دو بھید بھری آنکھیں
اک خواب کی چلمن سے، ہر رات مجھے دیکھیں
دو بھید بھری آنکھیں
ہر صبح کو چڑیوں کی چہکار میں ڈھل جائیں
پھولوں کی قبا پہنیں
شبنم میں بدل جائیں
ہر شام ہوائوں سے احوال میرا پوچھیں
دو بھید بھری آنکھیں
کرتی ہیں عجب باتیں، کاجل کی زباں سے یہ
دل لیتی چلی جائیں، انداز بیاں سے یہ
دو بھید بھری آنکھیں
اک خواب کی چلمن سے ہر رات مجھے دیکھیں
دو بھید بھری آنکھیں
امجد اسلام امجد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں