↫ کہاوت کہانی ↬
’چور کو پڑ گئے مور‘
پرانے زمانے کی بات ہے ایک گائوں میں ایک بہت کنجوس آدمی رہتا تھا۔ ایک بار وہ جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے کھجور کا درخت دیکھا جو پکی ہوئی کھجوروں سے لدا تھا، پھر کیا تھا؟،کنجوس آدمی کو تو کھجور مفت میں مل گئی۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے جلدی جلدی درخت پر چڑھنا شروع کر دیا ۔
وہ جب کافی اونچائی تک چڑھ گیا تو اچانک ایک شہد کی مکھی نے اسے ڈنگ مار دیا۔ اس نے دیکھا کہ درخت پر شہد کی مکھیوں کا ایک بڑا سا چھتا لگا ہوا ہے۔ وہ گھبرا اٹھا اور اس نے نیچے چھلانگ لگانے کے بارے میں سوچا ،لیکن یہ کیا ؟ نیچے ایک کنواں تھا۔وہ بری طرح ڈر گیااور خدا سے دعا مانگنے لگا کہ ’’اے خدا مجھے بچا لے میں سو فقیروں کو کھانا کھلائوں گا، پھر اس نے دھیرے دھیرے نیچے اترنے کی کوشش کی، تھوڑا نیچے آنے کے بعد اس نے کہا ’سو کو نہیں تو پچھترکو تو کھلا ہی دوں گا۔ تھوڑا اور نیچے آنے پر اس نے کہا ’’ چلو پچھتر کونہیں تو پچاس کو تو ضرور کھلائوں گا۔‘‘
ایسا کرتے کرتے وہ نیچے پہنچ گیا اور فقیر ایک بچا۔ وہ سلامتی کے ساتھ اپنے گھر چلا گیا۔ اس نے سارا حال اپنی بیوی کو کہہ سنایا۔ وہ بھی بےحد کنجوس تھی، دوسرے روز بیوی نے ایک ایسا بیمار فقیر بلایا،جس کا پیٹ خراب تھا، ڈھنگ سے کھانا نہیں کھا سکتا تھا، یہ فقیر بھی اتفاق سے کنجوس اور چالاک آدمی تھا، اس نے 20روٹیاں دہی، کھیرا اور دودھ پیک کرنے کو کہا کہ میں گھر جا کر کھا لوں گا۔ کنجوس کی بیوی مرتی کیا نہ کرتی ،اتنا ڈھیر سا کھانا فقیر کو دینا ہی پڑا۔
شام کو جب کنجوس آدمی گھر واپس آیا تو اس نے فقیر کے بارے میں پوچھا ،بیوی نے اسے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ کنجوس آدمی کو بہت غصہ آیا۔ وہ لاٹھی لے کر فقیر کے گھر پہنچا۔ فقیر کی بیوی بہت چالاک تھی۔ اس نے جب کنجوس آدمی کو غصے کی حالت میں اپنے گھر کی طرف بڑھتے دیکھا تو وہ دروازے کے باہر آ کر زور زور سے چلانے لگی کہ ’’پتہ نہیں کس نے میرے بیمار شوہر کو کیا کھلا دیا ہے ؟ ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے ہائے ! میں کیا کروں ؟ ایسا لگتا ہے یہ اب زندہ نہیں بچیں گے ارے کوئی ہے جو میری خبر گیری کرے۔ ‘‘
کنجوس آدمی یہ سن کر بری طرح سہم گیا اس نے فقیر کی بیوی سے کہا ’’ چلاؤ مت، میں تمہارے شوہر کے علاج کےلئے ابھی رقم کا بندوبست کرتا ہوں ’’چالاک فقیر گھر کے اندر بیٹھا مزے لے لے کر خوب ہنس رہا تھا ۔اس طرح ایک کنجوس نے ایک بڑے کنجوس کو پھنسا لیا ،ایسے موقع کے لئے یہ کہاوت بولی جاتی ہے کہ’ چور کو پڑ گئے مور‘۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
↫ کہاوت کہانی ↬ ’چور کو پڑ گئے مور‘ پرانے زمانے کی بات ہے ایک گائوں میں ایک بہت کنجوس آدمی رہتا تھا۔ ایک بار وہ جنگل سے گزر رہا تھا تو اس ن...
By:
سیما آفتاب
آئینہِ قرآن میں مقامِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
(منقول)
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بہت سے مقامات پر اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت انتہائی خوبصورت انداز میں واضح فرمائی ہے۔ جس سے ہمارے آقا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بارگاہِ الہیہ میں کمال شانِ محبوبیت آشکار ہوتی ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے کم و بیش 89 مقامات پر یا ایھا الذین آمنو ۔۔ اے ایمان والو! فرما کر براہ راست مومنین سے خطاب فرما کر جتنا بھی قرآن اتار ا ان میں کثرت سے مقام، شان، ادب و تعظیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سکھائی ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پرایمان و عقیدہ قائم کرنے کا وقت آئے تو پھر ہمیں ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلو دیکھنا ہوگا جو اللہ رب العزت ہمیں قرآن حکیم میں دکھاتا ہے۔ مثال کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ یہ بندگی کی انتہا ہے۔ ہمیں بطور امتی جب بارگاہ الہی میں آداب بندگی بجا لانا ہو تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کامل کی پیروی کرنا ہے۔ لیکن جب مقام اور شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعین کرنا ہو اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو قلب و روح میں جانگزیں کرنے کا مرحلہ ہو تو پھر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین شریفین متورم ہونے پر بارگاہ الہیہ سے کیا جواب اور رد عمل آتا ہے ۔
قرآن مجید کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور مقام شان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ اس پر بارگاہ الہیہ سے حضرت جبریل علیہ السلام کو اتارا جاتا ہے۔ قرآن بنایا جاتا ہے کہ ۔۔
مَا اَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىO “القرآن ۔ ۲۰:۲”
“اے محبوبِ مکرّم!” ہم نے آپ پر قرآن “اس لئے” نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیںo
معرفت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نظر سے دیکھو ۔ جس سے اللہ تعالی اپنے محبوب کو ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس جس شان سے اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف ہمیں کرواتا ہے ۔
کبھی شہرِ ولادتِ مصطفیٰ (مکہ) کی قسم کھا کر،
(لا اقسم بھذالبلد۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کی عمر مبارک کی قسم کھا کر
(لعمرک۔۔ القرآن)
بلکہ اللہ رب العزت تو اپنی قسم بھی خود کو ربِ مصطفیٰ کہہ کر کھاتا ہے
(فلا وربک لا یومنون حتیٰ یحکموک ۔۔۔ القرآن)
کبھی مقام قاب قوسین او ادنیٰ پر بٹھا کر
(ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ۔۔ القرآن)
تو کبھی ذکرِ محبوب کو انتہائی بلندی دے کر
(ورفعنالک ذکرک۔۔ القرآن)
کبھی کائناتِ ارض و سما کی ہر کثرت عطا کرکے
(انا اعطینٰک الکوثر۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دے کر
(یداللہ فوق ایدیھم ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم پر سبقت لےجانے کو خود پر سبقت لےجانا قرار دے کر
( لا تقدمو بین یدی اللہ ورسولہ ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کی اطاعت کو اپنی (اللہ کی) اطاعت قرار دے کر ،
(ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کی رضا کو اپنی (اللہ کی) رضا قرار دے کر ،
(واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کو دھوکہ دینے کو خود (اللہ کو) دھوکہ دینا قرار دے کر
(یخدعون اللہ والذین امنو۔۔القرآن)
کبھی حضور اکرم کو اذیت دینے کو خود اللہ کو اذیت دینا قرار دے کر
(ومن یشاقق اللہ ورسولہ ۔۔۔۔ وفی المقام الآخر ۔۔۔ والذین یوذون اللہ ورسولہ ۔۔ القرآن)
کہیں حضور اکرم کو عطاکردہ دائمی علم الہی کے فیض کا ذکر فرمایا
(سنقرئک فلا تنسیٰ ۔۔ القرآن)
کہیں حضور اکرم کو عطائے الہی کے فیض سے علم غیب کی وسعتوں کا ذکر فرمایا
(وما ھو علی الغیب بضنین ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کو روز قیامت ، بعد از خدا سب سے اعلی مقام و منصب " مقام محمود " کا وعدہ دینا
(عسیٰ ان یبعثک ربک مقام محمودا ۔۔ القرآن)
بلکہ اللہ رب العزت تو حضور اکرم کو ہر وقت نگاہِ الہی میں رکھنے کی بات بھی قرآن میں فرماتا ہے۔
اللہ پاک نے فرمایا ۔۔ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۔۔۔۔ (الطُّوْر ، 52 : 48)
اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں
گویا اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ محبوب اگر ان ظالموں نے نگاہیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا، ہم تو آپ کی طرف سے نگاہیں ہٹاتے ہی نہیں ہیں اور ہم ہر وقت آپ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔
اور پھر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو مقامِ رفعت کی اس انتہا پر پہنچا دیا کہ جس پر اور کوئی نبی ، کوئی پیغمبر، کوئی رسول نہ پہنچا ، نہ پہنچ پائے گا۔ وہ مقام ہے ۔ رضائے مصطفیٰ بذریعہ عطائے الہی
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کریم سے خطاب فرماتے ہوئے وعدہ فرمایا
ولسوف یعطیک ربک فترضی ٰ (القرآن ۔۔ سورۃ الضحیٰ )
اے محبوب ! عنقریب یقیناً آپکا رب آپکو اتنا عطا کرے گا حتیٰ کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔
اور پھر علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمندرِ معرفت کو کوزے میں سمیٹا تھا
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
آئینہِ قرآن میں مقامِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم (منقول) قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بہت سے مقامات پر اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی...
By:
سیما آفتاب
⇜ آج کی بات ⇝
لوگوں پر تین احسان کرو
1- نفع نہیں دے سکتے تو نقصان بھی نہ کرو
2- خوش نہیں کرسکتے تو رنجیدہ بھی نہ کرو
3- تعریف نہیں کرسکتے تو برائی بھی نہ کرو
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
⇜ آج کی بات ⇝ لوگوں پر تین احسان کرو 1- نفع نہیں دے سکتے تو نقصان بھی نہ کرو 2- خوش نہیں کرسکتے تو رنجیدہ بھی نہ کرو 3- تعریف نہیں کرسکتے تو...
By:
سیما آفتاب
احتجاج ضرور کیجئے ۔۔۔۔
بائیکاٹ بھی کیجئے ۔۔۔۔۔
لیکن وہ بھی کیجئے جو اصل میں کرنے کے کام تھے اور ہم نے نہ کیے ۔۔۔۔
گھر میں روزانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حلقہ لگانا شروع کر دیا جائے ۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو پڑھا اور سنا جائے اور اپنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کی جائے ۔۔۔۔
نماز کی پابندی شروع کر لی جائے ، قرآن کو تھام لیاجائے ، اخلاق بہتر بنانے کی کوشش کی جائے ، لوگوں کے درمیان صلح کرائی جائے ، سود چھوڑ دیا جائے ، زکوہ ادا کی جائے، حرام سے بچا جائے ، سمعنا و اطعنا کی طرف قدم بڑھاتے جائیں، وہ سب شروع کر لیا جائے جو ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں لیکن عمل میں سستی آڑے آتی ہے ۔۔۔۔
تو اس غصے ، اس دکھ کو اپنی ذات میں با عمل بننے کا نقطہ آغاز بنا لیا جائے ۔۔۔۔۔
مسلمان ہر جگہ پس رہا ہے کیونکہ کلمہ ہماری زبانوں پر تو ہے لیکن دلوں میں نہیں اتر پا رہا، دلوں میں اترے گا تو جسم سے اللہ کی رضا والے اعمال شروع ہوں گے ۔۔۔۔۔
جب وہ اعمال شروع ہوں گے تو ہم دوبارہ اپنا مقام حاصل کر پائیں گے ۔۔۔۔
ہم پورا معاشرہ تو اکیلے ٹھیک نہیں کر سکتے لیکن خود سے آغاز کر سکتے ہیں، اپنے دائرہ کار میں ۔۔۔۔۔۔
ہم کہہ سکیں کہ اللہ جب آپ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دنیا ہمیں ستا رہی تھی تو ہم آپ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو اپنے گھروں میں زندہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی محبت کی گئی اور کی جا رہی ہے اور قیامت تک کی جاتی رہے گے ، اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی ، بے شک ۔۔۔۔
لیکن حقیقتا ۔۔۔۔
محبت اطاعت ہے
محبت فرمانبرداری ہے
ہم لاکھ زبان سے محبت کا اظہار کرتے رہیں لیکن عملی محبت اس وقت شروع ہو گی جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں ہر چلنا شروع کر دیں گے
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام قیامت تک سر بلند رہے گا ۔۔۔۔۔۔ ♥️
اللہ نے فرما دیا :
و رفعنا لک ذکرک
صَلَّى ٱللَّٰهُ عَلَيْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کرنے کے اصل کام تحریر: سونیا بلال احتجاج ضرور کیجئے ۔۔۔۔ بائیکاٹ بھی کیجئے ۔۔۔۔۔ لیکن وہ بھی کیجئے جو اصل میں کرنے کے کام تھے اور ہم نے ن...
By:
سیما آفتاب
↻ کہاوت کہانی ↺
اپنا الو کہیں نہیں گیا
مطلب یہ کو کوئی نقصان اٹھائے یا فائدہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری بات یوں بھی سچ ہے اور سچ رہے گی۔ یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی بے وقوف آدمی سے اپنا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔
اس کی کہانی یوں ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے خود کو گھوڑوں کا بہت بڑا سوداگر ظاہر کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا ہمارے لئے عرب کی عمدہ نسل کے گھوڑے لے کر آنا۔ سواگر روپیہ لے کر چلتا بنا۔ یہ بات ایک شخص کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے روزنامچے میں لکھا، ’’بادشاہ الو ہے۔‘‘ اس گستاخی پر بادشاہ نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اس کی وجہ پوچھی تو وہ شحص کہنے لگا، ’’حضور! آپ نے ایک اجنبی سوداگر کو بغیر سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اب واپس آنے سے رہا۔‘‘
بادشاہ نے کہا، ’’اور اگر وہ واپس آگیا تو؟‘‘
اس شخص نے فوراً جواب دیا، ’’تو میں آپ کا نام کاٹ کر اس کا نام لکھ دوں گا۔ اپنا الو کہیں نہیں گیا۔‘‘
اس کی کہانی یوں ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے خود کو گھوڑوں کا بہت بڑا سوداگر ظاہر کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا ہمارے لئے عرب کی عمدہ نسل کے گھوڑے لے کر آنا۔ سواگر روپیہ لے کر چلتا بنا۔ یہ بات ایک شخص کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے روزنامچے میں لکھا، ’’بادشاہ الو ہے۔‘‘ اس گستاخی پر بادشاہ نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اس کی وجہ پوچھی تو وہ شحص کہنے لگا، ’’حضور! آپ نے ایک اجنبی سوداگر کو بغیر سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اب واپس آنے سے رہا۔‘‘
بادشاہ نے کہا، ’’اور اگر وہ واپس آگیا تو؟‘‘
اس شخص نے فوراً جواب دیا، ’’تو میں آپ کا نام کاٹ کر اس کا نام لکھ دوں گا۔ اپنا الو کہیں نہیں گیا۔‘‘
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
↻ کہاوت کہانی ↺ اپنا الو کہیں نہیں گیا مطلب یہ کو کوئی نقصان اٹھائے یا فائدہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری بات یوں بھی سچ ہے اور سچ رہے ...
By:
سیما آفتاب
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
کچھ میرے بارے میں
مقبول اشاعتیں
فیس بک
بلاگ محفوظات
-
◄
2024
(4)
- ◄ اکتوبر 2024 (1)
- ◄ جنوری 2024 (3)
-
◄
2023
(51)
- ◄ دسمبر 2023 (1)
- ◄ اپریل 2023 (8)
- ◄ فروری 2023 (19)
- ◄ جنوری 2023 (8)
-
◄
2022
(9)
- ◄ دسمبر 2022 (9)
-
◄
2021
(36)
- ◄ دسمبر 2021 (3)
- ◄ اکتوبر 2021 (6)
- ◄ ستمبر 2021 (1)
- ◄ جولائی 2021 (8)
- ◄ فروری 2021 (7)
- ◄ جنوری 2021 (1)
-
▼
2020
(88)
- ▼ اکتوبر 2020 (5)
- ◄ اپریل 2020 (13)
- ◄ فروری 2020 (10)
- ◄ جنوری 2020 (16)
-
◄
2019
(217)
- ◄ دسمبر 2019 (31)
- ◄ نومبر 2019 (28)
- ◄ اکتوبر 2019 (27)
- ◄ ستمبر 2019 (18)
- ◄ جولائی 2019 (32)
- ◄ اپریل 2019 (11)
- ◄ فروری 2019 (7)
- ◄ جنوری 2019 (15)
-
◄
2018
(228)
- ◄ دسمبر 2018 (13)
- ◄ نومبر 2018 (18)
- ◄ اکتوبر 2018 (7)
- ◄ ستمبر 2018 (21)
- ◄ جولائی 2018 (7)
- ◄ اپریل 2018 (21)
- ◄ فروری 2018 (39)
- ◄ جنوری 2018 (38)
-
◄
2017
(435)
- ◄ دسمبر 2017 (25)
- ◄ نومبر 2017 (29)
- ◄ اکتوبر 2017 (35)
- ◄ ستمبر 2017 (36)
- ◄ جولائی 2017 (23)
- ◄ اپریل 2017 (33)
- ◄ فروری 2017 (34)
- ◄ جنوری 2017 (47)
-
◄
2016
(187)
- ◄ دسمبر 2016 (19)
- ◄ نومبر 2016 (22)
- ◄ اکتوبر 2016 (21)
- ◄ ستمبر 2016 (11)
- ◄ جولائی 2016 (11)
- ◄ اپریل 2016 (14)
- ◄ فروری 2016 (23)
- ◄ جنوری 2016 (10)
-
◄
2015
(136)
- ◄ دسمبر 2015 (27)
- ◄ نومبر 2015 (22)
- ◄ ستمبر 2015 (1)
- ◄ جولائی 2015 (10)
- ◄ اپریل 2015 (4)
- ◄ فروری 2015 (12)
- ◄ جنوری 2015 (9)
-
◄
2014
(117)
- ◄ دسمبر 2014 (5)
- ◄ نومبر 2014 (14)
- ◄ اکتوبر 2014 (11)
- ◄ ستمبر 2014 (11)
- ◄ جولائی 2014 (8)
- ◄ اپریل 2014 (5)
- ◄ فروری 2014 (14)
- ◄ جنوری 2014 (12)
-
◄
2013
(293)
- ◄ دسمبر 2013 (18)
- ◄ نومبر 2013 (21)
- ◄ اکتوبر 2013 (35)
- ◄ ستمبر 2013 (26)
- ◄ اپریل 2013 (59)
- ◄ فروری 2013 (30)
- ◄ جنوری 2013 (27)
-
◄
2012
(56)
- ◄ ستمبر 2012 (2)
- ◄ جولائی 2012 (2)
- ◄ فروری 2012 (14)
- ◄ جنوری 2012 (8)
-
◄
2011
(28)
- ◄ دسمبر 2011 (6)
- ◄ نومبر 2011 (22)