اگر تُو دیکھے کہ ناایل اور نالایق لوگ رتبے میں تجھ سے بلند ہیں تو صبر کر، کیونکہ سمندر کے اوپر جھاگ ہوتی ہے اور گوہر سمندر کی تہہ می...
ایک صاحب نے اپنا واقعہ لکھا کہ وہ ایک نیم صحرائی علاقے میں گئے، وہ تانگہ پر سفر کر رہے تھے ، اتنے میں آندھی کے آثار ظاھر ہوئے، تانگہ والے نے اپنا تانگہ روک دیا اس نے بتایا کہ اس علاقے میں بڑی ہولناک قسم کی آندھی آتی ہے،
وہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ بڑی بڑی چیزوں کو اڑا کر لیجاتی ہے، اور آثار بتا رہے ہیں کہ اسوقت اسی قسم کی آندھی آرہی ہے، اسلئے آپ تانگہ سے اتر کر اپنے بچاؤ کی تدبیر کریں۔
آندھی قریب آگئی تو ہم ایک درخت کی طرف بڑھےتاکہ ہم اسکی آڑ میں پناہ لے سکیں، تانگہ والے نے ہمیں درخت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو چیخ پڑا، اس نے کہا آپ درخت کے نیچے ہر گز نہ جائیے، اس آندھی میں بڑے بڑے درخت گر جاتے ہیں،
اسلئے اس موقع پر درخت کی پناہ لینا بہت خطرناک ہے، اس نے کہا اس آندھی کے مقابلے میں بچاؤ کی ایک ہی صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ کھلی زمین پر اوندھے ہو کر لیٹ جایں، ہم نے تانگہ والے کے کہنے پر عمل کیا اور زمین پر منہ نیچے کر کے لیٹ گئے،
آندھی آئی اور بہت زور کے ساتھ آئی، وہ بہت سے درختوں اور ٹیلوں تک کو اڑا کر لے گئی، لیکن یہ سارا طوفان ہمارے اوپر سے گزرتا رہا اور زمین کی سطح پر ہم محفوظ پڑے رہے، کچھ دیر کے بعد جب آندھی کا زور ختم ہو تو ہم اٹھ گئے، ہم نے محسوس کیا کہ تانگہ والے کی بات بلکل درست تھی۔ (زکریٰ 1989 )
آندھیاں اٹھتی ہیں تو انکا زور ھیمشہ اوپر اوپر رہتا ہے، زمیں کے نیچے کی سطح اسکی براہ راست زد سے محفوظ رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آندھی میں کھڑے ہوئے درخت تو اکھڑ جاتے ہیں مگر زمین پر پھیلی ہوئی گھاس بدستور قائم رہتی ہے،
ایسی حالت میں آندھی سے بچاؤ کی سب سے زیادہ کامیاب تدبیر یہ ہے کہ وقتی طور پر اپنے آپ کو نیچا کر لیا جائے۔
یہ قدرت کا سبق ہےجو بتاتا ہے کہ زندگی کے طوفانوں سے بچنے کا طریقہ کیا ہے، اس کا سادہ طریقہ یہ ہے کہ جب آندھی اٹھے تو وقتی طور پر اپنا جھنڈا نیچا کرلو
ــــــــــ کوئی شخص اشتعال انگیز بات کہے تو تم اسکی طرف سے اپنے کان بند کرلو، کوئی تمھاری دیوار پر کیچڑ پھینک دے تو اسکے اوپر پانی بہا کر اسے صاف کردو،
کوئی تمہارے خلاف نعرے بازی کرے توتم اسکےلئے دعا کرنے میں مصروف ہو جاؤ
(مولانا وحید الدین خان)
ایک صاحب نے اپنا واقعہ لکھا کہ وہ ایک نیم صحرائی علاقے میں گئے، وہ تانگہ پر سفر کر رہے تھے ، اتنے میں آندھی کے آثار ظاھر ہوئے، تانگہ ...
کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا کہ سفر جہاز سے ہُو یا کہ ٹرین سے۔ ہر سفر تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے اس سفر میں کئی پابندیاں آپ کی ذات پر لاگو کردی جاتی ہیں جنہیں آپ باہمی رضامندی سے قبول بھی کرلیتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ کو ایک خاص نشست تک محدود کردِیا جاتا ہے ۔ لیکن آپ بِلا چُوں چِراں مان جاتے ہیں
آپ کو اس سفر میں دورانِ سفر یہ آزادی نہیں ُہوتی کہ آپ اپنی مرضی سے دوران سفر چہل قدمی کرتے ہُوئے اندر باہر جاسکیں بلکہ جہاز کے سفر میں تُو آپ کو سیٹ بیلٹ سے باندھ دِیا جاتا ہے اور آپ اعتراض بھی نہیں کرتے۔
اِسی طرح ٹوائلٹ کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے باوجود بھی آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوتی حالانکہ ٹرین کے مُقابلے میں ہوائی جہاز کا ٹُوائلٹ اسقدر تنگ ہُوتا ہے کہ خبر ہی نہیں ہو پاتی کہ کب شروع ہوا ۔ اور کب خَتم بھی ہو گیا۔
چاہے وہ ائيرپورٹ ہو۔ یا ریلوے اسٹیشن عموماً دھکم پیل کی وجہ سے آپ کو ایذا پُہنچتی ہے لیکن آپ خاموش رِہتے ہیں اور زیادہ واویلا نہیں مَچاتے ۔
کبھی سَخت سردی اور کبھی چلچلاتی دُھوپ کو مُناسب انتظام نہ ہُونے کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن کبھی کوئی مُسافر اسکی بھی شکایت نہیں کرتا اور نہ ہی آپ نے آج تک کوئی ایک ایسی مِثال سُنی ہوگی کہ موسم کی سختی سے بچنے کیلئے کسی مُسافر نے کسی ریلوے اسٹیشن پر کوئی سائبان تعمیر کیا ہُو یا کوئی کمرہ بنایا ہُو۔
آخر کیوں لوگ اس طرح کی عمارت کسی ریلوے اسٹیشن پر اپنی آسانی کیلئے تعمیر نہیں کرتے؟
جواب بُہت آسان ہے۔۔۔۔
کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ تکلیفیں عارضی ہیں۔۔۔۔
کس مُسافر کو پَڑی ہے کہ عارضی جگہ پر عمارتیں تعمیر کراتا پھرے ۔۔ کیونکہ سبھی جانتے ہیں ۔ کہ ہمیں کونسا ہمیشہ اس پلیٹ فارم پر رِہنا ہے۔
اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ انتظار گاہ ہے نا کہ آرام گاہ۔۔۔۔
اِسی واسطے تکلیف چاہے ٹرین کے سفر میں درپیش ہُو یا جہاز کے سفر میں ہر ایک ہَنس کر اِن تکالیف کو برداشت کرلیتا ہے کہ وہ جانتا ہے یہ تکلیف عارضی ہے ، یہ ٹھکانہ بھی عارضی ہے اور آگے منزل ہے جس پر پُہنچ کر آرام ہی آرام ہے۔
ذرا ٹہریئے۔۔ یہاں رُک جایئے ۔ اور اتنا ضرور سوچیئے
کیا یہ دُنیا ریلوے اسٹیشن کی طرح نہیں؟
کیا یہ عارضی ٹھکانہ نہیں؟
کیا ہمیشہ ہمیں یہیں رِہنا ہے یا ہماری منزل کہیں اور ہے۔
کیا آپ نے کبھی پلٹ کر اپنی گُذشتہ زندگی کے سفر کے متعلق سوچا؟ کیا آپکو نہیں لگتا کہ جو زندگی آپ گُزار آئے ہیں ۔ وہ چاہے بیس برس ہو یا کہ ساٹھ برس کی کیوں نہ ہو ۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہُوتا کہ جیسے ابھی دُنیا میں آئے چند ہی لمحے ہوئے تھے اور ہم زندگی کے کئی سنگ میل عبور کرآئے۔
کیا کل ہمارے بُزرگ بچے ، نوجوان ، اور جوان نہیں تھے۔۔۔
کیا آپکو ایسا محسوس نہیں ُہوتا کہ سال پلک جھپکتے ہُوئے گُزر رہے ہیں ابھی ایک عید جاتی نہیں
کہ دوسری عید سر پہ آکھڑی ہُوتی ہے
اور آخر ہم کِس کو دھوکا دے رہے ہیں؟ کہیں ہم خُود کو تُو یہ دھوکا نہیں دے رہے۔۔۔۔ سوچئیے گا ضرور
کہ کہیں یہ دُنیا کا سفر ايسا سفر تو نہیں جسے منزل سمجھ کر ہم اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور اسکی زیبائیش میں اتنے مگن ہیں کہ اب تو گاڑی چھوٹ جانے کا خُوف بھی ہمارے دِل سے نِکل چُکا ہے؟
ماخوذ
کیا آپ نے کبھی جہاز کا سفر کیا ہے؟ اگر نہیں کیا تُو کوئی بات نہیں ٹرین کا سفر تُو ضرور کیا ہوگا آپ نے۔۔۔ کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا...
میں جب بھی اس خدا کی نعمتوں کو یاد کرتی ہوں
تو اس میں سب سے پہلے اپنی ماں کو یاد کرتی ہوں
وسیلہ جو بنی ہے مجھ کو اس دنیا میں لانے کا
سکھایا ہے مجھے جس نے چلن سب اس زمانے کا
وہ ہستی جو مجھے اوروں سے بڑھ کر پیار کرتی ہے
وہی جو میرے سُکھ دُکھ اپنے ہی دامن میں بھرتی ہے
خدا کی سب سے پیاری اس عطا کو یاد کرتی ہوں۔
وہ جس نےلوریاں دے کر سلایا مجھ کو راتوں میں
کہ ہنستا کھیلتا بچپن گزارا اس کی باتوں میں
سبھی اچھا بُرا اس نے سکھایا اپنے آنچل میں
کری پوری میری ہر ایک خواہش ایک ہی پَل میں
محبت کی اُسی میٹھی ادا کو یاد کرتی ہوں۔
جہاں میں میں جدھرجاؤں وہی میرا تعارف ہے
خدا کے بعد میرے دل میں اس کی ہی محبت ہے
دعا ہے اے خدا! رکھنا سدا یونہی یہ سایہ رحمت کا
مجھے توفیق دے، کردوں ادا حق اپنی جنت کا
میں اس جنت کی ٹھنڈی سی ہوا کو یاد کرتی ہوں
خدا کی نعمتوں میں اپنی ماں کو یاد کرتی ہوں۔
~!~ امی کے نام ~!~ سیما آفتاب میں جب بھی اس خدا کی نعمتوں کو یاد کرتی ہوں تو اس میں سب سے پہلے اپنی ماں کو یاد کرتی ہوں وسیلہ...
اگر ہم زندگی کو سراب مان لیں، تو جینے کا شوق ختم ہوجائے گا۔۔۔۔ بجائے اس کو سراب ماننے کے کیوں نہ دوسروں کی مدد کرتے گزاریں شائد ...
ہماری یاد کے کچھ پل ٹھہر جائیں جو اک پل کو تمھاری سوچ میں جاناں 'تو بس وہ پل' متاعِ کل ہیں جیون میں (ایمان علی) ...
کچھ میرے بارے میں
مقبول اشاعتیں
فیس بک
بلاگ محفوظات
-
◄
2024
(4)
- ◄ اکتوبر 2024 (1)
- ◄ جنوری 2024 (3)
-
◄
2023
(51)
- ◄ دسمبر 2023 (1)
- ◄ اپریل 2023 (8)
- ◄ فروری 2023 (19)
- ◄ جنوری 2023 (8)
-
◄
2022
(9)
- ◄ دسمبر 2022 (9)
-
◄
2021
(36)
- ◄ دسمبر 2021 (3)
- ◄ اکتوبر 2021 (6)
- ◄ ستمبر 2021 (1)
- ◄ جولائی 2021 (8)
- ◄ فروری 2021 (7)
- ◄ جنوری 2021 (1)
-
◄
2020
(88)
- ◄ اکتوبر 2020 (5)
- ◄ اپریل 2020 (13)
- ◄ فروری 2020 (10)
- ◄ جنوری 2020 (16)
-
◄
2019
(217)
- ◄ دسمبر 2019 (31)
- ◄ نومبر 2019 (28)
- ◄ اکتوبر 2019 (27)
- ◄ ستمبر 2019 (18)
- ◄ جولائی 2019 (32)
- ◄ اپریل 2019 (11)
- ◄ فروری 2019 (7)
- ◄ جنوری 2019 (15)
-
◄
2018
(228)
- ◄ دسمبر 2018 (13)
- ◄ نومبر 2018 (18)
- ◄ اکتوبر 2018 (7)
- ◄ ستمبر 2018 (21)
- ◄ جولائی 2018 (7)
- ◄ اپریل 2018 (21)
- ◄ فروری 2018 (39)
- ◄ جنوری 2018 (38)
-
◄
2017
(435)
- ◄ دسمبر 2017 (25)
- ◄ نومبر 2017 (29)
- ◄ اکتوبر 2017 (35)
- ◄ ستمبر 2017 (36)
- ◄ جولائی 2017 (23)
- ◄ اپریل 2017 (33)
- ◄ فروری 2017 (34)
- ◄ جنوری 2017 (47)
-
◄
2016
(187)
- ◄ دسمبر 2016 (19)
- ◄ نومبر 2016 (22)
- ◄ اکتوبر 2016 (21)
- ◄ ستمبر 2016 (11)
- ◄ جولائی 2016 (11)
- ◄ اپریل 2016 (14)
- ◄ فروری 2016 (23)
- ◄ جنوری 2016 (10)
-
◄
2015
(136)
- ◄ دسمبر 2015 (27)
- ◄ نومبر 2015 (22)
- ◄ ستمبر 2015 (1)
- ◄ جولائی 2015 (10)
- ◄ اپریل 2015 (4)
- ◄ فروری 2015 (12)
- ◄ جنوری 2015 (9)
-
▼
2014
(117)
- ◄ دسمبر 2014 (5)
- ◄ نومبر 2014 (14)
- ◄ اکتوبر 2014 (11)
- ◄ ستمبر 2014 (11)
- ◄ جولائی 2014 (8)
- ◄ اپریل 2014 (5)
- ◄ فروری 2014 (14)
- ◄ جنوری 2014 (12)
-
◄
2013
(293)
- ◄ دسمبر 2013 (18)
- ◄ نومبر 2013 (21)
- ◄ اکتوبر 2013 (35)
- ◄ ستمبر 2013 (26)
- ◄ اپریل 2013 (59)
- ◄ فروری 2013 (30)
- ◄ جنوری 2013 (27)
-
◄
2012
(56)
- ◄ ستمبر 2012 (2)
- ◄ جولائی 2012 (2)
- ◄ فروری 2012 (14)
- ◄ جنوری 2012 (8)
-
◄
2011
(28)
- ◄ دسمبر 2011 (6)
- ◄ نومبر 2011 (22)