نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) رمضان کا آخری عشرہ کیسے گزارتے تھے ؟ ... خطبہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 24 مئی 2019


نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) رمضان کا آخری عشرہ کیسے گزارتے تھے ؟
خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)
 19 رمضان 1440  بمطابق 24 مئی 2019


فضیلۃ الشیخ اسامہ بن عبداللہ خیاط (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 19 رمضان 1440 کا خطبہ '' نبی صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان کا آخری عشرہ کیسے گزارتے تھے؟'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے رمضان کے آخری عشرے کو بہت فضیلت اور خوب انعام و اکرام کے ساتھ مختص فرمایا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم   کی حیاۃ مبارکہ میں بھی ان دس دنوں کو خصوصی مقام حاصل تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقی دنوں کے مقابلے میں ان دس دنوں میں زیادہ محنت کرتے ، جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم (عبادت کے لیے) کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔ ا س عشرے کے شرف کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ اعتکاف کا معنی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ: خالق کی عبادت میں ڈوب کر مخلوق سے تعلقات منقطع ہو جائیں۔ جس قدر اللہ کی معرفت ، محب اور انسیت مضبوط ہو گی تو یہ معتکف کو اللہ کی جانب متوجہ ہونے کے لئے رہنمائی کریں گی۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے امت کو فریضہ رمضان سے نوازا، میں اللہ سبحانہ کی بے پایاں نوازشوں اور عظیم نعمتوں پر اس کی حمد بیان کرتا ہوں ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کہ علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اس نے رمضان کے آخری عشرے کو بہت فضیلت اور خوب انعام و اکرام کے ساتھ مختص فرمایا۔
میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم اور مبارک مہینوں میں عبادت کے لئے محنت و کوشش کرنے والوں میں سب سے بہترین ہیں۔

اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ،اور صحابہ کرام پر ہمیشہ درود سلام نازل فرمائے کہ جب تک دن رات کا سلسلہ جاری رہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو تقوی الہی اختیار کرو، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ
اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

اس دن کے لئے تیاری کرو اور مستعد رہو، لہذا دنیا کی زندگی تمہیں لہو و لغو ، اور زینت کے دھوکے میں نہ ڈال دے، اور نہ ہی دھوکے باز شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں غفلت میں ڈالے۔

مسلمانو! عقل مند لوگ جب اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو بلند روحانیت، دلی اطمینان ،اور تزکیہ نفس کا عظیم اثر اور نتیجہ پاتے ہیں۔ چنانچہ اپنے رب کے قریب ہو جاؤ، حصولِ رضائے الہی کے لئے کامل احسان کے ساتھ راغب ہو کر قیمتی مواقع کو غنیمت جانو، حقیقتِ احسان کی وضاحت نبی ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی: 
الإِحْسَانُ :أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ

احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔( اسے امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد صحابہ کرام اسی طریقے پر چلے ، چنانچہ ان کے ہر طریقے میں احسان تھا، ان کے لئے ہر چیز کے کرنے اور چھوڑنے میں اللہ کا خوف ، اس کی طرف کامل توجہ، اور سچا توکل تھا۔

یہ چیز نیکیوں کی بہاریں آنے، رحمت الہی سے معمور ایام سایہ فگن ہونے اور فضیلت والے مبارک مہینوں کی آمد پر واضح اور نمایاں ہوتی ہے ۔ ان ہی بہاروں میں بلند مرتبت اور معزز ترین ایام اس مہینے کا آخری عشرہ ہے ۔

یہ آخری دس دن اللہ تعالی کے مبارک ایام میں سے ہیں ، یہ اللہ کا بندوں پر احسان ہے؛ تا کہ بندے نیکیوں میں سبقت لے جائیں اور باقی رہنے والی نیکیوں کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاۃ مبارکہ میں ان دس دنوں کا بڑا مقام اور بلند مرتبہ تھا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقی دنوں کے مقابلے میں ان دس دنوں میں عبادت کے لئے زیادہ محنت کرتے۔ جیسے کہ صحیح مسلم اور جامع ترمذی میں عائشۃ (رضی اللہ عنہا ) سے روایت ہے:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے)آخری دس دن (عبادت)میں اس قدر محنت کرتے کہ دیگر ایام میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے۔

یعنی رمضان کے باقی دنوں کے مقابلے میں ان دنوں کو اللہ کے قریب کرنے والی مختلف نیکیوں اور اطاعت کے کاموں میں زیادہ گزارتے تھے۔

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتیں اور کوششیں جن کے لئے آپ نے ان دنوں کو مخصوص فرمایا وہ تین قسم کی ہیں ۔

نمبر 1:

کمر بستہ ہو جاتے۔ صحیح موقف کے مطابق اس سے مراد عورتوں سے علیحدگی ہے۔ جسے کہ بخاری اور مسلم میں سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تونبی ﷺ (عبادت کے لیے)کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔

نمبر 2:

نیکیوں کے لئے محنت: جیسے حصولِ قرب الہی کے لئے قیام ، تلاوت قرآن، ذکر، دعا، گڑگڑانا، مناجات، گریہ زاری، اور دیگر عبادات کے ذریعے شب بیداری کرتے۔ ان عبادات کے ذریعے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ، اور اپنی امت کو یہ سنتیں اور طریقے سکھاتے۔

نمبر3:

اہل و عیال کو نماز کے لئے جگاتے۔ جیسے کہ زینب بنت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) بیان فرماتی ہیں:

جب رمضان کے آخری دس دن رہ جاتے تو اپنے اہل بیت میں جو قیام کی طاقت رکھتا تو اسے ضرور جگاتے۔

اللہ کے بندو! اگرچہ قیام کے لئے بیدار کرنا ان دس دنوں کے علاوہ سال کے باقی دنوں میں بھی ثابت ہے۔ جیسے کہ صحیح مسلم میں ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کہ حدیث میں آیا ہے۔

مگر اس عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خصوصی اہتمام کرتے اور کبھی بھی ناغہ نہ کرتے ،جبکہ اس عشرے کے علاوہ کبھی تو جگاتے اور کبھی نہ جگاتے تھے۔

اللہ کے بندو! یہ نبوی تربیت کا ایک انداز ہے اور کتنا ہی عظیم اور محکم انداز ہے ، جس کے کیا ہی خوبصورت اثرات اور اچھے نتائج ہیں ۔

اس لئے سلف صالحین (رحمہم اللہ تعالی) کا یہ ہی طریقہ تھا اور وہ اس بات کا مکمل طور پر خیال رکھتے تھے کہ ان کی زیر کفالت اہل و عیال کو بھی ان عظیم مبارک راتوں کی خیر میں سے حصہ ملے۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرے میں جن عبادات کا اہتمام کرتے ان میں مسجد میں اعتکاف بھی شامل ہے۔ جیسے کی بخار ی اور مسلم میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی حدیث میں ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں پابندی سے اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ پھر آپ کے بعد بھی آپ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اعتکاف کرتی رہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس عبادت کے لئے اتنی پابندی کیوں کرتے تھے؟ اس کا جواب جاننے کی جستجو پیدا ہوتی ہے، اور اس کا جواب امام ابن قیم (رحمہ اللہ تعالی) نے بتلایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: جب دل کی درستگی اور اللہ کی راہ پر استقامت ،دل جمی اور کامل توجہ پر موقوف ہے ، تو دل کے انتشار کو اللہ کی طرف کامل توجہ ہی ختم کر سکتی ہے۔
جبکہ بے تحاشا کھانا پینا، لوگوں سے بے فائدہ ملنا جلنا، بے مقصد کلام اور زیادہ سونا، دل کے انتشار میں اضافے کا سبب ہے اور اسے جگہ جگہ الجھا کر اللہ کی جانب چلنے میں سستی پیدا کرتا ہے، یا رکاوٹ ڈالتا ہے یا بالکل ہی روک دیتا ہے۔ تو عزیز و رحیم رب کی رحمت کا یہ تقاضا ہوا کہ ان کے لئے روزہ شریعت میں شامل کیا جائے اس سے فضول کھانا پینا ختم ہو جائے گا، اور اعتکاف شروع کیا جس کا مقصد اور ہدف اللہ کی بارگاہ میں حضور قلبی، دل جمی اور خلوت ہے ، نیز مخلوق سے ناتا توڑ کر ایک اللہ کی طرف رغبت ہے ۔ اس طرح کہ اللہ تعالی کا ذکر ، محبت ، اور اس کی طرف توجہ، دل کے افکار و خیالات پر غالب ہوجائے۔ تمام تر توجہ اللہ کے ذکر پر مرکوز ہو، نیز اس کی رضا اور قرب کے حصول کی فکر ہو۔ اسی طرح مخلوق سے انسیت کی بجائے اللہ سے انسیت ہو، اور قبر میں وحشت والے دن انسیت کے لئے خود کو تیار کرے جہاں کوئی انیس و غم خوار نہ ہو گا اور وہاں اس کے علاوہ خوشی بھی نہ ملے گی ۔یہ ہی اعتکاف کا عظیم مقصد ہے۔ ابن قیم (رحمہ اللہ تعالی) کا کلام مکمل ہوا۔

اللہ کے بندو! اعتکاف کے اس عظیم مقصد اور آج کے بہت سے معتکفین کی حالت میں کتنا فرق ہے؟!

آج کل معتکف حضرات خالق کی بجائے مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مصروف رہتے ہیں، فضول کلام ، فضول ملنے جلنے، نیند پر زور دیتے ہیں ۔

اللہ کے بندو تقوی الہی اختیار کرو ان مبارک راتوں کی قدر و منزلت کو جانو، ان کے حقوق کا خیال رکھو، ان دنوں کے شرف کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے ان میں ایک ایسی رات رکھی ہے جس میں عبادت ایک ہزار رات کی عبادت سے بھی بہتر ہے ، اور یہ عظیم رات لیلۃ القدر ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں جاگ کر عبادت کرنے والوں کے لئے زیادہ بدلے اور بہترین اجر کی خبر دی ہے ۔

جو اس رات کی خیر سے محروم ہوا تو وہ ہی حقیقت میں محروم ہے اسے چاہیے کہ وہ دکھ اور حسرت کے آنسو بہائے۔ تاہم موقع اور مقابلہ ختم ہونے کے بعد کی حسرت یا رونے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا!!

سب سے زیادہ خوش بخت اور ہدایت یافتہ عقل والے ہیں جو اپنے صیام و قیام، اعتکاف اور زندگی کے تمام گوشوں میں صحیح ثابت شدہ نبوی طریقے کو لازم پکڑتے ہیں، اللہ تعالی نے بندوں کو اسی پر عمل کا حکم دیا ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :{وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا } [الحشر: 7]
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ۔

اللہ تعالی کا مزید فرمان ہے :

{ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا} [الأحزاب: 21]
(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے، جیسے کہ حافظ ابن رجب (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر مصروفیات اور کاموں کو چھوڑ کر ، اللہ تعالی سے سرگوشی ، ذکر اور دعا کے لئے کنارہ کش ہو کر اعتکاف فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ چٹائی کا خیمہ لگا لیتے اور لوگوں سے الگ ہو کر اس میں تنہائی اختیار کرتے ۔ لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے اور ان کے ساتھ مصروف نہ ہوتے ۔ اسی لئے امام احمد کے نزدیک معتکف کے لئے لوگوں سے ملنا جلنا یہاں تک کہ تعلیم دینے اور قرآن پڑھانا بھی درست نہیں ۔ بلکہ معتکف کہ لئے افضل یہ ہے کہ تنہائی اختیار کرے ، رب سے مناجات ، ذکر اور دعا کے لئے خلوت اختیار کرے ۔ اس امت کے لئے شرعی تنہائی مسجدوں میں اعتکاف ہے خصوصاً رمضان کے مہینے میں اور پھر بطور خاص رمضان کے آخری عشرے میں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ معتکف اللہ کی بندگی اور ذکر کے لئے اپنے کو بند کر لیتا ہے ، اور تمام مصروفیات سے الگ ہو جاتا ہے ۔ اور حضور قلبی سے اپنے رب اور قربِ الہی کا موجب بننے والی چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔ معتکف کو رضائے الہی اور قربِ الہی کا موجب بننے والی چیزوں کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی ۔ تو اعتکاف کا معنی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ: خالق کی عبادت میں ڈوب کر مخلوق سے تعلقات منقطع ہو جائیں۔ جس قدر اللہ کی معرفت ، محب اور انسیت مضبوط ہو گی تو یہ معتکف کو اللہ کی جانب متوجہ ہونے کے لئے رہنمائی کریں گی۔ ابن رجب کا کلام ختم ہوا

اللہ کے بندو! تقوی اختیار کرو اور ان راتوں میں نیکیوں کے لئے آگے بڑھ کر کوشش کرو، تم آسمانوں زمیں کے خالق کی خوشنودی اور مغفرت پا لو گے ۔

اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کو سب سے بہتر بشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے سب سے سچی بات ، اور احسان الکلام (قرآن ) میں فرمایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [الأحزاب: 56]

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو۔

(اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)

یا اللہ! ہمارے دلوں کو تقوی دے، ان کو پاکیزہ کر دے ، تو ہی ان کو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے۔ اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، نیز ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے۔

یا اللہ !ہمارے تمام امور میں ہمارے انجام کو اچھا کر دے اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ میں رکھنا،

یا اللہ !تیری نعمتوں کے زوال، تیری عافیت کے ہٹ جانے، تیری ناگہانی سزا اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے ہم تیری پناہ چاہتے ہیں۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔

اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

یا اللہ ! ہمارے بیماروں کو شفایاب فرما ، اور فوت شدگان کو معاف فرما۔ اور ہمیں اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اور نیک باقی رہنے والے اعمال کے ساتھ ہمارا خاتمہ فرمانا۔

یا اللہ! ہمارے روزے قیام اور نیک اعمال کو قبول فرما۔

{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]

''اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔''

یا اللہ ! ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی آل ، اور تمام صحابہ پر سلامتی نازل فرما ۔

والحمدللہ رب العالمین!



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) رمضان کا آخری عشرہ کیسے گزارتے تھے ؟ خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)  19 رمضان 1440  بمطابق 24 مئی 2019 ترجمہ...

خدا ترسی ؛ عبادات کا ہدف ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 24 مئی 2019


خدا ترسی ؛ عبادات کا ہدف
خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)
19 رمضان 1440 بمطابق 24 مئی 2019
امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد لعزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد لعزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 19 رمضان 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "خدا ترسی ؛ عبادات کا ہدف" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ بلند اخلاقی اقدار کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت اور ضرورت ہے، عبادات کے طور طریقے الگ الگ ہونے کے باوجود ان کے مشترکہ اہداف بھی ہیں، یہ اہداف مسلم معاشرے کو تہذیب و تمدن کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں، اور پورا مسلم معاشرہ ان خوبیوں اور اچھائیوں سے مہک اٹھتا ہے، خدا ترسی ان خوبیوں میں سے ایک ہے، چنانچہ ماہ رمضان کی عبادات میں بھی یہ صفت پائی جاتی ہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں خوب صدقہ خیرات کرتے تھے، نبوی تعلیمات کے مطابق انسانی اعضا کا بھی روزہ ہوتا ہے اس لیے خلاف شریعت بات کہنے یا اس پر عمل کرنے سے ہر وقت گریز ضروری ہے، رمضان میں خدا ترسی کی بہت سی صورتیں ہیں، ان تمام صورتوں پر عمل پیرا ہو کر انسان خدا ترسی کا وسیع ترین مفہوم اپنے ذہن میں اجاگر کرتا ہے، کتاب و سنت میں خدا ترسی کی فضیلت اور ضرورت بھی ذکر ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی خدا ترس تھے، حتی کہ کافروں کے بارے میں بھی رحمدلی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ جہاں پر لوگ اکٹھے ہوں وہاں پر رحمدلی اور خدا ترسی کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے اس لیے حرمین شریفین میں عمرہ، طواف، سعی، قیام، فرض نمازوں اور قیام وغیرہ کے دوران اعلی اخلاقیات کا مظاہرہ ضروری ہے، اگر کسی کے دل سے خدا ترسی اٹھا لی جائے تو یہ بدبختی کی علامت ہے، خدا ترس لوگوں پر اللہ تعالی بھی رحم فرماتا ہے، انہوں نے ائمہ کرام کو لمبی دعاؤں کے دوران کمزور لوگوں کا خیال رکھنے کی تلقین کی اور نبوی تعلیمات ذکر کیں، دوسرے خطبے میں انہوں نے مکمل عشرے کی راتوں میں خوب عبادات کی ترغیب دلائی اور آخر میں لمبی دعا منگوائی۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اسی کے لئے اچھے اچھے نام اور اعلی ترین صفات ہیں، بے شمار اور لا تعداد نعمتوں پر اسی کا شکر ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، دنیا اور آخرت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور چنیدہ نبی ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام متقی صحابہ کرام پر سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

لوگو! میں آپ سب سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، متقی کو اللہ تعالی ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتا ہے اور اسی کبھی نقصان میں نہیں ڈالتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ}
 تقوی اپنانے والے کے لئے اللہ نجات کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔[الطلاق: 2، 3]
 ایک اور مقام پر فرمایا:
{وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا}
 اللہ تقوی اپنانے والے کی خطائیں مٹا دیتا ہے اور اسے ڈھیروں اجر سے نوازتا ہے۔[الطلاق: 5]

اسلامی بھائیو!

اخلاقی اقدار اور اعلی خوبیوں کی اسلام میں بہت عظیم قدر و قیمت اور شان ہے، اسی لیے اخلاق حسنہ اور اچھی خوبیوں پر ترغیب کے لئے تواتر کے ساتھ شرعی نصوص موجود ہیں، اللہ تعالی نے افضل المخلوقات جناب محمد ﷺ کے بارے میں فرمایا:
{وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ}
 بیشک آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔[القلم: 4]

شرعی عبادات الگ الگ ہونے کے باوجود بھی اپنے اندر مختلف ضمنی مقاصد بھی رکھتی ہیں، اور ان کے ڈھیروں اہداف بھی ہیں ، یہ مقاصد اور اہداف مسلمان کو اچھے اخلاق اور بہترین صفات سے متصف ہونے پر ابھارتے ہیں؛ تا کہ پورے معاشرے کی اجتماعی زندگی اعلی اخلاقیات پر استوار ہو، اچھی خوبیاں پورے معاشرے کو خوشحال اور تہذیب یافتہ بنا دیں، پورا معاشرہ ہمہ قسم کی خوبیوں اور ہر طرح کی اچھائیوں سے مہک اٹھے۔

اسلامی بھائیو!

ماہ رمضان میں ایسی عبادات شریعت نے رکھی ہیں جن سے انسان کی تربیت ہوتی ہے اور تزکیہ نفس ہوتا ہے، ان عبادات سے انسان مہذب بن جاتا ہے، یہ عبادات انسان کو ایسا بنا دیتی ہیں جن کا فائدہ تمام مسلمانوں کو ہوتا ہے، رمضان کی عبادات انسان کو بہترین راستے پر گامزن کر دیتی ہیں اور انہیں اعلی اخلاق کا مالک بنا دیتی ہیں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے سخی تھے، آپ اس وقت مزید سخی ہو جاتے جب رمضان میں جبریل آپ سے ملتے، جبریل آپ سے ہر رات ملتے تھے اور آپ کے ساتھ قرآن کریم کا مذاکرہ فرماتے، اس وقت تو آپ تیز اندھیری سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ سخاوت فرماتے تھے) متفق علیہ

حدیث کے عربی الفاظ میں "جود" کے مفہوم میں ہر طرح کی خیر، بھلائی اور حسن اخلاق شامل ہیں۔

مسلم اقوام!

ماہ رمضان کے روزوں میں خلقت کی ہر قسم کی برائی سے دور رہنے کی تربیت ہوتی ہے، روزہ انسان کو بری باتوں سے دور رہنے کی تربیت دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص خلاف شریعت بات کرنے اور اس پر عمل سے باز نہیں رہتا تو اللہ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے) بخاری

اسی تربیت کے زیر اثر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جب تم روزہ رکھو تو تمہاری سماعت، بصارت اور زبان کا بھی جھوٹ اور گناہ سے روزہ ہونا چاہیے، ملازمین کو تکلیف مت دیں، اور روزے والے دن آپ پر وقار اور سکینت ہونی چاہیے"

مطلب یہ ہے کہ آپ ان تمام اچھی خوبیوں پر ہمیشگی کے ساتھ عمل پیرا رہیں اور دائمی طور پر انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

رمضان میں مسلمانوں کی خدا ترسی پر تربیت ہوتی ہے، اس تربیت کی بہت سی شکلیں ہیں، خدا ترسی پر تربیت کے مظاہر میں یہ بھی ہے کہ رمضان میں صدقات، عطیات، روزہ افطاری، کھانا کھلانے اور محتاج کی ضروریات پوری کرنے کی خصوصی فضیلت ہے، اسی فضیلت کی بدولت خدا ترسی کا مفہوم وسیع ترین دائرے اور خوبصورت ترین انداز میں مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا ہے، خدا ترسی بذات خود ایک ایسی صفت ہے جو مسلمانوں میں ہر جگہ اور زندگی کے تمام گوشوں میں نمایاں ہونی چاہیے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ}
 پھر وہ ان لوگوں سے ہو جائے جو ایمان لائیں اور ایک دوسرے کو صبر اور خدا ترسی کی وصیت کریں۔ [البلد: 17]

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (تم مومنوں کو باہمی خدا ترسی، شفقت اور محبت میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے، بالکل اسی طرح جیسے اگر جسم کا ایک عضو بھی تکلیف میں ہو تو سارا جسم ہی بے خوابی اور بخار کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔) متفق علیہ

اس لیے مخلوق پر خدا ترسی بہت عظیم خوبی ہے اور اس کا حصول بہت بڑا ہدف ہے، نیز خدا ترسی روزہ سمیت تمام عبادات کے تربیتی مقاصد میں بھی شامل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ}
 اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔ [الأنبياء: 107]

اسی طرح اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوبی بھی ذکر فرمائی کہ:
{بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}
 آپ مومنوں کے ساتھ نہایت مشفق اور رحمدل ہیں[التوبة: 128]

ابو ہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: "آپ مشرکوں کے خلاف بد دعا فرما دیں" تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے بہت زیادہ لعنت بھیجنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ) مسلم

مسلم اقوام!

حج اور رمضان لوگوں کے اکٹھے ہونے کا وقت ہوتے ہیں، اس دوران فرض نمازوں اور قیام کے لئے رش بڑھ جاتا ہے، افطاری کے وقت بھی سب لوگ جمع ہوتے ہیں، ایسے ہی اعتکاف اور عمرے کی ادائیگی میں بھی لوگوں کا رش ہوتا ہے، تو اس صورت میں یہ انتہائی ضروری اور لازمی ہے کہ باہمی خدا ترسی، نرمی، سکینت اور اطمینان کا اعلی ترین مظاہرہ ہو، آپ کا رویہ اور تعامل ایسا ہو کہ اس عظیم دین کی عظمت اور خوبیوں کو آشکار کرے۔

اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار کیا کہ ہمارے تمام معاملات میں یہ تمام خوبیاں اور بلند اخلاقی اقدار ہر وقت موجود رہیں، زندگی کے تمام گوشے ان سے معمور رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو لوگوں پر شفقت نہیں کرتا اللہ بھی اس پر رحمت نہیں فرماتا) متفق علیہ

اس لیے ہم چھوٹوں پر شفقت کریں، بڑوں کا احترام کریں، نیز کمزور اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، اور بڑوں کی عزت کا اعتراف نہ کرے) اس حدیث کو احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے، اور امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں اتنی عبادت فرماتے جو کسی اور دن میں نہیں فرماتے تھے، چنانچہ صحیح بخاری اور مسلم میں سیدہ عائشہ -اللہ آپ اور آپ کے والد سے راضی ہو گیا- کہتی ہیں کہ: (جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو شب بیداری فرماتے، اپنے گھر والوں کو بیدار رکھتے اور کمر کس لیتے)

اللہ تم پر رحم فرمائے، اپنے شب و روز کے اوقات نیکیوں سے بھر پور رکھیں، خیر و بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، تمہیں زمین و آسمانوں کے پروردگار کی رضا مل جائے گی۔

ہمیں اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے، اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد.

یا اللہ! خلفائے راشدین، اہل بیت، تمام صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین نیز ان کے نقش قدم پر روزِ قیامت تک بہترین انداز سے چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔

یا اللہ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی سے نواز، نیز ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمارے اگلے، پچھلے، خفیہ ، اعلانیہ سب گناہ معاف کر دے، اور وہ بھی معاف فرما دے جن گناہوں کو تو ہم سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی پست و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔

یا اللہ! ہمارے سارے گناہ معاف فرما دے، ابتدائی ، آخری، ظاہری، باطنی، اعلانیہ اور خفیہ سب گناہ معاف فرما دے، یا غفور! یا رحیم!

یا اللہ! ہمیں تقوی عطا فرما، یا اللہ! ہمارا تزکیہ نفس فرما، تو ہی بہترین تزکیہ کرنے والا ہے، تو ہی ہمارا والی اور مولا ہے۔

یا اللہ! ہمیں لیلۃ القدر کا قیام کرنے والوں اور عظیم اجر پانے والوں میں شامل فرما ۔ یا اللہ! ہمیں لیلۃالقدر میں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی توفیق عطا فرما۔ یا اللہ! ہمیں لیلۃ القدر میں قیام عطا فرما دے، یا اللہ! اس رات میں ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما لینا جن سے تو راضی ہو گا، جس سے تو راضی ہو جائے تو وہ کبھی بد بختی میں نہیں پڑے گا، یا حیی! یا قیوم! یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! جس نے بھی ہمارے ساتھ جمعہ ادا کیا، اور ہماری بات سنی ہے، یا اللہ! اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، یا اللہ! ان سے راضی بھی ہو جا، یا اللہ! اس سے دنیا و آخرت میں راضی ہو جا، یا اللہ! پوری دنیا میں کہیں بھی مسلمان ہیں ان سب سے راضی ہو جا، یا رب العالمین! یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! ہمیں خالی ہاتھ مت موڑنا، یا اللہ! ہماری جھولیوں کو خالی مت لوٹانا، یا اللہ! ہمیں خالی ہاتھ مت موڑنا، بیشک تو ہی قوی اور غالب ہے، تو ہی کرم کرنے والا ہے، یا حیی! یا قیوم!

اللہ کے بندو!

اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، صبح اور شام اللہ اسی کی تسبیحات بیان کرو۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خدا ترسی ؛ عبادات کا ہدف خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) 19 رمضان 1440 بمطابق 24 مئی 2019 امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد لعزیز آل...

رمضان میں بھلائی کے کاموں سے متعلق چند نصیحتیں ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) .. 17 مئی 2019


رمضان میں بھلائی کے کاموں سے متعلق چند نصیحتیں 
خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
12 رمضان المبارک 1440ه بمطابق 17 مئی 2019
امام و خطیب:  ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی
ترجمہ: فرہاد احمد سالم


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 12 رمضان 1440 ھ کا خطبہ ''رمضان میں بھلائی کے کاموں سے متعلق چند نصیحتیں '' کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ نیکی کے موسم بندوں پر اللہ تعالی کی بڑی نعمتوں میں ایک نعمت ہیں، ان ہی میں ایک موسم ماہ رمضان ہے کہ اس میں ہر رات ایک پکارنے والا پکارتا ہے! ''اے خیر کے متلاشی آگے بڑھ اور اے برائی کے رسیا رک جا'' 
پھر شیخ نے اس عظیم موسم یعنی ماہ رمضان میں نیکیوں میں آگے بڑھنے کے حوالے سے چند نصیحتیں کیں جن میں (1) ہمیشہ نیکی کرنے کا سوچیں، وہ اس طرح کہ نیکی کی نیت اور اسے کرنے کا پختہ عزم کریں۔(2) آپ کو یقین ہو کہ نیکی قیامت کے دن کام آنے والا حقیقی زاد راہ ہے۔(3) نیک آدمی کی خصوصاً ان بابرکت بہاروں میں صحبت اختیار کریں۔(4) خیر کی کنجی اور شر کے سامنے دیوار بن جائیں۔(5) نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والے بن جائیں تاکہ ڈھیروں اجر پائیں۔(6) اللہ تعالی سے دین پر ثابت قدمی مانگیں۔(7) نیکی صرف اللہ کی رضا کے لئے کریں۔

منتخب اقتباس 

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں ، جو نیکیوں کی بہاروں سے اپنے بندوں کو نوازتا ہے تا کہ وہ ان میں اللہ کا قرب حاصل کریں اور اللہ ان کی مغفرت فرما دے اور ڈھیروں اجر عطا فرمائے۔ میں اللہ پاک کی حمد بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں ، وہ جسے چاہتا ہے توفیق دیتا ہے تو وہ اس کی اطاعت کرتا اور اس سے ڈرتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے رسوا کرتا ہے تو وہ اس کی حکم عدولی اور نافرمانی میں ملوث ہو جاتا ہے ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ سب سے بڑا اور بلند ہے ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : نیکیوں میں تاخیر مت کرو۔
اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل، صحابہ ، اور اچھے طریقے سے قیامت تک آپ کی پیروی کرنے والوں پر درود و سلام نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

اللہ کے بندو تقوی اختیار کرو، کیونکہ تقوی بندوں کے لئے اللہ کی وصیت، اور قیامت کے دن متقین کا زاد راہ ہے ۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران: 102]
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہیں آنی چاہیے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔

مسلمانو!
رمضان کی ہر رات اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے بھلائی کا اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے۔
يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ
اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ ، اور شر کے رسیا! رُک جا۔

وہی بار بار نصیحت کرنے والا، ہمیشہ یاد دہانی کرانے والاا اور تسلسل کے ساتھ دعوت دینے والا ہے ۔وہ نیک کام اور اس کے فوائد کی دعوت دیتا اور برے کام اور اس کے نقصانات سے روکتا ہے۔

ایسا کیوں نہ ہو! مسلمان سے تو آخری سانس تک نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے اور انہیں غنیمت جاننے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [الحج: 77]
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نیک کام کرو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔

ہمارے لئے کتنی ہی بھلی بات ہے کہ ہم ان گنے ہوئے دنو ں میں اپنے رب کی رحمت سے لطف اندوز ، اس کی سخاوت سے فیض یاب اور اس کے احسان کی وسعت سے مستفید ہوں۔

اللہ کے بندو یہاں پر اس عظیم بہار میں بھلائی کے کاموں سے متعلق چند رہنما، قواعد اور نصیحتیں پیش خدمت ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ انہیں ہمارے لئے مفید بنا دے۔

پہلی نصیحت:
ہمیشہ نیکی کرنے کا سوچیں، وہ اس طرح کہ نیکی کی نیت اور اسے کرنے کا پختہ عزم کریں ، پھر اگر اللہ تعالی تمہارے لئے آسانی کرے اور اس کے کرنے پر تمہاری مدد کرے، تو یقیناً جس کی تمہیں رغبت تھی اور تم نے کوشش کی تم اس کا اجر پا لو گے ۔ اور اگر تمہارے لئے اس پر عمل ممکن نہ ہوا، عمل اور نیت کے درمیان کوئی چیز حائل ہو گئی تو تمہیں تمہاری نیت پر اجر ملے گا۔
امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے ایک دن اپنے والد سے کہا: ابا جان مجھے نصیحت کیجئے !
امام احمد نے فرمایا: بیٹا! نیکی کی نیت رکھو، کیونکہ جب تم نیکی کی نیت رکھو گے ہمیشہ خیر پر ہی رہو گے۔

چنانچہ جس نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر سکا، اللہ تعالی اپنے پاس اس کے لئے مکمل نیکی لکھے گا۔ اور جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کیا تو اللہ تعالی اپنے پاس اس کے لئے دس سے سات سو اور اس بھی کئی گنا زیادہ نیکیاں بڑھا کر لکھے گا۔ اس کی خبر ہمیں صادق المصدوق نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔

پس آپ کی سوچ ہمیشہ نیکی اور نیک آدمی کے اجر اور اس پر نیکی کے اچھے اثرات کے بارے میں مشغول رہے۔ اس کے بالمقابل بندے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور برے اعمال پر نادم ہو۔ اور یہ گناہوں کے ارتکاب سے روکنے کے لئے کافی ہے۔

دوسری نصیحت!
آپ کو یقین ہو کہ نیکی قیامت کے دن کام آنے والا حقیقی زاد راہ ہے، اسی کو محفوظ رکھا جائے گا، نیز نیکی کبھی ضائع نہ ہو گی چاہے کم ہو یا زیادہ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ} [آل عمران: 115]
جو بھی بھلائی کا کام وہ کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی ۔
چنانچہ نیک کاموں میں سبقت لیں، ان کو غنیمت جانیں اور کسی بھی عمل کو حقیر نہ سمجھیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا } [المزمل: 20]
اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے۔

ابن عباس (رضی اللہ عنہما) اللہ تعالی کے فرمان :
{ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (7) وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ} [الزلزلة: 7، 8]
پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا ، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔
کی تفسیر میں فرماتے ہیں: کوئی مومن یا کافر جو بھی خیر یا شر کا کام کرے گا اللہ اس کو وہ دکھا دے گا ، چنانچہ مومن اپنی اچھائیوں اور برائیوں کو دیکھے گا تو اللہ تعالی اس کی برائیوں کو معاف کر دے گا اور اس کی بھلائیوں کا بدلہ دے گا۔ جبکہ کافر کو اس کی بھلائیاں اور برائیاں دکھائی جائیں گی چنانچہ اللہ تعالی اس کی بھلائیوں کو رد کر دے گا اور اس کی برائیوں کا بدلہ دے گا۔

تیسری نصیحت:
نیک آدمی خصوصاً ان بابرکت بہاروں میں صحبت اور رفاقت کے لئے بہترین آدمی ہے۔
حاتم الاصم (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: میں نے ہر آدمی کا ایک دوست دیکھا جو اس کا راز دان اور دکھ درد کا ساتھی ہوتا ہے ۔ چنانچہ میں نے خیر کو اپنا دوست بنایا تاکہ وہ حساب کتاب میں میرے ساتھ ہو اور میرے ساتھ پل صراط پار کرے۔

میرے بھائی ہمیشہ خیر پر قائم رہو ؛کیونکہ یہ وہ روشنی ہے جو قبر میں میت کو حاصل ہو گی

چوتھی نصیحت!
اللہ کے بندے! خیر کی کنجی اور شر کے سامنے دیوار بن جائیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لوگوں کی دو قسمیں ہیں:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کچھ لوگ نیکی کی چابیاں اور برائی کے تالے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ برائی کی چابیاں اور نیکی کے تالے ہوتے ہیں۔ اس شخص کو مبارک ہو جس کے ہاتھ میں اللہ نے نیکی کی چابیاں دے دیں اور اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جس کے ہاتھ میں اللہ نے برائی کی چابیاں دے دیں۔

چنانچہ بندے سے اللہ کے راضی ہونے کی یہ بھی علامت ہے کہ اللہ اس کو خیر کی کنجی بنا دے۔ اس کو دیکھنے سے رب یاد آئے ، اس کا اوڑھنا بچھونا خیر ہی ہوتا ہے ، خیر کے کام کرتا اور خیر ہی بولتا ہے ۔ نیز خیر کے بارے میں سوچتا اور اپنے اندر بھی خیر ہی رکھتا ہے ۔پس وہ جہاں بھی ہو خیر کی کنجی بن کر رہتا ہے۔

اور اس بندے کے لئے بھی خیر کا سبب ہے جو اس کی صحبت میں رہے ۔ جبکہ دوسرا شخص برائی میں ملوث رہتا ، برائی
کرتا اور برا بولتا ہے ، نیز برا ئی کا سوچتا اور اپنے اندر برائی چھپاتا ہے پس وہ شر کی کنجی ہے۔

اللہ کے بندے یہ جان لو! بندے کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی خیر کی تمنا نہ کرے۔

پانچویں نصیحت:
کتنی عظیم بات ہے کہ مومن نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا ہو ، تاکہ اس کے بدلے ڈھیروں اجر پائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

جو شخص کسی خیر کی رہنمائی کرے ، اسے بھی بھلائی کرنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی فرمان ہے :

بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں ) بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے۔

سب سے نفع بخش چیز جسے انسان لوگوں کو پیش کر سکتا ہے وہ ان کی رہنمائی، تعلیم، نصیحت، اور بھلائی کے کاموں کی طرف ان کی نشاندہی ہے۔ نیز وقت کو کارگر بنانے اور قرب الہی کے کاموں کو غنیمت جاننے پر ابھارنا ہے ۔

چھٹی نصیحت:
اللہ تعالی سے دین پر ثابت قدمی مانگیں، اور دعا کریں کہ وہ آپ کو اطاعت الہی اور تقوی پر قائم رہنے والوں میں شامل کر دے۔ اور اللہ کی پناہ طلب کریں کہ وہ آپ کو ایڑھیوں کے بل لوٹا دے اور پھر آپ بھلائی کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں ، برائی کرنے لگیں اور آپ کا نفس برائی کی طرف مائل ہو۔

ابو ذر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: ہمیشہ خدشہ رکھیں کہ نیک شخص برا بن جائے اور اس کی موت برائی پر ہو، اور ہمیشہ امید رکھیں برا آدمی نیک بن جائے اور اس کی موت نیکی پر ہو ۔

اس لئے ہم پر واجب ہے کہ حقوق اللہ میں کوتاہی پر کڑا محاسبہ نفس کریں ، اور اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمیں بھلائی کے کاموں پر ثابت قدم رکھے اور اسی پر موت نصیب فرمائے۔

ساتویں نصیحت: 
اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور و فکر کریں:
{وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ} [البقرة: 197]
تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالی باخبر ہے۔

یہ آیت بندے کے ضمیر میں راحت ، اور دل میں اطمینان پیدا کرتی ہے، اس لئے کہ مخلوق کی اخلاص کے ساتھ بھلائی کرنے والا، مخلوق سے کسی قسم کی قدردانی یا تعریف کا منتظر نہیں ہوتا، کیونکہ وہ جب بھی بھلائی کا کام کرتا ہے اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا رب اس سے باخبر اور اسے اجر دے گا۔

اس نے جو اچھا کام کیا ہے اس پر بعض لوگوں کا انکار اس پر گراں نہیں گزرتا بلکہ وہ اللہ کے اس فرمان کو ذہن نشین رکھتا ہے۔
{إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا} [الإنسان: 9]
(اور کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ کی رضا کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔

متلاشیانِ خیر! ذہن نشین کر لو کہ خیر کا مفہوم بہت وسیع ہے ؛ محدود نہیں: اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں کہ جن سے انسان جلدی یا دیر سے فائدہ اٹھائے۔

بلا شبہ یہ دن اور رات جہنم سے آزادی ، توبہ کی قبولیت، نیکیوں کے بڑھنے، اور درجات کی بلندی کے ہیں۔
آؤ اے اللہ کے بندو ! نیکی کہ اس موسم میں اللہ کو اپنی نیکیاں دکھائیں، وقت ضائع نہ کریں ، کیونکہ عقل مند انسان نیکی کمانے میں بے رغبتی اور ٹال مٹول نہیں کرتا ۔ نیز قربِ الہی کے کاموں کو غنیمت جاننے میں بھی دیر نہیں کرتا ، بلکہ بیدار رہتا ہے اور کوتاہی کا تدارک کرتا ہے ۔

آج کی نیکی کو کل پر نہ چھوڑ ہو سکتا ہے کل تو آئے لیکن تو ہی دنیا میں نہ ہو۔

مسلمان جہاں اس بات پر مامور ہے کہ زندگی بھر خیر کا طلب گار رہے وہاں اس سے یہ بھی مطلوب ہے کہ محنت کرے اور فضیلت والے دنوں سے فائدہ اٹھائے ۔ جیسے کہ اس عظیم ماہ میں موقع ہے کہ اس میں جنت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں چنانچہ مستعد لوگوں پر لازمی ہے کہ وہ آگے بڑھیں ، اور بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرنے والے فوری نیکیاں کریں۔
کامیاب لوگوں کو یقین ہے کہ اس مہینے کی فضیلت سے محرومی ہی حقیقی گھاٹا اور محرومی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے با سند صحیح ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر رمضان کا مہینہ آئے اور اس کو معاف کئے جانے سے پہلے چلا جائے۔

یہ وقت دوسرے اوقات کی طرح نہیں ہے جیسے کہ ابن الجوزی (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: تمام مہینوں میں رمضان کا مقام ایسے ہی ہے جیسے یوسف (علیہ السلام) کا اپنے بھائیوں میں تھے۔ تو یعقوب علیہ السلام کو یوسف محبوب ترین تھے تو اسی طرح رمضان علام الغیوب اللہ کے ہاں سب سے محبوب مہینہ ہے۔ یعقوب (علیہ السلام) کے گیارہ بیٹے تھے ، لیکن ان کی بینائی یوسف (علیہ السلام) کی قمیص کے علاوہ کسی کی قمیص سے واپس نہیں آئی۔ اسی طرح خطا کار اور گناہ گار کی حالت ہوتی ہے جب وہ رمضان کی خوشبو سونگھتا ہے۔

ماہ رمضان میں شفقت، برکت ، نعمت ، بھلائی، آگ سے آزادی، اور طاقت ور بادشاہ کی طرف سے مغفرت ہے اور یہ رمضان میں تمام مہینوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

اس لئے ہمیں چاہیے کہ باقی مہینوں میں ہونے والی کوتاہیوں کی تلافی کریں ، اور بگڑے ہوئے معاملات کی اصلاح کریں ۔
اللہ کے لئے ان تھوڑے دنوں میں اس فضیلت کو غنیمت سمجھو، تمہیں بڑی نعمت ، بلند درجات ، اور ان شاءاللہ لمبی راحت ملی گے۔ 

اللہ کے بندو! یہ کوشش تب ہی کارگر ہو گی کہ جب ہم رمضان میں اپنے اوقات کی حفاظت کریں ، اور انسان کی شکل میں وہ شیاطین جو مسلمانوں کو بھلائی ، نفع اور بہتری سے پھیرنے کی کوشش میں مگن ہیں ان سے بچیں، اسی طرح ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ اس سے بھی خبردار رہیں کہ سوشل میڈیا اور دیگر امور اس ماہ کی فضلیت سے فائدہ اٹھانے سے غافل نہ کر دیں ۔

بعض لوگوں کو ان میں تفریح اور لذت ملتی ہے تو ان میں مگن ہو جاتے ہیں، اور بھلائی کے موسم میں محنت سے رک جاتے ہیں ۔

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا } [الأحزاب: 56]
بے شک اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر خوب کثرت سے درود و سلام بھیجو۔ (احزاب:56)
اے اللہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی بیویوں آپ کی اولاد پر رحمتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر بھجیں۔ اور اے اللہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  آپ کی بیویوں اور اولاد میں برکت عطا فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں برکت عطا فرمائی بے شک تو بہت تعریف کا مستحق اور بزرگی والا ہے۔

اے اللہ ہمارے ملکوں اور گھروں میں امن پیدا فرما اور ہمارے حکمرانوں اور معاملات کو چلانے والوں کی اصلاح فرما، اے تمام جہانوں کے رب ہمارا حاکم اسے بنا جو تجھ سے ڈرتا ہو اور تقوی والا اور تیری خوشنودی (والے کاموں) کی پیروی کرنے والا ہو۔ اے اللہ اے زندہ اور قائم رہنے والے تو ہمارے حکمرانوں کو اپنی محبوب اور خوشنودی والی باتوں اور کاموں کی توفیق عطا فرما۔ اور انکو انکی پیشانی سے پکڑ کر نیکی اور تقوی کی طرف لے جا۔

یا اللہ ! ہم تجھ سے بھلائی کے کام کرنے، برائی چھوڑنے اور مساکین سے محبت کا سوال کرتے ہیں اور یہ کہ تو ہمیں معاف فرما دے اور ہم پر رحم فرما دے ، اور جب تو کسی قوم سے فتنہ کا ارادہ کرے تو ہمیں اس فتنے میں مبتلا ہونے سے پہلا فوت کردینا۔ 

یا اللہ ! ہم تجھ سے تیری محبت اور جس سے تو محبت کرے، اور وہ عمل کو تیری محبت کے قریب کرے اس کا سوال کرتے ہیں ۔

یا اللہ ! رمضان جتنا باقی ہی ہمیں اسے غنیمت جاننے کی توفیق دے ، اور ہمیں ان میں شامل کر دے جن کی گردنیں تو جہنم سے آزاد فرمائے ۔اور ہمیں ان میں لکھ سے جن کو تو نے معاف کیا اور راضی ہوا۔

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

رمضان میں بھلائی کے کاموں سے متعلق چند نصیحتیں  خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 12 رمضان المبارک 1440ه بمطابق 17 مئی 2019 امام و ...

ہم رمضان سے کیسے مستفید ہوں ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 10 مئی 2019


ہم رمضان سے کیسے مستفید ہوں 
 خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
 5 رمضان 1440ھ بمطابق 10 مئی 2019
امام و خطیب: معالی الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس
ترجمہ: فرہاد احمد سالم ( مکہ مکرمہ)

معالی الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 5 رمضان 1440ھ کا خطبہ ''ہم رمضان سے کیسے مستفید ہوں'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ رمضان نیکیوں کا موسم ہے اس میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتیں ہوتی ہیں ، جنت کے دروازے کھول اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتی ہیں ، نیز اللہ کی طرف سے پکارنے والا پکارتا ہے ، اے خیر کے چاہنے والے آگے بڑھ اور اے برائی چاہنے والے رک جا، اور اللہ کی طرف سے ہر رات لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اس ماہ مبارک سے مستفید ہوئیں ، کثرت سے تلاوت قرآن اور اس پر تدبر، ذکر اذکار، صلہ رحمی اور نیک اعمال کریں ۔ نیز اعضاء ، دل ، زبان ، آنکھوں ، کانوں، ہاتھوں اور پاؤں کو اللہ کی فرما برداری میں لگادیں۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے کہ اس نے ہمیں ایسے موسم سے نوازا جس کا تذکرہ قلب و جان بھی کرتے ہیں، نیز خیالات اور زبانوں پر ان کے چرچے رہتے ہیں۔
مسلسل بڑھنے والے اللہ کے فضل پر بار بار اس کی حمد ، اور ہر وقت اس کا شکر ہے ، ہم اس کا اجرو ثواب قیامت کے دن چاہتے ہیں ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اس نے روزہ داروں کے لئے دنیا ور آخرت میں بے پناہ اجر رکھا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب روزے داروں اور قیام کرنے والوں میں سے افضل ترین ہیں اسی لیے آپ نے بلند ترین مقام پا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے والا بلند اور قابل فخر مقام کا مستحق ہو گا۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر آپ کی آل اولاد ، اور بلند مقام پر پہنچنے والے آپ کے صحابہ ، نیز راز افشا ہونے کے دن تک بہترین طریقے سے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والوں پر ڈھیروں برکتیں اور سلامتی نازل ہو۔

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرتے ہوئے اخلاص و تقوی کے ذریعے ماہ قرآن میں اپنے کردار اور گفتار کو بہترین بنا لو، نیز جلدی توبہ کرو اس سے پہلے کہ پیشانی سے پکڑ لیا جائے اور کوئی بھاگنے کی جگہ نہ ملے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} [البقرة: 183]
اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

تقوی کے ساتھ اللہ کے سامنے جھک جاؤ کہ یہ ہی آخرت کا توشہ ہے ، نیز کج روی کو چھوڑ دو ؛یہ ہی تمہارے لئے کافی ہے ۔ وہیں پر رہو جہاں ہدایت ،ورع، اور تقوی تمہیں میسر آئے۔

مسلمانو ! بخشش کا یہ مہینہ اپنے جمال و جلال اور تمام تر خوبیوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے، اس مبارک ماہ کی فضیلت واضح اور یہ بھلائیوں سے بھر پور ہے ۔ اس کی برکت سے صبح روشن اور شہر اس کی بکھرتی خوشبو سے مہک گئے ہیں ۔ اس مہینے کے ستارے آسمانوں پر اندھیرے میں جگمگا رہے ہیں ، یہ ایک بار پھر شان و شوکت کے ساتھ لوٹ آئے ہیں ، ان کا دوبارہ آنا قابل ستائش ہے تاکہ ہماری پیاسی روحیں نگہت اور رحمت سے چھلک جائیں ، اور عطا کرنے والے رب کا قرب پائیں۔

اللہ اکبر! ماہ رمضان اللہ تعالی کی عظیم نوازش ہے ، رمضان مسلمان کی زندگی کو ذکر اور نیک اعمال سے بھر دیتا ہے، اس میں زبان قرآن کی تلاوت کرتی ہے اور روح روزہ اور قیام سے خوش ہوتی ہے۔

یہ مہینہ دلوں میں بھلائی کے سوئے ہوئے جذبات کو جگانے آیا ہے، گناہوں اور برائیوں کو بند کرنے آیا ہے۔ یہ مہینہ بھلائی اور نیکی کے احساس اور مفہوم کو دلوں میں نکھارنے آیا ہے۔

ماہ رمضان کا مقصد خوشی اور مسرت پھیلانا ہے جس کے نتیجے میں پریشان نفوس زندگی کے غموں سے آزاد ہو جاتے ہیں اور مادیت کے پریشان کن پھندوں سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں۔ 

اس ماہ میں کان سنتے ہیں اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، روحانیت پیدا ہوتی ہے اور دل گڑگڑاتے ہیں، تو قبولیت کا دریا بہہ رہا ہے اور بھلائی کا سیلاب امنڈ آیا ہے ، نیز شیطان کو جکڑ دیا گیا ہے۔

مسلم اقوام!
سچی توبہ کر کے اور فضول چیزوں سے بچ کر اس ماہ کا بہترین استقبال کریں ۔
اے میری قوم! اس مہینے کا متقی بن کر اور سچی توبہ سے استقبال کرو ؛ اس کام میں تاخیر گمراہی ہے ۔ 
اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ کرو، ؛کیونکہ گناہ تو تباہی ہے، کتنی ہی امتیں اس کی وجہ سے ذلیل ہوئیں اور بیماریوں نے انہیں آ لیا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
روزہ ڈھال ہے ، آدمی اس سے اپنے آپ کو آگ سے بچاتا ہے۔ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

یہ تب ہی ممکن ہو گا جب اعضائے بدن کو تباہ کن اور ہلاکت خیز اعمال سے بچایا جائے گا، زبان کو لغو اور فضول باتوں سے روکا جائے ، گفتگو کو زبان کے نشتروں سے ، نگاہوں کو حرام دیکھنے سے اور پاؤں کو برائی کی جگہ جانے سے روکا جائے گا۔ نیز معافی پھیلائیں، تکلیف دینے اور بخل سے بچیں، اسی طرح صاف اور خشیت والے دل، سچی توبہ ، اخلاص اور توحید سے بھرے سینے کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑائیں 

ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’بعض روزے داروں کو روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں ملتا اور بعض قیام کرنے والوں کو قیام سے بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ابن ماجہ

روزے کے عظیم مقاصد اس کے علاوہ کیا ہیں، انسانوں کی تہذیب و تربیت ہو، انہیں برائیوں سے بچایا جائے اور ان کا تزکیہ کیا جائے۔ اور روزے کا اعلی ترین مقصد اور ہدف کیا ہے؟ سنو ! یہ تقوی ہے۔

ابن قیم (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں روزہ متقی کی لگام، مجاہد کی ڈھال اور صالحین و مقربین کی ریاضت ہے، نیز تمام عبادات میں سے صرف روزہ اللہ کے لئے خاص ہے، روزہ اللہ اور بندے کے درمیان خفیہ ہوتا ہے کہ اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

کیا ہی عظیم مہینہ ہے کہ نیکی کے مواقع بہت زیادہ ہیں، بارگاہ الہی کی طرف کھنچنے والوں کے دل سنتوں کی طرف تیزی سے مائل ہو رہے ہیں ۔

ابن تیمیہ (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: جو شخص طلبِ ہدایت کے لئے قرآن پر غور کرے گا اس کے لئے ہدایت کا راستہ واضح ہو جائے گا۔

قرآن پر غور و تدبر کرو اگر ہدایت کے متلاشی ہو اس لئے کہ خیر قرآن پر تدبر میں ہی ہے۔

مسلمانو! اور روزے دارو!
یہ بابرکت ایام محاسبہ نفس اور اصلاح عمل کا موقع ہیں کیونکہ اس ماہ میں بھلائیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر نیکی کرنے کا سبق ملتا ہے۔ 

تو کیا امت نے اس روشن صورت کو باقی رکھنے کی کوشش کی کہ جس میں میانہ روی اور اعتدال اس دین کی امتیازی صفت ہے اور یہ دین غلو ،انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے؟

اور کیا امت ہر اس چیز کے خلاف کھڑی ہے جو دنیا کے امن و استحکام ، اقوام عالم کے ساتھ رواداری ، اور بقائے باہمی کے فروغ کو بگاڑ دے؟ اسی طرح نسل پرستی اور گروہ بندی کو چھوڑ دے؟

اور کیا امت پور ے جذبے کے ساتھ ان لوگوں کے سامنے کھڑی ہے جو ان کے عقائد ہلانا چاہتے ہیں، محکم اصولوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، نیز مسلمات اور قطعیات پر زبان درازی کرتے ہیں؟

روح کے نکلنے سے پہلے اللہ کے فضل کی طرف تیزی سے بڑھیں، اس ماہ کو نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، ایک دوسرے پر رحم کریں اور درگزر سے کام لیں ، ایک دوسرے کو معاف کریں ، آپس میں صلح کریں، صلہ رحمی کریں ، اور وقت کی حفاظت کریں، نیز دلوں کا مکمل خیال رکھیں اور روزے کے مقاصد پورے کریں۔

رمضان امانت دار، تحفظ اور تقوی کا مہینہ ہے اس میں قبولیت کی چاہت رکھنے والے کے لئے کامیابی ہے، خوشخبری ہے اس کے لئے کہ جس کا روزہ درست ہوا اور اس نے صبح شام اللہ سے دعا کی ۔ 

اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ اس نے یہ بابرکت ماہ نصیب فرمایا، اور پھر اس کا شکر اس طرح ادا کریں کہ زیادہ سے زیادہ نیکی کے کام کریں، ضرورت مندوں کی مدد کریں اور اللہ کے بندوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں:

ایمانی بھائیو!
اللہ آپ کی حفاظت کرے روزے کے اس مہینے کو نیکی میں آگے بڑھنے کا مہینہ بنائیں۔ کیا ہی اچھی بات ہو گی کہ اس ماہ کے آغاز سے ہی بہترین تیاری کریں، شروعات ہی اعلی کر لیں، توبہ کی تجدید کریں، کثرت تلاوت اور زیادہ سے زیادہ قرآن پر تدبر کا اہتمام کریں۔

اسی طرح اس ماہ کی ابتدا ایک دوسرے کو معاف کر کے ، حسد اور کینہ چھوڑ کے، سینہ اور دل کی صفائی سے کریں، اور دو متحارب گروپوں کے درمیان جنگ بندی سے ہو۔ نیز مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور آپس میں حسن ظن کے ساتھ ہو، ایسے ہی صدقہ و احسان، رفاہی کاموں ، خاندان پر توجہ اور صلہ رحمی سے ہو۔

اسی طرح آغاز رمضان سے ہی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں پر توجہ دیں، ان کی بہتر تربیت کریں۔ اتحاد امت پیدا کریں، اختلاف اور تفرقہ سے دور رہیں، اور اعتدال اور میانہ روی کو مستحکم کریں۔

ساتھ ساتھ امن و سلامتی ، اتحاد اور قومی یکجہتی کو مضبوط کریں، نیز قوم اور حکمرانوں کے ہم رکاب رہیں، حسن خاتمہ ، جنت کے حصول کی کوشش اور جہنم سے بچنے کی کاوش کریں۔

اسی طرح وقت کی حفاظت کریں۔ نیز سوشل میڈیا ، سیٹلائٹ چینلز اور جدید میڈیا پر اخلاقی اقدار کا خیال رکھیں، جدید ٹیکنالوجی کو دینی اور ملکی مفاد کے لئے استعمال کریں، جھوٹے پراپیگنڈوں اور افواہوں سے دور رہیں۔

اللہ کے بندو! اپنے لئے اپنے اہل و عیال ، حکمرانوں ، وطن اور امت مسلمہ کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا کریں۔

اللہ تعالی سے بار بار مانگیں ، اسے پکاریں اور خوب گڑگڑا کر مانگیں کہ وہ آپ کے کمزور بے وطن مصیبت زدہ قیدی بھائیوں کی ہر جگہ مدد فرمائے اور ان کی پریشانیوں اور غموں کو دور فرمائے نیز ان کی مصیبتوں کو ختم فرمائے۔یقینا وہ سننے والا اور دعا قبول کرنے والا ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ہم رمضان سے کیسے مستفید ہوں   خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)  5 رمضان 1440ھ بمطابق 10 مئی 2019 امام و خطیب: معالی الشیخ ڈاکٹر عب...

رمضان؛ محاسبہِ نفس اور اطاعت گزاری کا مہینہ ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 10 مئی 2019


Image result for ‫مدینہ‬‎

رمضان؛ محاسبہِ نفس اور اطاعت گزاری کا مہینہ
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
05 رمضان 1440ہجری بمطابق 10 مئی 2019
امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل


فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے05 رمضان 1440ہجری کا خطبہ جمعہ " رمضان؛ محاسبہِ نفس اور اطاعت گزاری کا مہینہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ زندگی کا ہر لمحہ نیکی کرتے ہوئے اور گناہوں سے بچتے ہوئے گزرے تو یہ حقیقی سعادت مندی ہے، انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آخرت کے لئے اس نے کیا تیاری کی ہے؟ کیونکہ یہ سوچ حدیث نبوی کے مطابق عقلمندی کی علامت ہے، انسان کو کسی بھی ایسے عمل سے بچنا چاہیے جس سے نیکیوں کا ثواب کم یا ختم ہو جائے۔ قرآن کریم اور رمضان کا بہت گہرا تعلق ہے اسی ماہ میں قرآن نازل کیا گیا اور در حقیقت رمضان کی عبادات نعمت قرآن کے شکرانے کا مظہر ہیں۔ کسی بھی نعمت کے ملنے پر شکر گزاری شیوہ پیغمبری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ساری زندگی اسی چیز کا مصداق تھی۔ قرآن کریم کا رمضان میں روح پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے؛ کیونکہ برائی کا عنصر روزے کی وجہ سے کمزور ہو چکا ہوتا ہے تو ایسے میں قرآن کی تاثیر کارگر ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم میں ہر طرح کے مسئلے کا حل موجود ہے چاہے وہ دنیاوی مسئلہ ہو یا دینی، انہوں نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا کہ کیا تم نے رمضان میں آخرت کی تیاری، ہڑپ شدہ مال کی واپسی، بد اخلاقی سے توبہ، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، حرام اور سود خوری سے توبہ کر لی ہے؟ آج اپنا خود محاسبہ کر لو ورنہ کل کوئی اور تمہارا حساب کرے گا، آخر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ روزے کا اثر اسی وقت ہوتا ہے جب انسان روزے کو نیک اعمال کے ذریعے عمدہ بنا لے اور کسی بھی ایسے عمل سے دور رہے جو ثواب میں کمی کا باعث بنے ، آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو زمین اور آسمانوں کا پروردگار ہے، وہ نعمتیں اور برکتیں دینے والا ہے، ہماری بندگی سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اور ہماری خطائیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، نیکی اور بدی کرنے والے کو ہی ان کا نفع اور نقصان ہوتا ہے، اللہ تعالی تو تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے۔ میں اپنے رب کی حمد خوانی کرتا ہوں اور اس کی نعمتوں پر اسی کا شکر گزار ہوں، اللہ تعالی کی معلوم اور نامعلوم سب نعمتوں پر اسی کے لئے حمد و شکر بجا لاتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے اچھے اچھے نام ہیں اور اس کی صفات عظیم ترین ہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، آپ کی براہین اور معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-ان کی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔


مسلمانو!

محاسبہ نفس، عبادت کے لیے محنت، زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا حصول ، اللہ تعالی کی توفیق سے کی جانیوالی نیکیوں پر دوام، عمل صالح کی توفیق اور نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال سے اجتناب ؛ دنیا و آخرت میں عین سعادت مندی اور کامیابی کے باعث عمل ہیں، فرمان باری تعالی ہے:
 {وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى[40] فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى} 
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا [40] تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی[النازعات : 40-41]

ایسے ہی اللہ تعالی نے اہل جنت کے بارے میں فرمایا: 
{وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (25) قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ (26) فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ}
 اور وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کرتے ہوئے [25] کہیں گے: اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں میں دبک کر رہا کرتے تھے۔ [26] پھر اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں تپتی لو کے عذاب سے بچا لیا۔ [الطور: 25 - 27]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، اللہ تعالی کے فرمان: {وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ}
 اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا پیش کیا ہے [الحشر: 18] 
کی تفسیر میں کہتے ہیں: "تم خود اپنا محاسبہ کر لو اس سے قبل کے تمہارا محاسبہ کیا جائے، یہ دیکھ لو کہ تم نے اپنے لیے کتنے نیک عمل کیے ہیں جو روز قیامت تمہارے لیے مفید ہوں اور تم اُنہیں اپنے رب کے سامنے پیش کر سکو

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (عقلمند وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کے لیے تیاری کرے، اور وہ شخص عاجز ہے جو چلے تو نفسانی خواہشات کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ سے لگائے۔)یہ حدیث حسن ہے۔

ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں محاسبہ نفس اس طرح ہو گا کہ انسان ہر قسم کے گناہوں سے توبہ کر لے، نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال سے بچے، اور زیادہ سے زیادہ خیر و بھلائی کے کام کرے۔

جبکہ بدبختی، ذلت اور رسوائی ؛ ہوس پرستی اور حرام کاموں کے ارتکاب میں ہے، ایسے ہی نیکیاں ترک کرنے یا نیکیوں کو تباہ کرنے والے اعمال بھی ذلت و رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔

نقصان کے لئے انسان کو اتنا ہی کافی ہے کہ نیکیوں کا ثواب کم کرنے والی حرکت کر بیٹھے۔

مسلمانو!

تم دیکھ رہے ہو کہ دن اور رات کس تیزی کے ساتھ گزرتے جا رہے ہیں، سالہا سال بھی کس قدر سرعت کے ساتھ گزر رہے ہیں، کوئی بھی دن گزرنے کے بعد دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا، زندگی شب و روز کے آنے جانے کا نام ہے۔ اس کے بعد موت آ جائے گی اور تمام کی تمام امیدیں ختم ہو جائیں گی، تب خواہشات کا دھوکا سب پر عیاں ہو جائے گا۔

مسلمانو!

نعمتِ ایمان اور نعمتِ قرآن کی تعظیم کرو؛ کیونکہ ایمان اور قرآن سے بڑھ کر کسی کو کوئی نعمت ملی ہی نہیں۔

جو بھی مسلمان رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے روزے رکھے تو وہ لازمی طور پر ایمان پا لیتا ہے، اسے قرآن کی برکتیں بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔

قرآن والے وہ ہیں جو قرآن پر عمل کریں چاہے وہ قرآن کے حافظ نہ ہوں، اور جو شخص قرآن پر عمل نہ کرے تو وہ قرآن والا نہیں چاہے وہ قرآن کا حافظ ہی کیوں نہ ہو!

رمضان میں قرآن کریم کا نزول؛ امت مسلمہ کے لئے ہدایت و رحمت والی عمومی اور ہر فرد کے لئے خصوصی نعمت ہے، یہ نعمت خوشحال زندگی کی بھی ضامن ہے ، تو روزوں کے مہینے میں قرآن کریم کا نزول خیر و برکت اور سعادت مند زندگی کا نکتہِ آغاز ، اور آخرت میں بلند درجات پا کر کامیابی حاصل کرنے کا راز ہے۔ قرآن کریم سے روشنی ملتی ہے اور اندھیرے چھٹ جاتے ہیں، قرآن کریم جہالت اور گمراہی کا خاتمہ کرتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ}
 اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی۔ اس سے پہلے آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے اس روح کو ایک روشنی بنا دیا۔ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں؛ اس روشنی سے راہ دکھا دیتے ہیں اور بلاشبہ آپ سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔ [الشورى: 52]

چنانچہ اس امت کے اولین یا بعد میں آنے والے افراد میں سے جو بھی قرآن مجید پر ایمان لایا تو اس نے قرآن کریم کی عمومی اور مکمل نعمت کا شکر بھی ادا کر دیا نیز انفرادی طور پر ملنے والی نعمتِ ایمان کا بھی شکر ادا کر دیا ہے۔ جبکہ قرآن پر ایمان نہ لانے والا تمام نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے، اور جہنم میں بھی ہمیشہ رہے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ}
 اقوام عالم میں سے کوئی بھی اس کا انکار کرے گا تو آگ اس کا ٹھکانہ ہے۔[هود: 17]


ہم پر اللہ تعالی کی رحمت ہے کہ اس نے اپنی حکمت اور علم کے مطابق ہم پر رمضان المبارک کے روزے فرض فرمائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ میں قیام اللیل بھی فرمایا، اور ماہ رمضان کے خصوصی فضائل بتلائے، اس طرح ماہ رمضان میں بڑی بڑی عبادات اور نیکیاں یک جا ہو گئیں۔ پھر اللہ تعالی نے اس ماہ میں اعمال کا اجر بھی بڑھا دیا تا کہ مسلمان نعمت قرآن اور نعمت ایمان پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کریں ۔

نعمت عطا کرنے والے کا شکر واجب ہے، تا کہ اللہ تعالی نعمت کو زائل ہونے سے محفوظ فرما دے، اور ہمیں دنیا و آخرت میں ڈھیروں مزید نعمتیں عطا فرمائے، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر اللہ کی مختلف عبادات بجا لانے سے ہو گا، ان میں سے عظیم ترین عبادت عقیدہ توحید ہے، اسی طرح اللہ کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے سے بھی شکر ادا ہو گا، اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: 
{إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}
 بیشک ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی [1] پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ [الكوثر: 1، 2]

 یہاں کوثر سے مراد اتنی زیادہ خیر و بھلائی مراد ہے جس کا احاطہ صرف اللہ تعالی ہی کر سکتا ہے، اسی خیر میں جنت کی ایک نہر بھی ہے جسے کوثر کہتے ہیں، تو اللہ تعالی نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی فرمائی کہ مختلف عبادات کے ذریعے نعمتوں کا شکر ادا کریں ، اور خلقت کے ساتھ مختلف قسم کے احسانات والے کام کریں، اس پر ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت اور احسان کے تمام مقامات کا حق ادا کر دیا اور اللہ تعالی کے حکم کی بجا آوری کامل ترین انداز میں فرمائی۔

تو ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہماری طرف سے ہمارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیائے کرام کو ملنے والے بدلے سے بھی زیادہ بہترین بدلہ عطا فرمائے؛ آپ نے پیغام رسالت پہنچا دیا، امانت ادا کر دی اور امت کی خیر خواہی فرمائی۔

اسی طرح اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے لیے فرمایا:
 { فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ}
 جو کچھ میں نے تمہیں دیا اس پر عمل پیرا ہو جائیں اور میرا شکر کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔[الأعراف: 144]

اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ}
اے آل داؤد! ان [نوازشوں ]کے شکر میں نیک عمل کرو، میرے بندوں میں سے شکر گزار کم ہی ہوتے ہیں۔ [سبأ: 13]

 اس آیت کی تفسیر میں کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ: دن اور رات کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں گزرتی کہ جس میں داود علیہ السلام کی آل میں سے کوئی رکوع یا سجدے کی حالت میں نہ ہو۔

اور جس وقت اللہ تعالی نے مریم علیہا السلام پر ہونے والی نعمتیں شمار کروائیں تو انہیں بھی شکر ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: 
{يَامَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ}
 اے مریم! اپنے رب کی اطاعت کر، اور سجدہ کر، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔ [آل عمران: 43]

اسی طرح اس امت کے افضل ترین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
 {تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا}
 تم انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے۔ [الفتح: 29] 

تو رمضان اور غیر رمضان میں عبادات؛ نعمتِ قرآن اور نعمتِ ایمان پر اللہ کا شکر ہیں۔

قرآن کریم کا رمضان میں روح پر بڑا ہی گہرا اثر ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی بدولت برائی کے اسباب کمزور پڑ جاتے ہیں اور نیکیوں کے اسباب قوی ہو جاتے ہیں، اسی طرح شیطان کا تسلط بھی کمزور ہو جاتا ہے؛ اس لیے رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کریں ۔

قرآن کریم ہی در حقیقت امت اسلامیہ کا جسم اور جان ہے، امت اسلامیہ کی بقا اور خوشحالی کا ضامن ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا}
 یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور نیک عمل کرنے والے مومنوں کو اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ [الإسراء: 9]

اللہ کے بندو!

فرض روزوں میں تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے، روزے کی بدولت دنیاوی فوائد بھی ملتے ہیں، اہل دانش ان فوائد سے بہرہ ور ہیں۔

تاہم روزوں کے ثمرات اور روزے داروں کو فوائد اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب انسان انہیں نیک عمل کے ذریعے پاکیزہ بنا دے، روزوں کو انہیں توڑنے والی اشیا سے محفوظ رکھے، گناہوں اور برائیوں جیسے کسی بھی ایسے کام سے بچے جن سے روزوں کے ثواب میں کمی آئے۔

اے مسلم!

جب تم روزہ رکھو تو تمہارے ساتھ تمہاری سماعت، بصارت، زبان اور اعضا کا بھی روزہ ہونا چاہیے انہیں حرام کاموں سے محفوظ کریں تا کہ آپ کا تزکیہ نفس ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ}
 اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال غارت نہ کرو۔ [محمد: 33]

اور ایک حدیث میں ہے کہ: (جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اس دن بیہودہ باتیں نہ کرے اور نہ ہی برائی پر عمل کرے، پھر بھی کوئی اسے برا بھلا کہے تو کہہ دے: میرا روزہ ہے۔)

اے مسلم!

رمضان میں اپنا محاسبہ کر لو؛ تا کہ روزِ قیامت تمہارا حساب قدرے آسان ہو جائے!

تو کیا تم نمازیں اسی طرح ادا کرتے ہو جیسے تمہیں حکم دیا گیا ہے؟

کیا تم نے روزے رکھ کر زکاۃ بھی ادا کی ہے؟

کیا تم نے گناہوں سے توبہ کر لی ہے؟

کیا تم نے سود خوری اور دیگر روزی کے حرام ذرائع چھوڑ دئیے ہیں؟

کیا تم نے صلہ رحمی کی ہے؟

کیا تم نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے؟

کیا تم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیا ہے؟

کیا تم نے ہدایت یافتہ بننے کے لئے سیرت طیبہ پر چلنے کی مکمل کوشش کی ہے؟

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا}
 اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سیدھی بات کیا کرو [70] تو اللہ تعالی تمہارے اعمال کو بہتر کر دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ [الأحزاب: 70، 71]

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
 یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو [الأحزاب: 56]

 اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود پڑھو۔

اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَسَلِّمْ تَسْلِيْمًا كَثِيْراً۔


یا اللہ! ہمارے اگلے ، پچھلے، خفیہ، اعلانیہ، اور جنہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی تہہ و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہماری اطاعت گزاری کے لئے مدد فرما، یا اللہ! ہمیں اس ماہ کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرما اور ہماری مدد بھی فرما، یا اللہ! ہمیں اس ماہ میں ایسے قیام کرنے توفیق عطا فرما جیسے تجھے پسند ہو اور تیری رضا کا موجب ہو، یا اللہ! ہمیں لیلۃ القدر میں قیام نصیب فرما، یا اللہ! ہماری کی ہوئی نیکیاں بھی قبول فرما، یا اللہ! جن نیکیوں کو کرنے کی تو نے ہمیں توفیق دی اور ان پر معاونت بھی فرمائی یا اللہ! ہماری ان تمام نیکیوں کو قبول فرمانا، یا اللہ! ہماری ان نیکیوں کو روزِ قیامت تک کے لئے محفوظ فرمانا۔

یا اللہ! ہمارے گناہ مٹا دے، یا اللہ! ہمارے گناہ مٹا دے، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ہمیں حق بات کو حق سمجھنے کی توفیق دے اور پھر اتباعِ حق بھی عطا فرما، یا اللہ! ہمیں باطل کو باطل سمجھنے کی توفیق دے اور پھر اس سے اجتناب کرنے کی قوت بھی عطا فرما۔

آمین یا رب العالمین!!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

رمضان؛ محاسبہِ نفس اور اطاعت گزاری کا مہینہ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 05 رمضان 1440ہجری بمطابق 10 مئی 2019 امام و خطیب: پرو...

استقبال رمضان۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 03 مئی 2019


استقبال رمضان
خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
28 شعبان 1440هـ بمطابق 3 مئی 2019
امام و خطیب:  ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی
ترجمہ:  فرہاد احمد سالم( مکہ مکرمہ)

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 28 شعبان 1440 کا خطبہ '' استقبال رمضان'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ، چنانچہ ان ہی عبادات کے اہم موسموں میں سے ایک موسم کہ جس میں رب کی رحمتیں برستیں، اس کے اطاعت کے کام کیے جاتے ، عمل پر اجر و ثواب کو بڑھا دیا جاتا نیز جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں وہ عظیم موسم ماہ رمضان ہے جس کی عظیم راتیں اور افضل ایام آنے والے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام کو اس موسم کی خوشخبری دیا کرتے تھے۔ یہ ماہ مبارک گناہوں کی معافی کا بہترین موقعہ ہے۔ اس میں مسلمان اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھتے ہیں، روزہ صرف کھانے پینے اور خواہشات نفس سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں تمام حرام کاموں سے بھی بچنا ہے۔ روزے کا مقصد تقرب الہی اور تقوی کا حصول ہے ، رمضان اور قرآن کا گہرا تعلق ہے ،یہ ماہ قرآن بھی ہے اس میں کثرت تلاوت قرآن کی بہت اہمیت اور اجر و ثواب ہے۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے روزے کو ڈھال اور جنت تک پہنچنے کا راستہ بنایا۔ میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان ہوں اور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، نیز اسی سے گناہوں کی بخشش بھی مانگتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا، امانت ادا کی، امت کی خیر خواہی فرمائی اور کما حقہ اللہ کے راستے میں جہاد کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ کی طرف سے پیغام اجل آگیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی آل ، صحابہ ،نیز ان کے طریقے پر چل کر اقتدا کرنے والوں ، اور قیامت تک ان کے طرزِ زندگی اپنانے والوں پر بھی اللہ کی سلامتی اور درود نازل ہوں۔

مومنو! میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں، یہ تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔
آپ پر صبر و تحمل اور محنت و کوشش لازم ہے، اور یہ یاد رکھیئے کہ دنیا گنتی کے چند دن اور محدود سانسوں کا نام ہے، ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس نے کب رخصت ہو جانا ہے؟ اس لیے اللہ کے بندو! ہمیں چاہیے کہ جب تک زندگی ہے تیاری کریں، اور ہم یہ بھی یاد رکھیں کہ موت اچانک غفلت میں آتی ہے، نیز راتوں کو محنت کرنے والے صبح اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

{وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ } [البقرة: 281]

اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

امت مسلمہ! 
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ } [الذاريات: 56]
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

روزانہ اللہ کی اطاعت کے کام ہو رہے ہیں اور اس کی رحمتیں برس رہی ہیں، نیکی کی اللہ تعالی جسے چاہے توفیق دیتا ہے، اللہ بہت عظیم فضل والا ، پاک ، معاف اور بہت رحم کرنے والا ہے۔

بےشک آپ کے سامنے عظیم راتیں اور افضل ایام آ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آنے کی خوشخبری دیتے تھے؛ چنانچہ مسند امام احمد میں ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تمہارے پاس مبارک ماہ رمضان آ چکا ہے ،اللہ تعالی نے اس میں تم پر روزے فرض کیے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اور شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے ۔جو اس رات کی خیر سے محروم رہا تو وہی حقیقی محروم ہے۔

ابن رجب (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں ، یہ حدیث لوگوں کو ایک دوسرے کو رمضان کی مبارک باد دینے کی دلیل ہے۔ مومن جنت کے دروازے کھلنے اور گناہگار جہنم کے دروازے بند ہونے کی خوشخبری کیوں نہ دیے جائیں، اسی طرح عقلمند آدمی شیطان کو بیڑیوں میں بند ہونے کی خوشخبری کیوں نہ دیا جائے، اس جیسا وقت پھر اور کہاں۔

بےشک رمضان کا مہینہ روزوں، قیام، قرآن اور احسان کرنے کا مہینہ ہے، یہ مہینہ فضیلت والے اعمال کا مجموعہ ہے۔ روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے رب میں نے اس کو دن میں کھانے اور شہوت سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا : میں نے اس کو رات کو سونے سے روکا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔

صحیحین میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے حالت ایمان میں حصول ثواب کے لیے ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔

اللہ تعالی نے روزے کا اجر اپنے ذمہ لیا ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے،


حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان جو نیکی کرتا ہے، وہ اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا تک لکھی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مگر روزہ کہ وہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور کھانے پینے سے دست کش ہوتا ہے۔

بےشک یہ عظیم مہینہ اور پیاری بہار ہے، اس میں فرشتے روزہ دار کے لئے افطاری تک دعا کرتے رہتے ہیں، روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت افطاری کی خوشی اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت روزے کا ثواب پا کر۔

اللہ تعالی روزانہ جنت کو مزین کرتا اور فرماتا ہے: يُوشِكُ عِبَادِي الصَّالِحُونَ أَنْ يُلْقُوا عَنْهُمُ الْمُؤْنَةَ وَالْأَذَى، وَيَصِيرُوا إِلَيْكِ
عنقریب میرے نیک بندے اپنے اوپر سے محنت اور تکلیف کو اتار دیں گے اور تیر ے پاس آئیں گے، اللہ کی طرف سے آواز لگانے والا آواز لگاتا ہے۔: يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ، أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ، أَقْصِرْ،
اے خیر کے متلاشی آگے بڑھ اور اے برائی کے رسیا رک جا۔ چنانچہ دل اپنے خالق کے قریب اور نفوس اپنے پیدا کرنے والے کے لئے خالص ہوتے ہیں۔

رمضان میں روزہ داروں کی دعائیں رد نہیں ہوتیں ، اور دعا کی قبولیت کہ بہت سی گھڑیاں ہیں، پس ان میں کثرت سے دعا کریں، اللہ تعالی نے آیات صیام میں ذکر کیا ہے کہ وہ مومن بندوں کے قریب ہوتا اور دعائیں قبول کرتا ہے، چنانچہ فرمایا:
{وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ} [البقرة: 186]
اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ دیجئے کہ میں (ان کے) قریب ہی ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں لہذا انہیں چاہیے کہ میرے احکام بجا لائیں اور مجھ پر ایمان لائیں اس طرح توقع ہے کہ وہ ہدایت پا جائیں گے۔

رمضان میں بھلائی کے بہت سے دروازے ہیں مثلاً جس نے کسی روزہ دار کی افطاری کروائی چاہے ایک کھجور ہی کے ذریعے تو اس کو روزے دار کے برابر اجر ملے گا اور روزے دار کے اجر میں کچھ بھی کمی نہیں ہو گی۔ 

اسی طرح رمضان کا صدقہ بہترین صدقہ ہے، چنانچہ حساب کے دن سے ڈرنے والے کو چاہیے کہ بھوکے مسکین کو کھانا کھلائے، بیوہ اور یتیم کی ضرورت کو پورا کرے۔

ماہ رمضان تقوی کا عظیم موسم ہے اسی لیے روزہ ڈھال ہے، یعنی فواحش اور محرمات کے مقابلے میں محفوظ قلعہ ہے۔ اللہ سبحانہ نے روزوں کی آیات کا آغاز اور اختتام بھی تقوی کے ذکر سے ہی کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے روزہ کے احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا:
 {كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ} [البقرة: 187]

اسی انداز سے اللہ تعالیٰ اپنے احکام لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں۔
تقوی بہترین زاد راہ اور تقوی پر مبنی لباس؛ بہترین لباس ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ} [الطلاق: 2، 3] {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا} [الطلاق: 5] {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا} [الطلاق: 4]

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ اس کی برائیاں دور کر دیتا ہے اور اسے بڑا اجر دیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لئے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔

مسلم اقوام! تقوی کے ذریعے اس جنت کی حقیقی سعادت حاصل ہوتی ہے کہ جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے اور وہ متقین کے لئے تیار کی گئی ہے، نیز اس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی گزرا۔

{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } [يونس: 62 - 64]
سن لو! بے شک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور بچا کرتے تھے۔ انہی کے لیے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتوں کے لیے کوئی تبدیلی نہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

مسلمانو!
رمضان حصولِ رضائے الہی ، راہِ راست پر استقامت اور اللہ سے ملاقات کی تیاری کا موقعہ ہے، پس آج عمل ہے اور حساب نہیں اور کل حساب ہوگا عمل نہیں۔
{وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى} [البقرة: 197]
اور زاد راہ ساتھ لے لیا کرو اور بہتر زاد راہ تو پرہیزگاری ہے۔

مومنو! 
رمضان کے مقاصد میں اطاعت الہی اور گناہ سے بچنے پر نفس کی تربیت اور تزکیہ بھی شامل ہے۔ جیسے کہ مسلمان اپنے نفس کو حالت روزہ میں بعض حلال چیزوں سے روکتا ہے، ا س سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو حرام سے بچائے۔ پس روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں ایمان اور عمل صالح کے نتائج سامنے آتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص جھوٹ اور فریب کاری ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ(روزے کے نام سے) اپنا کھانا پیناچھوڑ دے۔

رمضان میں تلاوت قرآن کی خصوصی فضیلت ہے ،پس قرآن کی تلاوت، تدبر اور غور فکر سے زیادہ کوئی چیز دل کے لئے نفع بخش نہیں۔ جیسے کہ ابن القیم (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں:
قرآن وہ تمام پسندیدہ اوصاف پیدا کرتا ہے جو دل کی حیات کا باعث ہیں، اسی طرح وہ ان تمام برے اوصاف سے روکتا بھی ہے جن سے دل میں بگاڑ اور تباہی پیدا ہوتی ہے۔ اگر لوگ جان لیں کہ تدبر کے ساتھ تلاوت قرآن میں کیا ہے تو وہ اس کے علاوہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر اس ہی میں مشغول ہو جائیں۔


مسند امام احمد میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت کے ساتھ رکوع وسجود کرتے رہے، (وہ آیت یہ ہے:) {إِنْ تُعَذِّ بْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکَیْمُ}
اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔

اے عاجزی کرنے والو! نیکی کے دن آ چکے ہیں اور صدقہ کرنے کا موسم سایہ فگن ہے پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاؤ، اپنے اوقات کو نیکیوں سے آباد کرو، اطاعت کے کاموں میں بڑھو نیز اپنے رب کے لئے خالص ہو جاؤ اور سنت نبوی کی پیروی کرو۔

مخلوق میں سب سے بہتر اور انسانوں میں سب سے پاکیزہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجو۔
مومنوں جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں بڑے پیارے کام کا حکم دیا ہے جس کی ابتدا اپنے آپ سے کرتے ہوئے فرمایا: 
{ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمً} [الأحزاب: 56]

اے اللہ ہمارے دلوں کو تقوی دے، ان کو پاکیزہ کر دے ، تو ہی ان کو سب سے بہتر پاک کرنے والا اور تو ہی ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔

یا اللہ ! ہم تجھ سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، اور دنیا و آخرت میں ہمیشہ معافی کا سوال کرتے ہیں۔

یا اللہ ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما ، ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرما اور ہمارے معاملات آسان فرما، نیز ہمیں اپنے رضا والوں کاموں کی توفیق عطا فرما۔

یا اللہ! ہمیں ، ہمارے والدین ان کے والدین اور ان کی اولادوں کو معاف فرما بے شک تو دعا سننے والا۔


آمین یا رب العالمین!!

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

استقبال رمضان خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 28 شعبان 1440هـ بمطابق 3 مئی 2019 امام و خطیب:    ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی ترجم...