خلیفہ فی الارض ۔۔ از استاد نعمان علی خان

 




خلیفہ فی الارض: 

حضرت آدمؑ کی کہانی اور ہم زمین پر کیوں ہیں؟

Khalifah on Earth: The Real Story of Adam | Story Night: Fallen | Nouman Ali Khan


یاوپر لنک پر موجود ویڈیو  استاد نعمان علی خان کے  لیکچر سیریز 'Story night :Fallen' کا ایک حصہ ہے، جس میں وہ حضرت آدم علیہ السلام کی کہانی پر گفتگو کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں ایک عام غلط فہمی کو دور کر رہے ہیں۔


ویڈیو میں موجود گفتگو کا خلاصہ تحریر کی صورت میں درج ذیل ہے:


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم زمین پر کیوں ہیں؟ بہت سے لوگ ایک مقبول خیال سے متاثر ہیں کہ انسانوں کو یہاں بطور سزا بھیجا گیا ہے، کیونکہ ہمارے والد، حضرت آدم علیہ السلام، نے جنت میں ایک ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا تھا۔ یہ خیال، جو عیسائی اور یہودی عقائد میں گہرا ہے، کئی مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی جڑ پکڑ چکا ہے۔

لیکن قرآن اس کہانی کو ایک بالکل مختلف، ایک طاقتور اور باوقار انداز میں بیان کرتا ہے۔


کیا ہم زمین پر سزا کے طور پر بھیجے گئے؟ (ایک عام غلط فہمی)


عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ جب حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام نے بھول کر درخت سے کھا لیا، تو اس غلطی کے نتیجے میں خدا نے انہیں جنت سے نکالا اور انہیں زمین پر بھیج دیا تاکہ وہ اپنی غلطی کی قیمت ادا کریں۔

 * یہ تصور اس عقیدے کو جنم دیتا ہے کہ انسان "پیدائشی گناہ" (Born in Sin) کی حالت میں ہے اور اسے خود کو بچانے کے لیے کسی بیرونی نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔

 * لیکن قرآن اس بات کو سختی سے رد کرتا ہے۔ قرآن کے مطابق، ہم اپنے باپ کی غلطی کی قیمت ادا کرنے کے لیے یہاں نہیں ہیں، نہ ہی ہمارا زمین پر آنا کوئی سزا ہے۔


قرآن کا نقطہ نظر: خلیفہ فی الارض


قرآن مجید حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے کے منظر کو بیان کرتا ہے اور ایک بڑا انکشاف کرتا ہے:

 "اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا، میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں..." (سورۃ البقرہ)


یہ اعلان تخلیق کے عمل سے پہلے کیا گیا تھا! اس کا مطلب ہے کہ اللہ کا منصوبہ شروع سے ہی یہ تھا کہ انسان کو زمین پر رکھا جائے گا، اسے یہاں خلیفہ (نائب یا وائسرائے) کا درجہ دیا جائے گا۔

زمین پر بھیجا جانا سزا نہیں بلکہ منصوبے کا حتمی مرحلہ تھا، جہاں انسان کو اس کے روحانی اور جسمانی دونوں اجزاء کے ساتھ اللہ کا ذمہ دار نمائندہ بننا تھا۔


انتخاب کی آزادی اور ہماری بے پناہ قابلیت


جب اللہ نے خلیفہ بنانے کا اعلان کیا، تو فرشتوں نے انسان کے فساد اور خونریزی کے امکان پر سوال اٹھایا۔ گویا وہ کہہ رہے تھے کہ "اے اللہ! یہ تو صرف زمین پر گڑبڑ کرے گا!"

اللہ کا جواب گہرا تھا: "میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔"

انسان میں وہ کیا خاص بات ہے جس کے بارے میں فرشتے نہیں جانتے تھے؟

 * آزادیِ انتخاب: اللہ نے ہمیں یہ آزادی دی کہ ہم اپنے فیصلے خود کریں۔ اسی آزادی کی وجہ سے دنیا میں مسائل اور گڑبڑ ہوتی ہے، لیکن اسی آزادی کی وجہ سے انسانوں کو ان کے فیصلوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

 * مسائل حل کرنے کی صلاحیت: اللہ نے ہمیں زمین پر چھوڑ دیا تاکہ ہم خود اپنے لیے زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم کریں۔ ہمیں خود زراعت، ٹیکنالوجی، فنِ تعمیر، اور بقا کے طریقے سیکھنے پڑے۔ نعمہان علی خان کے مطابق: "یہ انسانوں کی ایک بہت ہی حیرت انگیز خوبی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ مسائل کو کیسے حل کرنا ہے۔"

 * عظیم ترین قابلیت: اللہ نے ہمیں یہ صلاحیت دی ہے کہ ہم خود چیزوں کا اندازہ لگا سکیں، انہیں حل کر سکیں۔ آپ کے اندر کی یہ قابلیت اتنی طاقتور ہے کہ اللہ نے تمام فرشتوں کو اسی قابلیت کی وجہ سے حضرت آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔


نتیجہ: آپ یہاں "ٹوٹے ہوئے" نہیں ہیں


یہ بات ذہن نشین کر لیں: آپ گناہ کی حالت میں پیدا نہیں ہوئے، اور آپ اس زمین پر کسی پرانے جرم کی سزا کاٹنے کے لیے نہیں ہیں۔

آپ یہاں اللہ کے خلیفہ کے طور پر ہیں، جسے مسائل حل کرنے، تعمیر کرنے اور خود فیصلہ کرنے کی بے مثال صلاحیت دی گئی ہے۔ اپنے اندر کی اس قابلیت پر بھروسہ کریں جو آپ کو یہ دنیا بہتر بنانے کے لیے دی گئی ہے۔

آپ کیا سوچتے ہیں؟ کیا آپ کو یہ جان کر حوصلہ ملا کہ آپ اس زمین پر سزا کے طور پر نہیں، بلکہ ایک مقصد کے تحت بھیجے گئے ہیں؟ اپنے خیالات کمنٹس میں ضرور بتائیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں