منبعِ بصیرت؛ فہم کتاب و سنت - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

Image result for ‫مدینہ‬‎
منبعِ بصیرت؛ فہم کتاب و سنت 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
21 جمادی اولی 1440 بمطابق 01 فروری 2019
امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر
بشکریہ دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 21 جمادی اولی 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "منبعِ بصیرت؛ فہم کتاب و سنت" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ دینی بصیرت انتہائی عظیم اور اعلی ترین نعمت ہے، بصیرت کتاب و سنت کے صحیح فہم کا نام ہے، مخلوق کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی ہو تو اس سے گریز کرنا بصیرت ہے، دین الہی پر استقامت بصیرت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بصارت صحیح ہو لیکن بصیرت نہ ہو تو انسان کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہو گا، جبکہ بصیرت نورِ کتاب و سنت سے منور ہو تو آنکھوں کا اندھا پن نقصان دہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد بصیرت بھی تھا، اور کلمہ توحید کے ذریعے انسان کو بصیرت عطا ملتی ہے، اسی لیے قرآن کریم کے مطابق کافروں میں بصیرت نہیں پائی جاتی، جبکہ اہل ایمان بصیرت سے معمور ہوتے ہیں، آخر میں انہوں نے حصول بصیرت کے لئے فہم کتاب و سنت کی ترغیب دلائی اور پھر تمام لوگوں کے لئے دعائیں کیں۔

☚ منتخب اقتباس ☛

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اسی نے دینی بصیرت رکھنے والوں کا رتبہ بلند فرمایا، انہیں دین کا محافظ اور اعلی اقدار کا عملی نمونہ بنایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک، اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا سخت سزا کا مستحق ہے وہ ہمیشہ جہنم میں ذلیل و رسوا ہو گا۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جس کے مقتدا اور امام آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں وہ کامیاب ہو گیا، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر دائمی رحمتیں ، برکتیں اور تسلسل کے ساتھ سلامتی نازل فرمائے ۔

اللہ تعالی کی جلیل القدر نعمتوں اور احسانات کی مالا میں دینی بصیرت بھی شامل ہے ۔

بصیرت: عقیدہ توحید اپنانے ،شرک سے بیزاری اور اللہ کی نافرمانی کی صورت میں مخلوق کی اطاعت نہ کرنے کا نام ہے۔

بصیرت: دین الہی پر یقین محکم اور عمل پیہم کا نام ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ}
 آپ کہہ دیں: یہ میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار علی وجہ البصیرت اللہ کی دعوت دیتے ہیں، اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ [يوسف: 108]

بصیرت: فطانت کا نام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: آنکھوں کا نور ختم ہو بھی جائے تو بصیرت کی روشنی ختم نہیں ہوتی۔

بصیرت: اللہ تعالی کی طرف سے دل میں ڈالا جانے والا نور ہے، یہ حق و باطل ، خیر و شر ، نیکی اور بدی میں تفریق کرتا ہے۔

مسلمانو!

نابینا بصیرت ؛ نابینا بصارت سے کہیں زیادہ سنگین، گراں اور ابتر شمار ہوتی ہے کیونکہ نابینا بصیرت حقیقی اندھا پن ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ}
 کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے جو کچھ سمجھتے سوچتے اور کان ایسے جن سے وہ کچھ سن سکتے؛ کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، لیکن اندھے تو وہ دل ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ [الحج: 46]

بصیرت: قرآن و سنت کا نام ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {قَدْ جَاءَكُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا}
 تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرتیں آ چکی ہیں۔ اب جو شخص ان بصیرتوں سے کام لے گا تو اس کا اپنا ہی بھلا ہے اور جو اندھا بنا رہے گا اس کا نقصان بھی وہی اٹھائے گا [الأنعام: 104] 

یعنی مطلب یہ ہے کہ: قرآن کریم اور سنت نبوی کی صورت میں اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے پاس دلائل اور نشانیاں آ گئی ہیں ، ان دونوں سے تمہارے دلوں کو اسی طرح معنوی روشنی ملے گی جیسے تمہاری آنکھوں کو حسی روشنی ملی ہوئی ہے۔ اس لیے قرآن و سنت کے نورِ بصیرت میں آگے بڑھتے چلے جائیں، وہموں اور گناہوں کی گھاٹیوں میں مت گریں۔

مسلمانو!

 تم گناہوں کے جوہڑ میں کس طرح گر سکتے ہو ؟! کہ تمہارے پاس کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں نور اور روشنی موجود ہے!!  چنانچہ تم اللہ تعالی سے اعلی ترین نورِ ہدایت مانگو، اور معمولی سے اندھیرے کو بھی معمولی مت سمجھو۔

جو اللہ تعالی کی نصیحتیں ، قرآنی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سن کر بھی حق بات قبول نہ کرے، اپنی آنکھوں پر باطل کی پٹی باندھے رہے تو وہی جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکا ہوا اندھا ہے!

اللہ تعالی نے انہی لوگوں کے آخرت سے متعلق نظریے کے بارے میں فرمایا:
 {بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْهَا بَلْ هُمْ مِنْهَا عَمُونَ}
 وہ کافر تو آخرت کے متعلق شک میں ہیں، بلکہ وہ آخرت کے بارے میں کورے ہیں۔[النمل: 66]

جبکہ اہل ایمان زیرک اور صاحب بصیرت ہوتے ہیں، اسی لیے مومن کی نگاہ تیز ، بصیرت تیر بہ ہدف، اور اس کے نقوش ان مٹ ہوتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ (19) وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ}
 نابینا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے ، نہ ہی اندھیرا اور اجالا۔[فاطر: 19، 20] 

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: " {وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ} یہ مثال اللہ تعالی نے اطاعت گزاروں اور نافرمانوں کے لئے بیان کی ہے۔"

کسی نے کیا خوب کہا ہے: " انسان کی چار آنکھیں ہیں: دو آنکھیں سر میں دنیا کے لئے تو دو آنکھیں دل میں آخرت کے لئے؛ چنانچہ اگر اس کی سر والی آنکھیں بے نور ہو جائیں لیکن دل کی آنکھیں بینا رہیں تو آنکھوں کی بے نوری اس کے لئے نقصان دہ نہیں ، لیکن اگر سر والی آنکھیں بینا ہوں اور دل کی آنکھیں بے نور ہو جائیں تو آنکھوں کی بینائی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ انسان کو ایسی سماعت اور بصارت کا کیا فائدہ جس کے ذریعے انسان حق سن نہ سکے اور رشد و ہدایت دیکھ نہ سکے!"

"دنیا دار کو اپنی آنکھوں کی ایسی بصارت کا کیا فائدہ کہ جس کے ہاں اندھیرا اور اجالا یکساں ہو جائیں!!"

اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے جو حق بات کو اپنے دل سے دیکھ لیتے ہیں، اور حق ان کی زندگی میں رہنمائی اور قبر میں نور کا باعث بنتا ہے۔

مسلمانو!

یہ اہل ایمان کی خوبی ہے کہ وہ بیدار دل ، اور زیرک عقل والے ہوتے ہیں، اللہ تعالی کے احکامات اور نواہی ، وعدوں اور وعیدوں کو سمجھتے ہیں، جب انہیں اللہ کی آیات سنائی جاتی ہیں تو انہیں اچھی طرح سمجھنے کے لئے قلب و جان کے ساتھ مکمل طور پر متوجہ ہو جاتے ہیں، اللہ تعالی کی نصیحت پر غفلت نہیں برتتے، اور عبادت سے رو گردانی نہیں کرتے۔ ان کا کردار ان لوگوں جیسا نہیں ہوتا جو آنکھوں سے اندھے اور کانوں سے بہرے ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا}
 اور جب انہیں ان کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی جائے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔ [الفرقان: 73]

مسلمانو!

عزت، رفعت، عظمت ، بلندی اور ترقی دینی بصیرت حاصل کرنے کا نام ہے۔

یا اللہ! ہمیں دینی بصیرت رکھنے والوں میں شامل فرما، یا اللہ! ہمیں دینی بصیرت رکھنے والوں میں شامل فرما، یا اللہ! ہمیں دینی بصیرت رکھنے والوں میں شامل فرما، تیری رضا کے لئے سجدے کرنے والوں میں شامل فرما، تیری رضا کے لئے سجدے کرنے والوں میں شامل فرما، تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرنے والوں میں شامل فرما، تیرے احکامات کے سامنے سرنگوں ہونے والوں میں شامل فرما، تیری شریعت کی تعظیم کرنے والوں میں شامل فرما، تیری شریعت کی تعظیم کرنے والوں میں شامل فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا کریم! یا عظیم! یا رحیم!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں