اپنے کل کو روشن کیجیے – بچوں کی تربیت سے متعلق ایک رہنما تحریر
(AbuYahya – ابویحییٰ)
(AbuYahya – ابویحییٰ)
اولاد انسان کا بہترین سرمایہ ہے۔ یہ اس کی ذات کا تسلسل ہی نہیں، اس کی امیدوں اور خواہشوں کا سب سے بڑا مرکز بھی ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو اپنی اولاد کے برے مستقبل کا تصور بھی کر سکے۔ لیکن اولاد کا اچھا مستقبل صرف خواہشوں اورتمناؤں کے سہارے وجود پذیر نہیں ہوسکتا۔
اس کے لیے ایک واضح اور متعین لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ وہ لائحہ عمل بیان کررہے ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کی اولاد کو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے گا۔
۱) اچھے خیالات اچھی زندگی
عام طور پر والدین اولاد کا دامن خوشیوں سے بھر دینے کی فکر میں رہتے ہیں۔ خوشیوں سے ان کی مراد بالعموم مادی اشیاء کی بہتات ہوتی ہے۔ تاہم خوشی صرف مادی چیزوں سے نہیں ملتی۔ خوشی زندگی کے بارے میں مثبت نقطۂ نظر اختیار کرنے سے ملتی ہے۔ اس دنیا میں دکھوں اور ناپسندیدہ حالات سے فرار ممکن نہیں ہے۔ آپ کچھ بھی کرلیں، برے حالات سے اپنی اولاد کو بچا نہیں سکتے۔
ہاں ایک طریقہ ایسا ہے جس سے آپ کی اولاد پر مصائب و آلام کی آگ ٹھنڈی ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی اولاد کوزندگی کے بارے میں مثبت نقطۂ نظر دیں۔ اسے بتائیں کہ دنیا میں سخت حالات ہی بہترین انسانوں کو جنم دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ سختیاں خدا کی نعمت ہیں۔ یہ ایک طرف انسان کی صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے پروان چڑھاتی ہیں اوردوسری طرف آخرت میں خدا کی رضا اور اس کی بہترین نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ چنانچہ بچوں کویہ سبق دیں کہ وہ مشکلات کو چیلنج کے طور پر لیں۔ اس کے بعد وہی دکھ جو دوسروں کو نڈھال کردیتے ہیں انہیں سرشار کردیں گے۔
۲) سخت محنت کی عادت
اولاد کو دینے والی دوسری چیز سخت محنت کرنے کی عادت ہے۔ والدین لاڈ پیار میں بچوں کی زندگی آسان بنانا چاہتے ہیں۔ مگر بیجا لاڈ پیار مستقبل میں ان کی زندگی مشکل بنا دیتا ہے۔ لاڈ پیار سے بچے اکثر نکمے ہوجاتے ہیں۔ اس دنیا میں نکمے اور ناکارہ لوگوں کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ کامیابی صرف سخت محنت سے ملتی ہے۔ حتیٰ کہ ذہانت بھی محنت کے کندھوں پر بیٹھ کر ہی خود کو نمایاں کرپاتی ہے۔ انگریزی میں کہا جاتا ہے۔
Genius is ninety percent perspiration and only ten percent inspiration.
یعنی ذہانت نوے فیصد محنت ہے اور صرف دس فیصد دماغی صلاحیت۔
بچپن سے ہی اولاد کو سخت ذہنی اور جسمانی محنت کا عادی بنائیں۔ اس کام کے لیے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار نہ کریں۔ بڑے ہونے پر تو بچوں کی عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں جن کا بدلنا آسان نہیں رہتا۔ عادتیں تو بچپن ہی میں ڈلوائی جاتی ہیں۔
۳) آپ کا بچہ آپ سے سیکھتا ہے
بچہ ایک مکمل نقال ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ آپ سے یا آپ کے فراہم کردہ ماحول سے سیکھتا ہے۔ لہٰذا آپ بچوں کو جیسا بنانا چاہتے ہیں، ویسے ہی بن جائیں اور انہیں اُسی طرح کا ماحول فراہم کریں۔ جو بچہ ہر وقت گھر میں جھوٹ سنے گا، اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کتاب میں جھوٹ کی برائی پڑھ کر وہ اس سے نفرت کرنے لگے۔ یہ ناممکن ہے۔
دورِ جدید میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوچکا ہے کہ بچوں کا اکثر وقت والدین سے زیادہ ٹی وی کے ساتھ گذرتا ہے۔ میڈیا کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جن کے تحت وہ رومانویت ، جنس اور تشدد کو بہت زیادہ ابھار کر دکھاتے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ اپنے بچے کو صرف ٹی وی پر آنے والے پروگراموں کے حوالے کردیں گے تو ان تمام چیزوں کے اثرات ان تک پہنچنا لازمی ہیں۔ اسی طرح مغربی تہذیب اور روایات کے بعض منفی اثرات اسی ذریعے سے آپ کے بچوں میں خاموشی سے منتقل ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آپ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔ سستی تفریح حاصل کرنے کی آپ کی بظاہر بے ضرر خواہش، آپ کی اولاد کی دنیا اور آخرت دونوں تاریک بناسکتے ہیں۔ چنانچہ بہتر ہوگا کہ آپ خود کو اور اپنی اولاد کو بھی میڈیا کے صرف انہی پہلوؤں تک محدود رکھیں جن کا تعلق علم اور اچھی تفریح سے ہواور بچوں کو بھی اس حد سے آگے نہ جانے دیں۔
۴) ذاتی توجہ اور براہِ راست مکالمہ
وہ دور گیا جب بچے خود سے پل جایا کرتے تھے۔ اب ہر بچہ ذاتی توجہ چاہتا ہے۔ آپ کی تمام تر احتیاط کے باوجود معاشرے میں موجود شر اور برائیوں کا آپ کے بچے تک پہنچنا لازمی ہے۔ یہ بچے سے آپ کا ذاتی تعلق ہے جو انہیں ان برائیوں کے اثرات سے بچالے گا۔ بچوں سے آپ کا دوستانہ تعلق اور براہِ راست مکالمہ وہ ذریعہ ہے جس سے آپ ہر برائی کے بارے میں ان کے ساتھ کھل کر گفتگو کرسکیں گے اور انہیں یہ بتاسکیں گے کہ یہ چیزیں ہماری مذہبی اور تہذیبی اقدارکے خلاف ہیں۔ اس کے بغیر آپ کے بچے اپنے تجسس کو دور کرنے کے لیے ناسمجھ دوستوں، بیہودہ کتابوں اور دیگر ایسے ذرائع سے رجوع کریں گے جو ان کی ذہنی اور عملی گمراہی کا سبب بنیں گے۔
۵) بچوں کی ذہن سازی کیجیے
بحیثیتِ مسلمان یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ دین کے بنیادی تصورات اپنے بچوں کو منتقل کریں۔ اس دنیا کا ایک بنانے والا ہے۔ اس نے ہماری رہنمائی کے لیے اپنے رسولوں کو بھیجا ہے۔ اس کی رہنمائی دین کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہمیں ایک روز اپنے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اچھے اعمال والے جنت اور برے اعمال والے جہنم میں جائیں گے۔ یہ وہ بنیادی تصورات ہیں جن کی اپنی اولاد تک منتقلی ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔
اچھے اخلاقی تصورات مثلاَ شرم و حیا، امانت و دیانت، صدق وعدل اور اس جیسی دیگر صفات کو بچوں کی شخصیت کا حصہ بنانا بھی والدین ہی کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح معاملات کو گفت وشنید سے حل کرنا، سنی سنائی باتوں کے بجائے تحقیق کے ذریعے حقائق تک پہنچنا اعلیٰ انسانی خصلتیں ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ آپ کا بچہ آپ ہی سے سیکھتا ہے اس لیے بچوں میں اعلیٰ دینی، اخلاقی اور انسانی صفات پیدا کرنے کے لیے آپ کو انہیں ایسا ہی بن کر دکھانا بھی ہوگا۔
۶) اچھی تعلیم اور ذوق کا لحاظ
مندرجہ بالا تمام چیزوں کے ساتھ بچوں کو ان کے ذوق کے مطابق اچھی تعلیم دلوانا بہت ضروری ہے۔ ابتدائی عمر سے ہی اچھی تعلیم کا مطلب مہنگے انگریزی اسکولوں میں پڑھانا ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس اسکول میں بھی یہ تعلیم حاصل کریں انہیں اس کے نصاب پر مکمل دسترس حاصل ہو۔ ایک عام اردو میڈیم سرکاری اسکول کا نصاب بھی بہت اعلیٰ ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ یہ نصاب پورا پڑھایا جائے اور اس طرح پڑھایا جائے جیسا کہ اس کے پڑھانے کا حق ہے۔ چنانچہ آپ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ آپ کا بچہ جس اسکول میں بھی جاتا ہو اس کے نصاب پر اسے پورا عبور حاصل ہو۔ اس کے لیے آپ کو بچے کی تعلیم میں ذاتی دلچسپی لینی چاہیے۔ مختلف طریقوں سے اس کی قابلیت کا امتحان لینا چاہیے۔
ہمارے ہاں ’’رٹے‘‘ کے جس نظام کے تحت بچوں کی قابلیت کو جانچا جاتا ہے وہ عملی زندگی میں انتہائی غیر موثر اور بچوں میں حقیقی قابلیت پیدا کرنے کے اعتبار سے قطعاَ غیر مفید ہے۔ معاملہ تعلیم کا ہو یا تربیت کا، علم کو بچے کی شخصیت اور تجربات کا حصہ بننا چاہیے نہ کہ اس کی یادداشت کا۔ علم جب بچے کی شخصیت اور تجربات کا حصہ بنتا ہے تو وہ اس میں ایک خاص قسم کا ذوق تشکیل دیتا ہے۔ آپ اپنے بچے کے لیے جب اعلیٰ تعلیم کے مراحل کا انتخاب کریں تو اس کا انحصار بچہ کے اپنے ذوق پر ہونا چاہیے نہ کہ کسی پیشہ کی مالی منفعت پر۔ اپنے ذوق کے مطابق تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہمیشہ اپنے فن میں یکتا ثابت ہوتے ہیں۔ اپنے فن میں یہ مہارت اور دلچسپی نہ صرف انہیں مالی مسائل سے دوچار نہیں ہونے دیتی بلکہ وہ کام کرکے بھی ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں۔ یہی ذہنی سکون انسان کا کل سرمایہ ہوتا ہے۔
۷) نئے خاندان کی مدد کیجیے
والدین کی آخری بنیادی ذمہ داری اپنے بچوں کا گھر بسانا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس معاملے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ ان کی تربیت اگر ہوتی ہے تو صرف میڈیا کے ہاتھوں جس میں کوئی حسین دوشیزہ یا خوبرو نوجوان آئیڈیل بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل کی بنا پر شادی کی عمر بہت بڑھ چکی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر نوجوانوں کے ذہن میں شادی کا تصور صرف دوجسموں کے ملاپ تک محدود رہتا ہے۔ خاندان کیا ہوتا ہے؟ یہ کیوں وجود میں آتا ہے؟ اس میں فریقین کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں؟ یہ اور ان جیسے دیگر اہم معاملات میں ہم اپنی اولاد کی کوئی رہنمائی نہیں کرتے۔
شادی کا مطلب ہمارے ہاں بس یہی ہے کہ اپنا بچہ جب کمانے کے قابل ہوجائے تو اس کے لیے مال و جمال کی حامل کسی لڑکی کا انتخاب کرلیا جائے۔ یہ لڑکی جب گھر آجاتی ہے تو وہ گھریلو سیاست اور بے انصافی شروع ہوتی ہے جس کا مقابلہ بین الاقوامی سطح کے شاطر سیاستدان بھی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ غیر تربیت یافتہ اور تصوراتی دنیا میں پلے بڑھے یہ لڑکا لڑکی شادی کے ابتدائی سال بالعموم انتشار اور پریشانی کے عالم میں گزارتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان حالات کے عادی ہوجاتے ہیں اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا تھا زیادہ برے طریقے پر اپنی اولاد کے ساتھ کرنے لگتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ خاندان کی تشکیل سے پہلے اور بعد میں والدین بھرپور طریقے سے اپنے بچوں کی مدد کریں۔ وہ خاندان کی تشکیل میں ان کی پسند کو مد نظر رکھیں۔ رشتہ کے انتخاب میں مادی خوبیوں کے بجائے کردار و اخلاق کی دیر پا اور محکم اساسات کو معیار بنائیں۔ ایک نئے خاندان کی تشکیل میں ہمیشہ یہ اصول ملحوظ رہے کہ اس کے نتیجے میں ایک خاندان میں بیٹا اور دوسرے میں بیٹی کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ win-win کا معاملہ ہے جس میں کسی سے کچھ نہیں چھنا بلکہ ہر شخص فائدے میں رہا ہے۔ صرف اسی صورت میں نیا خاندان ایک مستحکم شکل اختیار کرے گا اور معاشرے میں جنم لینے والے انسانوں کی ایک بہترین تربیت گاہ وجود میں آجائے گی۔
مندرجہ بالا امور اختیار کرنے کے بعد امید ہے کہ آپ کی اولاد آپ کے اور معاشرے کے لیے ایک بہترین اور قابل فخر اثاثہ ثابت ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد کی اصلاح اور بہتری کے لیے دعا کرتے رہیں کیونکہ دعا مومن کا اصل ہتھیار ہے۔ بالخصوص قرآن کی یہ دعا تو ہر حال میں پڑھتے رہیں۔
رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَاوَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ أَعْيُنٍ وَّا جْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ اِمَاماََ
ترجمہ: اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اورہم کو پر ہیز گاروں کا امام بنا۔ (آمین)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں