کسی جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
رات کو جب سونے کے لیے لیٹنے کا ارادہ کیا تو حسب عادت الارم لگانے کے لیے موبائل جیب سے نکالنا چاہا تو ہاتھ بچارہ اپنا سا منہ لے کر باہر آ گیا ۔یاد آیا کہ موبائل تو صبح سے داغ مفارقت دے گیا ہے ۔ موبائل کو ہاتھ میں نہ پا کر دل پر گھونسا سا لگا ، یہی گھونسا ہم نے تکیے پر دے مارا ۔الارم لگانا ضروری تھا تا کہ صبح بولتے وقت اس کا گلہ گھونٹ کر دلی تسکین حاصل کی جائے، اس لیے پرانے زمانوں سے کہیں پڑی ایک گھڑی (رسٹ واچ) یاد آئی ۔ اب لگے اسے ڈھونڈنے، مگر وہ تو ملنی تھی نہ ملی۔ لیکن ایک اور گھڑی نظر آ گئی موقع غنیمت سمجھ کر اسے ہی ہتھیا لیا ۔ مگر جب الارم لگانے لگے تو معلوم ہوا کہ گھڑی ساز اس میں الارم کی آپشن ڈالنا ہی بھول گیا ۔ شاید بیگم نے اسے فوراََ دہی لانے کا کہا ہو گا تو جلدی کے چکر میں الارم ڈالنا بھول گیا ہو گا ۔
خیر گھڑی کا سرہانے رکھ کر یہی سوچا کہ الارم لگا لیا ہے (تا کہ نیند آ جائے)۔نیند تو آ گئ مگر صبح جب آنکھ کھلی تو طبیعت میں عجیب بوجھل پن تھا ۔ حسب عادت موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھنا چاہا تو ہاتھ میں کالی سی کوئی چیز آ گئی ۔ گھبرا کر اسے نیچے پھینکا کہ شاید کوئی سانپ وغیرہ ہے ۔سانپ کا خیال آتے ہی دماغ جو کہ بیدار ہوتے ہوتے پانچ منٹ لے لیتا تھا فوراََ تین سو واٹ کے بلب کی طرح روشن ہو گیا ۔جلدی سے لائٹ کا بٹن دبایا اور لگے سانپ کو تلاش کرنے ۔ مگر سانپ نے کہاں جانا تھا ۔ غور سے دیکھا تو معلوم ہوا یہ تو وہی گھڑی تھی جس پر رات کو الارم لگانے کی لگاتار کوشش کی تھی کہ شاید لگ ہی جائے۔(یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس میں الارم کی آپشن نہیں ۔ ) طبیعت کے بوجھل پن پر غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ آج الارم نہ بجنے پر اُسے بند بھی نہ کر سکے اس لیے دل بوجھل بوجھل ہے۔
ناشتہ کرنے کے بعد کام کے لیے نکلنے لگےتو اچانک موبائل بجنے لگا ۔ خوشی سے دل ِبے قابو کو قابو میں کرتے ہوئے جیب سے موبائل نکالنا چاہا تو پتا چلا کہ بھائی کا موبائل تھا ۔ جس پر کال آئی تھی ۔ بڑی غیرت آئی کہ دیکھو بھائی تو موبائل پر بات کرے اور ہم جیبیں ٹتولتے رہ جائیں ۔ کاش !یہ دن دیکھنے سے پہلے ہم ‘مری’ گئے ہوتے، تاکہ جاتی سردیوں کا نظارہ کر سکتے وہاں پر۔
پتا نہیں آج دن کونسا ہے؟ اور تاریخ بھی یاد نہیں آ رہی ! مہینہ تو شاید اپریل کا ہے ۔ سال کا تو کنفرم ہے کہ 2016 ہی ہے۔ کوئی بے بسی سی بے بسی ہے ۔
سمجھ نہیں آ رہی میسج کیسے چیک کروں ؟ ضرور کوئی نہ کوئی میسج آیا ہو گا ۔ دل میں عجیب کھد بد سے مچی ہے ۔ لوگ سوچتے ہوں گے کہ ہم مغرور ہو گئے ہیں جو میسج کا جواب نہیں دے رہے ۔ سوچتے ہیں تو سوچتے رہیں ! ہم مغرور ہی سہی۔ نہیں دیں گے جواب۔ ہماری مرضی۔ ۔۔۔۔ ابے یہ کیسی سوچیں آ رہی ہیں ہمارے دماغ میں ؟ کیا ہم پاگل ہو گئے ہیں ؟
تیری راہوں سے ہوں بے خبر ۔ ۔۔ دیکھ آکر میری بے بسی ،
تجھ سے میں دورُ ہوں ۔ ۔ کتنا مجبور ہوں ۔ ۔دل کے زخم دکھاؤں کسے۔
میں اپنے ہی شہر میں اجنبی بن کر ۔۔۔ ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے
مجھکو آواز دے۔ مجھکو آواز دے۔
پتہ نہیں خوشی سے نیند آئے گی بھی یا نہیں.