~~~ زندگی کی قوت ~~~
گھر کے آنگن میں ایک بیل اُگی ہوئی تھی.. مکان کی مرمت ہوئی تو وہ ملبہ کے نیچے دب گئی...آنگن کی صفائی کرواتے ہوئے مالک مکان نے اس بیل کو کٹوا دیا دور تک اس کی جڑیں بھی کھود کر نکال دی گئیں اس کے بعد صحن میں اینٹیں بچھا کر سیمنٹ سے پختہ کر دیا گیا...
کچھ عرصے بعد بیل کی سابق جگہ پر ایک نیا واقعہ ہوا پختہ اینٹیں ایک مقام پر ابھر آئیں... ایسا لگتا تھا کہ کسی نے دھکا لگا کر ان کو اٹھا دیا ہے کسی نے کہا کہ یہ چوہوں کی کاروائی ہے کسی نے کوئی اور قیاس کرنے کی کوشش کی آخر کار اینٹیں ہٹائی گئیں تو معلوم ہوا کہ بیل کا پودا اس کے نیچے مڑی ہوئی شکل میں موجود ہے...بیل کی کچھ جڑیں زمین کے نیچے رہ گئیں اب وہ اوپر آنے کے لیے زور کر رہی تھیں...
“یہ پتیاں اور انکھوے جن کو ہاتھ سے مسلا جائے تو آٹے کی طرح پِس جائیں ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ اینٹوں کے فرش کو توڑ کر اوپر آجائیں“.. مالک مکان نے کہا کہ میں ان کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہتا اگر یہ بیل دوبارہ زندگی کا حق مانگ رہی ہے تو میں اسے زندگی کا حق دوں گا...چناچہ انہوں نے چند اینٹیں نکلوا کر اس کے لیے جگہ بنوا دی...
پہاڑ اپنی ساری وسعت اور عظمت کے ساتھ یہ طاقت نہیں رکھتا کہ ایک پتھر کے ٹکڑے کو ادھر سے ادھر کھسکا دے...مگر درخت کے ننھے سے پودے میں اتنا زور ہے کہ وہ پتھر کے فرش کو دھکیل کر باہر آجاتا ہے یہ طاقت اس کے اندر کہاں سے آئی .. اس کا سرچشمہ عالمِ فطرت کا وہ پر اسرار مظہر ہے جس کو زندگی کہا جاتا ہے...
زندگی اس کائنات کا حیرت آنگیز واقعہ ہے زندگی ایک ایسی طاقت ہے جس کو کوئی دبا نہیں سکتا اس کو کوئی ختم نہیں کرسکتا... اس کو پھیلنے اور بڑھنے کے حق سے کوئی محروم نہیں کرسکتا...
جب زندگی کی جڑیں کھود دی جاتیں ہیں اس وقت بھی وہ کہیں نہ کہیں اپنا وجود رکھتی ہے اور موقع پاتے ہی دوبارہ ظاہر ہوجاتی ہے جب ظاہری طور پر دیکھنے والے یقین کر لیتے ہیں کہ اس کا خاتمہ کیا جاچکا ہے اس وقت بھی وہ عین اس مقام سے اپنا سر نکال لیتی ہے جہاں اسے توڑا اور مسلا گیا ہو....
مولانا وحیدالدین خان...
رازِحیات...
صفحہ 30...
گھر کے آنگن میں ایک بیل اُگی ہوئی تھی.. مکان کی مرمت ہوئی تو وہ ملبہ کے نیچے دب گئی...آنگن کی صفائی کرواتے ہوئے مالک مکان نے اس بیل کو کٹوا دیا دور تک اس کی جڑیں بھی کھود کر نکال دی گئیں اس کے بعد صحن میں اینٹیں بچھا کر سیمنٹ سے پختہ کر دیا گیا...
کچھ عرصے بعد بیل کی سابق جگہ پر ایک نیا واقعہ ہوا پختہ اینٹیں ایک مقام پر ابھر آئیں... ایسا لگتا تھا کہ کسی نے دھکا لگا کر ان کو اٹھا دیا ہے کسی نے کہا کہ یہ چوہوں کی کاروائی ہے کسی نے کوئی اور قیاس کرنے کی کوشش کی آخر کار اینٹیں ہٹائی گئیں تو معلوم ہوا کہ بیل کا پودا اس کے نیچے مڑی ہوئی شکل میں موجود ہے...بیل کی کچھ جڑیں زمین کے نیچے رہ گئیں اب وہ اوپر آنے کے لیے زور کر رہی تھیں...
“یہ پتیاں اور انکھوے جن کو ہاتھ سے مسلا جائے تو آٹے کی طرح پِس جائیں ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ اینٹوں کے فرش کو توڑ کر اوپر آجائیں“.. مالک مکان نے کہا کہ میں ان کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہتا اگر یہ بیل دوبارہ زندگی کا حق مانگ رہی ہے تو میں اسے زندگی کا حق دوں گا...چناچہ انہوں نے چند اینٹیں نکلوا کر اس کے لیے جگہ بنوا دی...
پہاڑ اپنی ساری وسعت اور عظمت کے ساتھ یہ طاقت نہیں رکھتا کہ ایک پتھر کے ٹکڑے کو ادھر سے ادھر کھسکا دے...مگر درخت کے ننھے سے پودے میں اتنا زور ہے کہ وہ پتھر کے فرش کو دھکیل کر باہر آجاتا ہے یہ طاقت اس کے اندر کہاں سے آئی .. اس کا سرچشمہ عالمِ فطرت کا وہ پر اسرار مظہر ہے جس کو زندگی کہا جاتا ہے...
زندگی اس کائنات کا حیرت آنگیز واقعہ ہے زندگی ایک ایسی طاقت ہے جس کو کوئی دبا نہیں سکتا اس کو کوئی ختم نہیں کرسکتا... اس کو پھیلنے اور بڑھنے کے حق سے کوئی محروم نہیں کرسکتا...
جب زندگی کی جڑیں کھود دی جاتیں ہیں اس وقت بھی وہ کہیں نہ کہیں اپنا وجود رکھتی ہے اور موقع پاتے ہی دوبارہ ظاہر ہوجاتی ہے جب ظاہری طور پر دیکھنے والے یقین کر لیتے ہیں کہ اس کا خاتمہ کیا جاچکا ہے اس وقت بھی وہ عین اس مقام سے اپنا سر نکال لیتی ہے جہاں اسے توڑا اور مسلا گیا ہو....
مولانا وحیدالدین خان...
رازِحیات...
صفحہ 30...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں