس پر حملہ کرکے ابلیس نے اس کو
پراگندہ کر دیا ہے۔ وہ دماغ جو اپنی فطری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے
خود اپنے اور اپنے خالق کے درمیان رابطے اور سمجھنے کا ایک آلہ ہے اس کو
ایسا بے کار اور پراگندہ کر دیا ہے کہ اب یہ دماغ صرف وہ سنتا ہے جو میڈیا
سناتا ہے ، وہ دیکھتا ہے جو میڈیا دکھا تا ہے، وہ جانتا ہے جو میڈیا
سمجھاتا ہے۔اس کی اپنی ذاتی سوچ اور فکر کی صلاحیتیں معدوم ہو گئی ہیں
نتیجہ کے طور پر قوت فیصلہ اور قوت ارادی بھی کمزور پڑ گئی ہے۔اللہ سے رشتہ
کاٹ کر یہ سمجھایا جارہا ہے کہ دنیا میں نفرت ، قتل و غارت گری، بدامنی
اور پراگندگی صرف مذہب کی وجہ سے ہے۔ مذہب نفرت کرنا سکھاتا ہے اور مخالفین
کو مٹا دینے کا سبق دیتا ہے۔اس لیے دنیا کو ایک ایسی اکائی میں تبدیل
کردیا جائے جس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہ ہواور اسی کی بنیاد پر معاشرہ
قائم کیا جائے۔ پھر ہر طرف امن و سکون ہوگا، چین و اطمینان ہوگااور ہر
انسان خوب ترقی کرے گا۔ہر ایک کو شخصی آزادی ہو جس کا جو دل چاہے کرے۔ یہی
سوچ اور یہی تربیت آج کل دی جارہی ہے اور دماغ کو اس پر راضی کیا جا رہا
ہے۔ اس بات سے توجہ مکمل طور سے ہٹا لی گئی ہے کہ مذہب انسان کو قوانین و
ضوابط کا پابند کرتا ہے اور ایک ایسی زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے جہاں
برابری ہو اور بہتر مستقبل اللہ کی حاکمیت اور اس کے بتائے ہوئے راستوں کے
ذریعہ حاصل ہو۔آج کے اس دجالی سوچ کے زیر اثر تاریخ انسانی کے بہترین دور
یعنی دور خلافت راشدہ کی کوئی بات نہیں کرتاجہاں امن بھی تھا بھائی چارہ
بھی تھا، سکون بھی تھا اور انصاف بھی تھا۔ جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت
بھی ہوتی تھی۔ ہر کوئی برابر تھا چوری رہزنی بھی نہیں تھی، تجارت آزاد اور
شفاف تھی۔ یہ ہمیں آج سکھا رہے ہیں اور سمجھا رہے ہیں کہ تاریخ انسانی کا
زریں دور رومیوں یونانیوں کی حکومتوں میں تھا۔ وہ ہمیں روسی سوشلزم کے
طریقہ کار کو سمجھا رہے ہیں برطانیہ کی جمہوریت کا سبق دے رہے ہیں
اورامریکی صدارتی نظام حکومت پر انگشت بدنداں کررہے ہیں۔ مگر جو ہر لحاظ سے
بہترین دور انسانی حکومت تھا اس کا کوئی تذکرہ کیوں نہیں ہوتا۔اس لیے کہ
انہیں معلوم ہے کہ خلافت راشدہ کا نظام جس دم قائم ہوگیا شیطان کا پھیلا یا
ہوا سودی نظام دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گا۔
سب سے خطرناک حملہ ( روح پر حملہ)
ہماری روح کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ امر ربی ہے خواہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ انسانی تخلیق کی انتہا اسی روح کا افضل ترین درجہ پر پہنچ جانا ہے۔ روح کا یہی عروج انسان کو اللہ کا نائب بن جانے کے درجہ کا حق دار بنا دیتا ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب اللہ اور اس کے برحق رسولوں کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیمات پر عمل در آمد ہو۔ اللہ کی نازل کی ہوئی کتابوں سے ہدایت اور روشنی حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو ان ہی اصولوں پر استوار کر لیا جائے اور یہی کام ابلیس نے ہونے نہ دیا۔ اس نے سب سے پہلے اللہ کی کتابوں کو غائب کرا دیا اور اس کی جگہ لوگوں سے دوسری کتابیں لکھوادیں تاکہ اللہ کے احکامات سے انحراف ہو جائے اور انسانیت اپنے راستے سے بھٹک جائے۔ نہ ہدایت ہو ، نہ روشنی ہو ، نہ راستہ نظر آئے نہ کوئی سیدھے راستے پر چلے۔ یہی اس کا مطمح نظر تھا۔ انسانی روح کو نیچے گرانے کا ایک اور ذریعہ ذکر سے دوری ہے۔آج ہماری کتاب ہدایت اپنی اصل حالت میں اللہ کے حکم سے موجود ہے۔ الحمد للہ۔ ابلیس اس کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے دوسری چال چلی اور ہمیں ایسا بھٹکا یا کہ کتاب کی موجودگی کے باوجود ہم نہ اس کو کھول کر پڑھیں نہ سمجھیں نہ ہدایت پائیں۔ نہ فکر کریں نہ ذکر کریں۔ ہم لوگوں نے فکر اور ذکر کو یکسر بھلا دیا ہے۔ اس کی یہ خوبی ہے کہ یہ انسان کو اللہ کے نزدیک کردیتا ہے، سوچ کے اوپر قابو پانا سکھاتا ہے ، اُن معاملات کی سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے جو سرسری طور پر سمجھ میں نہ آتے ہوں، انسانی ذات میں نکھار پیدا کرتا ہے اور اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو واضح کرتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ہر بڑے آدمی نے ذکر و فکر وغیرہ کے عمل کے ذریعہ بلندی حاصل کی۔ مگر ہم نے ان اعمال کو فضول سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کو زبان کی تسبیح بنالینے اور سوچ کا محور کرلینے سے روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ بقول باوا جی کہ " جب جب آپ جسمانی چیزوں سے خود کو دور کرتے جاؤ گے آپکی روحانیت مضبوط ہوتی جاۓ گی آپ جسم کے لئے اپنا غرض چھوڑیں گے تو آپکی روح میں بے لوثیت آئے گی آپ جسم کا بدلہ چھوڑو گے تو روح میں صبر آئے گا . آپ جسم کے لئے دنیاوی مال چھوڑو گے تو روح میں حق کا کلمہ پڑھنے کی طاقت آئے گی .
اگر اسکے برعکس آپ دنیاوی مال کی طرف جاؤ گے تو آپکی روح سے شکر ختم ہوتا جاۓ گا آپ بدی کی طرف جاؤ گے تو آپکی روح کی فکر ختم ہوجانی اور جب آپ ظلم کی طرف جاؤ گے تو روح سکڑ کر جسم کے ایک کونے میں جا چھپتی ایک بوڑھے ٹی بی زدہ مریض کی طرح اور آپ دیکھو گے کہ ایسا شخص جو برائی میں پڑا ہوا ہوگا وہ کبھی بھی تنہائی پسند نہیں ہوگا کہ جب جسم تنہا ہوتا ہے تو روح اسکی تنہائی دور کرتی ہے پر جب روح ہی آنکھیں بند کر کے ایک کونے میں جا چھپی ہو تو تنہائی وحشت میں بدل جاتی ہے اور انسان جو کہ محض ایک جسم ہی رہ گیا ہوتا ہے دنیاوی چیزوں میں ہی نجات ڈھونڈتا ہے اور جہاں دنیاوی چیزوں کی طرف بڑھا سمجھو وہیں شیطان کے گڑھے میں گرا۔ .. "
ہماری روح کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ امر ربی ہے خواہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ انسانی تخلیق کی انتہا اسی روح کا افضل ترین درجہ پر پہنچ جانا ہے۔ روح کا یہی عروج انسان کو اللہ کا نائب بن جانے کے درجہ کا حق دار بنا دیتا ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب اللہ اور اس کے برحق رسولوں کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیمات پر عمل در آمد ہو۔ اللہ کی نازل کی ہوئی کتابوں سے ہدایت اور روشنی حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو ان ہی اصولوں پر استوار کر لیا جائے اور یہی کام ابلیس نے ہونے نہ دیا۔ اس نے سب سے پہلے اللہ کی کتابوں کو غائب کرا دیا اور اس کی جگہ لوگوں سے دوسری کتابیں لکھوادیں تاکہ اللہ کے احکامات سے انحراف ہو جائے اور انسانیت اپنے راستے سے بھٹک جائے۔ نہ ہدایت ہو ، نہ روشنی ہو ، نہ راستہ نظر آئے نہ کوئی سیدھے راستے پر چلے۔ یہی اس کا مطمح نظر تھا۔ انسانی روح کو نیچے گرانے کا ایک اور ذریعہ ذکر سے دوری ہے۔آج ہماری کتاب ہدایت اپنی اصل حالت میں اللہ کے حکم سے موجود ہے۔ الحمد للہ۔ ابلیس اس کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے دوسری چال چلی اور ہمیں ایسا بھٹکا یا کہ کتاب کی موجودگی کے باوجود ہم نہ اس کو کھول کر پڑھیں نہ سمجھیں نہ ہدایت پائیں۔ نہ فکر کریں نہ ذکر کریں۔ ہم لوگوں نے فکر اور ذکر کو یکسر بھلا دیا ہے۔ اس کی یہ خوبی ہے کہ یہ انسان کو اللہ کے نزدیک کردیتا ہے، سوچ کے اوپر قابو پانا سکھاتا ہے ، اُن معاملات کی سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے جو سرسری طور پر سمجھ میں نہ آتے ہوں، انسانی ذات میں نکھار پیدا کرتا ہے اور اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو واضح کرتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ہر بڑے آدمی نے ذکر و فکر وغیرہ کے عمل کے ذریعہ بلندی حاصل کی۔ مگر ہم نے ان اعمال کو فضول سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کو زبان کی تسبیح بنالینے اور سوچ کا محور کرلینے سے روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ بقول باوا جی کہ " جب جب آپ جسمانی چیزوں سے خود کو دور کرتے جاؤ گے آپکی روحانیت مضبوط ہوتی جاۓ گی آپ جسم کے لئے اپنا غرض چھوڑیں گے تو آپکی روح میں بے لوثیت آئے گی آپ جسم کا بدلہ چھوڑو گے تو روح میں صبر آئے گا . آپ جسم کے لئے دنیاوی مال چھوڑو گے تو روح میں حق کا کلمہ پڑھنے کی طاقت آئے گی .
اگر اسکے برعکس آپ دنیاوی مال کی طرف جاؤ گے تو آپکی روح سے شکر ختم ہوتا جاۓ گا آپ بدی کی طرف جاؤ گے تو آپکی روح کی فکر ختم ہوجانی اور جب آپ ظلم کی طرف جاؤ گے تو روح سکڑ کر جسم کے ایک کونے میں جا چھپتی ایک بوڑھے ٹی بی زدہ مریض کی طرح اور آپ دیکھو گے کہ ایسا شخص جو برائی میں پڑا ہوا ہوگا وہ کبھی بھی تنہائی پسند نہیں ہوگا کہ جب جسم تنہا ہوتا ہے تو روح اسکی تنہائی دور کرتی ہے پر جب روح ہی آنکھیں بند کر کے ایک کونے میں جا چھپی ہو تو تنہائی وحشت میں بدل جاتی ہے اور انسان جو کہ محض ایک جسم ہی رہ گیا ہوتا ہے دنیاوی چیزوں میں ہی نجات ڈھونڈتا ہے اور جہاں دنیاوی چیزوں کی طرف بڑھا سمجھو وہیں شیطان کے گڑھے میں گرا۔ .. "
تحریر: ملک جہانگیر اقبال
—
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں