کاسہ


"کاسہ"

بادشاہ نے فقیر سے خوش ہو کر کہا "مانگو کیا مانگتے ہو"
فقیر نے کہا " حضور بس میرا یہ کاسہ بھر دیجئے ،، مجھے اور کچھ نہیں چاہئے "
بادشاہ ہنسا اور کہنے لگا "بس ...." .... پھر اس نے اپنے سارے پہنے ہوۓ جواہرات کاسے میں ڈال دئے ، مگر کاسہ نہ بھرا ،،،،،، بادشاہ بڑا حیران ہوا ، مگر یہ اسکی عزت کا معاملہ تھا ،،اس نے وزیروں کو حکم دیا ... وہاں موجود سارے وزیروں نے بھی اپنے اپنے جواہرات اتار کر کاسے میں ڈالے ،، پھر بھی کاسہ خالی کا خالی ...
اب بادشاہ نے سلطنت کے خزانے کا منہ کھول دیا ....... سلطنت کا سارا خزانہ کاسے میں ڈال دیا گیا ، مگر کاسہ پھر بھی خالی ہی رہا ..
فقیر مسکراتے ہوۓ واپس جانے لگا ،، بادشاہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا ، کہنے لگا "حضور ، صرف اتنا بتا دیں کہ یہ پیالہ ہے کیا چیز ؟"
فقیر نے جواب دیا ..
"حضور یہ خواہشات کا پیالہ ہے ،،اسے قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی"


مجھے یہ واقعہ یاد نہ آتا اگر میں توفیق صاحب سے نہ ملتا ... میں کل قائد_اعظم لائیبریری میں بیٹھا اسٹڈی کر رہا تھا کہ چار بجے کے قریب مجھے بھوک محسوس ہوئی ... میں کتاب رکھ کے باہر آیا ، دیکھا تو لائبریری کی کنٹین بند تھی ،، آخر باغ_ جناح کی گلشن کینٹین کی جانب چل دیا .. وہاں جا کے دیکھا تو وہ بھی بند ... مایوس ہو کر واپس آ رہا تھا کہ میری نظر اس آدمی پہ پڑی جو کہ آلو چنے بیچ رہا تھا ...
میں نے پوچھا "کتنے کا کپ ہے "
کہنے لگے " 20 کا "
کپ لے کر میں وہیں پہ کھڑا کھڑا چنے کھانا شروع ہوگیا .... کافی مزے کے تھے .... وقت کاٹنے کے لئے گفتگو شروع کر دی
میں نے پوچھا " کیا نام ہے ؟ "
کہنے لگے " توفیق"
پوچھا "آپ کہاں سے ہو "
کہنے لگے " جی میں تاجپورہ سکیم سے ہوں "
" روزانہ اتنی دور کیسے آتے ہو "
بولے " جی پہلے اسٹیشن پر ، اور پھر وہاں سے بس پہ یہاں "
"کب سے آ رہے ہو ؟؟"
"جی میں ضیاء الحق کے دور سے روزانہ یہاں آرہا ہوں "
"یہی کام کر رہے ہیں"
"جی یہی کام کر رہا ہوں "
"گزارہ ہو جاتا ہے اس سے ؟؟"
اس پر وہ کمال اطمینان سے بولے " اللہ کا بڑا کرم ہے ... تین ، چار سو بچ ہی جاتا ہے ،، بڑی اچھی گزر رہی ہے "
"اچھا .. بچے کیا کرتے ہیں "
"جی وہ اقرا پبلک سکول میں پڑھتے ہیں "
"کس کلاس میں ؟"
"کلاس کا تو مجھے نہیں پتا ... میں بس صبح سکول چھوڑ دیتا ہوں ،، اور پھر چھٹی کے وقت انکی ماں انکو لے جاتی ہے "
.... توفیق بھائی کے ساتھ میری بات یہاں ختم ہو گئی ،، مگر میں سوچنا شروع ہو گیا کہ خواہش کیا چیز ہے ، اور ذہنی سکون کا معیار کیا ہے ...
صرف ایک نکتہ سمجھنے والا ہے ، اور وہ یہ کہ دماغی سکون صرف اور صرف جو موجود ہے اس پر مطمئن اورشکرگزار ہونے میں رکھا ہے ... انسان جتنا قانع ہو گا اتنی ہی زیادہ پر سکون زندگی گزارے گا ،،، "ھل من مزید" کی گردان اگر ایک بار شروع ہو جائے تو کبھی ختم نہیں ہوتی ....
آپ کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی ، بہتر سے بہتر کی کوشش تو کرنی چاہیے ، ترقی تو کرنی چائیے ،، میں بہتر کی کوشش کے خلاف نہیں بول رہا ،،،، میں تو یہ کہ رہا ہوں کہ آپ جو مرضی کریں ، مگر جو موجود ہے اس پر مطمئن ہو جائیں ...
توفیق بھائی اپنے کام سے واقعی مطمئن ہیں ،، کیوں کہ کوئی انسان بغیر اطمینان کے ایک کام مسلسل تیس سال نہیں کر سکتا ، اگر وہ نہ ہوتے تو یقینا تیس سال کے عرصے میں یہ کام تبدیل کر چکے ہوتے ....
.... روزمرہ سے متعلق دو چیزیں انسان کی زندگی میں کردار ادا کرتی ہیں ،، بنیادی ضرورت ، اور آسائشات ..... آپ ترقی کریں ، اچھی سے اچھی چیز لائیں ،، مگر بنیادی ضروریات اور آسائشات میں فرق رکھیں ،،، جس دن آپ ناقابل_ رسائی آسائشات کو بنیادی ضروریات کے کھاتے میں لے آئے ، اس دن آپ کا ذہنی سکون ختم ہو جائے گا ... اور آپ ان کے پیچھے بھاگنا شروع ہو جائینگے ، یہ سوچ کر کہ میں تو اچھی زندگی گزار ہی نہیں رہا .... مگر اس میں بات یہ ہے کہ وہ اچھی زندگی کبھی نہیں آئیگی ، کیونکہ جب اس لیول پر پہنچیں گے تو اس سے اوپر والے لیول کی زندگی اچھی اور وہ عام لگنا شروع ہو جائے گی ، اور آپ پھر اس کے لئے بھاگنا شروع کر دینگے ... جسکے پاس ایک ارب روپیہ موجود ہے ، اور اسکی زندگی میں سکون نہیں ہے ، وہی یہی سمجھتا ہے کہ جب یہ ایک ارب ، دو ارب میں تبدیل ہو جائیگا تو سکون آ جائیگا اور زندگی بہتر گزرنا شروع ہو جائیگی ،،، حالانکہ یہ ہونے کے بعد بھی اسے سکون نہیں ملے گا ، اور وہ تین ارب کے پیچھے جائیگا ..
اسکے برعکس توفیق بھائی جیسے لوگ چار سو روپے میں وہ سکون اور خدا پہ بھروسہ پا لیتے ہیں جو اربوں والے نہیں پا سکتے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں