اے میرے کبریا
اے انوکھے سخی
اے میرے کبریا
میرے ادراک کی سرحدوں سے پرے
میرے وجدان کی سلطنت سے ادھر
تیری پہچان کا اولیں مرحلہ
میری مٹی کے سب ذائقوں سے جدا
تیری چاہت کی خوشبو کا پہلا سفر
میری منزل??
تیری رہگزر کی خبر
میرا حاصل?
تیری آگہی کی عطا
میری لفظوں کی سانسیں
تیرا معجزہ
میرے حرفوں کی نبضیں
تیرے لُطف کا بیکراں سلسلہ
میرے اشکوں کی چاندی
تیرا آئینہ
میری سوچوں کی سطریں
تیری جستجو کی مسافت میں گُم راستوں کا پتا
میں مسافر تیرا (خود سے نا آشنا)
ظُلمت ذات کے جنگلوں میں گھرا
میں مسافر تیرا
محسن نقوي
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں