ہمیشہ خواب لائے ہو کبھی تعبیر لے آو
زباں بھی بند کرلیتے مگر اب حکم آیا ہے
تصور کے لیے بھی آہنی زنجیر لے آو
... ...
مرے خوابوں بڑی مشکل سے اس دل کو سلایا ہے
کہیں ایسا نہ ہو تم پھر وہی تصویر لے آو
ہمارا قتل ایسا بھی کوئی مشکل نہیں یاروں
جگر ہاتھوں پہ رکھا ہے تم اپنے تیر لے آو
مری گمنامی پر یہ مشورہ ہے اہل دنیا کا
قلم کو بیچ کر بازار سے شمشیر لے آو
سنہرے بال کھولے منتظر بیٹھی ہے جو کب سے
مصدق زندگی سے اپنی وہ تقدیر لے آو