قومی ترانے کی کہانی

 
قومی ترانے کی کہانی
 
ملک شکیل

قومی ترانہ،کسی بھی قوم کے جذبات ابھارنے اور انہیں حب الوطنی کے جذبات سے سرشار کرنے کا نام ہے۔اس کے الفاظ کوئی عام الفاظ نہیں بلکہ اپنے اندر جادو، اثراور تاثیر رکھتے ہیں۔ہر ملک کا الگ قومی ترانہ ہے۔اس کی حیثیت گویا ایک الگ تشخص کی سی ہے جس سے کوئی بھی دستبردار نہیں ہوتا ۔
اس کے تقدس کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جب بھی قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ گایا جاتاہے۔چھوٹا بڑا، ادنی و اعلیٰ سب بصداحترام ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ خصوصیت سوائے مخصوص مذہبی مناجات کے اور کسی کلمات میں نہیں۔یہاں پر قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ صرف قومی ترانہ کی ہی اہمیت نہیں، اس کے ساتھ ساتھ بجنے والی دُھن بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔
بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قومی ترانہ لفظوں کے ساتھ نہیں، صرف دھنوں کے ساتھ بجتا ہے اور اسے بھی وہی احترام حاصل ہوتا ہے جو کہ شاعری کے ساتھ قومی ترانہ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ دھن اور قومی ترانہ دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں ۔دراصل قومی ترانے کے ذریعے قوموں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔پاکستانی کی قومی زبان اردو میں اسے قومی ترانہ کہا جاتا ہے ۔دیگر ممالک کی مختلف زبانوں میں اسے مختلف ناموں سے پکارا اور لکھا جاتا ہے۔
دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کا ایک علیحدہ قومی ترانہ اور اس کی میوزک کمپوزیشن ہے اور ہر اہم مواقع جب قومی جذبات کی ترجمانی مقصود ہو، قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ بجایا جاتا ہے۔بعض ممالک کی طرح پاکستان کا قومی ترانہ ہر روز اسکول میں جب طالب علم اپنے اسکول کے دن کا آغاز کرتے ہیں تو قومی ترانے سے ہی کرتے ہیں۔
14 اگست1947 ء سے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ وجود میں نہیں آیا تھا۔جب 14 اگست 1947 ء کے موقع پر پاکستان کی آزادی کا دن ،پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ منایا گیا، اس وقت قومی ترانے کی جگہ ”پاکستان زندہ باد، آزادی پائندہ باد“کے نعروں سے یہ دن منایا گیا تھا لیکن اس موقع پر حساس اور محب وطن شاعر اور ادیبوں کے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ پاکستان کا ایک الگ سے قومی ترانہ بھی ہونا چاہیے۔جو دلوں کو گرما دے اور الگ قومی تشخص کی دنیا بھر میں پہچان کا ذریعہ ہو۔
تاریخ کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا جو کہ ایک ہندو شاعر تھے اور ان کا تعلق لاہور سے تھا۔انہوں نے یہ قومی ترانہ قائداعظم محمد علی جناح کی ذاتی درخواست پر لکھا تھا۔اس قومی ترانے کی منظوری دینے میں قائداعظم محمد علی جناح نے کافی غوروفکر کیا اور لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد اسے باقاعدہ سرکاری طور پر بہ طور قومی ترانہ کے منظوری حاصل ہوئی ۔
پاکستان میں اس وقت جو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے ، یہ وہ ترانہ نہیں ہے جسے جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا۔ یہ قومی ترانہ حفیظ جالندھری نے دسمبر1948 ء میں لکھا اور اس وقت سے یہ نافذالعمل ہے۔دراصل جگن ناتھ آزاد کے قومی ترانے میں بعض جگہ پر حب الوطنی کی خاصی کمی محسوس کی گئی تھی اور اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ نئے سرے سے قومی ترانہ لکھوایا جائے۔
یہ سعادت حفیظ جالندھری کو حاصل ہوئی اور انہوں نے یہ قومی ترانہ لکھ کر اپنا نام ہمیشہ کے لیے پاکستان کے ساتھ جوڑ لیا۔اس قومی ترانے کو منظوری کے لیے اس وقت کے انفارمیشن سیکرٹری شیخ محمد اکرام کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ جو اس کمیٹی کو ہیڈ کر رہے تھے، جس نے اس قومی ترانے کی منظوری دینی تھی۔ اس کمیٹی میں معروف سیاستدان، شاعر اور میوزیشن شامل تھے۔
کمیٹی کے معروف ممبران میں عبدالرب نشتر اور احمد چھاگلہ کے ساتھ ساتھ حفیظ جالندھری خود بھی موجود تھے۔حفیظ جالندھری کو کہا گیا کہ وہ مزید چند خوبصورت فقروں کا اضافہ کر کے قومی ترانے کو مزید خوب صورت بنائیں۔چنانچہ حفیظ جالندھری نے تین مزید فقروں کا اضافہ کیا ۔قومی ترانے کو منظوری تو مل گئی لیکن اس کے ساتھ ہی فوری طور پر یہ مسئلہ پیش آیا کہ صرف اچھی شاعری سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اب اس قومی ترانے کو اچھی دھن کی بھی ضرورت ہے۔
قومی ترانے کا میوزک1950 ء میں ترتیب دیا گیا اورپہلی بار سرکاری طور پر اس قومی ترانے کو مکمل دھن کے ساتھ 1954ء میں باقاعدہ طور پر بجایا گیاتھا۔ قومی ترانے کے میوزک ڈائریکٹر احمد غلام علی چھاگلہ تھے۔جنہوں نے 15 انسٹرومنٹس کے ساتھ 1949 ء میں اس کا میوزک کمپوز کیا تھا۔
قومی ترانہ کی شاعری اس کے لکھے جانے الفا ظ اور فقرے معمولی حیثیت کے حامل نہیں ہوتے۔انہیں دائمی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جب تک وہ قوم زندہ رہتی ہے، وہ اسے یاد رکھتی ہے۔ سو جب قومی ترانہ لکھنے کی بات آئی تھی تو بہت سارے لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ ان کا لکھا گیا قومی ترانہ سلیکٹ ہو جائے۔
یہ ایک عظیم خواہش تھی سو اس کے لیے بہت سارے شاعروں نے کوشش کی۔ ایک ادبی ذریعے کے مطابق اس سلسلے میں 723 انٹریاں ”نیشنل سانگ سلیکشن کمیٹی“کو موصول ہوئی تھیں اور ان میں حفیظ جالندھری کی انٹری بھی شامل تھی اور یہ سعادت حفیظ جالندھری کے حصے میں آئی اور ان کا نام قومی ترانے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
4 اگست1954 ء کو پہلی دفعہ قومی ترانہ ،مکمل دھن کے ساتھ بجایا گیا تھا۔
ریڈیو پاکستان پر 13 اگست1954 ء کو 11 گلوکاروں نے بیک وقت گایا۔ قومی ترانہ گانے والے ان گلوکاروں میں احمد رشدی، شمیم بانو، کوکب جہان، رشیدہ بیگم، نجم آرا،نسیمہ شاہین،زوار حسین،اختر عباس،غلام دستگیر،انور ظہیر اوراختر وصی شامل تھے۔ان کے ساتھ علی راٹھور اور سیف علی خان نے بھی حصہ لیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پہلی دفعہ ریڈیو پاکستان پر قومی ترانہ گایا گیا تھا ۔جس کا ٹائم پیریڈ ایک منٹ اور 20 سیکنڈ تھا۔دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت پہلی دفعہ یہ ترانہ گایا گیا، اُس وقت تک سرکاری طور پر اس کی منظوری نہیں ہوئی تھی ۔منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ نے باقاعدہ طور پر اس کی منظوری16 اگست1954 ء کو دی تھی۔
قومی ترانے کے پہلے میوزک ڈائریکٹر احمد علی چھاگلہ1953 ء میں انتقال کر گئے تھے ۔یعنی جس وقت پہلی دفعہ باقاعدہ طور پر ریڈیو پاکستان میں قومی ترانہ گایا جا رہا تھا، وہ بقید حیات تو نہیں تھے ۔تاہم وہ اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر چکے تھے۔

8 تبصرے:

  1. آپ سب کو پاک کا یوم آذادی مبارک ہو

    جواب دیںحذف کریں
  2. جناب حفیظ جالندھری صاحب سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں میرے محلے دار تھے ۔ 1965ء یا 1966ء میں میں اپنے ایک دوست کو اُن کے گھر اُن سے ملانے لے گیا ۔ میرے دوست نے اُن کے لکھے پاکستان کے قومی ترانے کے میوزک سے متعلق سوال کیا تو اُنہوں نے بتایا تھا کہ “ترکی کے ایک باشندے نہیں بنایا تھا“۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. معذرت خواہ ہوں ۔ میرے دوسرے تبصرے کے آخری فقرے میں نہ کی بجائے نہیں لکھا گیا ہے ۔ درست فقرہ یہ ہے
    تو اُنہوں نے بتایا تھا کہ “ترکی کے ایک باشندے نے بنایا تھا“۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. جزاک اللہ :)

    معلومات میں اضافے (تصحیح) کے لئے ممنون ہوں

    جواب دیںحذف کریں