آسماں کی رفعتوں سے


آسماں کی رفعتوں سے طرزِ یاری سیکھ لو
سر اُٹھا کرچلنے والو، خاکساری سیکھ لو

پیش خیمہ ہے تنزل کا تکبر اور غرور
مرتبہ چاہو تو پہلے اِنکساری سیکھ لو

خود بدل جائے گا نفرت کی فضائوں کا مزاج
پیار کی خوشبو لُٹاؤ مشکباری سیکھ لو

چُن لو قرطاس و قلم یا تیغ کرلو انتخاب
کوئی فن اپنائو لیکن شاہکاری سیکھ لو

پھر تمہارے پاؤں چھونے خود بلندی آئے گی
سب دلوں پہ راج کرکے تاجداری سیکھ لو

عشق کا میدان آساں تو نہیں ہے محترم
عشق کرنا ہی اگر ہے غم شعاری سیکھ لو
 
جس شجر کی چھائوں ہو ماجدؔ زمانے کے لیے
کیسے ہوگی اس شجر کی آبیاری سیکھ لو 

ماجدؔ دیوبندی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں