عجیب قوم ہے
مستنصر حسین تارڑ
Posted Date : 12/08/2015
ہربرس چودہ اگست کا دن مجھے ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کرتا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ جس پاکستان کے پاکیزہ وجود کو گِدھ نوچتے چلے جا رہے ہیں، اس کے خون کے چھینٹوں سے یورپ اور امریکہ میں جائیدادیں دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں، سپین اور فرانس میں وسیع کاروبار قائم کر رہے ہیں۔۔۔جہاں دہشت گردی راج کرتی ہے جسے پاک فوج اپنی جان کے نذراتوں سے ملیا میٹ کرنے کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں کہ دہشت گردوں کے لئے دل میں نرم گوشت رکھنے والے بھی بہت ہیں، قوم کو اندھیروں میں گم کرکے انہیں وقفوں وقفوں سے روشنی صرف اس لئے عطا کی جاتی ہے کہ مکمل اندھیرے میں شکار ممکن نہیں ہوتا۔۔۔ پاکستان کا نام سن کر لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں ، آپ دنیا کے کسی ایئرپورٹ پر اپنا پاسپورٹ کاؤنٹر پر رکھتے ہیں تو وہاں کے اہلکار اسے ہاتھ لگانے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں وہ ایک دھماکے سے پھٹ نہ جائے اور ۔۔۔ کسی ماڈل بی بی کو جیل میں نہ صرف فائیو سٹار ہوٹل کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں بلکہ اس کے ضمانت پر رہا ہونے پر سیاہ شیشوں والی متعدد گاڑیاں اسے گھیرے میں لے کر وہاں لے جاتی ہیں جن نامعلوم افراد کے لئے وہ بے چاری چند کروڑ روپے یونہی سمگل آؤٹ کر رہی تھی۔۔۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں تو ایک ایسے ملک کے یوم آزادی پر عوام کا جوش و خروش سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ کیوں اتنے پُرمسرت اور باولے ہوئے جاتے ہیں۔۔۔ جیسے مغرب میں کرسمس کی آمد سے ہفتوں پیشتر رونقیں شروع ہو جاتی ہیں، اسی طور یوم آزادی کے استقبال کے لئے بھی کئی روز پہلے شہروں، قریوں کے بام و در سجنے لگتے ہیں، لوگوں کی آنکھوں میں دیئے روشن ہونے لگتے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تو ہم غلام ہیں اور ہمیں چودہ اگست کو آزادی نصیب ہو جائے گی، لوگ اس قدر بے خود اور مست ہونے لگتے ہیں، تو یہ کیا بھید ہے کہ ایسے حالات میں جب کہ روشنی کی کرنیں مدھم ہیں، پشاور کے ڈیڑھ سو بچوں کے بدنوں سے ابھی خون رِس رہا ہے اور ان کے قتل کو جائز قرار دینے والے بھی ہمارے درمیان موجود ہیں، اس کے باوجود یہ کیسی قوم ہے جو یہ سب فراموش کرکے دل و جان سے پاکستان کے پرچم لہرا رہی ہے، عجیب قوم ہے، کوئی اور قوم ہوتی تو ذلت کے گڑھوں میں دفن ہو چکی ہوتی، مایوسی کی گہری کھائیوں میں گر کر ہلاک ہوچکی ہوتی، اجتماعی خودکشی کر چکی ہوتی۔۔۔ تو پھر یہ قوم ہمت کیوں نہیں ہارتی، اس کے بدن پر اب مزید زخموں کی گنجائش نہیں، اس کے بچے مارے گئے، اس کی بیٹیاں سکول کی وینوں میں جلا دی گئیں، اس کے نوجوان فوجیوں کے سر کاٹ کر کھمبوں پر آویزاں کیے گئے لیکن اس کے باوجود یہ اپنے زخم فراموش کردیتی ہے، اپنے ہزاروں شہیدوں اوربچوں کی قبروں پر پھول چڑھاتی ہے لیکن وہ یوم آزادی کی شب اپنی منڈیروں پر دیئے جلاتی ہے۔۔۔ کیا کوئی ہے جو مجھے یہ بھید بتلادے کہ اس قوم کے ضمیر میں وہ کیا ہے کہ یہ مایوس نہیں ہوتی۔۔۔ امید اور اُس کا دامن تھامے رکھتی ہے۔۔۔
استنبول یعنی ان زمانوں کا قسطنطیہ فتح ہونے کوتھاجب امیر تیمور نے تُرک سلطان پر حملہ کرکے اسے انگورہ کے قریب شکست سے دوچار کیا اور جب ہزیمت شدہ سلطان بایزید کو زنجیروں میں باندھ کر تیمور کے سامنے پیش کیا گیا اور یاد رہے کہ یہ دونوں حضرات سلطان تھے تو تیمورنے پوچھا تھا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو ایڈورڈ گبن جسے سب سے بڑا تاریخ دن قراردیا جاتا ہے اس نے اپنی شہرۂ آفاق ’’ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائر‘‘ میں لکھا ہے کہ ۔۔۔ تب وہ جری تُرک سلطان بھول گیا کہ وہ شکست خوردہ ہے اور اس نے اپنی عزت نفس کو یاد رکھا اور کہا کہ میں اب بھی ایک سلطان ہوں، میرے ساتھ وہی سلوک کرو جو ایک سلطان دوسرے کے ساتھ کرتا ہے، تو کیا ایسا تو نہیں کہ یہ قوم بے شک ہزیمت خوردہ ہے، اس کے سیاست دانوں، صحافیوں، تاجروں، دانشوروں اور مذہبی پیشواؤں نے اس کے ساتھ وفا نہیں کی لیکن وہ شکست بھولتی ہے اور صرف اپنی عزت نفس کو یاد رکھتی ہے۔
میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، یوں جانئے کہ کسی بہت اہم اشتہاری ادارے نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ہم کراچی کی ایک تاریخی عمارت میں چودہ اگست کی رات کو ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کر رہے ہیں اور یہ نصف شب ہوگی اور پندرہ اگست کی سویرمیں داخل ہو گی جو کہ ہندوستان کا یوم آزادی ہے۔ بقول ان کے پاکستان کے جن دانشوروں کو مدعو کیا جا رہا ہے ان میں آپ بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب سے ہندوستان کے نامور دانشور شریک ہوں گے اور آپ آزادی اور دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالیں گے جسے پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے تمام ٹی وی چینلز سے براہ راست نشر کیا جائے گا۔ آپ کی رہنمائی کے لئے ایک سکرپٹ مہیا کی جائے گی لیکن یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔۔۔ میں نے عرض کیا کہ ایک تو میں آج تک کبھی بھی کسی سکرپٹ کے سہارے نہیں چلا۔ میں وہی کہوں گا جو کہ میں کہتا چلا آیا ہوں۔۔۔ مجھے تفصیل سے بتائیے کہ اس پریس کانفرنس کی نوعیت کیا ہے۔۔۔ ابھی تک جواب نہیں آیا۔۔۔ شاید میں نے بھی اپنی عزت نفس کو یاد رکھا۔۔۔
اور شاید نہیں، یقیناًپاکستانی قوم بھی تمام رسوائیوں اور اپنوں کے ہاتھوں شکست خوردہ ہونے کے باوجود۔۔۔ اور ان کے سامنے شب و روز تماشے ہوتے ہیں، انہیں تاریکیوں میں دھکیل کر ان پر ظلم کرنے والوں کے سوگ منائے جاتے ہیں اور پھر بھی یہ قوم اپنی عزت نفس کو یاد رکھتی ہے، آس امید کے دیئے جلائے رکھتی ہے۔۔۔ سبز پرچم کو سینے سے لگے لگائے رکھتی ہے۔۔۔ اس زخم خوردہ پاکستان سے محبت کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ ہارنہیں مانتی اپنی آزادی کا جشن یوں مناتی ہے جیسے یہ پہلایوم آزادی ہو۔
میں اس قوم کو سلام کرتا ہوں۔۔۔ یوم آزادی مبارک کہتا ہوں کہ یہ ایک نایاب اور عجب قوم ہے جو اپنی عزت نفس کی امین ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں