ایک سبق

Image result for ‫تعصب کی عینک‬‎
ایک سبق
تحریر: ابو یحییٰ 


(ایک خاص شخصیت کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازع کے پس منظر میں یہ آرٹیکل سر ابو یحیی نے کافی عرصے قبل لکھا تھا ۔ تاہم شخصیات کو زیر بحث لانا سر ابو یحیی کا طریقہ نہیں اس لیے اس شخصیت کا نام حذف کرکے اس ٓآرٹیکل کو کئی ماہ بعد اگست 2015 کے ماہنامہ انذار اور انذار کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا۔ بدقسمتی سے اسی اثنا میں اسی پس منظر کا ایک دوسرا واقعہ پیش آگیا۔ تاہم قارئین سے درخواست ہے کہ شخصیت کو حذف کرکے صرف اصل سبق اور اصل مسئلے پر توجہ رکھیں جس کی نشانی سر ابو یحیی نے کی ہے۔ اہمیت شخصیات کی نہیں رویوں کی ہوتی ہے۔ شخصیات کے بارے میں رائے دینا درست نہیں۔ رویوں کو زیر بحث لانا چاہیے۔ یہی سر ابو یحیی کا پیغام ہے۔ ایڈمن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عرصے قبل ایک معروف داعی کی ایک وڈیو میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے حوالے سے ان کے ایک بیان پر ان کے خلاف ایک ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت بھی ہماری رائے یہ تھی کہ یہ جان بوجھ کرسیدہ کی شان میں گستاخی کا کوئی عمل نہیں بلکہ ایک انسانی غلطی ہے۔ بعد میں خود انھوں نے ایک وڈیو بیان میں یہ کہا کہ جہالت کی وجہ سے ان سے غلطی ہوگئی۔ اس طرح کی غلطی پر رائی کا پہاڑ بنا لینا اور کسی کے خلاف ایسی مہم چلانا جس سے اس کی جان تک کو خطرہ ہوجائے اپنی ذات میں ایک انتہائی ناپسندیدہ رویہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔

تاہم اس سارے ہنگامے سے قطع نظر جو اُس وڈیو پر ہوا اس واقعے میں ایک ایسا سبق تھا جسے سیکھ لیا جائے تو ہم میں سے ہر شخص قیامت کی شرمندگی سے بچ سکتا ہے۔ نہیں سیکھے گا تو اسے قیامت کی بدترین ذلت اور رسوائی کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔

یہ معروف داعی اس واقعے سے قبل بھی ٹی وی پر کئی دفعہ خواتین سے متعلق اپنے ایک خاص نقطہ نظر کا اظہار کر چکے تھے۔ یہ نقطہ نظر صحیح ہے یا غلط ہمیں فی الوقت اس سے بحث نہیں۔ تاہم یہ نقطہ نظر قائم کر کے جب انھوں نے صحیح بخاری کی ایک روایت کو سنا یا پڑھا تو انھوں نے روایت سے وہ بات نہیں سمجھی جو اس میں بیان ہوئی۔ یعنی آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے کریمانہ مزاج کی بنا پر ازواج مطہرات کا حد سے زیادہ خیال کرنا۔ یہ وہی سبق ہے جو ایک دوسری روایت میں اس طرح دیا گیا ہے کہ’’ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ بہترین ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا ہوں ‘‘۔ اس کے برعکس انھوں نے وہاں سے وہ بات برآمد کی جو کسی صورت بیان نہیں ہو رہی۔ یعنی خواتین کے بارے میں ایک منفی نقطہ نظر اور اس میں بطور ثبوت بالکل غلط طور پر ہماری ماں سیدہ عائشہ سے متعلق ایک غلط رویے کو منسوب کرنا۔

جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ اس غلطی کے بعد انھوں نے فوراً ایک وڈیو بیان جاری کیا جس میں خود انھوں نے یہ اعترف کیا کہ جہالت کی وجہ سے ان سے غلطی ہوگئی۔ تاہم جس طرح ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلطی جان بوجھ کر نہیں کی گئی تھی اسی طرح پوری دیانت داری سے یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ یہ غلطی جہالت کی وجہ سے بھی نہیں ہوئی تھی۔ جس شخص نے ساری زندگی دین کے لیے لگادی ہو۔ برسہا برس سے علماء کی صحبت میں بیٹھتا اور دنیا بھر میں درس دیتا ہو اورصحیح بخاری کی روایت نقل کر رہا ہو وہ جاہل نہیں رہتا۔ اس غلطی کے پیچھے اصل عامل جہالت نہیں تھی۔ اصل عامل خواتین کے متعلق ایک متعصبانہ نقطہ نظر تھا۔ یہی اصل مسئلہ ہے کہ جب اپنے تعصبات کے تحت ہم قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اکثر غلط نتائج تک پہنچتے ہیں ۔

تعصب صرف یہی خرابی پیدا نہیں کرتا کہ وہ ہمیں غلط نتائج فکر تک پہنچا دیتا ہے، بلکہ وہ ہمیں ایسا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے جس کی کوئی وضاحت ہم روز قیامت اللہ کے حضور نہیں کرسکیں گے ۔ مثلاً اسی معاملے میں دیکھیے کہ جن لوگوں نے ان صاحب کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم چلائی ، ان میں سے بیشتر کا تعلق ایک مخالف فرقے سے تھا۔ جبکہ جن لوگوں نے آگے بڑھ کر ان کی معافی کو قبول کیا اور ان کی حمایت میں بیانات دیے، ان میں سے بیشتر لوگ حق شناسی کے بجائے یہ اس وجہ سے کر رہے تھے کہ اس دفعہ تو ’’اپنا ‘‘آدمی زد میں آ گیا ہے ۔ ورنہ یہی لوگ تھے جو کسی اور کو ایسے کسی معاملے میں کسی قسم کی معافی دینے یا اس کی معافی قبول کرنے کے قائل ہی نہیں تھے ۔

ٍحقیقت یہ ہے کہ لوگ خدا کے حضور آخرت کی پیشی اور اس کی اس پکڑ کا یقین کر لیں تو کبھی اپنے تعصبات کو قرآن و سنت پر حاوی نہ ہونے دیں۔ ان سے کبھی غلطی ہوبھی جائے تو توجہ دلانے پروہ فوراً اپنی اصلاح کریں گے۔ اپنی رائے کے درست ہونے کا یقین ہو تب بھی اس کی بنیاد پر دوسروں کو کافر اور گمراہ قرار دے کر ان پر چڑھائی نہیں کریں گے ۔ کیونکہ یہ صرف انبیاء علیہم السلام ہیں جو غلطی نہیں کرتے ، باقی ہر انسان سے غلطی ہو سکتی ہے ۔

یہ وہ سبق ہے جو اس واقعے میں پوشیدہ ہے مگر آج کا کوئی مذہبی انسان یہ سبق سیکھنے پر تیار نہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں