آخری دور
تحریر: ابو یحیٰی
انسان کی زندگی کے پانچ ادوار ہوتے ہیں۔ ان میں دو دور بے بسی اور دوسروں پر انحصار کے ہوتے ہیں اور تین دور وہ ہوتے ہیں جن میں انسان فعال زندگی گزارتا ہے۔ پیدائش سے لے کر بچپن تک اور بڑھاپے سے لے کر موت کی ناتوانی تک کے دو ادوار وہ ہوتے ہیں جن میں انسان اپنے عجز کے آخری مقام پر ہوتا ہے۔
اس کے برعکس لڑکپن، جوانی اور ادھیڑ عمر کے تین ادوار وہ ہوتے ہیں جن میں انسان مکمل طور پر فعال ہوتا ہے اور دوسروں پر انحصار کیے بغیر اپنی زندگی گزارتا ہے۔ ان تین میں سے ادھیڑ عمر وہ ہوتی ہے جن میں عام طور پر لوگ مکمل شعور، پختگی، مالی آسودگی، جذباتی استحکام حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔ وہ ملازمت یا کاروبار، شادی اور خاندان، گھر اور گاڑی جیسی ضروریات کو پورا کرچکے ہوتے ہیں۔ اپنی صحت کے معاملے میں اگرغفلت نہ کی ہو تو انسان کی صحت اس دور میں بھی اس قابل ہوتی ہے کہ وہ ہر طرح کی ذہنی اور بیشتر جسمانی مشقت کو اٹھا سکے۔
ان تمام پہلوؤں سے اگر دیکھا جائے تو ادھیڑ عمر کا دور وہ بہترین دور ہوتا ہے جب انسان اپنی ذات سے بلند ہوکر سماج کے لیے اور آخرت کے حوالے سے اپنی ذات کے لیے بہترین کوشش کرسکتا ہے۔ یہ دور اس اعتبار سے بھی بڑا اہم ہوتا ہے کہ انسان بار بار یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس کے جاننے والوں کی ایک بڑی تعداد اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے۔ نانا نانی،دادا دادی اور اکثر اوقات والدین جیسے قریبی رشتوں کو انسان اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارچکا ہوتا ہے۔ یہ مشاہدات اس میں یہ احساس پیدا کرنے کے لیے بہت ہوتے ہیں کہ اس کے پاس بھی وقت ختم ہورہا ہے اور اس فہرست میں اگلا نمبر اسی کا ہے۔
ان تمام پہلوؤں سے ادھیڑ عمر سدھرنے، اصلاح کرنے، اپنے معاملات کو بہتر کرنے، تعلقات کو ٹھیک کرنے، دنیا کے ساتھ آخرت کی کامیابی کو یقینی بنانے کا آخری موقع ہوتا ہے۔ پینتالیس سے اوپر کی عمر کا یہ وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے جسم میں طاقت ابھی باقی ہوتی ہے۔ انسان کے اعضا و قوی اپنی جگہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ انسان کا شعور مکمل پختہ ہوچکا ہوتا ہے۔
جس چیز کی اس دور میں انسان کو ضرورت ہوتی ہے وہ یہ احساس ہے کہ اب اسے اپنی ذات، اولاد اور مفادات سے اوپر اٹھ جانا چاہیے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ انسان اپنی ذاتی زندگی اور ضروریات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دے مگر یہ اس دور میں نسبتاً بہت آسان ہوتا ہے کہ انسان ان چیزوں کے ساتھ سماج اور اپنی آخرت کو زندگی کا اہم ترین مقصد بنا لے۔
مگر اس راہ میں جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے وہ انسان کی عادات، سوچ اور شخصیت ہوتی ہے جو پرانے طرز پر پختہ ہوچکی ہوتی ہے۔ اس دور میں پرانی منفی عادات چھوڑ کر نئی عادتیں سیکھنا، منفی، جذباتی اور دنیا پرستانہ سوچ کو چھوڑ کر مثبت اور آخرت پسندانہ سوچ کو اختیار کرنا اور پرانی شخصیت کی غلط بنیادوں کو ڈھا کر درست بنیادیں اٹھانا ایک ہمت طلب کام ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ اس دور میں کرنے کا اگر کوئی کام ہے تو یہی کام ہے۔
اس کام کو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خود احتسابی کی عادت ڈالے، وہ اپنے آپ کو کوئی رعایت کوئی الاؤنس نہ دے، وہ دوسروں کی اچھی عادات اور سوچ کا مطالعہ کرکے خود کو ان کے مطابق ڈھال لے۔ جب ایک انسان مسلسل یہ کوشش کرتا ہے تو وہ بہت تیزی کے ساتھ بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر یہ ادھیڑ عمر جس میں انسان کے پاس بہترین وسائل، مکمل ذہنی پختگی اور اکثر حالات میں صحت و وقت دونوں ہوتے ہیں، انسان کو آخرت کی کامیابی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ ایسا شخص نہ صرف آخرت میں اعلیٰ مقام پائے گا بلکہ سماج کو بھی اس شخص سے بہترین خیر ملے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہی آخری دور دنیا و آخرت کو بنانے کا بہترین دور ہے۔
یہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںبے شک
جواب دیںحذف کریں