وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ

وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (سورہ الشعراء)

یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے. اس میں ایک باریک نکتہ یہ ہےکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ جب وہ مجھے بیماری دیتا ہےتو وہی شفا دیتا ہے. بلکہ یہ کہا کہ جب “میں “بیمار پڑتا ہوں تو وہ شفا دیتا ہے. یعنی بیماری کے عمل کو اپنی جانب منسوب کیا اور شفا کو خدا سے منسوب کیا. یہی پیغمبروں کی خدا سے محبت اور ادب ہے جسے ہمیں ماننا ضروری ہے.

بیماری کا اذن یعنی اجازت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے لیکن بیماری کا سبب یا تو ہماری اپنی کوئی کوتاہی ہوتی یا خدا کی جانب سے آزمائش یا دونوں۔ جیسے سگریٹ پینے پر ہارٹ اٹیک کا ہونا ہماری اپنی کوتاہی ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کا بیماری میں مبتلا ہونا آزمائش ہے وغیرہ۔ چونکہ ہم متعین طور پر نہیں جانتے کہ بیماری ہماری کسی کوتاہی کی بنا پر ہے یا خدا کی جانب سے ، اس لیے اس کی نسبت اپنی ہی جانب کرکے اپنی کوتاہی تلاش کرنا اور اس کی اصلاح کرنا ہی درست رویہ ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل

2 تبصرے:

  1. جی بجا فرمایا۔
    انسان کو جو تکلیف پہنچتی ہے، اس کے اعمال کی وجہ سے۔ جب کہ کوئی فقط و فقط سکھ اللّٰہ تعالٰی کے فضل و کرم سے۔

    جواب دیںحذف کریں