موبائل نامہ ۔۔۔
دیہاڑی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
کسی جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
کسی جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ہمارا موبائل کیا چھنا ،ہمارے لیے تو جینا دو بھر ہو گیا ۔سارا دن ایسے
گزرا جیسے عاشق نامراد کا محبوب کی گلی کے چکر کاٹتے گزرتا ہے کہ شاید اس
بار دیدہ بے قرار کو چین آ جائے ۔صبح آنکھ ہمیشہ موبائل الارم سے کھلتی
ہے اور ہمیشہ سوتے میں ہی ہاتھ بڑھا کر اسے بھی سونے کا مشورہ دے کر خود
بھی سو جاتے ہیں ۔
رات کو جب سونے کے لیے لیٹنے کا ارادہ کیا تو حسب عادت الارم لگانے کے لیے موبائل جیب سے نکالنا چاہا تو ہاتھ بچارہ اپنا سا منہ لے کر باہر آ گیا ۔یاد آیا کہ موبائل تو صبح سے داغ مفارقت دے گیا ہے ۔ موبائل کو ہاتھ میں نہ پا کر دل پر گھونسا سا لگا ، یہی گھونسا ہم نے تکیے پر دے مارا ۔الارم لگانا ضروری تھا تا کہ صبح بولتے وقت اس کا گلہ گھونٹ کر دلی تسکین حاصل کی جائے، اس لیے پرانے زمانوں سے کہیں پڑی ایک گھڑی (رسٹ واچ) یاد آئی ۔ اب لگے اسے ڈھونڈنے، مگر وہ تو ملنی تھی نہ ملی۔ لیکن ایک اور گھڑی نظر آ گئی موقع غنیمت سمجھ کر اسے ہی ہتھیا لیا ۔ مگر جب الارم لگانے لگے تو معلوم ہوا کہ گھڑی ساز اس میں الارم کی آپشن ڈالنا ہی بھول گیا ۔ شاید بیگم نے اسے فوراََ دہی لانے کا کہا ہو گا تو جلدی کے چکر میں الارم ڈالنا بھول گیا ہو گا ۔
خیر گھڑی کا سرہانے رکھ کر یہی سوچا کہ الارم لگا لیا ہے (تا کہ نیند آ جائے)۔نیند تو آ گئ مگر صبح جب آنکھ کھلی تو طبیعت میں عجیب بوجھل پن تھا ۔ حسب عادت موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھنا چاہا تو ہاتھ میں کالی سی کوئی چیز آ گئی ۔ گھبرا کر اسے نیچے پھینکا کہ شاید کوئی سانپ وغیرہ ہے ۔سانپ کا خیال آتے ہی دماغ جو کہ بیدار ہوتے ہوتے پانچ منٹ لے لیتا تھا فوراََ تین سو واٹ کے بلب کی طرح روشن ہو گیا ۔جلدی سے لائٹ کا بٹن دبایا اور لگے سانپ کو تلاش کرنے ۔ مگر سانپ نے کہاں جانا تھا ۔ غور سے دیکھا تو معلوم ہوا یہ تو وہی گھڑی تھی جس پر رات کو الارم لگانے کی لگاتار کوشش کی تھی کہ شاید لگ ہی جائے۔(یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس میں الارم کی آپشن نہیں ۔ ) طبیعت کے بوجھل پن پر غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ آج الارم نہ بجنے پر اُسے بند بھی نہ کر سکے اس لیے دل بوجھل بوجھل ہے۔
رات کو جب سونے کے لیے لیٹنے کا ارادہ کیا تو حسب عادت الارم لگانے کے لیے موبائل جیب سے نکالنا چاہا تو ہاتھ بچارہ اپنا سا منہ لے کر باہر آ گیا ۔یاد آیا کہ موبائل تو صبح سے داغ مفارقت دے گیا ہے ۔ موبائل کو ہاتھ میں نہ پا کر دل پر گھونسا سا لگا ، یہی گھونسا ہم نے تکیے پر دے مارا ۔الارم لگانا ضروری تھا تا کہ صبح بولتے وقت اس کا گلہ گھونٹ کر دلی تسکین حاصل کی جائے، اس لیے پرانے زمانوں سے کہیں پڑی ایک گھڑی (رسٹ واچ) یاد آئی ۔ اب لگے اسے ڈھونڈنے، مگر وہ تو ملنی تھی نہ ملی۔ لیکن ایک اور گھڑی نظر آ گئی موقع غنیمت سمجھ کر اسے ہی ہتھیا لیا ۔ مگر جب الارم لگانے لگے تو معلوم ہوا کہ گھڑی ساز اس میں الارم کی آپشن ڈالنا ہی بھول گیا ۔ شاید بیگم نے اسے فوراََ دہی لانے کا کہا ہو گا تو جلدی کے چکر میں الارم ڈالنا بھول گیا ہو گا ۔
خیر گھڑی کا سرہانے رکھ کر یہی سوچا کہ الارم لگا لیا ہے (تا کہ نیند آ جائے)۔نیند تو آ گئ مگر صبح جب آنکھ کھلی تو طبیعت میں عجیب بوجھل پن تھا ۔ حسب عادت موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھنا چاہا تو ہاتھ میں کالی سی کوئی چیز آ گئی ۔ گھبرا کر اسے نیچے پھینکا کہ شاید کوئی سانپ وغیرہ ہے ۔سانپ کا خیال آتے ہی دماغ جو کہ بیدار ہوتے ہوتے پانچ منٹ لے لیتا تھا فوراََ تین سو واٹ کے بلب کی طرح روشن ہو گیا ۔جلدی سے لائٹ کا بٹن دبایا اور لگے سانپ کو تلاش کرنے ۔ مگر سانپ نے کہاں جانا تھا ۔ غور سے دیکھا تو معلوم ہوا یہ تو وہی گھڑی تھی جس پر رات کو الارم لگانے کی لگاتار کوشش کی تھی کہ شاید لگ ہی جائے۔(یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس میں الارم کی آپشن نہیں ۔ ) طبیعت کے بوجھل پن پر غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ آج الارم نہ بجنے پر اُسے بند بھی نہ کر سکے اس لیے دل بوجھل بوجھل ہے۔
خیر نہا کر نکلے تو ٹائم دیکھنے کے لیے موبائل
تلاش کیا مگر کہیں نہ ملا تو یاد آیا کہ وہ تو داغ مفارقت دے چکا ہے ۔
آئینے میں چہرے پر نظر پڑی تو کسی ایسےمسکین کی شکل نظر آئی جس کے محبوب
کو وصل کی رات پھلبیریا نکل آیا ہو۔
ناشتہ کرنے کے بعد کام کے لیے نکلنے لگےتو اچانک موبائل بجنے لگا ۔ خوشی سے دل ِبے قابو کو قابو میں کرتے ہوئے جیب سے موبائل نکالنا چاہا تو پتا چلا کہ بھائی کا موبائل تھا ۔ جس پر کال آئی تھی ۔ بڑی غیرت آئی کہ دیکھو بھائی تو موبائل پر بات کرے اور ہم جیبیں ٹتولتے رہ جائیں ۔ کاش !یہ دن دیکھنے سے پہلے ہم ‘مری’ گئے ہوتے، تاکہ جاتی سردیوں کا نظارہ کر سکتے وہاں پر۔
ناشتہ کرنے کے بعد کام کے لیے نکلنے لگےتو اچانک موبائل بجنے لگا ۔ خوشی سے دل ِبے قابو کو قابو میں کرتے ہوئے جیب سے موبائل نکالنا چاہا تو پتا چلا کہ بھائی کا موبائل تھا ۔ جس پر کال آئی تھی ۔ بڑی غیرت آئی کہ دیکھو بھائی تو موبائل پر بات کرے اور ہم جیبیں ٹتولتے رہ جائیں ۔ کاش !یہ دن دیکھنے سے پہلے ہم ‘مری’ گئے ہوتے، تاکہ جاتی سردیوں کا نظارہ کر سکتے وہاں پر۔
راستے میں جاتے ہوئے
کسی نے ٹائم پوچھا تو دل چاہا اس کا ٹینٹوا دبا دیں ۔ ابے کمینوں دیکھتے
نہیں موبائل نہیں ہے ہمارے ہاتھ میں ، تو ٹائم کیسے بتائیں ۔موبائل لیس
غریب کے ساتھ مستیاں کرتے ہو !
پتا نہیں آج دن کونسا ہے؟ اور تاریخ بھی یاد نہیں آ رہی ! مہینہ تو شاید اپریل کا ہے ۔ سال کا تو کنفرم ہے کہ 2016 ہی ہے۔ کوئی بے بسی سی بے بسی ہے ۔
سمجھ نہیں آ رہی میسج کیسے چیک کروں ؟ ضرور کوئی نہ کوئی میسج آیا ہو گا ۔ دل میں عجیب کھد بد سے مچی ہے ۔ لوگ سوچتے ہوں گے کہ ہم مغرور ہو گئے ہیں جو میسج کا جواب نہیں دے رہے ۔ سوچتے ہیں تو سوچتے رہیں ! ہم مغرور ہی سہی۔ نہیں دیں گے جواب۔ ہماری مرضی۔ ۔۔۔۔ ابے یہ کیسی سوچیں آ رہی ہیں ہمارے دماغ میں ؟ کیا ہم پاگل ہو گئے ہیں ؟
سارا دن اکارت گیا ۔ کوئی کام کرنے کو دل نہیں چاہتا ۔
دل میں کوئی چٹکیاں لیتا ہے ۔ لگتا ہے ہلکا ہلکا بخار ہے ( مگریہ سب تو
محبت کی علامات ہیں ) اللہ خیر کرے ۔
پچھلے دنوں خبر پڑھی تھی کہ
موبائل سے خطرناک شعائیں خارج ہوتی ہیں اس خود سے زیادہ سے زیادہ دور رکھا
کریں ۔ مگر آج معلوم ہوا کہ موبائل اگر دور رہے تو پورے جسم سے معلوم نہیں
کیسی کیسی شعائیں نکلتی ہیں، دماغ سائیں سائیں کرنے لگتا ہے ، کانوں میں
سیٹیاں سی بجنے لگتی ہیں ، نہ کھانے کو جی چاہتا ہے نہ پینے کو من۔ اب تو
بس اتنا ہی کہوں گا کہ:
کس سے پوچھوں میں تیرا پتا ۔۔ ۔لوگ اُڑاتے ہیں میری ہنسی
تیری راہوں سے ہوں بے خبر ۔ ۔۔ دیکھ آکر میری بے بسی ،
تجھ سے میں دورُ ہوں ۔ ۔ کتنا مجبور ہوں ۔ ۔دل کے زخم دکھاؤں کسے۔
تیری راہوں سے ہوں بے خبر ۔ ۔۔ دیکھ آکر میری بے بسی ،
تجھ سے میں دورُ ہوں ۔ ۔ کتنا مجبور ہوں ۔ ۔دل کے زخم دکھاؤں کسے۔
مجھکو آواز دے ۔ ۔
میں اپنے ہی شہر میں اجنبی بن کر ۔۔۔ ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے
مجھکو آواز دے۔ مجھکو آواز دے۔
میں اپنے ہی شہر میں اجنبی بن کر ۔۔۔ ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے
مجھکو آواز دے۔ مجھکو آواز دے۔
آج سکون کی نیند آئے گی ۔ کیونکہ نیا موبائل ہاتھ میں ہے ۔
پتہ نہیں خوشی سے نیند آئے گی بھی یا نہیں.
پتہ نہیں خوشی سے نیند آئے گی بھی یا نہیں.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں