ہر موقعے کو غنیمت جانو!
خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
جمعۃ المبارک 3 جمادیٰ الآخرۃ 1440ھ بمطابق 8 فروری 2019
امام وخطیب: فضلیۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد معیقلی
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمروزیر
الحمد للہ۔ یہ اسی کی نعمت ہے کہ بندوں کی نیکیاں قبول ہوتی ہیں، انہیں بار بار خیر وبرکت کے مواقع ملتے ہیں، تاکہ ان کے درجات بلند ہو جائیں اور ان کے گناہ مٹ جائیں۔ درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرح صدر عطا فرمایا، آپ کے بوجھ کو ہلکا کیا اور آپ کا ذکر بلند فرمایا۔ اللہ کی رحمتیں، سلامتیاں اور برکتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، نیک اہل بیت پر، پاکیزہ صحابہ کرام پر اور جب تک دن اور رات کا سلسلہ جاری ہے، ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
بعد ازاں! اے مؤمنو!
اللہ تعالیٰ نے اگلوں اور پچھلوں کو یہی نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنے بلند وبالا الٰہ سے ڈرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پرہیزگاری ہی عزت، کامیابی اور نجات کا ذریعہ ہے۔ جو اس پر قائم رہتا ہے، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا اور جو اسے چھوڑ دیتا ہے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
’’اے لوگو جو عقل رکھتے ہو! اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی‘‘
(المائدہ: 100)
اے امت اسلام!
اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو پیدا فرمایا۔ انہیں زمین کو آباد کرنے اور اسے بہتر بنانے کا حکم دیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے۔‘‘
(ہود: 61)
بسانے میں ہر نفع بخش اور فائدہ مند چیز کی فراہمی شامل ہے، چاہے وہ چیز افراد کے لیے مفید ہو یا گروہوں کے لیے۔ جیسے زراعت، صناعت، عمارتیں بنانا اور گھر تعمیر کرنا، دفاعی اسباب اور طاقت کے ذرائع اپنانا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ہر وہ چیز فراہم کی ہے جو زمین میں بسنے کے لیے ضروری ہے۔ اس نے لوگوں کو اپنی ظاہر اور پوشیدہ نعمتیں کھول کر عطا فرمائی ہیں۔ کامیابی اور نجات کے مواقع عطا فرمائے ہیں۔ صاحب توفیق وہی ہے، جو ان مواقع کو غنیمت جانتا ہے، ان سے فائدہ اٹھانے میں سنجیدگی اور محنت دکھاتا ہے، اپنا بھی بھلا کرتا ہے اور اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ بھی ڈالتا ہے اور اپنی امت کو سربلند بھی کرتا ہے۔
اللہ کے بندو!
یہ مواقع قربِ الٰہی اور فرمان برداری کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں، ایسے کاموں کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں جن کا فائدہ سب کے لیے عام ہو، ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ ڈالنے کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں، اعلیٰ مرتبے پانے کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں، جنہیں معاشرے اور ملک کی خدمت کے لیے وقف کیا جا سکتا ہو یا اسلام اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود میں لگایا جا سکتا ہو۔
بلند ہمت والا وہی ہے جو اپنے لیے خود مواقع پیدا کرتا ہے۔ وہ ان کے انتظار میں نہیں بیٹھا رہتا کہ کب وہ اس کے دروازے پر دستک دیں گے۔ بلکہ وہ انہیں پانے میں خود پیش قدمی کرتا ہے۔ چاہے یہ مواقع دنیاوی اعتبار سے فائدہ مند ہوں یا آخرت کے حوالے سے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور رسولوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دَوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے‘‘
(الانبیاء: 90)
یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو نیکی کے کاموں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے اور کسی ایسے نیک کام کو نہیں چھوڑتے تھے جسے وہ کرنے پر قادر ہوں۔ وہ ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
یہ ہیں اللہ کے نبی موسی علیہ السلام ۔ جب رب العالمین کے ساتھ ہم کلام ہونے کے بعد انہیں شرح صدر نصیب ہو گیا اور وہ جان گئے کہ جس کے ساتھ وہ مخاطب ہیں وہ رب الارباب ہے۔ تو انہوں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ دعا کی کہ:
’’پروردگار، میرا سینہ کھول دے (25) اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے (26) اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے (27) تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں (28) اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے (29) ہارونؑ، جو میرا بھائی ہے (30) اُس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبُوط کر (31) اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے‘‘
(طٰہٰ: 25-32)
تو اللہ تعالی نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا۔
’’فرمایا “دیا گیا جو تو نے مانگا اے موسیٰ‘‘
(طٰہٰ: 36)
جب زکریا علیہ السلام مریم علیہ السلام کے پاس گئے تو وہ عبادت کے لیے تنہائی میں بیٹھی تھیں۔ ان کا نہ کوئی کمائی کا ذریعہ تھا اور نہ ہی کوئی تجارت تھی۔ اس کے باوجود ان کے پاس بے موسم پھل موجود تھا۔
پوچھا کہ ’’مریم! یہ تیرے پا س کہاں سے آیا؟ اس نے جواب دیا اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے‘‘
(آل عمران: 37)
جب انہوں نے اللہ کے فضل اور رحمت الٰہی کا اثر دیکھا تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انہیں نیک بیٹا عطا فرمائے کیونکہ جو مریم کو ذریعۂ کمائی کے بغیر بھی رزق دے سکتا ہے وہ بوڑھے انسان کو بیٹے سے بھی نواز سکتا ہے۔
’’یہ حال دیکھ کر زکریاؑ نے اپنے رب کو پکارا پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے (38) جواب میں فرشتوں نے آواز دی، جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ اللہ تجھے یحییٰؑ کی خوش خبری دیتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے و الا بن کر آئے گا اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہو گی، کمال درجہ کا ضابط ہو گا نبوت سے سرفراز ہو گا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا‘‘
(آل عمران: 38-39)
ایک تیسرا موقع، جو کہ بڑا ہی عجیب ہے، اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کا قصہ ہے۔ جب گھوڑوں کی وجہ سے وہ ذکرِ اور شام کی نماز سے غافل ہو گئے تو انہیں سخت ندامت ہوئی اور انہوں نے تقرب الٰہی کے لیے وہی چیز کی قربانی دے دی جس نے انہیں غافل کیا تھا۔ آپ نے ان سب گھوڑوں کو قربان کرنے کا اور ان کا گوشت صدقہ کرنے کا حکم دے دیا۔ آپ نے ندامت وتوبہ کے اس موقعے کے ساتھ ساتھ رحمت الٰہی کے نزول کو بھی غنیمت جانا۔ دعا کی کہ:
’’اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو ہی اصل داتا ہے‘‘
(صٰ: 35)
اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور انہیں بہتر نعم البدل نصیب فرمایا۔
ارشادِ ربانی ہے:
’’تب ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا (36) اور شیاطین کو مسخر کر دیا، ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور (37) اور دوسرے جو پابند سلاسل تھے (38) یہ ہماری بخشش ہے، تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے، کوئی حساب نہیں (39) یقیناً اُس کے لیے ہمارے ہاں تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے‘‘
(صٰ: 36-40)
رہی بات ہمارے نبی کی، اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو مواقع سے فائدہ اٹھانے میں بہترین نمونہ تھے۔ جب وہ مدینہ پہنچے اور موقع ملا تو فورًا ہی ذمہ داریوں کو تقسیم کر دیا۔ خصوصی قابلیت اور صلاحیتوں کے مالک کو آگے کیا اور ان کے لیے مواقع پیدا کیے، بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کی ذمہ داری سونپی، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تلوار سے دین کی مدد میں لگایا، شعر وادب سے دین کی نصرت میں حسان رضی اللہ عنہ کا کردار زیادہ رہا۔ اللہ تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جائے۔
مسند امام احمد میں ہے کہ ایک روز سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ درخت پر چڑھے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک مسواک توڑ کر لے آئیں۔ آپ کی ٹانگیں کمزور سی تھیں اور جب ہوا چلی تو وہ دائیں بائیں ہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر لوگ ہنسنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کس چیز پر ہنس رہے ہو؟ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول! ان کی ٹانگوں کی کمزوری پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہی ٹانگیں میزان میں احد پہاڑ سے بھی بھاری ہوں گی۔
یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے لوگوں کو یہ بتا دیا کہ قیامت کے دن لوگ اپنی شکلوں اور جسامت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بہتر نہیں بنیں گے بلکہ اپنی نیکی اور اپنے اعمال کی بدولت ہی وہ بہتر بن سکیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ شکلوں، رنگوں اور جسموں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
موقع کو غنیمت جاننے کی ایک مثال وہ بھی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن عباس کی روایت میں آتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ستر ہزار لوگ بغیر کسی حساب یا عذاب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ تو عُکّاشَہ بن مِحْصِن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہی میں شامل فرما دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اسے اُن میں شامل فرما دے۔ پھر ایک اور انصاری صحابی اٹھے اور انہوں نے بھی کہا کہ اللہ کے رسول! دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان میں شامل کردے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عکاشہ سبقت لے گیا۔ عکاشہ سبقت لے گیا۔
اے میرے با برکت بھائی! ذراغور کر کہ عکاشہ رضی اللہ عنہ نے کس طرح پیش قدمی کی اور موقع کو غنیمت جانا۔ پھر ایک ہی لمحے میں، جی ہاں! ایک ہی لمحے میں وہ جنت کو بغیر حساب اور عذاب کے پانے میں کامیاب ہوگئے۔
اے مسلمانو!
نیکی کا ہر موقع غنیمت ہے۔ چاہے وہ بہت چھوٹا اور بظاہر بے وزن ہی کیوں نہ ہو؟ آگ سے بچنے کی کوشش کرو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے سے۔ جسے یہ بھی نہ ملے وہ لوگوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ملے۔
اے مومن بھائیو!
یاد رکھو کہ کچھ مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا دوبارہ میسر آنا ممکن نہیں ہوتا ۔ ان میں سے ایک موقع والدین کی زندگی ہے۔ والدین کی زندگی ۔ والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔ والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔ اگر چاہو تو اس دروازے کی حفاظت کرو اگر چاہو تو یہ موقع بھی گنوا دوں۔
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ذلیل و رسوا ہو! پھر ذلیل و رسوا ہوا! پھر ذلیل و رسوا ہوا۔ کہا گیا: کون؟ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے بڑھاپے کی حالت میں دونوں والدین مل جائیں یا دونوں میں سے ایک مل جائے اور پھر بھی وہ جنت میں نہ جا سکے۔
افسوس ہے اس شخص پر کہ جس نے والدین کی موجودگی کو غنیمت نہیں جانا اور اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور اب اس کے والدین اس کے پاس نہیں رہے۔ یاد رکھو کہ اللہ کی خوشنودی والدین کی خوشنودی میں ہے اور اس کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔
بعد ازاں! اے مومنو!
انسان کی زندگی ہی اس کے لیے سب سے بڑا موقع ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ دیکھے، اگر وہ نیک عمل کر رہا ہے تو وہ مزید نیک عمل کرنے کی کوشش کرے اور اگر وہ گناہ کررہاہے تو توبہ کر لے اور اللہ کی طرف رجوع کر لے۔
مستدرک امام حاکم میں صحیح سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت اور تندرستی کو بیماری سے پہلے، مالداری کو فقر و فاقہ سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔
انسان اپنی زندگی میں جتنا سنجیدہ ہو گا، جتنا اپنی خواہشات اور شہوات سے دور ہو گا اتنا ہی وہ موقع سے فائدہ اٹھانے والا ہوگا اور اس طرح وہ دوسروں سے آگے نکل جائے گا۔
فرمان الہٰی ہے:
’’اور آگے والے تو پھر آگے وا لے ہی ہیں (10) وہی تو مقرب لوگ ہیں (11) نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے‘‘
(الواقعہ: 10-13)
یہ اللہ تعالی کی مہربانی ہے کہ اس نے زندگی کے آخری لمحے تک مواقع موجود رکھے ہیں۔
مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو جائے اور کسی کے ہاتھ میں پودا ہو تو اگر وہ اٹھنے سے پہلے اسے لگا سکے تو لگا کر ہی اٹھے۔
تو اے اللہ کے بندے! اے اللہ کے بندے! مواقع ختم ہونے سے پہلے ان سے فائدہ اٹھا لو۔ یاد رکھو کہ مواقع نعمتیں ہیں اور نعمتیں، اگر چھین لی جائیں تو عین ممکن ہے کہ وہ پھر کبھی نہ دی جائیں۔ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جس شخص کو اللہ تعالی نیکی کا کوئی موقع عطا فرمائے اور پھر وہ اس کا فائدہ نہ اٹھائے تو اللہ تعالی اسے یہ سزا دیتا ہے کہ وہ اس کے دل اور ارادے کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے ارادے کا مالک نہیں رہتا۔
’’جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے‘‘
(الانفال: 24)
جو اپنی سستی اور کاہلی کو اپنائے رکھتا ہے اور خود مواقع ضائع کرتا جاتا ہے تو اسے ایسے وقت میں ندامت کا سامنا ہوگا جس وقت اسے ندامت کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔
’’اُس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اُس کے سمجھنے کا کیا حاصل؟ (23) وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اِس زندگی کے لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا!‘‘
(الفجر: 23-24)
تو اے میرے بھائی! موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو اور اسے ضائع مت کرو۔ کیوں کہ عزت اسی میں ہے کہ مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ عمر کے پہلے حصے کو غنیمت جان کراس سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ جب یہ بڑھاپے کے ساتھ بڑھتی جائے گی تو کم ہوتی جائے گی۔
اے اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جس پر ہمارے معاملے کا دارومدار ہے۔ ہماری دنیا کی اصلاح فرما جس میں ہماری کمائی ہے۔ اور ہماری آخرت کی اصلاح فرما جس کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے۔ اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے! اپنی رحمت سے زندگی کو نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر برائی سے بچنے کا سبب بنا۔
اے اللہ! زوال نعمت سے، عافیت کے خاتمے سے اور تجھے ناراض کرنے والی ہر چیز سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔
آمین یا رب العالمین
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں