دائرے



ہم دلوں کے اندازے اس طرح بھی کرتے ہیں
ملنے جلنے والوں سے بے وجہ بھی ڈرتے ہیں

مطمئن بھی رہتے ہیں ، ہے عجب سی الجھن بھی
ڈولتی ہیں دیواریں ناچتا ہے آنگن بھی

چل رہے ہیں مدت سے ، راستہ نہیں کوئی
ربط ہے ہزاروں سے ، رابطہ نہیں کوئی

دھوپ سے شکایت ہے ، چاندنی سے کیا کہئیے
ہر کسی سے کہتے ہیں ، ہر کسی سے کیا کہئیے

یہ بھی ایک بہانہ ہے کس طرف نہیں جاتے
اس طرف بھی جانا ہے جس طرف نہیں جاتے

آنچ جیسی لگتی ہے ، جسم کی یہ برفابی
دھندلکے بناتی ہے ، ہر فضائے مہتابی

سوچتی ہیں یہ آنکھیں ، منظروں میں منظر کو
ڈھونڈتی ہو جیسے موج ، اپنے ہی سمندر کو

ریت پہ بنے پیکر کھیل ہیں لکیروں کے
پانیوں کے اندر ہیں کچھ خواب جزیروں کے

کوئی پھانس جیسی چیز ذہن میں کھٹکتی ہے
روشنی کے اندر سے تیرگی جھلکتی ہے

ہر سکون باطن میں اضطرار جیسا ہے
ارتکاز بھی جیسے انتشار جیسا ہے

دائروں کے اندر بھی دائرے ہی پنہاں ہیں
جسم ہے کہ ساکت ہے اور سائے رقصاں ہیں

خامشی میں گم صم ہے عرضِ حال کی صورت
ہے عروج پر اپنے ہر زوال کی صورت

کیا خیال کیا مضموں ، سب کے سب ہیں لایعنی
حرف حرف بے حرمت لفظ لفظ بے معنی

احمد صغیر صدیقی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں