آج کی بات ۔۔۔ 30 جون 2019

↷ آج کی بات ↶


‏ہاتھ  پکڑنے اور تھامنے میں بہت فرق ہوتا ہے ، 
پکڑنے والے کی پکڑ چاہے کتنی ہی مضبوط ہو وقتی ہوتی ہے ،
 جبکہ تھامنے والے ہاتھ  تاحیات  ہوتے ہیں..

↷ آج کی بات ↶ ‏ہاتھ  پکڑنے اور تھامنے میں بہت فرق ہوتا ہے ،  پکڑنے والے کی پکڑ چاہے کتنی ہی مضبوط ہو وقتی ہوتی ہے ،  جبکہ تھام...

چھاؤں ۔۔۔ (مکالمہ) از عمر الیاس

Image result for tree shade

چھاؤں (ایک مکالمہ)
تحریر: عمر الیاس

ہمارے مسائل کا آخر حل ہے کیا؟

سیدھا راستہ۔

یہ تو سب کو معلوم ہوتا ہے، پر سیدھے راستے پر چلنا اتنا مشکل کیوں ہے؟

کیونکہ ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ مشکل نہیں ، آسان ہے۔ مشکلیں تو ہر راستے میں ہوا کرتی ہں۔ بُرا / غلط راستہ کونسا آسان ہے!؟

پر، اتنے مذہب ، آسمانی کتابوں اور مصلحین، دعوت و تبلیغ، مشنری مشن، سماجی و رفاہِ عامہ کی لاکھوں کوششوں کے باوجود، نسلِ انسانی کی زندگی مزید سے مزید تر مشکل ، افسردہ اور پیچیدہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یقیناً آپ اتفاق کریں گے۔

یقیناً۔

تو پھر حل کیا ہے۔

وہی۔ سیدھا راستہ۔ اور یہ قابلِ عمل ہے، آسان بھی۔

وہ کیسے؟

سیدھے راستے کے لئے نشانِ منزل سے زیادہ وہ لوگ ضروری ہیں، جو اس پر چلتے ہیں۔، وہ اس راہ کی مثال بنتے ہیں، انسان کی فطرت ہے کہ وہ مثالوں سے سیکھتا ہے۔ الہامی صحائف سے لے کر انسانی ادب و شاعری تک، مثال، تشبیہ اور استعارہ اظہار کی موثر ترین شکلیں ہیں۔

پر مثالیں تو بہت کم ہیں۔

یہی تو مسئلہ ہے، اور یہی حل۔

حل کیسے؟َ

بہت دھوپ میں آپ کیا تلاش کرتے ہیں؟

سایہ۔ چھاؤں۔

بالکل۔ چھاؤں۔ کیونکہ چھاؤں ، سائے سے بہتر ہوتی ہے۔

وہ کیسے؟

چھاؤں ٹھنڈی ہوتی ہے۔ وہ بڑے درختوں کی ہوا کرتی ہے۔ جیسے بڑی شخصیات۔ محبت کے رشتے۔ جیسے اچھے دوست۔ مخلص بزرگ۔ جیسے راہ نما۔

اور سایہ۔

سایہ تو کِسی بھی چیز کا ہو سکتا ہے۔ دیوار کا بھی۔ ٹین کی چھت کا بھی۔

تو اِن مثالوں سے کیا سمجھا جائے؟

یہی، کہ مصائب کی دھوپ میں نیکی اور رہنمائی کی چھاؤں تلاش کی جائے۔

پر اب تو نہ پیغمبر آئیں گے، نہ ہی ویسے صالحین ملتے ہیں۔ اب تو دین کے نام پر دکانداری اور تصوف کے نام پر بے دینی پائی جاتی ہے۔

چھاؤں تلاش کریں۔ مِلے گی۔ نیک لوگ آج بھی موجود ہیں۔ یقین کرو اُنہی کی وجہ سے، اور دیگر مخلوقات کی وجہ سے بارشیں برستی ہیں۔ اللہ کی رحمتیں آتی ہیں۔ ورنہ ہمارے اعمال تو بہت بُرے ہیں۔

پر، اگر کوئی چھاؤں نہ مِل پائے۔ تو؟

جِس جگہ درخت نہیں ہوتے، تو وہاں کیا کرنا چاہیئے؟

درخت کاشت کرنے چاہیئں۔ تاکہ کِسی کا تو بھلا ہو سکے۔

بالکُل۔ چھاؤں نہیں مِل رہی، تو خود چھاؤں بننے کی کوشش کریں۔ تاکہ کِسی کا تو بھلا ہو سکے۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

چھاؤں (ایک مکالمہ) تحریر: عمر الیاس ہمارے مسائل کا آخر حل ہے کیا؟ سیدھا راستہ۔ یہ تو سب کو معلوم ہوتا ہے، پر سیدھے راستے...

آج کی بات ۔۔۔ 29 جون 2019

✿ آج کی بات ✿

جیسا اعلی اخلاقی ساکھ کا حکمران آپ دیکھنا چاہتے ہیں
 اسی اعلی اخلاقی سانچے میں اپنی ذات کو کیوں نہیں ڈھال لیتے؟
نہیں ممکن تو یہ خواب دیکھنا بھی چھوڑدیں۔





تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

✿ آج کی بات ✿ جیسا اعلی اخلاقی ساکھ کا حکمران آپ دیکھنا چاہتے ہیں  اسی اعلی اخلاقی سانچے میں اپنی ذات کو کیوں نہیں ڈھال لیتے؟ نہ...

آج کی بات ۔۔۔ 26 جون 2019

 ⟲⟲ آج کی بات ⟳⟳

اگر ظرف میں وسعت ، لہجے میں نرمی، اور طبیعت میں انکساری نہیں ہے
 تو انسان "تعلیم یافتہ" ہو کر بھی"جاہل" رہتا ہے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

 ⟲⟲ آج کی بات ⟳⟳ اگر ظرف میں وسعت ، لہجے میں نرمی ، اور طبیعت میں انکساری نہیں ہے  تو انسان " تعلیم یافتہ " ہو کر بھی...

آج کی بات ۔۔۔ 25 جون 2019

⟲⟲ آج کی بات ⟳⟳

نرم مزاج ہونا ایک بہترین سرمایہ کاری ہے۔
 نرم مزاج لوگوں کے دوسروں سے وابستہ کام اکثر آسانی و سہولت کے ساتھ انجام پا جاتے ہیں۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⟲⟲ آج کی بات ⟳⟳ نرم مزاج ہونا ایک بہترین سرمایہ کاری ہے۔  نرم مزاج لوگوں کے دوسروں سے وابستہ کام اکثر آسانی و سہولت کے ساتھ انجام ...

اگر ایک دن ۔۔۔۔

Image result for ‫محمد صلی اللہ علیہ وسلم‬‎

*⚜ اگر محمّدٌ رسول الله اک دن تم سے ملنے آجائیں ⚜*
   
(جنوبی افریقہ کے مسلمانوں کی تنظیم "ینگ مسلم  ایسوسی ایشن "
 کے ششماہی رسالے [Awake] کی انگریزی نظم سے ماخوذ)



اگر محمّد رسول الله اک دن تم سے ملنے آجائیں!
بالکل اچانک تشریف لائیں!
میں حیران ہوں کہ تم کیا کرو گے؟
کیا کرو گے
ہاں میں جانتا ہوں،،،
تم اپنا بہترین کمرہ،،،
اپنے محترم مہمان کو پیش کرو گے!
سب سے عمدہ ، سب سے اعلی
طعام کا اہتمام کرو گے،،،،
اپنی ہر بات سے انھیں احساس دلاؤ گے،،،
کہ ان کی آمد سے تم بہت خوش، بہت دلشاد ہو،،،
ان کی آمد تمہارے لیے اک اعزاز ہے،،،
اک ناقابل بیان مسرت!!!
اور مسلمان کا اک حسین خواب ہے،،، 

لیکن ... جب تم انھیں آتا دیکھو گے
کیا دوڑ کر ان سے دروازے پر مل پاؤ گے ؟؟
ان کے استقبال میں اپنے بازو وا کر سکو گے؟
یا ان کی اندر آمد سے پہلے ہی تمہیں،،،
اپنا لباس تبدیل کرنے دوڑ جانا پڑے گا،،،
ان کی نظروں سے چھپا کر، تمام رسائل ہٹا کر،،،
قرآن پاک سجانا پڑے گا!!!
پھر کیا تم اپنے ٹی وی پر وہی لباس،
وہی مناظر دیکھ سکو گے؟؟
یا ان کی نظر پڑنے سے پہلے ہی،
دوڑ کر اپنا ٹی وی بھی بند کردو گے؟؟
کیا اس خواہش پر کہ ان کی سماعت سے،،،
تمہارا ریڈیو، تمہاری سی ڈیز، ڈی وی ڈیز دور رہیں،،،
ان سب کو بھی کہیں چھپا دو گے ؟؟
اور پچھتاؤ گے کاش!!
تم نے اس وقت اس اونچی آواز میں،،،
کبھی بات نہ کی ہوتی!! 

کیا نغمہ و موسیقی کے آلات چھپا کر؟
ان پر احادیث کی کتابیں ڈھانک دو گے؟؟
اور پھر کیا تم انہیں اپنے گھر کے ہر گوشے...
ہر جگہ، ہر حصہ میں بلا جھجک لے جاؤ گے؟
یا پھر انھیں اپنا گھر دکھانے سے پہلے ہی،،،
یہ سب کچھ چھپانے دوڑ جاؤ گے؟؟ 

اور میں حیران ہوں ... اگر محمّد صلی اللہ علیہ وسلم
ایک یا دو دن تمہارے ساتھ گزارنا چاہیں،،،
تمہاری ذات، تمھارے خاندان کو،،،
یہ اکرام دینا چاہیں...
کیا تم اپنے معمول کے مطابق کام کر پاؤ گے؟؟
وہی الفاظ جو کہتے ہو، کہہ پاؤ گے؟؟
کیا تمہاری زندگی کے روز و شب،،،
برقرار رہ سکیں گے؟؟
کیا تمھاری روز مرہ کی گفتگو ،،،
ویسے ہی جاری رہ سکیں گی؟
یا تمھارے لیے ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے،،،
کھانے کی دعائیں پڑھنی بھی مشکل ہو جائیں گی؟؟
تمہیں نمازیں ٹال کر سونے کو جانا یاد رہے گا،،،
تمہیں خوشی کے ساتھ رب کے دربار میں،،،،
بار بار جھکنا یاد رہے گا؟؟*
جو گیت اور نغمے اکثر گنگناتے ہو ،
وہی گنگنا پاؤ گے؟؟
وہی کتابیں وہ رسالے جو پڑھتے ہو، پڑھ پاؤ گے
انہیں بتا سکو گے کہ تمہاری سوچ،،،
تمہارے خیالات اور تمہاری نگاہیں،،،
کہاں کہاں بھٹکتی ہیں، کس کس کو کہاں ٹٹولتی رہتی ہیں...
انہیں بتا پاؤ گے کہ یہ سب کچھ تمہاری روح ،
تمہارے وجود میں سمایا ہوا ہے...
کیا ہر اس جگہ جہاں تم جاتے ہو،،،*
محمّد رسول الله کو، اپنے ہمراہ لے جا سکو گے؟؟
اپنے ہر ساتھی، ہر ملنے والے سے انہیں ملوا پاؤ گے؟؟*
یا چاہو گے کہ ان کے قیام تک،،،
یہ سب تم سے دور ہی رہیں ؟؟؟

اور اگر وہ ....
اگر وہ ساری عمر تمھارے ساتھ رہنا چاہیں؟؟
تو کیا تم تمام عمر کے لیے، انہیں اپنا مہمان بنا پاؤ گے
یا پھر اک آزادی اور اطمینان کا سانس لو گے...
جب آخر کار وہ اک دن،،،
تمہارے گھر سے واپس لوٹ جائیں گے،،،،
کیا یہ تصور، یہ خیال، خوشگوار نہیں ہوگا؟؟*
اگر میں جاننا چاہوں کہ تم اس وقت کیا کرو گے،،،
جب محمّد رسول الله کچھ دن ، کچھ وقت!!
تمارے ساتھ گزارنے کے لیے!!!*
اپنی امّت کے احوال سے آگاہی کے لیے!!!
اپنی امّت کی خیر خواہی کے لیے!!!*
تمھارے گھر مہمان رہیں!!!

ذرا سوچو! میں کیسے انہیں رکھوں گا؟
یہاں  کیسے رہوں گا میں اور وہاں کیسے۔۔۔؟

*⚜ اگر محمّدٌ رسول الله اک دن تم سے ملنے آجائیں ⚜*     (جنوبی افریقہ کے مسلمانوں کی تنظیم "ینگ مسلم  ایسوسی ایشن "  ...

اسلام میں انسان کی عزت افزائی۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 21 جون 2019


اسلام میں انسان کی عزت افزائی
 خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) 
 21 جون 2019 بمطابق 18 شوال 1440 ہجری
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی 
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل


فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے18 شوال 1440 ہجری کا خطبہ جمعہ " اسلام میں انسان کی عزت افزائی" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی جسے چاہے اپنا چنیدہ اور برگزیدہ بنا لیتا ہے یہ اللہ تعالی کے اختیار میں کسی کو اس میں دخل اندازی کا اختیار نہیں ہے، تو اللہ تعالی نے انسان کو تمام مخلوقات کی خوبیوں کا مرکب بنایا اور انسان کو اپنے ہاتھ سے بنا کر اسے فضیلت اور مقام بخشا جو کہ انسان کی عزت افزائی بھی ہے، پھر بر و بحر میں ہر چیز انسانوں کے لئے مسخر کر دی، یہ عزت افزائی سب کے لئے ہے چاہے کوئی مسلمان ہو یا کافر، جبکہ آخرت میں عزت افزائی صرف مسلمانوں کے لئے ہوگی، دنیا میں انسانوں کی عزت افزائی صرف اس لیے ہے کہ انسان اللہ کی بندگی میں مزید دل لگائیں اور اپنی پیشانی صرف اسی کے آگے جھکائیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں یہ قانون بتلایا ہے کہ اگر انسان کے اعمال اچھے ہوں تو اس کے مثبت اثرات خود انسان سمیت ارد گرد کے ماحول پر بھی پڑتے ہیں، آخرت میں ان سب لوگوں کی تکریم اور عزت ہوگی جنہوں نے شرک نہ کیا ہو گا، اور دنیا میں ان کے لئے اعلی مقام ہو گا جو دین الہی کی نصرت کے لئے کاوش کرتے ہیں اور اقامت نماز، زکاۃ کی ادائیگی ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں، دوسری طرف انسان کی بد اعمالیوں سے خود انسان بھی متاثر ہوتا ہے اور معاشرہ بھی منفی اثرات کے زیر اثر آ جاتا ہے، چنانچہ علانیہ فحاشی طاعون کا اور نت نئی وبائی امراض کا باعث بنتی ہے، اسی طرح عدم نفاذ شریعت، زکاۃ ادا نہ کرنا، ناپ تول میں کمی اور عہد شکنی بالترتیب باہمی اختلاف، بارشوں کی کمی، ظالم حکمرانوں کے تسلط، اور بیرونی دشمنوں کے زیر عتاب آنے جیسے منفی اثرات میں گھرنے کا باعث بنتے ہیں، آخر میں انہوں نے سب مسلمانوں کو استقامت کی دعوت دی اور اخروی گھر کی تیاری کرنے کی ترغیب دلائی اور پھر سب کے لئے دعا منگوائی۔


⇛ منتخب اقتباس ⇚

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہی غالب اور بخشنے والا ہے، وہی رات کو دن کے بعد اور دن کو رات کے بعد لاتا ہے، اس میں اہل دانش کے لئے نشانیاں ہیں، میں اپنے رب کی معلوم اور نامعلوم سب نعمتوں پر حمد و شکر بجا لاتا ہوں ان کا شمار بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا، ہمارے پروردگار کے نام مقدس اور اس کی صفات عظمت والی ہیں، اس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں، وہ یکتا اور زبردست ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے رحمت الہی اور جنت کی خوشخبری دی نیز دنیاوی سزاؤں اور اخروی عذاب سے ڈرایا، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- انکی آل اور نیکو کار صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اپناؤ اور تقوی حاصل کرنے کے لئے اللہ کی رضا تلاش کرو اور اللہ کے غضب و عذاب سے بچو۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ} 
اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں ، اللہ پاک ہے وہ ہر اس چیز سے بلند تر ہے جسے لوگ شریک بناتے ہیں۔ [القصص: 68]

تو اللہ تعالی نے ساری مخلوقات کو اپنی قدرت، علم، حکمت اور رحمت کے ذریعے پیدا کیا، اس مشاہداتی کائنات کو وجود بخشا اور اس کا ایک وقت مقرر فرمایا جس سے کائنات ایک لمحے کے لئے بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتی، اس مشاہداتی کائنات میں اسباب بھی پیدا فرمائے، اور ان اسباب سے پیدا ہونے والی چیزیں بھی پیدا کیں، اس طرح اللہ تعالی سبب اور مسبب دونوں کا خالق ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (62) لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ}
 اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر ایک کا نگہبان ہے[62] اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے ہی خسارہ پانے والے ہیں۔ [الزمر: 62، 63]

ایک اور مقام پر فرمایا:
 {أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ}
 پیدا کرنا اور حکم چلانا اسی کے لائق ہے، جہانوں کا پروردگار اللہ بہت ہی بابرکت ہے۔ [الأعراف: 54]
 تو انسان بھی اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، اور یہ اللہ تعالی کی ایک انوکھی مخلوق ہے، اس میں اللہ تعالی نے دیگر مخلوقات میں بکھری ہوئی خوبیاں یکجا کر دی ہیں، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ}
 یقیناً ہم نے انسان کو بہترین قالب میں پیدا کیا ہے۔[التين: 4]

اللہ تعالی نے اولاد آدم کی عزت افزائی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: 
{وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا}
 بلاشبہ! ہم نے بنی آدم کی عزت افزائی کی اور بحر و بر میں انہیں سواری مہیا کی، کھانے کو پاکیزہ چیزیں دیں اور جو کچھ ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے کثیر مخلوق پر انہیں نمایاں فوقیت دی۔ [الإسراء: 70]

یہاں دنیا میں اللہ تعالی کی طرف سے نعمتوں کے ذریعے عزت افزائی تمام اولاد آدم کے لئے ہے چاہے کوئی نیک ہے یا فاجر ، یہ عام عزت افزائی ہے، جبکہ آخرت میں ملنے والی رضائے الہی اور جنت کی صورت میں عزت افزائی خاص ہوگی اور یہ صرف اہل ایمان کو ملے گی آخرت میں کافر کے لئے کچھ نہیں ہو گا؛ یہ بھی واضح رہے کہ تمہارا پروردگار کسی پر ظلم بھی نہیں فرماتا۔

آخرت میں اللہ تعالی صرف اسی انسان اور جن کو عزت دے گا جس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی ہو گی، جیسے کہ ابن عساکر نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فرشتے کہتے ہیں: پروردگار! تو نے ہمیں پیدا کیا اور آدم کی اولاد کو بھی پیدا فرمایا، تو نے انہیں کھانے، پینے ، پہننے اور شادیاں کرنے کی صلاحیت دی، وہ سواری بھی کرتے ہیں، سوتے بھی ہیں اور آرام بھی کرتے ہیں، لیکن ان چیزوں میں سے کچھ بھی ہمیں عطا نہیں کیا لہذا آدم کی اولاد کو دنیا دے دے اور ہمیں آخرت دے دے، تو اللہ تعالی نے فرمایا: ایسی مخلوق جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اس کو کسی ایسی مخلوق کے برابر نہیں کروں گا جسے میں نے کلمہ کن کہہ کر پیدا کیا ہے) اس حدیث کا ایک شاہد عبد اللہ بن عمرو سے بھی مروی ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

بنی آدم کو دی گئی بڑی نعمتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے بہت سی مخلوقات، چیزیں اور نعمتیں کام پر لگائی ہوئی ہیں، اسی کا ذکر اللہ تعالی نے کرتے ہوئے فرمایا:
 {أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً} 
کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ نے تمہارے لئے کام پر لگا دیا ہے اور اس نے اپنی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں ۔[لقمان: 20]

یہاں اولاد آدم پر نعمتوں کی بھر مار کرنے میں حکمت یہ ہے کہ سب کے سب اللہ تعالی کے سامنے سرنگوں ہوں اور اسی کا شکر ادا کریں، نیز کسی کو بھی اس کا شریک مت ٹھہرائیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ}
 یہ اس لیے ہے کہ تم پر اپنی نعمتیں پوری کر دے اور تم اسی کے سامنے سرنگوں رہو۔[النحل: 81]
 اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یعنی اللہ تعالی اسی طرح تمہارے لیے ایسی چیزیں بناتا ہے جن سے تم اپنے کام نکالو اور اپنی ضرورت پوری کرو تا کہ یہ چیزیں تمہارے لیے اللہ کی اطاعت اور عبادت میں معاون بن جائیں"

انسان کا تذکرہ کر کے اللہ تعالی نے جو اسے بلند مقام دیا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، پھر اسے ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کیا؛ اس سب کا مقصد یہی ہے کہ انسان کو اپنی دنیاوی ذمہ داری معلوم ہو جائے، انسان فرض شناس ہو، اسے علم ہو کہ اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ اللہ تعالی نے اسے اپنے اوامر اور نواہی کا مکلف بنایا ہے، اس انسان کو شرعاً ذمہ داری سونپی ہے، نیز اسے اللہ تعالی کی بندگی کا شرف بھی حاصل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى} 
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے بے مہار چھوڑ دیا جائے گا؟[القيامة: 36] 
امام شافعی رحمہ اللہ بے مہار کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: "اسے نہ کوئی حکم دیا جائے گا اور نہ ہی کسی کام سے منع نہ کیا جائے گا!"

اس کے علاوہ اللہ تعالی نے اس کائنات کے جو اصول ہمارے لیے بیان کیے ہیں اور جو اسباب اس کائنات میں وجود پانے کے بعد مؤثر ہوتے ہیں انہیں بھی بیان کیا اور واضح کیا کہ: اگر انسان کے اعمال اچھے ہوں تو انسان کی زندگی بھی سنور جاتی ہے، اور اگر اعمال ہی گھٹیا ہوں تو زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل اور عدل کی بدولت انسانی اعمال کا منفی یا مثبت اثر حیوانات اور نباتات پر بھی ہوتا ہے؛ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ اطاعت گزاری پر کار بند رہیں اور حرام کردہ امور سے بچیں، چنانچہ انسانی اعمال کی بدولت زندگی سنور جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ}
 اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوی اپناتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلا دیا تو ہم نے انہیں ان کی کارستانیوں کی وجہ سے پکڑ لیا۔ [الأعراف: 96]

 اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ}
 اگر ہم انہیں زمین کا اقتدار بخشیں تو وہ اقامت نماز، زکاۃ کی ادائیگی ، اچھے کام کا حکم دیں اور برے کام سے روکیں گے، تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔ [الحج: 41] 
ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک بار خطاب کیا تو اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: "توجہ کریں! یہ صرف حکمران کی ہی ذمہ داری نہیں ہے، اس میں رعایا بھی برابر کی شریک ہے، کیا میں تمہیں یہ نہ بتلاؤں کہ اس ضمن میں تمہارے حکمران پر کیا حقوق ہیں؟ اور حکمران کے تم پر کیا حقوق ہیں؟: تمہارے حقوق یہ ہیں کہ حقوق اللہ کے متعلق تمہارا محاسبہ کرے، تمہارے درمیان انصاف کرے، اور حسب استطاعت تمہاری صحیح ترین سمت میں رہنمائی کرے۔ جبکہ تم پر یہ لازمی ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو"

جس طرح نیک عمل کی تاثیر عام بھی ہوتی ہے اسی طرح خود نیک عمل کرنے والے پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
 جو کوئی بھی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے تو ہم لازمی طور پر اسے دنیا میں بہترین زندگی عطا کریں گے اور آخرت میں اسے اس کے عمل سے بھی بہترین اجر ضرور عطا کریں گے۔[النحل: 97]

جبکہ اس کے مد مقابل یہ بھی ہے کہ بد اعمالیاں جس طرح برے شخص کو نقصان پہنچاتی ہیں اسی طرح زندگی بھی خراب کر ڈالتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ}
 اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو آسمانوں اور زمین اور جو بھی ان میں ہیں؛ سب تباہ ہو جاتے۔[المؤمنون: 71]

ایک اور مقام پر فرمایا:
 {ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ}
 خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فساد برپا ہو گیا ہے تاکہ اللہ لوگوں کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آ جائیں ۔[الروم: 41]

اے انسان! تم سابقہ امتوں میں ان لوگوں کی صورت حال پر غور کرو جنہوں نے برائیاں کی تھیں کہ ان پر کیا تکالیف آن پڑیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ}
 اور ہم نے بہت سی ظالم بستیاں تباہ کر کے رکھ دیں، اور ان کے بعد دوسرے نئے لوگ پیدا کر دیے[الأنبياء: 11]

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پانچ چیزوں کے بدلے پانچ چیزیں رونما ہوں گی:

  • جب کسی قوم میں علانیہ فحاشی ہونے لگ جائے ، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو پہلے نہ تھیں ۔
  • جب ان کے حکمران اللہ تعالی کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے ، تو اللہ تعالی ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔
  • جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالی آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے ، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا ۔
  • جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط ، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
  • جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے ، وہ ان کی ملکیت کا جزوی حصہ چھین لیتا ہے) اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

اے انسان!

تم دیکھو کہ اللہ تعالی نے تم پر کیا کیا نعمتیں کی ہیں، ان نعمتوں کو کوئی شمار میں نہیں لا سکتا، تم ان کا شکر ادا کرو؛ کیونکہ اگر کوئی معمولی سی بھی نعمت تم سے چھن گئی تو اللہ کے سوا کوئی بھی اسے واپس نہیں لوٹا سکتا، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی کوئی نعمت معمولی نہیں ہوتی۔

اے انسان!

تم استقامت، صلاحیت، بہتر کارکردگی اور برائی سے رک کر اپنے معاشرے کو تحفظ دے سکتے ہو، اپنے آپ کو نقصانات اور سزاؤں سے بچا سکتے ہو۔ یہ بھی ذہن نشین کر لو کہ تم دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں باز پرس کا سامنا کرو گے، تو دیکھو کہ تمہارے پاس کیا جواب ہے؟

ایک حدیث میں ہے کہ: (اس وقت تک بندے کے قدم ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے: عمر کہاں گزاری، جوانی کہاں فنا کی، دولت کہاں سے کمائی اور کہاں خرچ کی؟ اور سیکھے ہوئے علم پر کتنا عمل کیا؟)

اے انسان!

تمہارا دائمی گھر وہی ہے جو موت کے بعد تمہیں ملے گا، تو اگر تم نے اپنے اس دائمی گھر کو نیکیوں سے آباد کر لیا ہے تو تمہارے لیے مبارکباد ہے، اور اگر تم دنیا میں مشغول ہو کر اخروی گھر بھول گئے ہو تو تمہارے لیے بربادی ہے۔ تمہاری دنیا تم سے منہ موڑ کر چلی جائے گی چاہے تم دنیا سے محبت رکھو یا بیزاری کا اظہار کرو، جبکہ آخرت تمہارے اعمال کے ساتھ تمہاری طرف بڑھ رہی ہے ۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
 یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو [الأحزاب: 56] اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود پڑھو۔

یا اللہ! ہمیں حق بات کو حق سمجھنے کی توفیق دے اور پھر اتباعِ حق بھی عطا فرما، یا اللہ! ہمیں باطل کو باطل سمجھنے کی توفیق دے اور پھر اس سے اجتناب کرنے کی قوت بھی عطا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ تو جسے چاہے راہ مستقیم کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور جنت کے قریب کرنے والے اعمال کی توفیق مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم اور جہنم کے قریب کرنے والے اعمال سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! تمام معاملات میں ہمارا انجام بہتر فرما دے، یا اللہ! ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما دے۔

یا اللہ! ہمارے دلوں کو تیری اطاعت گزاری پر ثابت قدم بنا دے، یا ذالجلال والا کرام! یا رب العالمین!

یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا دے، یا رب العالمین!

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [النحل: 90]

عظمت و جلالت والے اللہ کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

اسلام میں انسان کی عزت افزائی  خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)   21 جون 2019 بمطابق 18 شوال 1440 ہجری امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈ...

ازدواجی زندگی کے لیے رہنما تعلیمات ۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 14 جون 2019


ازدواجی زندگی کے لیے رہنما تعلیمات 
خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 
 14 جون 2019 بمطابق 11 شوال 1440ھ
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ماہر بن حمد المعیقلی 
ترجمہ: فرہاد احمد سالم

فضیلۃ الشیخ ماہر بن حمد المعیقلی (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 11 شوال 1440ھ کا خطبہ جمعہ '' ازدواجی زندگی کے متعلق رہنما تعلیمات'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے شادی کا حکم دیا اور اس کو انبیاء و رسل کی سنت قرار دیا چنانچہ شریعت الہی نے نکاح کو آسان کیا اور اس کو عفت اور پاکدامنی کا ذریعہ بنایا۔ ازدواجی زندگی شوہر اور بیوی کی ضرورت ہے اس سے ان دونوں کی زندگی سنورتی ہے ۔ ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کے لئے شوہر اور بیوی دونوں پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جن میں شوہر اور بیوی کا آپس میں دینی و دنیوی معاملات میں تعاون، ایک دوسرے کی خدمت، آپس کے معاملات میں رعایت نیز آپس میں غم و پریشانی دور کرنا شامل ہے ۔اسی طرح شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کی ضروریات کو حسب استطاعت پورا کرے اور رہن سہن میں اسے اپنے برابر رکھے اسی طرح بیوی شوہر ہر خرچ سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ ازدواجی زندگی میں شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے پر اعتماد اور پوشیدہ رازوں کی حفاظت بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ ازدواجی زندگی میں محبت ، نرمی اور حسن ظن زندگی کو چار چاند لگا دیتے ہیں ۔ اسی طرح خوشی مسرت اور تفریح بھی حسن معاشرت میں شامل ہیں۔ ٖغرض یہ کہ ان اچھی صفات کے ساتھ ازدواجی زندگی نیکی تقوی میں معاون اور حسن ایمان کی علامت ہے۔


↠ منتخب اقتباس ↞

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے انسان کو پیدا کیا اور کامل بنایا ،نیز ٹھیک تخمینہ لگایا اور رہنمائی فرمائی ۔ اسی نے ٹپکتے ہوئے قطرے سے دو قسمیں نر اور مادہ پیدا کیں ۔میں اللہ پاک کی حمد بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں ،نیز اس کی تعریف کرتا اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر آپ کی آل ، صحابہ ، تابعین اور بہترین انداز میں قیامت تک آپ کی پیروی کرنے والوں پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد!
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1]
لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے (دنیا میں) بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے۔

امت اسلام!
ان دنوں میں جب کہ شادی کی تقریبات کثرت سے ہوتی ہیں شادی کے متعلق گفتگو بڑی اہمیت کی حامل ہے اور یہ گفتگو قرآن و حدیث کے دلائل اور نصیحتوں کا تقاضا کرتی ہے ۔
جیسے کہ اللہ تعالی نے شادی کا حکم دیا اس کی ترغیب دلائی اور اس کو انبیاء اور رسل کی سنت قرار دیا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً } [الرعد: 38]
ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ کی شریعت نے نکاح کو آسان بنایا، پس شریعت نے ہر اس چیز سے روکا جس سے نکاح کی تکمیل میں رکاوٹ ہو یا آسان نکاح کو مشکل بنا دے۔
دنیا کا سب سے بہترین ذریعہ لطف اندوزی نیک بیوی ہے کہ جب شوہر اس کو دیکھے تو خوش کر دیتی ہے ، جب حکم دے تو بجا لاتی ہے اور جب خاوند موجود نہ ہو تو اس کی ہر چیز کی حفاظت کرتی ہے ۔

شادی ایک مضبوط عہد ہے یہ اللہ کے فضل سے دنیا میں شروع ہوکر آخرت میں بھی قائم رہتی ہے ۔

مسلم اقوام! 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ازواجی زندگی شوہر اور بیوی دونوں کی ضرورت ہے ، یہ ضرورت دلہا اور دلہن دونوں کو ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے ان کی زندگی سنورتی ہے اور محبت و الفت کے ماحول میں بچوں کی پرورش ہوتی ہے تو یہ اچھی معاشرت، پاکیزہ معاملات اور نرمی کے بغیر ممکن نہیں۔
اور یہ اللہ تعالی کے اس حکم کی تعمیل ہے: 
{وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ} [النساء: 19]
اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔

اچھے طریقے سے زندگی بسر کرنے کا مطلب ہے کہ ان کے ساتھ ہر اس طریقے سے اچھائی کرو جو اچھائی شرعی طور پر معروف ہے اور حسب قدرت اچھی باتیں اور اچھے کام وغیرہ کرو۔

حسن معاشرت میں شوہر اور بیوی دونوں کا دین و دنیا کے معاملات کی ادائیگی میں ایک دوسرے سے تعاون بھی شامل ہے ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ ہی طریقہ تھا، 

چنانچہ مسند امام احمد میں ہے :
سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے دریافت کیا کہ آیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کوئی کام کیا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتے مرمت کر لیتے، کپڑے کو سلائی کر لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں اسی طرح کام کرتے تھے، جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھر میں کام کاج کرتا ہے۔

شوہر بیوی دونوں میں سے کسی ایک کے لئے بھی درست نہیں کہ وہ ایک دوسرے کی خدمت سے یا اپنی ذمہ داری سے دور بھاگیں یا ایک دوسرے پر احسان جتلائیں ۔

مسلم اقوام!
حسن معاشرت کے مظاہر میں یہ بھی ہے کہ شوہر اور بیوی آپس میں خیال رکھیں، ایک دوسرے کے غم و پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کریں اور آپس میں فرحت و مسرت پیدا کریں۔

خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے عمل کو دیکھیے جب جبرائیل (علیہ السلام) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلی مرتبہ آئے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں گھر لوٹے کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے مجھے پر چادر ڈالو ، مجھ پر چادر ڈالو، چنانچہ خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے اس وقت بہترین انداز میں اپنے فریضے کو سر انجام دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون محسوس ہوا اور دل مطمئن ہو گیا۔ آپ (رضی اللہ عنہا) کی سیرت سے انسیت اور الفت کا سبق ملتا ہے ۔ خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور وہ صاحب علم تھے ، تو انہوں نے کہا کہ یہ تو وہ ہی ناموس (یعنی جبرائیل (علیہ السلام) ہے جو اللہ نے موسی پر اتارا تھا)۔

حسن معاشرت میں یہ بھی ہے کہ خوشحالی کی حالت میں شوہر اپنی بیوی کے خرچے میں تنگی نہ کرے اور رہن سہن میں اپنے برابر رکھے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ} [الطلاق: 6]
انہیں اپنی طاقت کے مطابق وہاں رہائش دو جہاں تم رہتے ہو ، اور انہیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

آپ کے خرچ کے سب سے زیادہ مستحق آپ کے اہل و عیال اور خواص ہیں ، ان پر خرچ کرنا ضائع کرنا نہیں ہے بلکہ یہ باقی رہنے والا صدقہ ہے ۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کی عظمت اور اس کے بڑے اجر کو بیان کیا ۔
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ( جن دیناروں پر اجر ملتا ہے ان میں سے ) ایک دینا وہ ہے جسےتو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ایک دینار وہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن ( کی آزادی ) کے لیے خرچ کیا ایک دینا ر وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل پر خرچ کیا ۔

اسی کے بالمقابل بیوی کے لئے بھی جائز نہیں کہ شوہر پر خرچ کا اتنا بوجھ ڈالے جو وہ اٹھا نہ سکے، اور خصوصاً اگر مطلوبہ چیز کا تعلق سہولیات سے ہو نہ کہ ضروریات سے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا } [الطلاق: 7]
لازم ہے کہ وسعت والے اپنی وسعت میں سے خرچ کرے ، اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جتنا اللہ نے اسے دیا ہے ، اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی جو اسے دیا ہے ، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کرے گا۔

شریک حیات!
حسن معاشرت کی خصلتوں میں شوہر اور بیوی کا ایک دوسر ے پر بھروسا کرنا بھی شامل ہے ، معتدل غیرت میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تو اعلی مروت میں شامل اور محبت کی دلیل ہے ۔

صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ کو غیرت آتی ہے اور مومن کو بھی غیرت آتی ہے ۔

لیکن حد سے بڑھی ہوئی غیرت مسئلہ ہے کیونکہ اس سے بد گمانی پیدا ہوتی ہے ،اسی طرح اگر ہر بات کی غلط تاویل کی جائے کہ جس سے معاشرت کی شفافیت پر داغ آتا ہو ،اور ازدواجی زندگی منہدم ہو تی ہو تو یہ غیرت قابل مذمت ہے۔
علی (رضی اللہ عنہ) کا قول ہے : اپنے اہل و عیال پر زیادہ غیرت نہ کرو کہ تمہاری وجہ سے ان پر تہمت لگنے لگے۔

اللہ کے بندو! حسن معاشرت میں ازدواجی تعلقات کے رازوں کی حفاظت بھی شامل ہے اس لئے کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ انتہائی گہرا رشتہ ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ} [البقرة: 187]
وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔
ازدواجی زندگی کے رازوں کو شریعت نے خفیہ رکھنے کا حکم دیا ہے ،جہاں تک ان کو عام کرنے اور پھیلانے کی بات ہے تو یہ بڑی خیانت ہے جو قیامت کے دن ایسا کرنے والے کو بد ترین درجے میں لے جائے گی۔

حسن معاشرت میں بیوی کے ساتھ ایسی تفریح بھی ہے جس سے خوشی اور مسرت حاصل ہو ، جو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کرے گا وہ یہ بات جان لے گا کہ نبوت کی ذمہ داری کے باوجود بیویوں کے ساتھ تفریح کے بہت سے مظاہر پائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں موجود ہیں۔

اے شوہر !
 زینت ، کھانے اور لباس میں بیوی کی تعریف اس کے دل کی کنجی اور محبت کا راستہ ہے ۔

یاد رکھیں !اچھے لوگوں کا دل ہمیشہ نرم ہوتا ہے، آپ اپنی بیوی کے لئے ایسے ہی رہیے جیسے آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے لئے رہے ، وہ بھی آپ سے وہ ہی چاہتی ہے جو آپ اس سے چاہتے ہیں ۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ابن عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :
میں بیوی کے لئے زینت اختیار کرنا پسند کرتا ہوں جیسے کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے لئے زینت اختیار کرے ،اس لئے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :
 {وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ} [البقرة: 228] 
اور معروف کے مطابق ان (عورتوں ) کے لئے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے۔

حسن معاشرت میں یہ بھی ہے کہ شوہر اور بیوی آپس میں محبت کا اظہار کریں اور قول کے ساتھ ساتھ اپنے فعل سے بھی الفت کا مظاہرہ کریں ۔
بخاری اور مسلم میں ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا لوگوں میں آپ کا سب سے محبوب کون ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ (متفق علیہ) 

شوہر اور بیوی !
آپ دونوں حسن معاشرت کی جتنی بھی کوشش کر لیں کمی کوتاہی اور اختلاف ہو ہی جاتا ہے ، پس شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی ان چیزوں کو معاف کر دیں اور دونوں خطاؤں اور لغزشوں سے صرف نظر کو اپنا شعار بنا لیں۔
اس لئے کہ اگر چھوٹی چھوٹی چیزوں پر محاسبہ کرو گے تو ہر ایک چیز سے عاجز ہو جاؤ گے۔

دونوں کو چاہیے کہ غصے کے وقت بات کو مزید نہ پھیلائیں اور نہ ہی شریک حیات کی ناپسند چیز پر اڑیں، بلکہ فریق ثانی کی خوبیوں کو لازمی طور پر ذہن نشین کریں۔ نتیجتاً کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ وہ حسن اخلاق، پاکیزہ عادات ،اور بھلائیوں میں کوئی ایسی چیز نہ پائے جو اسے خوش کرے۔ اور یہ چیز مردوں پر زیادہ واجب اور تاکیدی ہے ۔

صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے ،ا گر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو دوسری کسی خوبی سے راضی ہو جائے۔ 

عورتوں کے ساتھ خیر کا معاملہ کرو وہ تمہاری مدد گار ہیں پس تم ان کے حقوق ادا کرو جیسے کہ تمہیں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی اور حقیقی بات یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی بنیاد اللہ کے تقوی پر ہے۔ شوہر اور بیوی کے معاملات میں تقوی پر رغبت دلانے اور اس پر ابھارنے کے بارے میں جو بات سورۃ طلاق میں آئی ہے وہ آپ اور کہیں نہیں پائیں گے ۔
جو تقوی اختیار کرے گا اللہ اس کے گناہ معاف فرما دے گا اور اجر بڑھا دے گا ، اس کے معاملات آسان کر دے گا اور ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دے گا نیز اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو گا۔ اللہ سے زیادہ بات میں سچا کون ہے ؟ اللہ سے زیادہ بات میں سچا کون ہے ؟

اے شوہر اور بیوی !
اپنے اور رحمٰن کے درمیان جو کچھ ہے اس کو درست کریں اللہ آپ کو ملا دے گا۔ کتنے ہی گناہ ہیں جن سے خوش و خرم خاندانوں میں پھوٹ ڈلتی اور کتنے ہی گناہ ہیں جن کا بدلہ بدبخت زندگی بنتی ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ} [الشورى: 30]
اور جو بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچی ہے تو وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور وہ بہت سی چیزوں سے درگزر کرتا ہے۔

ازدواجی رشتے میں سکون و اطمینان بڑی نعمت ہے ،اس کا حقیقی قدر دان تو وہ ہی ہو گا جو اس کی لذت سے محروم ہو، قرآن نے اس حسین نعمت کا ذکر کیا ہے۔
{وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا } [النحل: 80]
اور اللہ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں میں سکونت کی جگہ بنائی۔

اللہ کے بندو ! یہ سکونت کی جگہ راحت اطمینان ، محبت و رحمت پر قائم باہمی صحبت ہے۔ اس کے ذریعے روح پرسکون ہوتی اور جسم آرام پاتا نیز مطمئن اور خوش ہوتا اور گفتگو سے انسیت و بشاشت تلاش کرتا ہے۔

مومنو! ہمیں جاننا چاہیے کہ ازواجی زندگی صرف محبت سے ہی قائم نہیں ہوتی ، اگرچہ محبت سے قائم ہو تو سب سے مثالی اور بلند مقام کی نمائندگی کرتی ہے ، لیکن یہ محبت کے ساتھ رحمت پر بھی قائم ہوتی ہے ۔

امام بخاری کی تاریخ الکبیر اور امام بغوی کی شرح السنۃ میں ہے کہ ایک آدمی نے عمر (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں اپنی بیوی کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کیا تو مجھ سے محبت کرتی ہے ؟ تو بیوی نے کہا تم اللہ کا واسطہ دے کر پوچھ رہے ہو ، تو بات یہ ہے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتی ۔چنانچہ وہ آدمی عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس حاضر ہوا اور قصہ ذکر کیا، عمر (رضی اللہ عنہ) نے عورت کو بلایا ، جب وہ آئی تو اس سے پوچھا کیا تم ہی ہو جو کہتی کو کہ میں اپنے شوہر سے محبت نہیں کرتی ؟ عورت نے جواباً کہا : اے امیر المومنین اس نے مجھے اللہ کا واسطہ دیا تو کیا میں جھوٹ بولتی ، تو عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: ہاں اس سے جھوٹ ہی کہو سارے گھر محبت پر ہی قائم نہیں ہوتے بلکہ لوگ اسلام اور احسان کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ۔ 

یا اللہ ! ہر نئے جوڑے کو توفیق یاب فرما۔ یا اللہ ! ہر نئے جوڑے کو توفیق یاب فرما۔
یا اللہ ! ہر شوہر اور بیوی کو توفیق یاب فرما ، انہیں خوشی اور مسرت دے ، انہیں برکتوں سے نواز اور ان پر برکتوں کا دروازہ کھول دے نیز انہیں خیر پر جمع فرما اور نیک پاکیزہ ، بابرکت اولاد سے نواز۔
اے اللہ! مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو توفیق دے ، ان کو ظاہری اور باطنی فواحش اور فتنوں سے بچا۔
یا اللہ! ان کے لئے ایمان کو محبوب کر دے اور ان کے دلوں کو ایمان سے مزین کر دے ۔ نیز ان کے دلوں میں کفر ، فسق اور گناہ سے نفرت ڈال دے اور ان کو ہدایت یافتہ بنا دے۔

{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]
اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
اے اللہ ہمارے دلوں کو تقوی دے، ان کو پاکیزہ کر دے ، تو ہی ان کو سب سے بہتر پاک کرنے والا اور تو ہی ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔
یا اللہ ! ہم تجھ سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، اور دنیا و آخرت میں ہمیشہ معافی کا سوال کرتے ہیں۔
یا اللہ ! مسلمان مردوں اور عورتوں میں سے جو زندہ ہیں یا فوت ہو گئے ہیں ان کی مغفرت فرما۔
یا اللہ ! ہم سے قبول فرما بے شک تو سننے والا اور جاننے والا ہے، اور ہماری توبہ قبول فرما بے شک تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
{سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (180) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (181) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الصافات: 180 - 182]
پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں۔ پیغمبروں پر سلام ہے اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے ۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ازدواجی زندگی کے لیے رہنما تعلیمات  خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)   14 جون 2019 بمطابق 11 شوال 1440ھ امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ م...

ملاقات کے آداب اور ان کے نتائج ... خطبہ عید الفطر مسجد الحرام ۔۔۔۔ 04 جون 2019

Related image

ملاقات کے آداب اور ان کے نتائج 
خطبہ عید الفطر مسجد الحرام
 04 جون 2019 ۔۔۔ بمطابق 01 شوال 1440
امام و خطیب: معالی الشیخ صالح بن حمید
ترجمہ: فرہاد احمد سالم

معالی الشیخ صالح بن حمید (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 1 شوال 1440ھ کا خطبہ عید الفطر ''ملاقات کے آداب اور اس کے نتائج'' عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ عید خوشی اور مومنین کے لئے اللہ کی طرف سے انعام ہے، عید کی خوشیوں کا ایک مظہر: عزیز و اقارب سے ملاقات ہے ۔ چنانچہ ان ملاقات کے چند آداب پیش خدمت ہیں۔
ملاقات نیک نیتی ، صرف اللہ کے لئے تعلق، اور مستحق کا حق ادا کرنے کے لئے ہونی چاہیے۔ مہمانوں کے استقبال کے لیے مناسب وقت کا انتخاب ہونا چاہیے۔ ملاقات کے وقت کو پہلے سے مرتب کر نا چاہیے، وقت کی تعین کرتے ہوئے آداب ملحوظ رکھنے چاہیں ، اور اچانک تشویش ناک زیارتوں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔اسی طرح خوش دلی سے معذرت قبول کرنی چاہیے اور سب کی مصروفیات کا مکمل احترام کرنا چاہیے۔ ملاقات کے آداب مین اجازت طلبی بھی ہے ۔ جیسے واضح طور پر اپنا نام بتلائیں اور تعارف کروائیں، مناسب مؤدبانہ طریقے سے اجازت طلب کریں، اسی طرح ملاقات کے دورانیے کا بھی خیال رکھیں۔ اس وقت کی پابندی کی جائے جو میزبان متعین کرے ۔اسی طرح بلا ضرورت آواز اونچی نہ کی جائے ۔اسی طرح لوگوں کی باتوں ، کاموں اور خاص طور پر میزبان کے گھر یلو معاملات میں بلا وجہ دخل نہیں دینا چاہیے ، نیز جن چیزوں سے بچنا واجب ہیں ان سے لازم بچیں ،جیسے غیر محرم سے نظر کی حفاظت کریں اور گھر کے مختلف حصوں اور سازو سامان پر نظریں نہ گھمائیں۔ ایسی گفتگو نہ کرے جو میزبان کو ناپسند ہو ،مثلاً ایسے سوال یا گفتگو کہ جس کو وہ ناپسند کرتا ہے ۔وہاں ہی بیٹھا جائے جہاں میزبان بٹھائے یا بیٹھنے کی اجازت دے ۔گھر والے سے اجازت لئے بغیر رخصت نہ ہوں ،نکلتے وقت بھی سلام کریں ۔مہمان کا مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ حسن استقبال اور نرم گفتگو کریں۔ گفتگو کو اچھی طرح سننا بھی شامل ہے اسی طرح بولنے والے کو مہلت دی جائے یہاں تک کہ وہ اپنی بات ختم کر لے ۔ملاقات کے آداب میں مجلس کو حرام اختلاط ، حرام کھانے پینے غیبت اور چغل خوری جیسی شرعی خلاف ورزیوں سے پاک رکھنا بھی شامل ہیں ۔مجالس امانت ہیں ۔مہمان کو رخصت کیا جائے اور اس کے ساتھ گھر کے دروازے تک چلا جائے ۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں ، جو انسانوں کا خالق، ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے اس نے جو چاہا وہ ہو گیا اور جو نہیں چاہا نہیں ہوا ، احتیاطی تدابیر تقدیر سے نہیں بچا سکتیں۔
تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں، اسی کے لئے دنیا و آخرت اور صبح و شام حمد ہے، اللہ اکبر، اللہ تعالی اس کے فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں اور تقدیر پر ایمان لاتے ہوئے اس کی بڑائی بیان کرتا ہوں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ تنہا اور یکتا ہے ، مفرد اور بے نیاز ہے، اس کے علاوہ کوئی پناہ گاہ اور ٹھکانا نہیں۔
میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ پاکیزہ پہلو ، اور خندہ پیشانی کے مالک ، آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔
اللہ تعالی آپ پر ، تابناک ستاروں کی مانند آپ کی آل ، روشن ستاروں کی مانند صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین پر ڈھیروں برکتیں اور سلامتی نازل فرما جب تک روزے دار روزہ رکھتے رہیں اور لا الہ الا اللہ کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔
اَللهُ اَكْبَرُ، اَللهُ اَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ اَكْبَرُ، اَللهُ اَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
اللہ اکبر کبیرہ والحمدللہ کثیرۃ و سبحان اللہ بکرۃ واصیلا

حمد و صلاۃ کے بعد!
لوگو میں اپنے آپ اور سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں کہ آپ تقوی اختیار کریں ، اللہ آپ پر رحم فرمائے ۔ 
اے جانے والوں کے جانشین اللہ سے ڈر جاؤ ۔ زاد راہ مکمل لے لو ، اور سوال کا جواب دینے کی تیاری کر لو ، تیاری میں جلدی کر و ، تیاری میں جلدی کر لو ؛ کیونکہ ابھی تک تمہارے پاس تیاری کا وقت ہے، آج عمل ہے اور حساب نہیں اور کل حساب ہو گا عمل نہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا} [النساء: 77]
آپ ان سے کہئے کہ : دنیا کا آرام تو چند روزہ ہے اور ایک پرہیزگار کے لیے آخرت ہی بہتر ہے'' اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اللہ اکبر ، اللہ نے اپنی بندگی کرنے والوں کو اطاعت کے ساتھ عمل کی توفیق دی ، چنانچہ ان کی کوشش قابل قدر ہوئی۔
الحمدللہ، اس نے اپنے لطف کے ساتھ احسان کیا اور ان کے حصے میں بخشش آئی۔
مسلمانو! آپ کو عید مبارک ہو ، اللہ تعالی ہم سے اور آپ کا قیام و صیام اور تمام عبادتیں قبول فرمائے ۔ آج کا دن اللہ کے مبارک دنوں میں سے ایک ہے، یہ ہم مسلمانوں کی عید ہے ۔ 

آپ کے لئے مبارک باد ہے ، آپ کا روزہ رکھنا اور افطار کرنا آپ کو مبارک ہو ، آپ کے لئے مبارک باد ہے کہ آپ نے تکبیرات پڑھیں اور شکر ادا کیا، تمہارا ظاہری شعار تکبیر اور باطنی شعار صلاح و تقوی ہے ۔
{وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [البقرة: 185]
تاکہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو، اس پر جو اس نے تمھیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔

عید صرف ایک اللہ کی تکبیر ، تحمید ، تسبیح اور تمجید ، نیز شکر اور اچھی عبادت کا نام ہے تاکہ تم اس پر اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر شکر ادا کرو اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے ۔

عید فراخی، خوشی ، اور مومنین کے لئے اللہ کی طرف سے انعام ہے ، ہماری عیدیں نرمی ، محبت ، سخاوت، ایثار اور جوڑنے کی عیدیں ہیں نیز امت مسلمہ کو یک جان بنانے والی ہیں ۔

اللہ اکبر! اس کی اطاعت افضل ترین کمائی ہے ، اور الحمد للہ ! تقوی مضبوط ترین نسب ہے۔

مسلمانو! میں اس موقع پر عید کی خوشیوں کا ایک مظہر: عزیز و اقارب سے ملاقات اور اس کے آداب و نتائج پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔

مسلمانوں کی عید کے واضح مظاہر میں باہمی ملاقات ، عید کی مبارک باد کا تبادلہ ، خوشی ، مسرت ، سینے کی کشادگی کے ساتھ شکریہ کا اظہار شامل ہے ۔

مسلمانو ! انسان اپنی فطرت میں سماجی ہے اور دین اسلام اجتماعیت اور الفت کا دین ہے ، جو مومن لوگوں کے ساتھ رہتا ہے اور ان کی ایذا پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن کی نسبت زیادہ اجر والا ہے جو لوگوں کے ساتھ نہیں رہتا اور ان کی ایذا پر صبر نہیں کرتا ۔

اللہ کے لئے بھائی چارہ مسلمانوں کا شعار ، اور نیکی اور تقوی میں باہمی تعاون اللہ کے لئے محبت کی دلیل ہے ۔
بندہ اسی کے ساتھ ہو گا جس سے اسے محبت ہو گی ، اور اس کے لئے اللہ کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی بندہ تمنا کرتا ہے۔
چار خصلتیں ایسی ہیں جو محبت پھیلاتی ہیں ۔
1) ملاقات ، 2) سلام،3) مصافحہ ،4) ہدیہ۔

اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر کبیرہ والحمدللہ کثیرۃ و سبحان اللہ بکرۃ واصیلا

مسلمانو! حافظ نووی (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں : تاکیدی طور پر نیک لوگوں ، بھائیوں ، پڑوسیوں ، دوستوں اور قرابت داروں کی زیارت اور ان کی تکریم نیز ان کے ساتھ احسان اور صلہ رحمی مستحب ہے۔ آپ (رحمہ اللہ تعالی) مزید فرماتے ہیں: اس ضابطہ اخلاق ان کے حالات مراتب اور فرصت کے مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف ہو گا، اس لیے ان کی زیارت اس طرح ہو کہ ان پر گراں نہ گزرے، اور ایسے وقت میں ہو جو ان کے لئے مناسب ہو ۔

دوستو! جب معاملہ ایسا ہی ہے تو یہ علم و حکمت اور آداب کے ماہرین کے بتائے ہوئے بعض آداب ، نتائج اور فوائد کی طرف کچھ اشارے ہیں ۔

ان آداب میں نیک نیتی ، صرف اللہ کے لئے تعلق، اور مستحق کا حق ادا کرنا شامل ہے ۔

مہمانوں کے استقبال کے لیے مناسب وقت کا انتخاب بھی ان آداب میں سے ہے۔

اسی طرح ملاقات کے وقت کو پہلے سے مرتب کر لیں، وقت کی تعین کرتے ہوئے آداب ملحوظ رکھیں، اور اچانک تشویشناک زیارتوں سے پرہیز کریں۔ ملاقات کا وقت ایسے مرتب ہو کہ آپ کا بھائی استقبال کے لئے تیار اور ملاقات کے لئے مستعد ہو سکے۔

اسی طرح خوش دلی سے معذرت قبول کریں اور سب کی مصروفیات کا مکمل احترام کریں۔ یہ قرآن کریم کے سکھائے ہوئے عظیم آداب میں شامل ہے: 
{وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ} [النور: 28]
اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لئے پاکیزہ ہے۔

دوستو! ملاقات کے لئے جن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ان میں اجازت طلبی کے آداب بھی ہیں۔
جیسے واضح طور پر اپنا نام بتلائیں اور تعارف کروائیں، مناسب مؤدبانہ طریقے سے اجازت طلب کریں، اسی طرح ملاقات کے دورانیے کا بھی خیال رکھیں، چنانچہ ملاقات زیادہ لمبی اور بیزار کرنے والی نہ ہو، اور نہ ہی اتنی مختصر کے ملنے اور محبت پھیلانے کا مقصد ہی پورا نہ ہو ، ان تمام باتوں کی بنیاد باہمی احترام اور ملاقات کرنے والوں کے آپس کے تعلقات کی نوعیت اور قربت پر قائم ہے ۔

اسی طرح بہتر ہے کہ اس وقت کی پابندی کی جائے جو میزبان متعین کرے ، نیز اللہ عزوجل کے اس فرمان پر غور کریں ۔

{ فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ} [الأحزاب: 53]
پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور نہ (بیٹھے رہو) اس حال میں کہ بات میں دل لگانے والے ہو۔ بے شک یہ بات ہمیشہ سے نبی کو تکلیف دیتی ہے، تو وہ تم سے شرم کرتا ہے اور اللہ حق سے شرم نہیں کرتا ۔

عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں طبیعت پر گراں لوگوں کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی ان سے شرمایا نہیں ۔

حافظ ابن قیم (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: لوگ یقیناً طبیعت پر گراں گزرنے والے آدمی سے نفرت کرتے ہیں چاہے وہ جتنا بھی دیندار ہو۔

اللہ کے لئے سوچیں کہ ہنس مکھ مزاج کتنے دلوں کو کھینچ لاتا ہے ، منہ چڑھا کر رکھنے والے لوگ خاص دوست نہیں ہوتے ، جب کے آپ خوش طبع انسان کو لوگوں میں معزز، نرم طبیعت ، اور ظریف مزاج والا پائیں گے۔

ملاقات کے وقت خیال رکھنے والی باتوں میں یہ بھی ہے کہ ، وقت مفید سرگرمیوں میں صرف کریں، نیز تکلف کے بغیر گفتگو کریں، اور ایسی چیزیں ہوں کہ جن سے خوشی ہو ، اسی طرح مجلس اور حاضرین مجلس میں انسیت پیدا ہو ، ساتھ ساتھ ملاقات کا مقصد محبت اور تعلق پروان چڑھے۔ 

اسی طرح بلا ضرورت آواز اونچی نہ کی جائے جیسے کہ لقمان (علیہ السلام) کی وصیت میں ہے ۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے ۔
{وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ} [لقمان: 19]
اور اپنی آواز کچھ نیچی رکھ، بے شک سب آوازوں سے بری یقیناً گدھوں کی آواز ہے۔

بعض عقل مند لوگوں کا قول ہے : اگر آواز کا بلند کرنا قابل تعریف ہی ہوتا تو اللہ تعالی اس کو گدھوں کے لئے نہ بناتا۔

تمام تعریفات اللہ ہی کے لئے ہیں کہ اس نے شریعت عطا کی ۔ اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے کہ اس نے اپنی اطاعت کا حکم دیا۔

مسلمانو!
اسی طرح لوگوں کی باتوں ، کاموں اور خاص طور پر میزبان کے گھر یلو معاملات میں بلا وجہ دخل نہیں دینا چاہیے ، نیز جن چیزوں سے بچنا واجب ہیں ان سے لازم بچیں ،جیسے غیر محرم سے نظر کی حفاظت کریں اور گھر کے مختلف حصوں اور سازو سامان پر نظریں نہ گھمائیں۔

قابل لحاظ ادب میں یہ بھی کہ ایسی گفتگو نہ کرے جو میزبان کو ناپسند ہو ،مثلاً ایسے سوال یا گفتگو کہ جس کو وہ ناپسند کرتا ہے ، لہذا آپ اپنی نگاہیں دراز نہ کریں جیسے اپنے ہاتھوں کو دراز نہیں کرتے ، اسی طرح اس بات کا بھی خیال رہے کہ آپ جو معاملات دیکھیں یا جو کھانا پیش کیا جائے اس میں نقص نہ نکالیں ، ہاں اگر کوئی نصیحت کرنی ہو تو حکمت عملی کا دامن نہ چھوڑیں ۔

ادب میں یہ بھی شامل ہے کہ وہاں ہی بیٹھا جائے جہاں میزبان بٹھائے یا بیٹھنے کی اجازت دے ،کیونکہ گھر والا ہی نشستوں کی ترتیب کا حقدار ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بلند ادب کی رہنمائی فرمائی ہے ۔

اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گھر میں امامت کرائے اور نہ اس کی خاص مسند ہی پر بیٹھے ( جو اس کی عزت کی جگہ ہو ) الا یہ کہ وہ اجازت دے ۔ 

انہی آداب میں یہ بھی ہے کہ گھر والے سے اجازت لئے بغیر رخصت نہ ہوں ،نکلتے وقت بھی سلام کریں جیسے داخل ہوتے وقت سلام کیا تھا ، پہلا سلام دوسرے سلام کو کافی نہیں ہے ،

دوستو! 
زیارت کے ان آداب میں مہمان کا مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ حسن استقبال اور نرم گفتگو بھی شامل ہے ۔
امام اوزاعی سے پوچھا گیا ، کہ مہمان کی تکریم کیا ہے ؟

انہوں نے جواباً فرمایا خندہ پیشانی سے ملیں اور اچھی گفتگو کریں۔
فضیل بن عیاض (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں :آدمی کا اپنے دوستوں سے نرمی کا معاملہ اور اچھا برتاؤ کرنا اس کے اپنے رات کے قیام اور دن کے روزے سے بہتر ہے ۔

شاید انہوں نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے لی ہے ۔

بلاشبہ مومن اپنے حسن اخلاق ( عمدہ عادات ) کی بنا پر ‘ شب زندہ دار اور دن کے روزہ دار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ۔

انہی آداب میں گفتگو کو اچھی طرح سننا بھی شامل ہے اسی طرح بولنے والے کو مہلت دی جائے یہاں تک کہ وہ اپنی بات ختم کر لے ،اس کی طرف پوری توجہ کی جائے نیز اس کی بات نہ کاٹی جائے اگر چہ سننے والا وہ بات پہلے سے جانتا ہو ۔
عطا (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں : نوجوان مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو میں اس کی بات کو ایسے سنتا ہوں جیسے اس سے پہلے سنی ہی نہیں حالانکہ وہ بات میں نے اس کی پیدائش سے پہلے کی سن رکھی ہوتی ہے ۔

ملاقات کے آداب میں مجلس کو حرام اختلاط ، حرام کھانے پینے غیبت اور چغل خوری جیسی شرعی خلاف ورزیوں سے پاک رکھنا بھی شامل ہیں ۔

مجالس امانت ہیں ، اور بہترین لوگوں کے سینوں میں راز محفوظ رہتے ہیں ،

ملاقات کے آداب اور اخوت کی علامات میں یہ بھی ہے کہ آپ اپنے ساتھی کے عذروں کو قبول کریں اس کی کمی کو پورا کریں اور اس کی لغزش کو معاف کریں ۔

مہمان کے ساتھ جب بچے بھی ہوں تو ان کو فضول حرکات اور شور غل سے روکنا چاہیے ،جو گھر والوں اور حاضرین کی تشویش کا سبب بنیں ۔

اسی طرح ان آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ مہمان کو رخصت کیا جائے اور اس کے ساتھ گھر کے دروازے تک چلا جائے ، یہ کمال ادب اور حسن ضیافت میں شامل ہے ۔

مسلما نو ! اپنے بھائیوں اور قرابت داروں کی زیارت کریں ، ان کا پیار حاصل کریں ،ان سے دعائیں لیں ان کی خبر گیری کریں اور ان کے ساتھ وہ بھلائی کریں جو پیار کو کھینچ لائے اور محبت کو دوام بخشے ۔


ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:' جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کی تو اس کو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے: تمہاری دنیاوی واخروی زندگی مبارک ہو، تمہارا چلنا مبارک ہو، تم نے جنت میں ایک گھر حاصل کرلیا '
امام مالک اور احمد نے صحیح سند کے ساتھ معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے، 

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری خاطر دو محبت کرنے والوں کے لئے ، میری خاطر دو ہم نشینوں کے لئے ، میری خاطر دو ملاقات کرنے والوں کے لئے اور میری خاطر تحائف کا تبادلہ کرنے والوں کے لئے میری محبت ثابت ہو گئی ۔ 

ملاقات سے نفوس کو خوشی اور سینوں کو کشادگی حاصل ہوتی ہے ، نیز دل جڑتے ہیں اکٹھا ہونا اور ملنا عقلمندی ہے ، اللہ کی رضا کے لئے آپ کا اپنے بھائی سے ملنا نفس کا نفس کے لئے تحفہ ہے ،

اس لئے آپ ان کو بے عمل لوگوں اور فارغ بیٹھنے کی جگہوں اور بیکار لوگوں کا ٹھکانہ نہ بنائیں بلکہ فائدہ اور انسیت کی مجلس بنائیں ، کیونکہ ان کا فائدہ نا ختم ہونے والا اور نشان نہ مٹنے والے ہیں ۔

اللہ آپ کی حفاظت کرے، آپ حقوق کی حفاظت کریں ، نرمی اپنائیں ، خالص دوستی کریں ، اور عہد و پیمان کی پاسداری کریں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ } {فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [النور: 28]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ ان سے معلوم کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ پھر اگر تم ان میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تمھیں اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، اسے خوب جاننے والا ہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد!
مسلمانو! ان زیارتوں میں ویسے ہی دلوں کی باہمی قربت ہوتی ہے جیسے جسم قریب ہوتے ہیں ، پیار حاصل ہوتا ہے ، حالات کی خبر گیری ہوتی اور علوم معارف کا تبادلہ ہوتا ہے، نیز آپس میں نصیحت اور مشورہ ہوتا ہے ، محبت کی ملاقاتوں میں مسائل حل ہوتے اور کمیاں پوری ہوتی ہیں ، اسی طرح غافل کو یاد دلایا جاتا ، جاہل کو دکھایا جاتا ،اور ٹیڑھے کو سیدھا کیا جاتا ہے ۔

ملاقاتوں سے نفسوں میں کشادگی پیدا ہوتی، مصائب ہلکے ہوتے ، بشاشت حاصل ہوتی اور غمگین کو تسلی ملتی ہے ۔

محمد المنقدر (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں : زندگی کی لذتوں میں صرف بھائیوں سے ملاقات اور خوشیاں بکھیرنا باقی رہ گیا ہے۔
اور حسن بصری (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں :ہمارے بھائی ہمارے نزدیک اپنے بال بچوں سے زیادہ محبوب ہیں ، ہمارے بھائی ہمیں آخرت یاد دلاتے ہیں جبکہ ہمارے بال بچے ہمیں دنیا یاد دلاتے ہیں ۔

اللہ سب سے بڑا ہے! اس نے ہر چیز کو ابتدا سے پیدا کیا ، اور تمام تعریفات اللہ ہی کے لئے ہیں ، آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی ہے اور جو ان کے درمیان اور مٹی کے نیچے جو کچھ بھی ہے سب اس ہی کے لئے ہے ۔

آپ جان لیجئے ، اللہ آپ کی عید میں برکت دے ۔ ملاقاتوں میں تکلف اور نمود و نمائش باہمی رابطے کے خاتمے اور ملاقاتوں کو بھاری سمجھنے کا سبب بن سکتا ہے ، چنانچہ جب دل صاف ہوں گے تو تکلف ختم ہو گا ۔

تکلف میں ظاہری چیزوں کا اہتمام ہوتا ہے جبکہ ترجیحات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، آدمی ظاہر کو سنوارنے کی فکر میں مشغول ہو جاتا ہے ، نیز اسی بارے میں سوچتا ہے ،جبکہ جیب خالی ہو جاتی ہے ، نتیجتاً تکلف بوجھ، جدائی اور نفرت کا سبب بنتا ہے۔

پیار قربت کی نسبت ہے ،قرابت داری پیار کی محتاج ہے ، اور پیار قرابتداری کا محتاج نہیں ۔
ان آداب کے ساتھ زیارت مسلم معاشرے کے واضح مظاہر میں سے ہے ،جس سے پیار مضبوط ہوتا اور تعلقات کے رشتے بڑھتے ہیں ،
اَللهُ اَكْبَرُ كَبِيْرًا، وَالْحَمْدُ للهِ كَثِيْرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا.

مسلم اقوام!
اپنی عید سے خوشیاں مناؤ تم اللہ کے حکم سے امن و امان اور اطمئنان میں ہو، تمہیں عید مبارک ہو ۔
اللہ تعالی تمہاری اطاعت کو قبول فرمائے ۔

مسکراؤ اور خوش رہو اور خوشیاں پھیلاؤ۔ اسی طرح اپنے اور اپنے اہل و عیال اور بھائیوں میں خوشیاں پھیلاؤ، عید اور اس کی مبارک باد ہر اس شخص کے لئے ہے جو محتاجوں کے چہروں پر مسکراہٹ لائے اور مریضوں کو خوش کرے ۔
مسلمانو! عید دلوں کو صاف کرنے ، نفسوں کی اصلاح کا بہترین موقع ہے ۔اسی طرح حسد و کینہ کو صاف کرنے اور دشمنیاں اور عداوتیں دور کرنے کا بھی بہترین موقع ہے ۔

عید کی خوشی تو اس کے لئے ہے جس نے گناہوں سے سچی توبہ کی ، اپنی نیت خالص کی اور لوگوں کے ساتھ اچھا اخلاق اپنایا۔
ہمارے لئے اس بات میں نصیحت ہے۔
عید اس کی ہے جو لوگوں پر ظلم سے رک جائے اور قیامت کے دن سے ڈرے ۔
عید اس کی ہے جو لوگوں کو اللہ کی عطا کردہ فضل پر حسد نہ کرے ، 
خوش ہو جاؤ اور شکر ادا کرو، نیز اپنے گرد و نواح میں خوشیاں بکھیرو، خوشی کی لذت دل کی نعمتوں میں اعلی مقام رکھتی ہے ۔
اَللهُ اَكْبَرُ، اَللهُ اَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ اَكْبَرُ، اَللهُ اَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
نیکیوں کی علامات میں سے ہے کہ رمضان کے بعد بھی بندہ نیکی اور اطاعت کے کاموں پر مداومت و استقامت اختیار کرے اور نیکیوں میں مزید آگے بڑھے ۔

بے شک تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائی ہے ، وہ یہ کہ رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں ، چنانچہ جس نے یہ روزے رکھے گویا کے اس نے سارے زمانے (سال)کے روزے رکھے ۔
اللہ تعالی مجھ سے اور آپ سے روزے ، قیام ، عبادات اور تمام نیک اعمال کو قبول فرمائے ۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ملاقات کے آداب اور ان کے نتائج  خطبہ عید الفطر مسجد الحرام  04 جون 2019 ۔۔۔ بمطابق 01 شوال 1440 امام و خطیب: معالی الشیخ صالح بن...

کوئی بندہ خدا کرنا!!

Image result for heart poetry

 کوئی بندہ خدا کرنا


کفر ہے شاعری میں بھی
کوئی بندہ خدا کرنا
کسی کو سجدہ کر دینا
یہ دل مسجد بنا دینا
کسی کو کعبہ لکھ دینا
کوئی قبلہ بنا لینا
کسی کی جستجو میں یوں
کسی کو رب بتا دینا
شرک کی بات ہے ناداں
کسی کو یہ جگہ دینا
کسی کو مان دینا ہو
تو اس کو جان لکھ دینا
اسے تم زندگی لکھنا
اسے تم ہر خوشی لکھنا
مگر سجدے ہوں الله کے
عبادت بھی ہو الله کی
اگر کچھ مانگنا بھی ہو
مخاطب اس کو بس کرنا
محبت کو خدا کہنا
نماز عشق لکھ دینا
یا مسجد کو گرا دینا
یا مندر سے ملا دینا
یہ ہیں بہکی ہوئی باتیں
نہ تم لکھنا , نہ تم پڑھنا
محبت ایک جذبہ ہے
یہ ہر انسان ہے رکھتا
اگر انسان سے یہ ہو
تو اتنا یاد بس رکھنا
محبت بس محبت ہے
عبادت رب کی بس کرنا
کفر ہے شاعری میں بھی
کوئی بندہ خدا کرنا

 کوئی بندہ خدا کرنا اتباف ابرک کفر ہے شاعری میں بھی کوئی بندہ خدا کرنا کسی کو سجدہ کر دینا یہ دل مسجد بنا دینا کسی کو کعبہ...

رمضان کے بعد بھی توبہ اور استغفار ... خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 14 مئی 2019

Image result for ‫مسجد نبوی‬‎

رمضان کے بعد بھی توبہ اور استغفار
 خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) 
 14 مئی 2019 بمطابق 11 شوال 1440
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 11 شوال 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "رمضان کے بعد بھی توبہ اور استغفار" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان کی بابرکت گھڑیاں گزر چکی ہیں اور ان سے مستفید ہونے والوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب محرومیت کا شکار ہو جانے والوں کا نقصان بہت بڑا ہے، تاہم توبہ اور استغفار کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، اور توبہ کی قبولیت زمان و مکان کی قید سے بالا تر ہے، اللہ تعالی کو مومن بندے کی توبہ پر بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے، اللہ تعالی رات کے آخری حصے میں دعاؤں کی قبولیت کے لئے صدائیں لگاتا ہے، اس لیے توبہ اور استغفار میں تاخیر مت کرو اور فوری اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگ لو، انہوں نے یہ بھی کہا کہ: عبادات کے اثرات جسم پر لازمی نظر آتے ہیں اور انسان نیکی قبول ہونے کی صورت میں مزید نیکیاں کرتا چلا جاتا ہے، جبکہ مسترد ہونے کی صورت میں بدی میں ملوث ہو جاتا ہے اور یہ ذلت کی انتہائی صورت ہے، چنانچہ ہر وقت اللہ سے استقامت طلب کریں۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: سال کے تمام مہینے بلکہ زندگی کا ہر لمحہ اپنے مختلف درجات کے باوجود اللہ کی بندگی کا سنہری موقع ہوتا ہے اس لیے ہمیشہ اللہ سے توبہ و استغفار مانگتے رہیں، قرض دیں اور شوال کے چھ روزے رکھیں، ماہ رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے پر پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے، باہمی ناچاقیوں کا خاتمہ کریں، اپنی وحدت اور ملت کو مکمل تحفظ دیں، پھر آخر میں انہوں نے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی اور دعا بھی کروائی۔

منتخب اقتباس

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی حمد خوانی کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں، ہم اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے چاہتے ہیں، اپنے نفس اور برے اعمال کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کرد ے اس کا کوئی رہنما ئی کرنے والا دوست نہیں بن سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں وہی پیدا کر کے مکمل بنانے والا اور تقدیریں لکھ کر رہنمائی کرنے والا ہے، یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، آپ کو حق اور ہدایت کے ساتھ مبعوث کیا گیا۔، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، صحابہ کرام اور آپ کےمنہج پر بہترین انداز سے چلنے والوں پر رحمتیں نازل فرمائے۔

بہترین کلام؛ اللہ کا کلام ہے، اور بہترین سیرت جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت ہے، بد ترین امور بدعات ہیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

اللہ کے بندو!

احکامات الہیہ کے متعلق تقوی اپناؤ، اس کے منع کردہ کاموں سے بچو، اور یہ بات ذہن نشین کر لو کہ تمہاری ہر چھوٹی بڑی حرکت لکھی جا رہی ہے۔
 {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}
 اے ایمان والو! تقوی اپناؤ اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لئے کیا پیش کیا ہے؟ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالی تمہارے اعمال سے مکمل با خبر ہے۔[الحشر: 18]

اللہ کے بندو!

خیر و بھلائی، نیکیوں اور برکتوں کی بہار گزر چکی ہے، اس دوران کیے ہوئے اعمال سمیٹ دئیے گئے ہیں، اس ماہ کی عظیم فضیلت ہے، اور اس مہینے کے امت پر تعجب خیز اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس ماہ میں کامیاب ہونے والوں نے خوب فائدہ اٹھایا، اور محنت کرنے والے ڈھیروں اجر لے گئے، ہمیں کامیاب ہونے والوں کا علم ہو تو ہم انہیں مبارکباد دیں اور مسترد ہونے والوں کا علم ہو جائے تو ان کی تعزیت کریں۔

اس لئے کامیاب ہونے والوں کی سعادت مندی بہت ہی شاندار ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں توبہ نصیب فرمائی، انہیں نیکیوں کی توفیق سے نوازا، ہم اللہ تعالی سے اُن کے لئے قبولیت اور استقامت کی دعا کرتے ہیں۔

دوسری جانب نقصان اٹھانے والوں کا گھاٹا بہت سنگین ہے کہ وہ اللہ تعالی کے دیدار سے محروم اور روکے جائیں گے، زندگی میں ملنے والی غنیمت ان سے ضائع ہو گئی، اور ان کے ہاتھ صرف حسرت و ندامت ہی لگے گی!

مسلم اقوام!

تاہم توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، رمضان کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے، بارگاہ الہی میں توبہ کی قبولیت زمان و مکان کی قید سے بالا تر ہے، اللہ تعالی ہر جگہ اور ہر لمحے توبہ قبول فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ}
 وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہ معاف فرماتا ہے، اور وہ تمہارے تمام افعال جانتا ہے۔[الشورى: 25]

 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب رات کا آدھا یا دو تہائی حصہ گزر جاتا ہے توا للہ تبارک وتعا لیٰ آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ اسے دیا جائے؟کیا کوئی د عا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے؟کیا کوئی بخشش کا طلب گار ہے کہ اسے بخش دیا جائے حتی کہ فجر صادق پھوٹ جاتی ہے۔) مسلم

تو جس شخص سے رمضان چوک گیا تو وہ فوری توبہ کر لے اور وقت گزرنے سے پہلے تائب ہو جائے مبادا وقت ختم ہو جائے اور اسے موت دبوچ لے۔

آپ نے مایوس نہیں ہونا؛ کیونکہ آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے۔ ملامت تو اس پر ہے جو گناہ در گناہ کرتا چلا جائے اور رب غفور کے ہوتے ہوئے بھی توبہ نہ کرے۔

اور اگر تم غلطیاں کر کے بخشش نہ مانگو تو اللہ تعالی تمہیں یہاں سے لے جائے گا اور ایسی قوم کو لائے گا جو غلطیاں کر کے بخشش مانگے گی تو اللہ تعالی انہیں معاف فرما دے گا۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
 {قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (53) وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (54) وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (55) أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَاحَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ (56) أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (57) أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ } 
آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے میرے بندو! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے [53] اور اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کا حکم مان لو اس سے قبل کہ تم پر عذاب آئے اور پھر تمہیں کہیں سے مدد نہ مل سکے۔ [54] اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوا ہے اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرو اس سے پیشتر کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ [55] (کہیں ایسا نہ ہو کہ اس وقت) کوئی کہنے لگے : افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ کے حق میں کرتا رہا اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا ۔ [56] یا یوں کہے کہ : اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں پرہیزگاروں سے ہوتا ۔[57] یا جب عذاب دیکھے تو کہنے لگے : مجھے ایک اور موقع مل جائے تو میں نیک کام کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں ۔[الزمر: 53 - 58]

مسلم اقوام!

عبادت گزاروں پر عبادات کے اثرات بالکل عیاں ہوتے ہیں جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ}
 بیشک نماز برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔[العنكبوت: 45]

اعمال کی قبولیت کی نشانیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان بہتر سے بہترین ہوتا چلا جائے، جبکہ دوسری جانب عدم قبولیت اور مسترد ہونے کی علامات میں یہ بھی شامل ہے کہ رمضان چلے جانے کے بعد انسان بھی اپنی سابقہ روش پر آ جائے، بہتری آنے کے بعد بدی میں دوبارہ ملوث ہو جائے؛ کیونکہ ایک گناہ مزید گناہوں کی دعوت دیتا ہے۔

برائی کے بعد کی جانے والی نیکی اعلی ہوتی ہے؛ کیونکہ یہ برائی کو مٹا دیتی ہے، اس سے بھی اعلی ترین بات یہ ہے کہ انسان نیکی کے بعد بھی نیکی کرے۔ آپ سب اللہ تعالی سے آخری سانس تک اطاعت پر استقامت طلب کریں، دلوں کے پھرنے سے اللہ کی پناہ مانگیں، آسودگی کے بعد تنگی سے پناہ کا سوال کریں۔ نیک بننے کے بعد انسان بدکار بن جائے تو یہ انتہائی ذلت کا باعث ہے، اسی طرح دولتِ قناعت ملنے کے بعد لالچ بھی بد ترین غربت ہے۔

چنانچہ اللہ تعالی سے استقامت طلب کرتے رہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (کوئی شخص زندگی بھر اہل جنت کے عمل کرے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جائے تو لکھی ہوئی تقدیر اس کے آڑے آجاتی ہے تو وہ اہل جنت کے عمل کرکے جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص زندگی بھر اہل جہنم کے عمل کرے اور جب اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جائے تو لکھی ہوئی تقدیر اس کے آڑے آجاتی ہے تو وہ اہل جنت کے عمل کرکے جنت میں پہنچ جاتا ہے۔)

یا اللہ! دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم بنا دے، اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو تیری اطاعت پر ثابت قدم بنا دے،میں اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

مسلمانو!

سال کے تمام مہینے عبادت کی بہاریں ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان مہینوں کی فضیلت اور ان میں کیے جانے والے اعمال مختلف اور متنوع ہیں، بلکہ پوری زندگی ہی نیکی اور اطاعت کرنے کا سنہری موقع ہوتی ہے، تو ہر کوئی اپنا سودا کر کے یا تو اسے آزاد کروا لیتا ہے، یا پھر تباہ کر دیتا ہے، اور ہر کسی کو وہی توفیق ملتی ہے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔

اپنے آپ کو اطاعت کی عادت ڈالیں، اطاعت کے لئے توبہ اور استغفار کے ذریعے مدد طلب کریں، انابت اور انکساری سے کام لیں، نیز دن اور رات کے ہر لمحے اور خلوت و جلوت میں ہمیشہ اللہ تعالی کو اپنا نگہبان اور نگران جانیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ}
 ظاہری اور باطنی ہر طرح کے گناہ ترک کر دو، بیشک جو لوگ گناہ کماتے ہیں انہیں ان کے کیے کا بدلہ عنقریب دیا جائے گا۔[الأنعام: 120]

یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ روزہ گناہوں کے سامنے ڈھال ہے، اور روزے کے علاوہ ہر کام اولاد آدم کے لئے ہے، جبکہ روزہ اللہ تعالی کے لئے ہے وہی اس کا اجر دے گا، تو جو کوئی بھی شوال کے چھ روزے رکھ سکے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے اور عمل بھی ، چنانچہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورا سال روزہ رکھنے کے برابر ہے۔) مسلم

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک نیکی کا اجر دس گنا بڑھا کر دیا جائے گا تو رمضان دس ماہ کے روزوں کے برابر ، جبکہ شوال کے چھ روزے دو ماہ کے روزوں کے برابر ہوں گے، اوراللہ تعالی کے ہاں مہینوں کی تعداد 12 ہے۔

ماہ شوال کے اندر اندر ان روزوں کو اکٹھا رکھنا یا الگ الگ رکھنا ہر طرح جائز ہے، ان روزوں کا وہی مقام ہے جو فرض نماز کے لئے سنت رکعات کا ہے کہ ان کے ذریعے فرائض میں ہونے والی کمی کو پورا کیا جائے گا۔

مسلم اقوام!

حسب استطاعت تقوی الہی اپناؤ، دین پر مضبوطی سے کاربند رہو، اپنے نبی کی سنت کو تھام لو، باہمی ناچاقیوں کا خاتمہ کرو، اپنی وحدت اور ملت کو مکمل تحفظ دو، اپنے دشمنوں کے خلاف یک جان بن جاؤ، اور اللہ تعالی سے دعا کرو کہ تمہیں ثابت قدم بنائے اور تمہیں کامیاب بھی فرمائے۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

رمضان کے بعد بھی توبہ اور استغفار  خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)   14 مئی 2019 بمطابق 11 شوال 1440 امام و خطیب: ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد ...