گناہ کیوں نہیں چھوٹتے؟ نفس کی کمزوریوں پر قابو پانے کی حقیقت
منقول تحریر
"گناہ نہیں چھوٹتے، دل نہیں بھرتا" یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ہم خواہ کتنی ہی کوششیں کر لیں، ہماری نفسانی کمزوریاں ہمیشہ جیت جاتی ہیں، اور ہمارا تقویٰ، خوفِ خدا، تلاوت اور خوفِ جہنم ہار جاتے ہیں۔ یہ ایک عالمی سچائی ہے، اور اسے سمجھنا ہی حل کی طرف پہلا قدم ہے۔
لت (Addiction) کیا ہے؟ یہ اچھی ہے یا بُری؟
انسان کے دل میں کسی چیز یا عمل کی انتہائی محبت اور اس پر عمل کرنے کی مجبوری پائی جاتی ہے، اسی کو "لت" یا "نشہ" کہا جاتا ہے۔
یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ اصل میں، معاشرہ کسی لت کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کرتا ہے۔ دن رات کتابیں پڑھنا بھی لت ہے اور دیگر غیر پسندیدہ عادات بھی۔ لت اور کچھ نہیں، بلکہ ہمارے دماغ کی ٹریننگ ہے جو ہم لاشعوری طور پر کرتے ہیں۔
جب ہم کوئی کام جو لذت آمیز ہو (جیسے ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا) بار بار کرتے ہیں، تو دماغ اس کی غیر موجودگی میں بے چینی محسوس کرتا ہے اور ہمیں وہ کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
دماغ ایک اندھیرے کمرے میں
ہمارا حیوانی دماغ ایک اندھیرے کمرے میں بند ہے۔ اسے صحیح اور غلط کا پتا نہیں۔ ہم جس چیز کی عادت ڈالیں گے، وہ عادت دماغ اپنا لے گا اور اس کی کمی کا احساس دلائے گا۔
اس حیوانی دماغ پر "شعور" (Consciousness) موجود ہے، جو عمل کے اثرات کا احساس دلاتا ہے، اور شعور کا حاکم ہے "ضمیر" (Conscience) جو اچھے یا برے ہونے کا حکم لگاتا ہے۔
کلیدی نکتہ: شعور اور ضمیر کی تربیت ضروری ہے۔ یہ بغیر علم کے بے کار ہیں۔ ہمارا ماحول (جیسے یورپ یا پاکستان) ان کی ٹریننگ کرتا ہے۔
دین، شعور کی تربیت کا نام ہے
دین بھی اور کچھ نہیں، بلکہ ہمارے انفرادی اور پھر اجتماعی شعور کی تربیت ہے۔ آدم علیہ السلام کو جو دیا گیا، وہ یہی شعور تھا: "درست" اور "غلط" کا ادراک کرنے کی صلاحیت۔
اللہ کو ہماری عبادت کیوں نہیں چاہیے؟
یہ ایک خوش فہمی ہے کہ ہم اللہ کے لیے عبادت کر رہے ہیں۔
"عبادات کا مقصد بھی ہمارے شعور کی تربیت اور ضمیر کو طاقتور بنانے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اللہ کو اس کائنات میں ریت کے ذرے سے بھی چھوٹے سیارے کی ایک ایٹم سے بھی چھوٹی مخلوق کی اٹھک بیٹھک، بھوک پیاس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ سب ہماری ٹریننگ ہے، ہماری عبادات ہمارے لیے ہیں۔"
آپ کی نماز گناہوں سے کیوں نہیں روکتی؟
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو آپ کو جواب مل گیا ہوگا کہ آپ کی نماز گناہوں سے کیوں نہیں روکتی، روزے سے نفس کیوں قابو نہیں آتا، اور زکوٰۃ کے باوجود حرام کمائی نہیں رکتی۔
نماز ہمیں کیسے روکے گی جب ہم اس سے ضمیر و شعور کی تربیت کے بجائے "جادو" کی توقع رکھیں گے؟
صحابہؓ کو نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھنے کا حکم اسی لیے دیا گیا تاکہ وہ سمجھیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ صرف بڑبڑانے سے فقہ کی نماز ادا ہو جائے گی مگر روح پیاسی رہے گی۔
شعوری تربیت کا راستہ: قرآن اور نماز
ہمیں نماز میں اپنے شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔
* سورہ زلزال پڑھ کر کام چوری مشکل، جب معلوم ہو کہ ہر عمل دوبارہ دیکھیں گے۔
* سورہ تکاثر پڑھ کر مال کی محبت میں بے ایمانی مشکل۔
* سورہ ھمزہ پڑھ کر غیبت و بہتان مشکل۔
* سورہ ماعون پڑھ کر ریاکاری اور بخیلی مشکل۔
* سورہ اخلاص سے شرکیہ عقائد سے نجات اور معوذتین سے جادو اور بری نظر کے ڈر سے چھٹکارا۔
قرآن کی آخری پارے کی سورتیں کمزور انسانوں کے لیے ہی رکھی گئی ہیں۔ نماز میں معنی کا دھیان رکھ کر پڑھیے، دعا اور استقامت سے مدد لیجیے، اور پھر آپ کا شعور خود بخود آپ کی ترجیحات بدل دے گا۔
کامیابی کی گارنٹی نہیں: اللہ کا قانون
کیا صرف یہ سب کافی ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ کامیابی یقینی اور دیرپا ہونے کی گارنٹی، بالکل نہیں۔
قرآن میں حضرت داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف علیہم السلام کے قصص اسی لیے بیان ہوئے ہیں کہ ہم جان جائیں کہ عبادات کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے باوجود بھی نفس اور شیطان جیت جاتے ہیں۔
یہ اللہ کا قانون ہے کہ وہ ہم کو آزمائے گا۔ جنت کوئی سستی چیز نہیں۔
لغزش اور توبہ
قوموں نے معجزے دیکھ کر انکار کیا تو تباہ کر دیا گیا، مگر انبیاء سے وحی و معجزے دیکھنے کے بعد بھی لغزش ہوئی، مگر اللہ کی رحمت نے ڈھانپ لیا۔ کیوں؟
کیونکہ وہ پلٹ آئے، ناامید نہیں ہوئے، بہانہ بازی نہیں کی، اور ہٹ دھرمی نہیں دکھائی۔ فوراً "سوری سر" بول کر کام پر لگ گئے۔
حل صرف ایک ہے: پلٹنا (توبہ)
اللہ نے ہی انسانی فطرت کے داعیات رکھے ہیں، اس لیے وہ جانتا ہے کہ ہم 100/100 نہیں لے سکتے۔ اسی لیے اس نے رحمت کو اپنے اوپر واجب کیا ہے، عدل کو نہیں۔
* عبادات: عبادات ہم کو شہوات کو برداشت کرنے کی قوت دیتی ہیں، ان کا خاتمہ نہیں کرتیں۔ جہاں سستی دکھائی، وہاں شہوت مغلوب کر لے گی۔
* استقامت: ہمارا کام یہ ہے کہ ہم جہاں پھسلیں، دوبارہ کام پر لگ جائیں، اور بس۔
* ماحول کی تبدیلی: اپنے نفس کا مطالعہ کریں، کمزوریوں کا اقرار کریں، اور جہاں آپ کمزور پڑ سکتے ہیں وہاں ایسی تبدیلی لائیں کہ گناہ مشکل ہو جائے۔ اپنے "ٹریگرز" (اشتہا میں اضافہ کرنے والی چیزیں) سے بچیں۔
* اللہ سے ڈائریکٹ ڈائلنگ: آپ بات تو کریں، وہ فوراً جواب دیتا ہے، اس کا نمبر کبھی بزی نہیں ہوتا۔ اس کو مسئلہ ہے کہ ہم پلٹتے ہیں یا نہیں؟
یہ زندگی شہوتوں اور لذتوں کا کھیل ہے۔ ہر حال میں ہارنا ہی ہمارا مقدر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر ہار کے بعد دوبارہ کوشش کرنی ہے، اٹھنا ہے نئے عزم کے ساتھ، ہر بار توبہ کرنی ہے حتیٰ کہ موت آکر ہمیں ساتھ لے جائے!


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں