اکبر ، اکابر اور اکابرین
=============
اللہ نے ہمارے لئے ایک دین اسلام، ایک کتاب قرآن کو نازل کیا اور ایک آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ ہمیں ہر نماز سے قبل اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا لگانے کی تلقین کی۔
=============
اللہ نے ہمارے لئے ایک دین اسلام، ایک کتاب قرآن کو نازل کیا اور ایک آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ ہمیں ہر نماز سے قبل اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا لگانے کی تلقین کی۔
لیکن ہمارا ”ایک“ سے ”گزارا“ نہ ہوا
تو ہم نے ایک دین کے مقابلے میں بہتر فرقے اور مسالک بنالئے اس وعید کے
باوجود کے قرآن و سنت والے واحد دین سے ہٹ کر بنائے جانے والے تمام فرقے
جہنمی ہوں گے۔ اور ہم عملاً یہ بھول بیٹھے کہ اللہ نے ہم سے کہا تھا : اللہ
کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقے نہ بناؤ۔
یوں تو جھوٹے نبوت کے دعویدار بھی بہت پیدا ہوئے لیکن ایک سچے اور آخری
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ”مبینہ پیروکاروں“ نے بھی اپنے اپنے فرقوں میں
(اللہ) اکبر کے بالمقابل اتنے اکابر بلکہ اکابرین ”جمع“ کرلئے ہیں کہ ہمارا
اصلی دین ان (نام نہاد) اکبرین کے میلے میں کہیں کھو سا گیا ہے۔ اب تو
ماشاء اللہ ہر فرقے کے ”اکابرین“ کی فوج ظفر موج نہ صرف ایک دوسرے کے
بالمقابل صف آرا ہے بلکہ ایک دوسرے سے لڑنے، مرنے اور مارنے کو تیار بھی
ہے۔ ہم حقیقی ”اکبر“ (اللہ) اور اس کی تعلیم (قرآن) کو بھلا کر اپنے اپنے
اکابرین کے اقوال و افعال کو ہی اپنا دین و ایمان بنا بیٹھے ہیں۔ ذرا کسی
مسلک کے کسی بھی ”اکبر“ کے کسی بھی قول و فعل پر انگلی اٹھا کر تو دیکھئے،
انگلی اور انگلی والے ہاتھ کاٹنے کے لئے بہت سے ہاتھ سامنے آجائیں گے۔
بُرا ہو اس سوشیل میڈیا کا، جس نے ایسے ایسے لوگوں کو بھی ہم پر ”مسلط“ کرکے اپنے اپنے فرقوں کو ”اصل دین“ اور باقی تمام فرقوں کو باطل قرار دینے کا موقع دے دیا جو قبل ازیں ریگولر میڈیا میں دو لفظ بولنے یا دو سطر لکھنے کے بھی ”قابل“ نہ تھے۔ پھر یہ فیس بُکی علامے اور وڈیرے، الامان و الحفیظ۔۔ عملی دنیا میں بے شک انہیں جاننے والے، سننے والے، فالو کرنے والے دوچار لوگ بھی موجود نہ ہوں، فیس بُک کی دنیا مین اسی بات پر اترانے لگتے ہیں کہ میری فرینڈ لسٹ میں میرے اتنے ہزار ”مزارع“ موجود ہیں۔ خبردار جو کسی نے میری وال پر یہ کیا، وہ کیا، مجھے ٹیگ کیا، کمنٹس میں تنقید کی وغیرہ وغیرہ ۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اسے فی الفور تختہ دار پر ”بلاک“ کردیا جائے گا۔
یہ سب فتنہ اکابر اور اکابرین کی عملاً پرستش ہی کا تو نتیجہ ہے۔ جس نے ہمیں ایک دین سے جدا کرکے فرقوں کے خانوں میں بانٹ ڈالا ہے۔ ہم قرآن اور حدیث کم پڑھتے ہیں یا بالکل نہیں پڑھتے لیکن اپنے اپنے اکابرین کی سو سو کتب ضرور خرید کر اپنی لائبریری میں سجاتے ہیں تاکہ ”اُن“ کا دھندہ بھی چلے اور فرقہ بھی فروغ پذیر ہو۔ جی ہاں کسی بھی یکے از مشہور اکابرین کا نام لے لیجئے، سو سے کیا کم کتب تصنیف و تالیف کی ہوں گی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہوگا۔ اب تو بہت سے ”اکابرین“ نے اپنی اپنی ایسی ٹیم تیار کرلی ہے، جو ان کے نام سے کتب تصنیف و تالیف کرتی ہے۔ بہتر فرقوں کے ہزاروں اکابرین کی لاکھوں کتب میں قرآن و حدیث، اللہ کی رسی کہیں کھو سی گئی ہے، جسے مضبوطی سے تھامنے کی ہمیں تلقین کی گئی تھی۔
اناللہ و انا الیہ راجعون
تحریر: یوسف ثانی
بُرا ہو اس سوشیل میڈیا کا، جس نے ایسے ایسے لوگوں کو بھی ہم پر ”مسلط“ کرکے اپنے اپنے فرقوں کو ”اصل دین“ اور باقی تمام فرقوں کو باطل قرار دینے کا موقع دے دیا جو قبل ازیں ریگولر میڈیا میں دو لفظ بولنے یا دو سطر لکھنے کے بھی ”قابل“ نہ تھے۔ پھر یہ فیس بُکی علامے اور وڈیرے، الامان و الحفیظ۔۔ عملی دنیا میں بے شک انہیں جاننے والے، سننے والے، فالو کرنے والے دوچار لوگ بھی موجود نہ ہوں، فیس بُک کی دنیا مین اسی بات پر اترانے لگتے ہیں کہ میری فرینڈ لسٹ میں میرے اتنے ہزار ”مزارع“ موجود ہیں۔ خبردار جو کسی نے میری وال پر یہ کیا، وہ کیا، مجھے ٹیگ کیا، کمنٹس میں تنقید کی وغیرہ وغیرہ ۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اسے فی الفور تختہ دار پر ”بلاک“ کردیا جائے گا۔
یہ سب فتنہ اکابر اور اکابرین کی عملاً پرستش ہی کا تو نتیجہ ہے۔ جس نے ہمیں ایک دین سے جدا کرکے فرقوں کے خانوں میں بانٹ ڈالا ہے۔ ہم قرآن اور حدیث کم پڑھتے ہیں یا بالکل نہیں پڑھتے لیکن اپنے اپنے اکابرین کی سو سو کتب ضرور خرید کر اپنی لائبریری میں سجاتے ہیں تاکہ ”اُن“ کا دھندہ بھی چلے اور فرقہ بھی فروغ پذیر ہو۔ جی ہاں کسی بھی یکے از مشہور اکابرین کا نام لے لیجئے، سو سے کیا کم کتب تصنیف و تالیف کی ہوں گی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہوگا۔ اب تو بہت سے ”اکابرین“ نے اپنی اپنی ایسی ٹیم تیار کرلی ہے، جو ان کے نام سے کتب تصنیف و تالیف کرتی ہے۔ بہتر فرقوں کے ہزاروں اکابرین کی لاکھوں کتب میں قرآن و حدیث، اللہ کی رسی کہیں کھو سی گئی ہے، جسے مضبوطی سے تھامنے کی ہمیں تلقین کی گئی تھی۔
اناللہ و انا الیہ راجعون
تحریر: یوسف ثانی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں