نورِ کہف: دجّال کے فریب کو توڑنے والی آیات کا راز









🌙 نورِ کہف: دجّال کے فریب کو توڑنے والی آیات کا روحانی راز


🕋 تمہید: فریب کے زمانے میں قرآن کا نور

دنیا ہمیشہ سے ایک میدانِ جنگ رہی ہے — حق اور باطل، نور اور ظلمت، ایمان اور فریب کے درمیان۔ جب فریب اپنی انتہا کو پہنچتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنی نشانیوں سے اہلِ ایمان کے دلوں کو منور کر دیتا ہے۔

ایسی ہی ایک روشنی ہے "سورۃ الکہف" — قرآنِ مجید کی وہ سورت جو وقت کے آخری فتنوں کے لیے ایک "روحانی قلعہ" ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 "جو شخص سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے، وہ دجّال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔"

 (صحیح مسلم)


یہ فرمان ہمیں ایک راز بتاتا ہے کہ دجّال کا مقابلہ ہتھیار سے نہیں، نور سے ہوگا۔ اور یہ نور ان دس آیات میں پوشیدہ ہے جو بندگی، ہدایت، اور فریب کے پار کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں۔

حصہ اوّل: سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات — حفاظتی کوڈ

سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات دراصل وہ روحانی کوڈ ہیں جو ہمارے شعور کو دجّالی نظام کی غلامی سے آزاد رکھتے ہیں۔

1. عبدیت کی معراج: آزادی کا دروازہ

 "تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی۔" (18:1)



اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سب سے پہلا وصف "عبد" یعنی بندہ قرار دیا۔ گویا، جو خود کو اللہ کا بندہ سمجھتا ہے، وہی حقیقت میں آزاد ہے۔ جو بندگی بھول جاتا ہے، وہ دجّال کے نظامِ غلامی میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ آیت اعلانِ جنگ ہے — فریبِ دجّال بندگی سے انکار ہے، اور قرآنِ مجید بندگی میں آزادی کا علمبردار ہے۔

2. قرآن کا سیدھا راستہ: فکر کی سیدھ

 "اور اس (کتاب) میں کوئی کجی نہیں رکھی گئی۔" (18:2)


دجّال کی دنیا "تصویر" ہوگی، مگر حقیقت نہیں۔ وہ جھوٹ کو سچ، زہر کو دوا، اور گناہ کو ترقی کے طور پر دکھائے گا۔ قرآن کہتا ہے: "قَیِّماً" — یہ کتاب سیدھی ہے، بغیر کسی خم کے۔ جو قرآن سے جڑ گیا، اس کے شعور میں فریب جگہ نہیں بنا سکتا۔ یہ آیت ہمیں فکر کی سیدھ عطا کرتی ہے۔

3. ابدی کامیابی اور دائمی شعور

 "جو ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔" (18:3)


یہ آیت انسان کو دائمی شعور عطا کرتی ہے۔ دجّال کا سب سے بڑا دھوکا "لامحدود دنیاوی زندگی" کا خواب ہے۔ مگر قرآن یاد دلاتا ہے کہ اصل زندگی آخرت ہے، اور دنیا کا دوام ایک سراب ہے۔

4. توحید: جھوٹی خدائی کا انکار

 "اور ڈرائے ان لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنایا۔ ان کے پاس اس کا کوئی علم نہیں۔" (18:4-5)


دجّال خود کو خدا یا خدا کا نمائندہ ظاہر کرے گا۔ مگر قرآن کی یہ آیات اعلان کرتی ہیں کہ اللہ واحد ہے، بے نیاز ہے۔ یہ آیات دجّال کی فکری خدائی کا توڑ ہیں، جو شرک پر مبنی ہے۔

5. دنیا کی زینت اور اصل امتحان

 "ہم نے زمین کو اس کی زینت بنایا تاکہ آزمائیں کہ کون بہتر عمل کرتا ہے۔ اور ہم اسے ایک دن بنجر بنا دیں گے۔" (18:7-8)


یہ آیت دجّال کے ظاہری فریب کی بنیاد توڑ دیتی ہے۔ دنیا کی چمک، ٹیکنالوجی، طاقت — سب امتحان ہیں۔ یہ سب عارضی ہیں، جیسے ریت پر بنا محل۔ قرآن یاد دلاتا ہے کہ زینت امتحان ہے، حقیقت نہیں۔

🌟 حصہ دوم: سورۃ الکہف کے چار قصے — دجّال کے چار فتنے

سورۃ الکہف میں چار تاریخی قصے ہیں، اور ہر قصہ دراصل ایک بڑے دجّالی فتنہ کا مقابلہ کرتا ہے۔ یہ قصے صرف تاریخ نہیں، بلکہ انسان کے باطن اور مستقبل کا آئینہ ہیں۔

1. اصحابِ کہف — دین اور ایمان کا فتنہ 🕋

یہ چند نوجوان تھے جنہوں نے باطل بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لیے غار میں پناہ لی۔ انہوں نے کہا: "اے ہمارے رب! ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے معاملے میں درست راہ پیدا کر۔" (18:10)

یہ دین کے فتنہ کا توڑ ہے۔ غار دراصل علامت ہے — اندرونی پناہ، جہاں ایمان بیرونی فریب سے بچا رہتا ہے۔ جب حق چھپ جائے تو ایمان والے اپنے دلوں کو "غارِ ایمان" میں محفوظ کرتے ہیں۔

2. صاحبِ دو باغ — مال اور غرور کا فتنہ 💰

یہ شخص دولت اور باغات میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ دجّال کے مالی فریب کا اشارہ ہے۔ دجّال انسان کو دنیاوی آسائشوں سے غلام بنائے گا، جو کہ مادّی استحکام کا غرور ہے۔

قرآن نے بتایا کہ جب ایک لمحہ آیا تو سب تباہ ہو گیا۔ یہ پیغام تھا کہ کائنات کا ہر سسٹم فانی ہے، اور دولت فنا ہوتی ہے، مگر نیک عمل باقی رہتا ہے۔

3. موسیٰؑ اور خضرؑ — علم اور عقل کا فتنہ 🧠

یہ قصہ علم کے تکبّر کا علاج ہے۔ موسیٰؑ کو خضرؑ کے پاس بھیجا گیا تاکہ وہ سیکھیں کہ الہی علم، ظاہری عقل سے بالاتر ہے۔

یہ قصہ انسان کے "سائنس اور عقل کے غرور" کو چیلنج کرتا ہے۔ دجّال کا سب سے بڑا ہتھیار علم اور ٹیکنالوجی ہے، مگر وہ علم روح سے خالی ہے۔ یہ قصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ سچائی ہمیشہ دو جہتوں میں ہوتی ہے: ظاہر اور باطن۔

4. ذوالقرنینؑ — طاقت اور اقتدار کا فتنہ ⚔️

ذوالقرنینؑ ایک عادل بادشاہ تھے، جنہوں نے اپنی طاقت کو اللہ کے حکم کے تابع رکھا۔ انہوں نے یاجوج و ماجوج کے حملے کو روکنے کے لیے ایک اخلاقی، روحانی اور سچائی کی دیوار تعمیر کی۔

دجّال طاقت کو عبادت بنائے گا، مگر ذوالقرنینؑ طاقت کو امانت سمجھتے ہیں۔ یہ قصہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ طاقت کا اصل امتحان یہ ہے کہ تم طاقت کے ساتھ انصاف کیسے کرتے ہو۔

🧩 خلاصہ: چار فتنے اور ان کے قرآنی علاج

| فتنہ (دجّالی نظام کا حملہ) | قصہ (روحانی قلعہ) | علاج (باطنی دفاع) |

| دین کا فتنہ (آئیڈیالوجی) | اصحابِ کہف | ایمان اور صبر |

| مال کا فتنہ (معیشت و غرور) | دو باغوں والا | زہد اور شکر |

| علم کا فتنہ (عقلی تکبر) | موسیٰ و خضرؑ | تواضع اور بصیرت |

| طاقت کا فتنہ (اقتدار و ٹیکنالوجی) | ذوالقرنینؑ | عدل اور بندگی |

🌙 نتیجہ: نورِ کہف — ایک زندہ معجزہ

سورۃ کہف صرف تاریخ نہیں، یہ ایک حیاتیاتی کوڈ ہے جو انسانی روح کو دجّال کے وائرس سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی پہلی دس آیات نورِ معرفت کی حفاظتی کوڈ ہیں، اور اس کے چار قصے اس نور کو ایک مضبوط دیوار میں بدل دیتے ہیں۔

جب دنیا فریب میں گم ہو جائے، تب یہی سورت ایک روحانی GPS بن کر ہمیں حقیقت کا راستہ دکھاتی ہے۔

آخری پیغام: دجّال کے فریب کو پہچاننا علم نہیں، بصیرت ہے۔ اور سورۃ الکہف وہ آئینہ ہے جو انسان کو اُس کے باطن میں چھپے دجّال سے بھی بچاتی ہے۔ جو سورۃ کہف کو سمجھے گا، وہ جان لے گا کہ دجّال کا سب سے بڑا ہتھیار "فریبِ ادراک" ہے، اور اس کا توڑ "نورِ قرآن" ہے۔

🌙 نورِ کہف: دجّال کے فریب کو توڑنے والی آیات کا روحانی راز 🕋 تمہید: فریب کے زمانے میں قرآن کا نور دنیا ہمیشہ سے ایک میدانِ جنگ رہی ہے — حق...

قابو سے باہر کے معاملات میں اللہ کو کارساز بنانا ۔۔۔ سورۃ المزمل از استاد نعمان علی خان

 


قابو سے باہر کے معاملات میں اللہ کو کارساز بنانا

سورۃ المزمل از استاد نعمان علی خان


رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا


وہ مشرق کا بھی مالک ہے اور مغرب کا بھی۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق، محبت کے قابل اور اطاعت کے لائق نہیں، پس اسی کو اپنا کارساز بنا لو (73:9)


اس آیت میں، اللہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ مشرق و مغرب دونوں پر حکمران ہے، طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک، یعنی ہر آغاز اور ہر اختتام اس کے قبضے میں ہے۔ چاہے دن کی روشنی ہو یا رات کی سکون، سب کچھ اسی کی ملکیت ہے۔


اس سے پہلے، اللہ نے نبی ﷺ کو حکم دیا تھا کہ رات اور دن میں اس کا ذکر کریں، اور اب وہ فرماتے ہیں: "مجھے اپنا کارساز بنا لو۔" یہ دو آیات (8 اور 9) نظریے کی مانند ہیں اور اگلی دو آیات عملی امتحان پیش کریں گی۔


اللہ کو اپنا کارساز بنانے کا مطلب ہے یہ تسلیم کرنا کہ کچھ چیزیں آپ کے اختیار میں ہیں اور کچھ بالکل نہیں۔ آپ نماز میں کھڑے ہو سکتے ہیں، کوشش کر سکتے ہیں، اپنی پوری صلاحیت لگا سکتے ہیں — یہ آپ کے اختیار میں ہے۔

لیکن لوگ کیسا ردعمل دیتے ہیں، قبول کرتے ہیں یا رد کرتے ہیں، معاملات کیسے unfolding ہوتے ہیں — یہ سب آپ کے اختیار میں نہیں۔ ہم اکثر اسے بھول جاتے ہیں۔


ہم لوگوں کے ردعمل، ان کے دلوں، ان کے رویے کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، لیکن نبی ﷺ کو بھی یہ یاد دلایا گیا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ کا کام تو صرف پیغام پہنچانا تھا، نتائج پیدا کرنا نہیں۔


توکل درحقیقت یہی ہے۔


جب کوئی چیز آپ کے اختیار سے باہر ہو، تو آپ اسے اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ بے عملی نہیں، بلکہ آزادی ہے۔ یہ جاننا کہ "میں نے اپنا کام کر دیا، اور اب میں باقی ماندہ معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔"


سب سے مشکل کاموں میں سے ایک، جب آپ کو تکلیف پہنچی ہو، پیچھے ہٹ جانا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ جس شخص نے آپ کے ساتھ ناانصافی کی ہے، اسے اس کا بدلہ ملے۔ آپ بندش، انصاف، وضاحت چاہتے ہیں۔


لیکن جب آپ اللہ کو اپنا کارساز بنا لیتے ہیں، تو درحقیقت آپ کہہ رہے ہیں: "یا اللہ، تو مجھ سے بہتر جانتا ہے کہ انصاف کیا ہے، حکمت کیا ہے اور بہتری کیا ہے۔ میں یہ معاملہ تیرے حوالے کرتا ہوں۔"


اگر آپ کسی کے کھانا پکانے پر بھروسہ کرتے ہیں، تو آپ اس کے کندھے کے اوپر کھڑے ہو کر نہیں پوچھتے: "کیا تم اس میں نمک ڈالو گے؟" آپ ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر آپ واقعی اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں، تو پھر آپ اس کی منصوبہ بندی پر نگرانی کرنا بند کر سکتے ہیں۔


اس آیت کو اپنی زندگی میں کیسے اتار سکتے ہیں:


· جو آپ کے اختیار میں ہے، اس پر توجہ دیں: آپ کی کوشش، آپ کا صبر، آپ کی اخلاص۔

· جو آپ کے اختیار سے باہر ہے، اسے چھوڑ دیں: لوگوں کے اعمال، نتائج، افواہیں — یہ سب اللہ کے حوالے ہیں۔

· فطری طور پر اسی کی طرف رجوع کریں: کچھ اچھا ہو تو الحمدللہ، کچھ تکلیف دہ ہو تو سبحان اللہ۔


یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ حقیقی عبادت اسی وقت شروع ہوتی ہے جب آپ اپنی حدود کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اس پر مکمل انحصار کرتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں۔


اللہ ہماری مدد فرمائے کہ ہم جو کنٹرول نہیں کر سکتے اسے چھوڑ دیں، ہمارے دلوں کو اس کی منصوبہ بندی میں سکون سے بھر دے اور ہمیں ان لوگوں میں بنا دے جو اس پر پورا بھروسہ کرتے ہیں۔ آمین 


استاد نعمان علی خان

  قابو سے باہر کے معاملات میں اللہ کو کارساز بنانا سورۃ المزمل از استاد نعمان علی خان رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُ...

گناہ نہیں چھوٹتے، دل نہیں بھرتا

 




گناہ کیوں نہیں چھوٹتے؟ نفس کی کمزوریوں پر قابو پانے کی حقیقت

منقول تحریر


"گناہ نہیں چھوٹتے، دل نہیں بھرتا" یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ہم خواہ کتنی ہی کوششیں کر لیں، ہماری نفسانی کمزوریاں ہمیشہ جیت جاتی ہیں، اور ہمارا تقویٰ، خوفِ خدا، تلاوت اور خوفِ جہنم ہار جاتے ہیں۔ یہ ایک عالمی سچائی ہے، اور اسے سمجھنا ہی حل کی طرف پہلا قدم ہے۔


لت (Addiction) کیا ہے؟ یہ اچھی ہے یا بُری؟


انسان کے دل میں کسی چیز یا عمل کی انتہائی محبت اور اس پر عمل کرنے کی مجبوری پائی جاتی ہے، اسی کو "لت" یا "نشہ" کہا جاتا ہے۔

یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ اصل میں، معاشرہ کسی لت کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کرتا ہے۔ دن رات کتابیں پڑھنا بھی لت ہے اور دیگر غیر پسندیدہ عادات بھی۔ لت اور کچھ نہیں، بلکہ ہمارے دماغ کی ٹریننگ ہے جو ہم لاشعوری طور پر کرتے ہیں۔

جب ہم کوئی کام جو لذت آمیز ہو (جیسے ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا) بار بار کرتے ہیں، تو دماغ اس کی غیر موجودگی میں بے چینی محسوس کرتا ہے اور ہمیں وہ کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔


دماغ ایک اندھیرے کمرے میں


ہمارا حیوانی دماغ ایک اندھیرے کمرے میں بند ہے۔ اسے صحیح اور غلط کا پتا نہیں۔ ہم جس چیز کی عادت ڈالیں گے، وہ عادت دماغ اپنا لے گا اور اس کی کمی کا احساس دلائے گا۔

اس حیوانی دماغ پر "شعور" (Consciousness) موجود ہے، جو عمل کے اثرات کا احساس دلاتا ہے، اور شعور کا حاکم ہے "ضمیر" (Conscience) جو اچھے یا برے ہونے کا حکم لگاتا ہے۔


کلیدی نکتہ: شعور اور ضمیر کی تربیت ضروری ہے۔ یہ بغیر علم کے بے کار ہیں۔ ہمارا ماحول (جیسے یورپ یا پاکستان) ان کی ٹریننگ کرتا ہے۔


دین، شعور کی تربیت کا نام ہے


دین بھی اور کچھ نہیں، بلکہ ہمارے انفرادی اور پھر اجتماعی شعور کی تربیت ہے۔ آدم علیہ السلام کو جو دیا گیا، وہ یہی شعور تھا: "درست" اور "غلط" کا ادراک کرنے کی صلاحیت۔


اللہ کو ہماری عبادت کیوں نہیں چاہیے؟


یہ ایک خوش فہمی ہے کہ ہم اللہ کے لیے عبادت کر رہے ہیں۔

 "عبادات کا مقصد بھی ہمارے شعور کی تربیت اور ضمیر کو طاقتور بنانے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اللہ کو اس کائنات میں ریت کے ذرے سے بھی چھوٹے سیارے کی ایک ایٹم سے بھی چھوٹی مخلوق کی اٹھک بیٹھک، بھوک پیاس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ سب ہماری ٹریننگ ہے، ہماری عبادات ہمارے لیے ہیں۔"

 

آپ کی نماز گناہوں سے کیوں نہیں روکتی؟


اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو آپ کو جواب مل گیا ہوگا کہ آپ کی نماز گناہوں سے کیوں نہیں روکتی، روزے سے نفس کیوں قابو نہیں آتا، اور زکوٰۃ کے باوجود حرام کمائی نہیں رکتی۔

نماز ہمیں کیسے روکے گی جب ہم اس سے ضمیر و شعور کی تربیت کے بجائے "جادو" کی توقع رکھیں گے؟

صحابہؓ کو نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھنے کا حکم اسی لیے دیا گیا تاکہ وہ سمجھیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ صرف بڑبڑانے سے فقہ کی نماز ادا ہو جائے گی مگر روح پیاسی رہے گی۔


شعوری تربیت کا راستہ: قرآن اور نماز


ہمیں نماز میں اپنے شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔

 * سورہ زلزال پڑھ کر کام چوری مشکل، جب معلوم ہو کہ ہر عمل دوبارہ دیکھیں گے۔

 * سورہ تکاثر پڑھ کر مال کی محبت میں بے ایمانی مشکل۔

 * سورہ ھمزہ پڑھ کر غیبت و بہتان مشکل۔

 * سورہ ماعون پڑھ کر ریاکاری اور بخیلی مشکل۔

 * سورہ اخلاص سے شرکیہ عقائد سے نجات اور معوذتین سے جادو اور بری نظر کے ڈر سے چھٹکارا۔

قرآن کی آخری پارے کی سورتیں کمزور انسانوں کے لیے ہی رکھی گئی ہیں۔ نماز میں معنی کا دھیان رکھ کر پڑھیے، دعا اور استقامت سے مدد لیجیے، اور پھر آپ کا شعور خود بخود آپ کی ترجیحات بدل دے گا۔


کامیابی کی گارنٹی نہیں: اللہ کا قانون


کیا صرف یہ سب کافی ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ کامیابی یقینی اور دیرپا ہونے کی گارنٹی، بالکل نہیں۔

قرآن میں حضرت داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف علیہم السلام کے قصص اسی لیے بیان ہوئے ہیں کہ ہم جان جائیں کہ عبادات کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے باوجود بھی نفس اور شیطان جیت جاتے ہیں۔

یہ اللہ کا قانون ہے کہ وہ ہم کو آزمائے گا۔ جنت کوئی سستی چیز نہیں۔


لغزش اور توبہ


قوموں نے معجزے دیکھ کر انکار کیا تو تباہ کر دیا گیا، مگر انبیاء سے وحی و معجزے دیکھنے کے بعد بھی لغزش ہوئی، مگر اللہ کی رحمت نے ڈھانپ لیا۔ کیوں؟

کیونکہ وہ پلٹ آئے، ناامید نہیں ہوئے، بہانہ بازی نہیں کی، اور ہٹ دھرمی نہیں دکھائی۔ فوراً "سوری سر" بول کر کام پر لگ گئے۔


حل صرف ایک ہے: پلٹنا (توبہ)


اللہ نے ہی انسانی فطرت کے داعیات رکھے ہیں، اس لیے وہ جانتا ہے کہ ہم 100/100 نہیں لے سکتے۔ اسی لیے اس نے رحمت کو اپنے اوپر واجب کیا ہے، عدل کو نہیں۔

 * عبادات: عبادات ہم کو شہوات کو برداشت کرنے کی قوت دیتی ہیں، ان کا خاتمہ نہیں کرتیں۔ جہاں سستی دکھائی، وہاں شہوت مغلوب کر لے گی۔

 * استقامت: ہمارا کام یہ ہے کہ ہم جہاں پھسلیں، دوبارہ کام پر لگ جائیں، اور بس۔

 * ماحول کی تبدیلی: اپنے نفس کا مطالعہ کریں، کمزوریوں کا اقرار کریں، اور جہاں آپ کمزور پڑ سکتے ہیں وہاں ایسی تبدیلی لائیں کہ گناہ مشکل ہو جائے۔ اپنے "ٹریگرز" (اشتہا میں اضافہ کرنے والی چیزیں) سے بچیں۔

 * اللہ سے ڈائریکٹ ڈائلنگ: آپ بات تو کریں، وہ فوراً جواب دیتا ہے، اس کا نمبر کبھی بزی نہیں ہوتا۔ اس کو مسئلہ ہے کہ ہم پلٹتے ہیں یا نہیں؟

یہ زندگی شہوتوں اور لذتوں کا کھیل ہے۔ ہر حال میں ہارنا ہی ہمارا مقدر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر ہار کے بعد دوبارہ کوشش کرنی ہے، اٹھنا ہے نئے عزم کے ساتھ، ہر بار توبہ کرنی ہے حتیٰ کہ موت آکر ہمیں ساتھ لے جائے!


  گناہ کیوں نہیں چھوٹتے؟ نفس کی کمزوریوں پر قابو پانے کی حقیقت منقول تحریر " گناہ نہیں چھوٹتے، دل نہیں بھرتا " یہ ہم سب کا مشترکہ ...

محرومی کا خوف: آدم علیہ السلام کی کہانی سے ہمارے لیے سبق ۔۔۔ استاد نعمان علی خان



محرومی کا خوف: آدم علیہ السلام کی کہانی سے ہمارے لیے سبق


جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمارے جدِ امجد آدم علیہ السلام کو جنت کے دلکش نظاروں اور ابدی سکون کے درمیان رکھا، تو شیطان لعین ایک نہایت ہی چابکدستی اور فریب پر مبنی حکمت عملی کے ساتھ ان کے پاس آیا۔ اس نے آدم علیہ السلام سے کہا: "آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو زمین پر جانا ہے؛ اور زمین ایسی نہیں ہے (جیسی یہ جنت ہے)۔ یہاں ہمیشہ رہنے والے صرف وہی ہیں جو اس (مخصوص) درخت سے کھاتے ہیں۔"


شیطان کے ان وسوسوں نے آدم علیہ السلام کے دل میں ایک نیا خوف پیدا کر دیا: محرومی کا خوف۔ یہ وہ خوف تھا کہ "میرے پاس جو کچھ ہے، میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔" آدم علیہ السلام کے پاس جنت تھی، اور اسے کھونے کا یہی خوف ممکنہ طور پر ان وجوہات میں سے ایک تھا جس نے انہیں اس ممنوعہ درخت سے کھانے پر آمادہ کیا۔ وہ اس نعمت کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔

 

اب ہم اس دنیا میں آتے ہیں، جو کہ جنت نہیں۔ لیکن ہمارے حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے ہمارے پاس ایک خوبصورت گھر ہو، اور ہم اسے کھونا نہیں چاہتے۔ ہمارے پاس مال و دولت، سماجی رتبہ، یا ایسے رشتے ہو سکتے ہیں جن سے ہم شدت سے چمٹے ہوئے ہیں، اور ہم انہیں جانے نہیں دینا چاہتے۔ بالکل اسی طرح جیسے آدم علیہ السلام نہیں کھونا چاہتے تھے، ہم بھی اپنی موجودہ نعمتوں کو نہیں کھونا چاہتے۔ یہ انسانی فطرت کا ایک حصہ بن چکا ہے کہ ہم اپنی ملکیت کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔


لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے: یہ دنیا، یہ زمین، تمہارے لیے صرف ایک عارضی ٹھکانہ ہے۔


یہاں کوئی بھی رشتہ مستقل نہیں ہے۔ ہمارے والدین، شریک حیات، اور بچے، سب ایک دن چلے جائیں گے۔ حتیٰ کہ ہم خود بھی یہاں ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں۔ ہماری گاڑی، ہمارا گھر، ہمارا مال، ہماری خوبصورتی، ہمارا سوشل میڈیا پروفائل، ان میں سے کوئی بھی چیز ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں۔ سب فانی ہیں، سب عارضی ہیں۔


لہٰذا، ہمیں ان چیزوں سے اس طرح چمٹے نہیں رہنا چاہیے جیسے یہی ہماری کل کائنات ہیں۔ ہمیں اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ ہم انہیں بچانے کے لیے ہر حد پار کر دیں، یہاں تک کہ وہ ممنوع کام کر بیٹھیں جو اللہ کی نافرمانی کا باعث بنیں۔ اس خوف میں مبتلا ہو کر کہ ہم کچھ کھو دیں گے، ہم کہیں اپنے ابدی انجام کو داؤ پر نہ لگا بیٹھیں۔


اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:


وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ

(الحشر: 9)


"اور جو لوگ اپنے نفس کی حرص (لالچ اور تنگ دلی) سے بچا لیے گئے، وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔"


یہ آیت ہمیں ایک بہت اہم پیغام دیتی ہے۔ اصل کامیابی دنیا کی عارضی چیزوں کو جمع کرنے یا انہیں کھونے کے خوف سے بچنے میں نہیں، بلکہ اپنے نفس کی حرص اور لالچ سے پاک ہونے میں ہے۔ یہ وہی حرص تھی جس کا شیطان نے آدم علیہ السلام کے خلاف استعمال کیا۔


یہ مضمون “Story Night: Fallen” کے ایک حصے سے متاثر ہے، جو نعمان علی خان کی Bayyinah TV سیریز کا حصہ ہے۔۔ آدم علیہ السلام کی کہانی میں ہمارے لیے غور و فکر اور عبرت کے بہت سے پہلو پنہاں ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھے، ہمیں اپنے ہر فیصلے پر قناعت کرنے والے دل عطا فرمائے، اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جو اس کے حضور حقیقی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ آمین۔

محرومی کا خوف: آدم علیہ السلام کی کہانی سے ہمارے لیے سبق جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمارے جدِ امجد آدم علیہ السلام کو جنت کے دلکش نظاروں اور...

قرآن کا بوجھ (ثقل) اور اس کی عظمت ۔۔ سورہ المزمل از استاد نعمان علی خان

 


قرآن کا بوجھ (ثقل) اور اس کی عظمت


شروع ہی سے، قرآن کو بھاری (heavy) قرار دیا گیا۔ آسان نہیں۔ ہلکا نہیں۔ بلکہ بھاری۔

{إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا}

"عنقریب ہم تم پر ایک بوجھل بات نازل کریں گے" (سورۃ المزمل، 73:5)


اور یہ بات اہم ہے کیونکہ جب ہم وحی (revelation) کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہم اسے اکثر صرف خوبصورت، حوصلہ افزا اور سکون بخش چیز کے طور پر تصور کرتے ہیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے، یہ ایک وزن کے ساتھ آیا، اور یہ وزن آپ کی زندگی کے ہر حصے میں محسوس کیا گیا۔

جب وحی نازل ہوتی تھی، تو یہ کوئی عام تجربہ نہیں تھا۔ صحابہ نے بیان کیا کہ اگر آپ ﷺ اونٹ پر سوار ہوتے، تو وہ جانور بوجھ کی وجہ سے نیچے جھک جاتا۔ قرآن کو اٹھانا لفظی طور پر بھاری تھا۔

یہ صرف نزولِ وحی کے لمحے کی بات نہیں تھی۔ یہ خود الفاظ کا معاملہ تھا۔ آپ ﷺ کو ایسی باتیں کہنے کا حکم دیا گیا جو آپ کے اپنے معاشرے کے خلاف تھیں۔ ایسے الفاظ جو ان بتوں کو للکارتے تھے جن کی پوجا نسلوں سے کی جا رہی تھی۔ ایسے الفاظ جو اقتدار کے ڈھانچوں پر سوال اٹھاتے، بدعنوانی کو بے نقاب کرتے، اور ان روایات کی جڑیں کاٹتے جن سے لوگ گہری وابستگی رکھتے تھے۔

تصور کیجیے کہ یہ کیسا محسوس ہوتا ہے! اپنے لوگوں، اپنے خاندان، اپنے پڑوسیوں، اپنے شہر کے سامنے کھڑے ہونا اور ایسے الفاظ پڑھنا جن کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ وہ انہیں ناراض کریں گے، غصہ دلائیں گے، اور انہیں آپ کی توہین پر اکسائیں گے۔ یہ جذباتی بوجھ ہے۔

اس مرحلے پر، آپ ﷺ کے صرف چند ہی پیروکار تھے۔ زیادہ تر لوگ آپ پر یقین نہیں کرتے تھے۔ لیڈر آپ کا مذاق اڑاتے تھے۔ پڑوسی تضحیک کرتے تھے۔ کچھ تو آپ کی موت کی خواہش بھی کرتے تھے۔ قرآن نے آپ کو ایک ایسے معاشرے میں تنہا کھڑا کر دیا جہاں اپنائیت (belonging) ہی بقا کی ضمانت تھی۔ یہ ایک ایسا سماجی بوجھ ہے جسے ہم میں سے کم ہی برداشت کر سکتے ہیں۔

اور اس کے باوجود، اللہ نے فرمایا: یہ تو ابھی آغاز ہے۔ آگے مزید سخت دن آنے والے ہیں۔ مضبوط مزاحمت آنے والی ہے۔ یہ بوجھ ہلکا نہیں ہوگا، بلکہ اور زیادہ بھاری ہو جائے گا۔


"ثَقِیل" کا حقیقی مفہوم:

لیکن وہ حصہ جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے: عربی میں، "ثَقِیل" کا مطلب صرف بھاری نہیں ہے۔ اس کا مطلب عظیم (noble)، باوقار (dignified)، اور اہمیت کے لحاظ سے وزنی (weighty) بھی ہے۔ اللہ اپنے رسول ﷺ کو بتا رہے تھے: یہ بوجھ تمہیں مغلوب کر دینے والا محسوس ہوگا، لیکن یہ تمہیں اس طرح عزت بھی بخشے گا جو کوئی اور چیز نہیں بخش سکتی۔

لوگ آپ کی توہین کریں گے، لیکن یہ کلام آپ کو ہر توہین سے بڑی عزت عطا کرے گا۔ وہ آپ کو مسترد کریں گے، لیکن میرا کلام اٹھانے سے آپ ان کے انکار کے باوجود سر بلند رہیں گے۔ وحی کا بوجھ ذلت نہیں تھا، بلکہ یہ وہ سب سے بڑا اعزاز تھا جو کسی انسان کو دیا جا سکتا تھا۔


ہم تک پہنچنے والی یاد دہانی:

یہیں پر یہ یاد دہانی ہم تک پہنچتی ہے۔ قرآن آج بھی بھاری ہے اور ہم سے تقاضے کرتا ہے۔ یہ ہمیں ہمارے آرام و سکون سے باہر نکالتا ہے، اور یہ زندگی کو آسان نہیں، بلکہ زیادہ مشکل بنا سکتا ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونے کا مطلب ہے الگ تھلگ کھڑا ہونا اور تضحیک کا سامنا کرنا، حتیٰ کہ خاندان یا معاشرے کی طرف سے بھی۔ اس کا مطلب یہ محسوس کرنا ہو سکتا ہے کہ آپ کوئی ایسی چیز اٹھائے ہوئے ہیں جسے آپ کے آس پاس کوئی اور نہیں سمجھتا۔

لیکن یہ بھاری پن کوئی لعنت نہیں، یہ ایک تحفہ ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے آپ کو اپنے کلام کے ساتھ عزت بخشنا ہے۔ یہ آپ پر بھروسہ کرنا ہے کہ آپ کوئی ایسی وزنی چیز اٹھائیں جو آپ کے دل، آپ کے فیصلوں اور آپ کی زندگی کو نئی شکل دینے کے لیے کافی ہو۔

اگر آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ ایمان کو تھامنا مشکل ہے یا آپ اس میں تنہا کھڑے ہیں، تو اس آیت کو یاد رکھیں: "عنقریب ہم تم پر ایک بوجھل بات نازل کریں گے" (إِنَّا سَنُلْقِى عَلَيْكَ قَوْلًًۭا ثَقِيلًا)۔ اللہ نے اس مشکل کو چھپایا نہیں، بلکہ شروع ہی سے اس کا نام لیا، لیکن ساتھ ہی اس بوجھ کو عزت میں لپیٹ دیا۔

نبی اکرم ﷺ کے لیے، یہ بوجھ مکہ میں چند پیروکاروں کے ساتھ اور زبان پر قرآن لیے اکیلے کھڑا ہونا تھا۔ ہمارے لیے، یہ چھوٹے لمحات ہو سکتے ہیں: جب سچ بولنے کی قیمت چکانی پڑے تب بھی ایمانداری کا انتخاب کرنا، جب نماز میں دل نہ لگے تب بھی نماز کو قائم رکھنا، کسی ایسی چیز کو "نہ" کہنا جسے باقی سب ٹھیک سمجھتے ہیں، جب سچائی کے لیے بولنے سے آپ غیر مقبول ہو جائیں تب بھی بولنا۔

ان میں سے ہر انتخاب بھاری محسوس ہوتا ہے، اور ہر ایک اسی عزت کا حصہ ہے: ایک ایسی دنیا میں اللہ کا کلام اٹھانا جو اکثر اس کی مزاحمت کرتی ہے۔

قرآن کا مقصد کبھی ہلکا محسوس ہونا نہیں تھا۔ اس کا مقصد ہمیں ڈھالنا، ہمیں پھیلانا، ہم سے کچھ مانگنا اور اسی عمل میں ہمیں باوقار بنانا تھا۔


استاد نعمان علی خان

  قرآن کا بوجھ (ثقل) اور اس کی عظمت شروع ہی سے، قرآن کو بھاری (heavy) قرار دیا گیا۔ آسان نہیں۔ ہلکا نہیں۔ بلکہ بھاری۔ {إِنَّا سَنُلْقِي عَلَ...

خلیفہ فی الارض ۔۔ از استاد نعمان علی خان

 




خلیفہ فی الارض: 

حضرت آدمؑ کی کہانی اور ہم زمین پر کیوں ہیں؟

Khalifah on Earth: The Real Story of Adam | Story Night: Fallen | Nouman Ali Khan


یاوپر لنک پر موجود ویڈیو  استاد نعمان علی خان کے  لیکچر سیریز 'Story night :Fallen' کا ایک حصہ ہے، جس میں وہ حضرت آدم علیہ السلام کی کہانی پر گفتگو کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں ایک عام غلط فہمی کو دور کر رہے ہیں۔


ویڈیو میں موجود گفتگو کا خلاصہ تحریر کی صورت میں درج ذیل ہے:


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم زمین پر کیوں ہیں؟ بہت سے لوگ ایک مقبول خیال سے متاثر ہیں کہ انسانوں کو یہاں بطور سزا بھیجا گیا ہے، کیونکہ ہمارے والد، حضرت آدم علیہ السلام، نے جنت میں ایک ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا تھا۔ یہ خیال، جو عیسائی اور یہودی عقائد میں گہرا ہے، کئی مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی جڑ پکڑ چکا ہے۔

لیکن قرآن اس کہانی کو ایک بالکل مختلف، ایک طاقتور اور باوقار انداز میں بیان کرتا ہے۔


کیا ہم زمین پر سزا کے طور پر بھیجے گئے؟ (ایک عام غلط فہمی)


عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ جب حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام نے بھول کر درخت سے کھا لیا، تو اس غلطی کے نتیجے میں خدا نے انہیں جنت سے نکالا اور انہیں زمین پر بھیج دیا تاکہ وہ اپنی غلطی کی قیمت ادا کریں۔

 * یہ تصور اس عقیدے کو جنم دیتا ہے کہ انسان "پیدائشی گناہ" (Born in Sin) کی حالت میں ہے اور اسے خود کو بچانے کے لیے کسی بیرونی نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔

 * لیکن قرآن اس بات کو سختی سے رد کرتا ہے۔ قرآن کے مطابق، ہم اپنے باپ کی غلطی کی قیمت ادا کرنے کے لیے یہاں نہیں ہیں، نہ ہی ہمارا زمین پر آنا کوئی سزا ہے۔


قرآن کا نقطہ نظر: خلیفہ فی الارض


قرآن مجید حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے کے منظر کو بیان کرتا ہے اور ایک بڑا انکشاف کرتا ہے:

 "اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا، میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں..." (سورۃ البقرہ)


یہ اعلان تخلیق کے عمل سے پہلے کیا گیا تھا! اس کا مطلب ہے کہ اللہ کا منصوبہ شروع سے ہی یہ تھا کہ انسان کو زمین پر رکھا جائے گا، اسے یہاں خلیفہ (نائب یا وائسرائے) کا درجہ دیا جائے گا۔

زمین پر بھیجا جانا سزا نہیں بلکہ منصوبے کا حتمی مرحلہ تھا، جہاں انسان کو اس کے روحانی اور جسمانی دونوں اجزاء کے ساتھ اللہ کا ذمہ دار نمائندہ بننا تھا۔


انتخاب کی آزادی اور ہماری بے پناہ قابلیت


جب اللہ نے خلیفہ بنانے کا اعلان کیا، تو فرشتوں نے انسان کے فساد اور خونریزی کے امکان پر سوال اٹھایا۔ گویا وہ کہہ رہے تھے کہ "اے اللہ! یہ تو صرف زمین پر گڑبڑ کرے گا!"

اللہ کا جواب گہرا تھا: "میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔"

انسان میں وہ کیا خاص بات ہے جس کے بارے میں فرشتے نہیں جانتے تھے؟

 * آزادیِ انتخاب: اللہ نے ہمیں یہ آزادی دی کہ ہم اپنے فیصلے خود کریں۔ اسی آزادی کی وجہ سے دنیا میں مسائل اور گڑبڑ ہوتی ہے، لیکن اسی آزادی کی وجہ سے انسانوں کو ان کے فیصلوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

 * مسائل حل کرنے کی صلاحیت: اللہ نے ہمیں زمین پر چھوڑ دیا تاکہ ہم خود اپنے لیے زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم کریں۔ ہمیں خود زراعت، ٹیکنالوجی، فنِ تعمیر، اور بقا کے طریقے سیکھنے پڑے۔ نعمہان علی خان کے مطابق: "یہ انسانوں کی ایک بہت ہی حیرت انگیز خوبی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ مسائل کو کیسے حل کرنا ہے۔"

 * عظیم ترین قابلیت: اللہ نے ہمیں یہ صلاحیت دی ہے کہ ہم خود چیزوں کا اندازہ لگا سکیں، انہیں حل کر سکیں۔ آپ کے اندر کی یہ قابلیت اتنی طاقتور ہے کہ اللہ نے تمام فرشتوں کو اسی قابلیت کی وجہ سے حضرت آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔


نتیجہ: آپ یہاں "ٹوٹے ہوئے" نہیں ہیں


یہ بات ذہن نشین کر لیں: آپ گناہ کی حالت میں پیدا نہیں ہوئے، اور آپ اس زمین پر کسی پرانے جرم کی سزا کاٹنے کے لیے نہیں ہیں۔

آپ یہاں اللہ کے خلیفہ کے طور پر ہیں، جسے مسائل حل کرنے، تعمیر کرنے اور خود فیصلہ کرنے کی بے مثال صلاحیت دی گئی ہے۔ اپنے اندر کی اس قابلیت پر بھروسہ کریں جو آپ کو یہ دنیا بہتر بنانے کے لیے دی گئی ہے۔

آپ کیا سوچتے ہیں؟ کیا آپ کو یہ جان کر حوصلہ ملا کہ آپ اس زمین پر سزا کے طور پر نہیں، بلکہ ایک مقصد کے تحت بھیجے گئے ہیں؟ اپنے خیالات کمنٹس میں ضرور بتائیں۔


  خلیفہ فی الارض:  حضرت آدمؑ کی کہانی اور ہم زمین پر کیوں ہیں؟ Khalifah on Earth: The Real Story of Adam | Story Night: Fallen | Nouman Ali ...

رات کے قیام کے حکم میں لچک: سورہ المزمل از استاد نعمان علی خان

 


رات کے قیام کے حکم میں لچک: 


سورۃ المزمل کی روشنی میں اللہ کی نگہداشت کا ایک پہلو

جب اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کو رات میں قیام کرنے کا حکم دیا، تو وہ محض یہ بھی فرما سکتے تھے کہ "آدھی رات قیام کرو"۔ لیکن اس کے بجائے، اُس نے فرمایا: رات کے تھوڑے حصے کے سوا قیام کرو، پھر اس کا آدھا حصہ، یا اس سے کچھ کم کر دو، یا اس پر کچھ بڑھا دو۔

(سورۃ المزمل، آیات ۲ تا ۴)

یہ تبدیلی کیوں؟

اگر آپ غور کریں تو اللہ تعالی اپنے رسول کو یہ دکھا رہا تھا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ آپ ﷺ کی پریشانیوں، آپ کی جدوجہد اور آپ پر آنے والے دباؤ کو جانتا ہے۔

لیکن اِن بوجھوں کے آنے سے پہلے ہی، اللہ تعالی آپ ﷺ کو لچک (Flexibility) عطا فرما رہا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ اُس نے بلند ترین معیار سے آغاز کیا، پھر اُسے ہلکا کیا، پھر مزید ہلکا کیا، اور پھر دوبارہ اُسے بڑھا دیا۔

یہ بذاتِ خود اللہ کی نگہداشت (Care) کی ایک کھڑکی ہے۔ نبی اکرم ﷺ وہ ہستی تھے جو ہمیشہ زیادہ کرنا چاہتے تھے، کبھی کم نہیں۔ اس کے باوجود، اللہ نے بغیر مانگے ہی آپ ﷺ کا بوجھ ہلکا کر دیا۔

اُس نے الہام اور ترغیب کے طور پر ایک سُنہری معیار (Gold Standard) مقرر کیا، لیکن پھر اُس نے اتار چڑھاؤ، لچک اور آسانی کا دروازہ کھول دیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایسی راتیں بھی آئیں گی جو غزوات سے پہلے کی ہوں گی، فرار کی راتیں ہوں گی، اور تھکن سے چُور راتیں ہوں گی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا رسول جان لے: تمہاری عبادت میں بھی، میں تمہارے لیے آسانی پیدا کر رہا ہوں۔

یہ ہمیں اپنے بارے میں بھی ایک سبق سکھاتا ہے۔ انسانوں کو ترغیب (Inspiration) کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم سب اپنے شعبے، اپنے کام یا اپنی تعلیم میں کسی نہ کسی کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ ترغیب ہی معیار کو بلند کرتی ہے اور ہمیں مزید سخت کوشش کرنے پر اُکساتی ہے۔

اللہ تعالی نے اس سورت کے آغاز میں عبادت کا بلند ترین معیار مقرر فرمایا۔ ہر کوئی اس تک نہیں پہنچ سکتا۔ اکثر صحابہ کرام بھی نہیں پہنچ سکے۔ لیکن وہ بلند معیار اس لیے موجود ہے تاکہ ہمارے پاس ہمیشہ کوئی ایسی چیز ہو جسے ہم دیکھیں، جو ہمیں مزید آگے بڑھنے پر آمادہ کرے۔

پھر اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے ہر ایک کے لیے گنجائش پیدا کر دی: "تو اُتنا پڑھو جتنا تم آسانی سے پڑھ سکو۔" (سورۃ المزمل ۲۰)

تو اس کا ہمارے لیے کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے:

 * کہیں سے بھی آغاز کریں، خواہ وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔

 * اپنی ترغیب کو بلند رکھیں، خواہ آپ ابھی وہاں تک نہ پہنچ سکیں۔

 * حقیقت سے نہ بھاگیں۔ رات کے قیام سے حاصل ہونے والی قوت کے ساتھ اس کا سامنا کریں۔

 * یاد رکھیں، اللہ آپ کی توقعات مقرر کرنے میں بھی آپ کی نگہداشت کا آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ خیال رکھتا ہے۔

سورۃ المزمل صرف قیام کے بارے میں ہدایات نہیں ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے اپنے نبی ﷺ اور ہم سب کے لیے یہ تعلیم ہے کہ کس طرح روحانی قوت (Spiritual Stamina) پیدا کی جائے، کس طرح سکون (Calm) حاصل کیا جائے اور کس طرح قوت کے ساتھ حقیقت کا سامنا کیا جائے۔

اللہ ہمیں رات میں قیام کرنے کی قوت عطا فرمائے، ہماری حقیقت کا سامنا کرنے کا سکون بخشے اور ہمیں اپنے کلام کے ذریعے اس سے جڑنے والوں میں شامل ہونے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین

استاد نعمان علی خان

  رات کے قیام کے حکم میں لچک:  سورۃ المزمل کی روشنی میں اللہ کی نگہداشت کا ایک پہلو جب اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کو رات میں قیام کرنے کا حکم ...

کون جیتا؟ کیسے جیتا؟

 


کون جیتا؟ کیسے جیتا؟

تحریر: محمد ذکوان


کچھ باتیں اب ذرا سنجیدگی سے سن لیجیے !


دیکھیے پاکستان کے متعلق انڈیا جو باتیں کہتا ہے، وہ ساری غلط نہیں، ہم بھی دوسری قوموں کی طرح ایک قوم ہیں، ہم میں بھی غلطیاں اور کمزوریاں ہیں، معیشت ہماری کمزور ہے، یہ اس لیے بھی ہے کہ ہم نے اپنے ملک کی سیاست میں تجربات بہت کئے، اس لیے بھی کہ انڈیا نے تقسیم کے وقت بھی ہمارے ساتھ دھاندلی بہت کی، کشمیر تو واضح ہے، کچھ اور ریاستیں بھی قبضہ کر لی گئیں، اسلحہ ساز فیکٹریاں، خزانہ، حکومتی سٹرکچر سب ادھر تھا، تقسیم کی آری سے ہمارا حصہ بھی کیک کی طرح کاٹ کے انڈیا کی جھولی میں ڈال دیا گیا، وغیرہ وغیرہ


انڈیا آپ سے کم از کم ایک ارب زیادہ ہے، دنیا کی سب سے بڑی آبادی، لڑائی میں بھی زیادہ اور بطور صارف بھی زیادہ ! فوج میں سات گنا زیادہ ہے۔ فضائیہ کی ایک دس کی ریشو ہے، اس کا دفاعی بجٹ ہاتھی ہے اور آپ کا بکری بھی نہیں ۔۔ نسبت تناسب میں سب کچھ زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت میں شراکت کے لیے دنیا اس کی طرف لپکتی ہے، مغرب ہی نہیں ، مسلم دنیا بھی ! اس کے دفاعی اور سٹریٹیجک پارٹنر اسرائیل ، یورپ اور امریکہ ہیں۔


روس روز اول سے اس کے ساتھ ہے۔ سچی بات یہ ہے پاکستان اس سارے سیناریو میں ایک نقطہ معلوم ہوتا ہے سوائے غیرت اور ایمان کے پاکستان کے پاس کچھ قابل ذکر سرمایہ نہیں۔


اس سب کے باوجود یہ اللہ کا فضل ہے کہ پاکستان ایک طرف تیل اور معیشت سے دنیا کو چلانے والے عربوں سے قوت میں مستحکم اور بہتر ہے تو دوسری طرف اسرائیل اگر کسی سے ڈرتا ہے تو وہ پاکستان ہے اور مغربی دنیا اگر مسلم ورلڈ میں کسی کو بطور قوت قابل ذکر سمجھتی ہے تو وہ بھی پاکستان ہے۔


یہ سب آپ کی کسی صلاحیت یا محنت کا نتیجہ نہیں، صلاحیت و محنت تو دور کی بات ہم تو وہ سسٹم ہی نہیں بنا سکے ملک جس سے آگے بڑھتے ہیں۔ حالات اگر یہ ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری گڈری میں عظمت کا یہ لعل کہاں سے آیا ؟


آپ جتنا بھی سوچیے، سوائے اللہ کی خاص مدد اور رحمت کے ریاضی کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں مل سکتا۔ وہ ملک صفر سے جس کا آغاز ہوا، وہ اگر آج دنیا کی گنتی کی چند ایٹمی قوتوں میں سے ایک قوت اور واحد مسلم ایٹمی طاقت ہے تو اس میں ہمارا کتنا کمال ہے ؟


یہ سوچ لیجئے، ہم نے کب اس پر تھنک ٹینک بٹھائے تھے ؟ بلجیئم میں ایک شخص نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالتے کلمہ گو مسلمانوں کو دیکھا تو بلک اٹھا، وہ خط لکھتا رہا، اٹامک انرجی کمیشن سے کسی نے اسے گھاس نہ ڈالی، پھر بھٹو کے دل میں یہ بات سما گئی، کام شروع ہوا، امریکی مجبور تھے، توجہ نہ دے سکے اور پھر اللہ نے وہ دن دکھایا جب سب کچھ چھین لینے والے بھارت کے مقابل آپ نے زیادہ ایٹمی پٹاخے پھوڑ دیئے، دنیا نے بھارت کے نہیں آپ کے کان پکڑ لیے، پابندیوں میں معیشت آپ کی اڑ گئی مگر آپ نے روکھی سوکھی کھا کے غیرت کو سیراب کرلیا۔


پھر میزائل ٹیکنالوجی اور فضائیہ


ذرا سا تھم کے کہیں بیٹھ کے سوچیے کہ کیا واقعی ہم اپنے سسٹم اور اپنی معیشت کے علی الرغم ایسے ہی توانا تھے کہ یہ سب کچھ کر سکتے ؟ قطعا نہیں ! تو کوئی تو ذات تھی نا جو ہم جیسے نکموں کی انگلی پکڑ کے ایک سمت میں ہمیں دوڑاتی چلی گئی۔ ایسے کہ آج دنیا ہماری دوڑ دیکھ کے دنگ ہے؟


اچھا اب موجودہ حالات پر آجائے، رمضان کے بعد اور اس سے پہلے وہ کون سازخم ہے جو آپ نے اپنے جسم پر سہا نہیں، جعفر ایکسپریس سے پہلے کتنے علماء کے، اور پھر افواج کے اور فورسز کے جنازے ہم نے اٹھائے، افغانستان نے ہماری سرحد کو آتشیں کر دیا، ملک میں ہماری سیاسی تقسیم ایسی تھی کہ نادان لوگ انڈین آرمی کے گن گا رہے تھے، بھارت اکیلا بھی ہوتا تو اس کا پاکستان سے کیا مقابلہ تھا؟ مگر وہ اکیلا کب تھا؟


اس کے پاس اسرائیلی و روسی ٹیکنالوجی اور آئی ٹی تھی، مغربی اسلحہ اور امریکی آشیر باد بھی تھی پاکستان کو سب پتہ تھا سو وہ چاہتا تھا جنگ نہ چھڑے اس لیے بھی کہ ہمیں معیشت کے لالے پڑے تھے، لوگ ہمارے تقسیم ہوئے پڑے تھے مگر جنگ ہم پر مسلط کر دی گئی۔


کیا آپ کو اس صبح سے پہلے کی اپنی کیفیت یاد نہیں، جب آپریشن بنیان مرصوص ابھی لانچ نہیں ہوا تھا، مارے شرم کے کیا تم دنیا کا سامنا کرنے کی جرات اپنے میں پاتے تھے؟ لیکن پھر کیا ہوا؟ اس ضعیف اور اکیلے کر دیے گئے ملک پر اللہ کی مدد اترنا شروع ہوئی۔ پہلی مدد تمھاری بے خوفی تھی، جنگ کے ہنگام بھی تمھاری امن کی حالت تھی، کیا یہ اللہ کی مدد نہ تھی کہ احزاب کے مقابل، یعنی دنیا کے مقابل تمھیں وہ امن اور مزاح عطا ہوا کہ انڈیا کو تمھارے چینل اپنے ملک میں بین کرنے پڑے۔


تم سمجھتے ہو کہ یہ محض شغل تھا؟ میں سمجھتا ہوں یہ اللہ کی مدد تھی، دنیا میں بالی وڈ کا تہلکا رکھنے والا ملک اگر آپ کے سوشل میڈیا سے تھرا اٹھا تھا اور گھبرا کے اپنے کان اور دروازے آپ کی آواز کے لئے بند کر رہا تھا تو یہ اللہ کی مدد تھی، پہلی مدد ، سکینت اترنے کی کیفیت والی مدد، وہی جو بدر میں بھی اتری تھی، وہی مدد !


پھر اس رات کو یاد کیجیے، جب آپ کے پہلو میں جنگی دنیا کی قسمت اور قیمت بدل رہی تھی، تمھیں اس معرکے کا بالکل پتہ نہ تھا، تمھیں اب بھی پورا پتہ نہیں کہ اس رات کیا ہوا تھا ؟ اس رات تمھارے ہاتھوں اللہ مغرب کی اسلحے کی بالا دستی کچرا کر رہا تھا، چائنہ کو اعتماد بخش رہا تھا، یہ ایک سٹریٹیجک شفٹ تھا، جو کس آسانی کس روانی اور کس گمنامی سے ظہور پا رہا تھا۔ اچھا کیا لازم تھا کہ یہ معرکہ یہیں لڑا جاتا؟


چائنہ کو اسٹیبلش ہونا تھا تو اس کے اور سو راستے تھے، یہ کہاں لکھا تھا کہ چائنہ کی اسلحی بالادستی کی لانچنگ میں انڈیا رسوا ہو گا اور پاکستان سر خرو؟ یہ اللہ کی تقدیر تھی اور اللہ کی خالص مدد ! سچ کہتا ہوں، اللہ کی مدد نہ ہوتی تو انڈیا تمھیں ایک بدمست ہاتھی کی طرح، ایک چیونٹی بنا کے مسل دیتا مگر تم چٹان بن گئے، جس سے ٹکرا کے انڈیا خود پاش پاش ہوتا رہا زخم کھاتا اور گھائل ہوتا رہا۔


میں یہ نہیں کہتا کہ اس دھرتی پر تم پیغمبروں کی اولاد ہو یا اولیا کی جماعت، مگر یہ کہتا ہوں کہ اللہ تمھاری مدد کر رہا ہے، ممکن ہے یہ کسی پرانے وعدے کی بنا پر ہو، وہ جو کبھی تم نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا لگایا اور پھر بھول گئے۔


یا ممکن ہے کہ اللہ مستقبل کے کسی کائناتی فوٹو گراف میں رنگ بھرنے کے لئے تمھیں تیار کر رہا ہو، تمھیں قوت بنا کے اور بچا کے کے رکھنا چاہتا ہو، مجھے نہیں ہے معلوم، مگر مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ ہم نے فتح ون میزائل چلایا ضرور ۔ مگر یہ فتح ہم نے لی نہیں، یہ فتح ہمیں دی گئی ہے، ہم نے فتح کا میزائل چلایا ضرور مگر اسے فتح تک پہنچایا اللہ کی مشیت و تقدیر نے ہے،


 و مار میت اذ رمیت و لکن اللہ رہی۔۔


آج عالم یہ ہے کہ دنیا آپ کو مان گئی ہے، عرب کہتے ہیں، صدیوں بعد پہلی دفعہ ہم نے مسلم جسد کے علاوہ بھی کہیں آتش و آہن برستے دیکھا تو دل اور آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، یورپ میں تمھارا والہانہ پن دیکھ کے یورپی پولیس کے سپاہی تک تمھارے ساتھ اچھلنے کودنے لگے ہیں۔


اچھا آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکی ٹرمپ نے فی الفور جنگ بندی کروا کے آپ پر احسان کیا ہے ؟ یہ وہی ٹرمپ ہے نا جو کہتا تھا، یہ پندرہ سو سال سے لڑتے آئے ہیں، لڑنے دیں، ہمیں کوئی پروا نہیں۔ پھر وہ کیوں دوڑے دوڑے بیچ میں آئے ؟ دراصل وہ مطمئن تھے کہ انڈیا خوب پھینٹی لگا لے گا، سو وہ چاہتے تھے، پاکستان پھینٹی کھاتے ہوئے ہمیں نہ پکارے، پھر مگر جب دیکھا کہ انڈیا کو پڑنے والی مار کے نشانات اور درد خود یورپ اور امریکہ تک پہنچ رہے ہیں، تو حضرت نے بیچ میں آنے میں اتنی بھی تاخیر نہیں کی کہ یہ لوگ خود سے سیز فائر کا اعلان کر سکیں، سب سے کم وقت میں ٹویٹ ہی کیا جا سکتا تھا، سو ٹرمپ نے وہی کیا۔


اور اب آخر میں یہ بہر حال ایک نئی دنیا ہے، انڈیا کی نہیں پاکستان کی نئی دنیا، یہ جنگ اللہ نے ایک تاریخی جنگ بنا دی ہے، جس میں ملینز ڈالر کے رافیل کی بجائے جے ٹین سی کے متبادل کی طرف دنیا رخ کرنے والی ہے، یہ رخ تم نے بدلا ہے، یہ عزت تمھیں اللہ نے دی ہے۔


تمہیں یاد ہے نا تم کیا تھے ؟ اور اب دیکھ رہے ہو نا کہ اللہ نے تمھیں کیا بنا دیا ہے ؟


تو بس اتنا یاد رکھنا کہ یہ تم نے نہیں کیا، تمھارے اللہ نے تمھیں نواز دیا ہے یہ یاد رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایسے مرحلے پر سوچ میں ذرا گلچ (glitch) آنے سے اللہ کی مدد کا سارا سوفٹ وئیر کرپٹ ہو جاتا ہے۔


احد کے واقعات تمھارے سامنے ہیں اور  آج کے حالات بھی تمھارے سامنے۔

فی امان اللہ

  کون جیتا؟ کیسے جیتا؟ تحریر: محمد ذکوان کچھ باتیں اب ذرا سنجیدگی سے سن لیجیے ! دیکھیے پاکستان کے متعلق انڈیا جو باتیں کہتا ہے، وہ ساری غلط...