تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ دوم

حصہ دوم

جب کوئی بول رہا ہو تو وہ بس اپنے لب ہلا رہا ہوتا ہے. لیکن جب کوئی پڑھا رہا ہو تو اس کے ذہن میں کس کا خیال ہوتا ہے؟ اپنے طلباء کا، تو جو بھی استاد پڑھاتا ہے اس کا مقصد کس کو فائدہ پہنچانا ہے؟ طلباء کو.
تو اس اصول کے پیش نظر جب اللہ تعالٰی ہمیں پڑھاتے ہیں الف لام میم، تو اس میں بھی قرآن کے طالبعلم کے لیے کوئی نہ کوئی فائدہ ہے. آپ کا فائدہ ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ جب میں  اس کے معنی سے ہی ناواقف ہوں تو اس سے مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ کیونکہ  اس سے  فائدہ اٹھانے کے لیے مجھے اس کے مفہوم سے تو واقف ہونا چاہیے؟ کلاس میں اگر استاد کچھ پڑھائے اور وہ آپ کو سمجھ نہ آئے تو آپ کیا کریں گے؟ آپ ہاتھ کھڑا کریں گے اور سوال کریں گے کہ یہ مجھے سمجھ نہیں آیا. کیا آپ اسے دوبارہ سمجھا سکتے ہیں؟ مجھے واضح کر کے سمجھائیے. لیکن آپ دنیا میں کسی سے بھی پوچھ لیں. کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ الف لام میم کیا ہے؟  کسی کو علم ہے کہ ان کے معنی کیا ہیں؟  ان کی تفسیر کیا ہے؟ ان کے پیچھے کیا راز ہے؟  کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے. کسی کو اس سوال کا جواب نہیں ملا اور یہ ظاہر ہے کہ کسی کو ملے گا بھی نہیں. تب تک نہیں جب تک روز قیامت نہ آ جائے اور اللہ تعالٰی ہمیں اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر لیں اور ہمیں اپنے استاد اللہ تعالٰی سے یہ پوچھنے کا موقع نہ مل جائے کہ یہ ا ل م کے کیا معنی ہیں؟ بے شک آپ ا ل م کے معنی سے ناواقف ہیں. لیکن پتہ ہے کہ تب بھی ان میں فائدہ ہے آپ کے لیے. میں آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرنا چاہ رہا ہوں کہ اس کا کیا فائدہ ہے؟ کیا مقصد ہے؟ فائدہ یہ ہے.
آپ جانتے ہیں کہ آج کل کالج کے پہلے دن کو طلبہ کے لیے کیا نام دیا جاتا ہے؟
 student's orientation.
طلباء کی واقفیت

آپ نے کبھی اس کے بارے میں سنا ہے؟ کلاس کا پہلا دن ہو تو استاد طلبہ کو کیا کہتے ہیں؟ "آپ کو ایسا طرز عمل اپنانا چاہیے. آپ کو اتنے گھنٹے پڑھائی کو دینے چاہئیں فلاں فلاں سرگرمیوں سے دور رہیں. اپنی اسائینمنٹس وقت پر جمع کروانی ہوں گی. امتحان کے لیے ہفتوں پہلے تیاری شروع کر دیں.وغیرہ وغیرہ."
 استاد آپ کو ذہنی طور پر اس چیز کے لیے تیار کرتے ہیں جس کا سامنا آپ کو آگے جا کر کرنا ہے. اور اگر آپ ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے، تو آپ کا طرز عمل ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ  کچھ سیکھنے میں کامیاب ہو جائیں.
قرآن کے طالب علم کے لیے پہلی واقفیت یہ ہے کہ "وہ کچھ نہیں  جانتے". پہلی واقفیت قرآن کے طالب علم کے لیے یہ ہے الف لام میم. اس کا کیا مطلب ہے آپ نہیں جانتے. اور اس بات کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیں کہ آپ نہیں جانتے جو وہ جانتا ہے.
واللہ یعلم و انتُم لا تعلمون
اللہ جانتا ہے  اور تم نہیں  جانتے.

اس کتاب کی طرف تنقید کرنے کے ارادے سے مت آؤ. اور اللہ تعالٰی پہ یہ زور مت دو کہ جب تک مجھے سمجھ نہ آئے میں ایمان نہیں لاؤں گا. جب تک میں مطمئن نہ ہوں، میرا تجسس نہ ٹوٹے تب تک مجھے یقین نہیں آئے گا. نہیں. بالکل نہیں.
 آپ کو اس کتاب کی طرف عاجزی سے آنا ہو گا. تجسس کے ہاتھوں نہیں. آج کے دور میں آپ نیٹ سے کتاب ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں، موبائل پہ محفوظ کر کے پڑھ سکتے ہیں. اس کے کچھ باب آپ کو پسند آتے ہیں اور کچھ پسند نہیں آتے. اور کیونکہ آج نیٹ کا دور ہے تو آپ کوئی بھی کتاب خریدنے سے پہلے اس کے بارے میں لوگوں کی رائے دیکھتے ہیں. کیا یہ کتاب بہترین بِکنے والی کتابوں میں سے ہے. انٹرنیٹ پر اس کے بارے میں لوگوں کے تبصرے کیا بتاتے ہیں؟ جب بھی ہم کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟ ہم صرف اس کو پڑھتے ہی نہیں ہیں ہم تنقید بھی کرتے ہیں. ہم اس پر تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ ہاں یہ پسند آیا، یہ بس ٹھیک لگا، یہ حصہ پسند نہیں آیا. یہ کام ہم فلموں، اور کارٹونز کے ساتھ بھی کرتے ہیں. حتٰی کہ یہ کام ہم اپنے کالج اور اساتذہ کے ساتھ بھی کرتے ہیں. فلاں استاد تو بہت برا سمجھاتے ہیں. ان کے سمجھانے کا انداز نہیں اچھا. وغیرہ وغیرہ.
دوسرے لفظوں میں اختیار آپ کے پاس ہوتا ہے. کاروباری دنیا میں کیا کہا جاتا ہے؟ " گاہک ہمیشہ درست کہتا ہے." کالج میں طالب علم گاہک ہے کیونکہ وہ فیس دیتا ہے. کتاب پڑھنے والا گاہک ہے کیونکہ اس نے کتاب کے پیسے دیے ہیں. ہر گاہک کو تنقید کا حق ہے. اور لوگ یہی گاہکوں کا سا رویہ لے کر قرآن کی طرف آتے ہیں. یہاں تک کہ بہت سے مسلمان بھی یہ کہتے ہیں " یہ حصہ سمجھ سے باہر ہے. یہ مجھے سمجھ نہیں آیا. یہ حصہ میں نے پڑھا تو مجھے عجیب لگا. یہ کچھ کنفیوژنگ ہے." اور وہ یوں بات کرتے ہیں جیسے کسی عام کتاب کی بات کر رہے ہوں. یہ کوئی عام کتاب نہیں ہے. آپ اس کتاب کی طرف ایک گاہک بن کے نہیں آ سکتے جو ہمیشہ ٹھیک بات کرتا ہے.
آپ اس کتاب کی طرف ایک بھکاری بن کر آئیں، ایک مفلس شخص کی طرح آئیں اور صرف یہی ہے جو آپ کی بھوک مٹائے گی. 
آپ اس کتاب کی طرف ایک ایسے شخص کی مانند آئیں جو صحرا میں بھٹک رہا ہو، پیاس سے مر رہا ہو. آپ اسے پانی کے چند گھونٹ دیں گے تو وہ پانی کے گرم ہونے پر اعتراض نہیں کرے گا. نہ ہی وہ یہ کہے گا کہ پانی کے بجائے جوس یا سوڈا مل سکتا ہے؟ وہ بس جلدی سے پانی پی لے گا. جب آپ ہدایت کے شدت سے طلبگار ہوں تو آپ یہی کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی جانتے ہیں کہ میرے لیے کیا بہتر ہے. جو مجھے جاننا چاہیے اور جو مجھے نہیں جاننا چاہیے یہ اللہ تعالٰی کو پتہ ہے.
اور ایک اور بہت خوبصورت حصہ اس واقفیت(اورئینٹیشن) کا.
اللہ تعالٰی ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے یہ کتاب پڑھتے ہوئے. کیونکہ واللہ العظیم.
ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ بھٹک جائیں اور یہ تب ہوتا ہے جب آپ کا طرز عمل ٹھیک نہیں.  آپکا دماغ اور دل ٹھیک جگہ پر نا ہو. 
تو پھر..
يضل به كثيراً و يهدي به كثيراً
یہی کتاب بہت سوں کو ہدایت دے گی اور بہت لوگ اسی کے ذریعے بھٹکتے رہیں گے. کیونکہ ان کا طرز عمل درست نہیں تھا. اس لیے اللہ تعالٰی خود فرماتے ہیں
"و ما یضل به الا الفسقين "
اور وہ نہیں گمراہ کرتا کسی کو مگر وہ جو فاسق ہوں.

تو الف لام میم میں اگلا سبق کیا ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں؟ کہ ہمیں اپنے تجسس کا رخ واپس موڑنے اور روکنے میں کوئی شرم یا بے عزتی محسوس نہیں کرنی چاہیے. بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تک الف لام میم میں  اٹکے ہوئے ہیں. وہ دس سال سے قرآن کے طالب ہیں اور وہ کس چیز پر تحقیق کر رہے ہیں؟ کہ الف لام میم کے کیا معنی ہیں.؟ وہ ابھی ذلك الكتاب لا ريب فيه تک بھی نہیں پہنچ پائے.
"مجھے لگتا ہے الف ایک کوڈ ہے اس کی عددی ویلیو 37.8  ہے." لام" بھی ایک کوڈ ہے اس کی یہ  ویلیو ہے اور "میم" یہ ہے. میرا نظریہ یہ ہے............ وغیرہ"
یا اللہ..... میں اپنا سر پکڑ لیتا ہوں ان باتوں پر. وہ قرآن کے بارے میں سب کچھ پڑھ رہے ہیں سوائے قرآن کے. آپ بھٹک سکتے ہیں قرآن میں کیونکہ اب آپ نے اللہ تعالٰی کے الفاظ کو پہلے نہیں رکھا. آپ نے اپنے تجسس کو فوقیت دی. جو آپ کو دلچسپ لگا، بس وہ  آپ کے لیے مقدم ہے.
 اور کچھ لوگ متشابہات کے پیچھے بھاگتے ہیں. وہ صرف اس کی پیچھے جاتے ہیں جو اللہ تعالٰی نے کسی مقصد کے باعث غیر واضح رکھا.
 جانتے ہیں کہ ایک استاد کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ آپ کو کچھ چیزیں سکھائےاور ایک استاد کے لیے اتنا ہی اہم ہے کہ وہ کچھ چیزیں آپکو نا سکھائے. یہ بھی سکھانے کا ہی ایک عمل ہے. کچھ چیزیں ہیں جن کے بارے میں سوال نہیں کرنا. ہر چیز کے بارے میں تجسس اچھا نہیں ہوتا. کچھ سوال آپ کو پوچھنے ہی نہیں چاہیے. ہم ہر جمعہ کو سورۃ الکھف کی تلاوت کرتے ہیں. موسٰی علیہ السلام ایک سفر پر تھے. ان کی اورئینٹیشن کیا تھی؟
 لاتسئلنی فی شئ... مجھ سے کچھ سوال مت کرنا جب تک میں اجازت نہ دوں. یہ ان کی اورئینٹیشن کا حصہ تھا. ہمارے معاشرے میں آج کل ہر سوال کو ویلکم کہا جاتا ہے. ہر سوال درست ہے.
کچھ معاملوں میں ہر سوال کرنا ایک الگ بات ہے لیکن قرآن اپنے پڑھنے والے کو مفید سوالات اور غیر ضروری سوالات میں فرق جاننے کا کہتا ہے.
 سوال پوچھیے لیکن وہ جن سے کچھ فائدہ ہو. اگر اللہ تعالٰی نے نہیں بتایا ان کا مطلب، تو نہ جاننا آپ کے لیے فائدہ مند ہے. اس کے مفہوم سے ناواقفیت آپ کے لیے ذیادہ فائدہ مند ہے. تو یہ الف لام میم کی کہانی ہے.
اور سبحان اللہ میں نے آپ کو کیا بتایا کہ یہ آپ کے لیے ایک پہلی واقفیت ہے اور آپ قرآن میں ایک نہایت زبردست چیز پر ذرا غور کریں گے. جب بھی آپ قرآن میں اس طرح  کے حروف دیکھیں ا ل م، ق،  ص، الف لام میم را ، الف لام را،  تو ان حروف کے بعد اگلی آیات بھلا کون سی آتی ہیں؟
الم الله لا اله إلا هوالحیی القیوم نزل عليك الكتاب
المص كتاب انزل اليك
الر تلك أيت الكتاب الحکیم
الر كتاب انزلنه اليك
طه ما انزلنا اليك القرآن لتشقٰى
الم تلك أيت الكتاب الحكيم هدى و رحمة المحسنين
حم تنزيل من الرحمن الرحيم
يس والقرآن الحكيم
حم والكتاب المبين


بار بار جب بھی یہ حروف  آئیں، اگلی آیات میں قرآن کا ذکر ہے. بار بار جب بھی ان حروف کا استعمال ہو اور آپ کے دماغ میں یہ سوال اٹھے کہ ان کا کیا مطلب ہے اللہ تعالٰی فوراً کہتے ہیں کہ  قرآن واضح ہے. قرآن ہدایت سے، حکمت سے بھر پور ہے. یہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں ایک تعارف ایک واقفیت دیتے ہیں لیکن تعارف کا یہ حصہ ہم آسانی سے بھول جاتے ہیں. ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں تجسس نہیں عاجزی دکھانی ہے اور اپنے دماغ کو سیدھی راہ کی طرف راغب کرنا ہے. تو اللہ تعالٰی ہمیں بار بار یاددہانی کرواتے ہیں اور وہ صرف ایک ہی طرح کے حروف استعمال نہیں کرتے. وہ حروف بدل دیتے ہیں کہ ہمارے اندر تجسس کی بلی اچھل کر کہے کہ اس دفعہ "ح م" کیوں کہا گیا، اس بار" ا ل م" کیوں نہ استعمال کیا گیا. یا "ا ل ر" کیوں نہیں. وہاں "ا ل م" تھا یہاں  "ا ل ر" ہے. یہ کیا ہے؟  اور اللہ تعالٰی ہمارا امتحان لیتے ہیں. وہ واقعی ہمارا امتحان  لیتے ہیں کہ کیا تم تجسس کے ہاتھوں بھٹک جاتے ہو یا کتاب کے ذریعے ہدایت پاتے ہو. سبحان اللہ

اگلی آیت کی طرف  چلتے ہیں.
ذالك الكتاب لا ريب فيه هدى  المتقين
اس آیت کے بہت سے تدبر ہیں لیکن میں کچھ ذخیرہِ الفاظ (ووکیبیولری) کی بات کروں گا. اس آیت کے اہم الفاظ ہیں
کتاب
ریب
ھُدًی
تقوٰی

پہلا لفظ ہے کتاب یا کتب..
جدید عربی میں کَتَبَ کے معنی ہیں "لکھنا". مگر پرانے وقتوں میں قلم کا استعمال بہت کم تھا. لوگ لکھا کرتے تھے، مگر ان کے لکھنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ پتھروں کو تراشتے تھے یا لکڑی کو، یا پھر چمڑے پہ سیتے تھے. یہاں وہی نظریہ پیش کیا جا رہا ہے کہ جب آپ تراشتے ہیں یا پھر چمڑے پہ سیتے ہیں تو اصل میں اُسے ہی  "کِتابہ" کہا جاتا ہے.
اب وہ آج کے دور سے کچھ مختلف ہے. کیونکہ آج کل ہم ڈیجیٹل ڈیوائسز پہ لکھتے ہیں. اپنی انگلیوں کے ذریعے کی بورڈ کو چھو کر لکھتے ہیں.
اب جب آپ لکھ رہے ہیں، اور ایک جملہ لکھنے کے بعد آپ کو اس میں کوئی لفظ پسند نا آئے تو آپ کیا کرتے ہیں؟
آسانی سے ڈیلیٹ کردیتے ہیں. یا پھر کٹ/پیسٹ، یا کسی جملے کو پیراگراف کے آخر میں پیسٹ کرنا ہو یا شروع میں لانا ہو تو یہ ہمارے لیے بہت آسان ہے اب. ڈیجیٹل رائٹنگ میں یہ کام بہت آسان ہے.
پر اگر آپ کو لکڑی یا پتھر پہ تراشنا پڑجائے اور آخر میں آپ کو لگے کہ یہ فلاں لفظ یہاں نہیں کہیں اور ہونا چاہیے تھا تو آپ کیا کرتے؟
سارا کام دوبارہ سے کرنا پڑتا.
یہی نقصان ہے "کتابہ" کا، ایک دفعہ لکھ دیا تو بس لکھ دیا، اس کے لیے کوئی ڈیلیٹ بٹن نہیں ہے. پرانے وقتوں میں یہ ایک نقصان تھا ایک دفعہ تراش دیا تو تبدیل کرنا ناممکن تھا.
اللہ نے لفظ "کتاب" استعمال کر کے قرآن کی ایک بہت گہری حقیقت  سے روشناس کروایا ہے ہمیں.
یہ جو ہے، یہی رہے گا، اس میں تبدیلی کی کوئی جگہ نہیں! اسے بدلا نہیں جا سکتا. یہ ایسا ہی رہے گا.
ویسے جب آپ تراشتے ہیں تو اسے پرفیکٹ طریقے سے کرتے ہیں نا؟ کہ اس میں تبدیلی کی ضرورت نہ رہے. ہے نا؟
تصور کریں، زبانی روایات (اورل ٹریڈیشن)میں یہ کیسا ہوگا؟ یہ قرآن رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم پہ زبانی نازل ہوا تھا، اور پھر بھی اللہ نے اسے کتاب کہا ہے.
کیونکہ قرآن پرفیکٹ فارم میں سیٹ کیا جاچکا تھا. تو یہ فاتحہ پہلے کیوں ہیں، بقرہ دوسری کیوں ہے، آل عمران تیسری کیوں ہے؟ نساء اس کے بعد کیوں ہے، یہ پرفیکٹ آرڈر ہے. اگر یہ پرفیکٹ نہ ہوتا، یہ سورتیں آگے پیچھے ہوتیں تو قرآن کو کتاب نہ کہا جاتا. کیونکہ کتاب پرفیکٹ فارم میں ہوتی ہے، اس میں لچک نہیں ہوتی. آپ اسکو کلام کہہ سکتے ہیں لیکن کتاب نہیں. 

اب بات کرتے ہیں کتاب اور قرآن میں کیا فرق ہے.
لفظ قرآن "قرا" سے نکلا ہے. اور قرا کا معنی ہے "اونچی آواز میں پڑھنا"
کتب کا میں نے پہلے بتایا کے گڑھ کے لکھنا.
اللہ کے کلام کے دو مشہور نام یہی ہیں، کتاب اور قرآن.
دونوں کے معنی میں ذرا سا فرق ہے. جب اللہ فرماتے ہیں "الکتاب" تو وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں جو لکھی گئی ہے، اور جب قرآن کہتے ہیں تو اس کی تلاوت کی طرف اشارہ ہوتا ہے.
اب بات یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت یہاں ہوتی ہے، دنیا میں! پر لکھی کہاں گئی تھی؟ لوح محفوظ میں، ساتویں آسمان پر.
قرآن کی تلاوت اس دنیا میں ہوتی ہے، جو ہمارے نزدیک ہے. مگر اس کا لکھا جانا ہم سے بہت دور ہے.
جب کوئی چیز نزدیک ہوتی ہے آپ اسے "یہ" کہتے ہیں. جب کوئی چیز دور ہوتی ہے تب اسے "وہ" کہتے ہیں.
اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرمایا "ھذالکتٰب لاریب" انہوں نے فرمایا "ذلک الکتٰب" وہ کتاب. انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ "یہ کتاب" بلکہ فرمایا "وہ کتاب".
کیونکہ یہ کتابی شکل میں ہمارے نزدیک نہیں بلکہ بہت دور ہے. لوح محفوظ میں. مگر جہاں بھی اللہ نے قرآن کہا تو ساتھ "ھذا" استعمال کیا. کہ یہ قرآن. "ان ھذا القرآن" یہ قرآن. وہ قرآن نہیں فرمایا گیا.
وہ لفظ استعمال ہوا جو نزدیک ہونے کو ظاہر کرتا ہے. کیوں؟ کیونکہ قرا، قرات، یہاں اس دنیا میں ہمارے نزدیک ہوتی ہے دور نہیں. سبحان اللہ....

یاد ہے الم نے لوگوں کو تجسس میں ڈال دیا تھا، کہ یہ تو حروف تہجی ہیں. اور حروف تو کسی کتاب میں ہی ہوتے ہیں. تو کتاب کہاں ہے؟ تو یہاں بتایا جارہا ہے کہ کتاب بہت دور ہے. 

اس کے بعد لفظ رَیب
ریب ان کئی لفظوں میں سے ایک لفظ ہے جسے عربی میں "شک" کے لیے استعمال کیا جاتا ہے.
شک، مرج، اور بھی کافی لفظ ہیں اس ایک معنی کے لیے. مگر ریب ایسا لفظ ہے،جو کسی انسان کی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے. جب کوئی شخص اندر سے مضطرب ہو، ہل کر رہ گیا ہو.
شک کی بھی قسمیں ہوتی ہیں. مثال کے طور پر، آپ کے پاس سے کوئی گاڑی گزری ہے اور آپ شک میں پڑجاتے ہیں کہ کیا وہ مرسڈیز تھی؟ یا شاید کوئی اور گاڑی تھی. یہ ایسا شک ہے جس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا. آپ مضطرب نہیں ہوتے. پھر ایک شک ہوتا ہے جس سے آپ کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ مسلسل آپ کو پریشان کرتا رہتا ہے، آپ کی نیند میں خلل پیدا کرتا ہے، آپ پریشان ہی رہتے ہیں جب تک وہ کنفیوژن حل نہیں ہوجاتی. اور اس طرح کے شک کو، جس میں آپ کی نیندیں اُڑ جائیں ریب کہتے ہیں. 

اگلا لفظ جو ہم ڈسکس کریں گے وہ "متقین" ہے.
یہ لفظ تقوٰی یا وقایا سے نکلتا ہے. وِقایا کا معنی ہے  بہت زیادہ حفاظت/بے اندازہ حفاظت
بعض گھوڑوں کو محافظ گھوڑے کہا جاتا ہے، اور کیوں کہا جاتا ہے؟
آپ جانتے ہیں نا گھوڑوں کے کھر/پاوں ہوتے ہیں اور ان کے پاوں کی حفاظت کے لیے آپ ان کے نیچے میٹل کلیمپ لگادیتے ہیں اور ان کے جوتے اس پر پہناتے ہیں.
تصور کریں کہ ایک جنگی گھوڑے نے اپنے جوتے کھودیے ہیں، اس کے پاوں اس کے باعث بہت زیادہ حساس ہوجائیں گے، اس لیے وہ ناہموار زمین پہ چلتے ہوئے بہت ہی زیادہ احتیاط کرے گا. ہر جگہ احتیاط سے قدم رکھے گا. اور اس گھوڑے کو، جو اپنے پاوں کی حفاظت کررہا ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ تقوی اختیار کررہا ہے.
عربی میں، اسلام سے قبل، اس گھوڑے کو یہ کہا جاتا تھا. کیونکہ وہ ایک ایک قدم پھونک کر رکھ رہا ہوتا ہے کہ کوئی قدم مجھے تکلیف میں نہ مبتلا کردے..سبحان اللہ.
اللہ نے وہی لفظ ایک مومن کے رویے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے. اور یہ لفظ متقین کے معنی کا ایک حصہ ہے.
اب آیت کا صحیح سے مطالعہ کرتے ہیں.

ذلک الکتب لاریب فیہ ھدی للمتقین
اس آیت کو سمجھنے کے چھ مختلف طریقے ہیں.
پہلا:
الم. وہ کتاب ہے.
الم اس کی واقفیت/تعارف ہے.
الم سنتے ہی سننے والا کہے گا،
 کیا؟
کیا کہا ابھی اس نے؟
پھر آگے آتا ہے وہ کتاب ہے
میں یہاں کتاب کا دوسرا معنی استعمال کر کے بات کو سمجھاتا ہوں، کیونکہ لفظ کتاب عربی میں مصدر ہے، جس کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ حقیقت میں وہ لکھی ہوئی ہے یا وہ خود لکھی جارہی ہے
میں چاہتا ہوں کہ آپ تصور کریں کہ کسی شخص نے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کو الم. ذلک الکتب  پڑھتے سنا. اور اللہ انہیں بتا رہا کے کہ کیا تم نے ابھی الم سنا؟ وہ لکھی جارہی ہے. وہ (نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم) صرف اس کی تلاوت نہیں کر رہے وہ کہیں سے لکھی ہوئی نازل ہوئی ہے. یہ منفرد طریقے سے لکھی گئی ہے. اور اس طرح لکھی گئی ہے جس طرح اور کوئی چیز نہیں لکھی گئی. اس لیے یہ ذلک کتابُ نہیں بلکہ ذلک الکتٰب ہے..کہ یہ ایک بہت خاص کتاب ہے، ایسی کتاب پہلے کبھی نہیں لکھی گئی. یہ جو تم سن رہے ہو یہ صرف ایک انسان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پڑھ نہیں رہا بلکہ ایک خاص کتاب سے لیا گیا ہے یہ جو بہت دور سے آئی ہے.  یہ ہے پہلی بات. 

-نعمان علی خان

جاری ہے

1 تبصرہ:

  1. السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
    رب کی پاک ذات سے امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے
    شیخ میں نے آپ کا لیکچر سنا آخری معجزہ ماشاءاللہ بہت ہی اچھے انداز میں آپ نے سمجھایا رب آپ کے اس عمل کو قبول فرمائے رب آپ سے راضی ہوں شیخ میری خواہش یہ تھی کہ اگر اس موضوع پر کتاب نشر ہوچکی ہے اگر ہوچکی ہے تو کتاب کی اگر تصویر یا پی ڈی ایف مل جاتی تو بہت اچھا ہوتا

    جزاک اللّہ خیرا کثیرا

    جواب دیںحذف کریں