ﻧﮧ ﮨﺮ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﺮﻧــﮯ ﻭﺍﻻ ﺧﻄﺎﻭﺍﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮬـــﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﮨﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ۔ ﯾﮧ ﺻﻔﺖ ﺗﻮ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮬـــﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﭼﮭــﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ...
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺧﻮﺵ ﺭﮦ ﺳﮑﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﻇﺮﻑ ﮐﮧ ﺍﻭﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﯿﮟ
ہماری روح کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ امر ربی ہے خواہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ انسانی تخلیق کی انتہا اسی روح کا افضل ترین درجہ پر پہنچ جانا ہے۔ روح کا یہی عروج انسان کو اللہ کا نائب بن جانے کے درجہ کا حق دار بنا دیتا ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب اللہ اور اس کے برحق رسولوں کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیمات پر عمل در آمد ہو۔ اللہ کی نازل کی ہوئی کتابوں سے ہدایت اور روشنی حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو ان ہی اصولوں پر استوار کر لیا جائے اور یہی کام ابلیس نے ہونے نہ دیا۔ اس نے سب سے پہلے اللہ کی کتابوں کو غائب کرا دیا اور اس کی جگہ لوگوں سے دوسری کتابیں لکھوادیں تاکہ اللہ کے احکامات سے انحراف ہو جائے اور انسانیت اپنے راستے سے بھٹک جائے۔ نہ ہدایت ہو ، نہ روشنی ہو ، نہ راستہ نظر آئے نہ کوئی سیدھے راستے پر چلے۔ یہی اس کا مطمح نظر تھا۔ انسانی روح کو نیچے گرانے کا ایک اور ذریعہ ذکر سے دوری ہے۔آج ہماری کتاب ہدایت اپنی اصل حالت میں اللہ کے حکم سے موجود ہے۔ الحمد للہ۔ ابلیس اس کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے دوسری چال چلی اور ہمیں ایسا بھٹکا یا کہ کتاب کی موجودگی کے باوجود ہم نہ اس کو کھول کر پڑھیں نہ سمجھیں نہ ہدایت پائیں۔ نہ فکر کریں نہ ذکر کریں۔ ہم لوگوں نے فکر اور ذکر کو یکسر بھلا دیا ہے۔ اس کی یہ خوبی ہے کہ یہ انسان کو اللہ کے نزدیک کردیتا ہے، سوچ کے اوپر قابو پانا سکھاتا ہے ، اُن معاملات کی سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے جو سرسری طور پر سمجھ میں نہ آتے ہوں، انسانی ذات میں نکھار پیدا کرتا ہے اور اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو واضح کرتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ہر بڑے آدمی نے ذکر و فکر وغیرہ کے عمل کے ذریعہ بلندی حاصل کی۔ مگر ہم نے ان اعمال کو فضول سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کو زبان کی تسبیح بنالینے اور سوچ کا محور کرلینے سے روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ بقول باوا جی کہ " جب جب آپ جسمانی چیزوں سے خود کو دور کرتے جاؤ گے آپکی روحانیت مضبوط ہوتی جاۓ گی آپ جسم کے لئے اپنا غرض چھوڑیں گے تو آپکی روح میں بے لوثیت آئے گی آپ جسم کا بدلہ چھوڑو گے تو روح میں صبر آئے گا . آپ جسم کے لئے دنیاوی مال چھوڑو گے تو روح میں حق کا کلمہ پڑھنے کی طاقت آئے گی .
اگر اسکے برعکس آپ دنیاوی مال کی طرف جاؤ گے تو آپکی روح سے شکر ختم ہوتا جاۓ گا آپ بدی کی طرف جاؤ گے تو آپکی روح کی فکر ختم ہوجانی اور جب آپ ظلم کی طرف جاؤ گے تو روح سکڑ کر جسم کے ایک کونے میں جا چھپتی ایک بوڑھے ٹی بی زدہ مریض کی طرح اور آپ دیکھو گے کہ ایسا شخص جو برائی میں پڑا ہوا ہوگا وہ کبھی بھی تنہائی پسند نہیں ہوگا کہ جب جسم تنہا ہوتا ہے تو روح اسکی تنہائی دور کرتی ہے پر جب روح ہی آنکھیں بند کر کے ایک کونے میں جا چھپی ہو تو تنہائی وحشت میں بدل جاتی ہے اور انسان جو کہ محض ایک جسم ہی رہ گیا ہوتا ہے دنیاوی چیزوں میں ہی نجات ڈھونڈتا ہے اور جہاں دنیاوی چیزوں کی طرف بڑھا سمجھو وہیں شیطان کے گڑھے میں گرا۔ .. "
آج کا آرٹیکل اسلئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں شیطان کے ممکنہ حملوں کا ذکر ہے کہ انسان کا نفس کب کہاں پاتا ہے وہ . جی ہاں نفس ...
حضرت یونس علیہ السلام کامچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا۔ جدید واقعات و تحقیقات کی روشنی میں
کاتب: طارق اقبال بتاريخ:
حضرت یونس ؑ کو اللہ تعالیٰ نے نینویٰ (موجودہ عراق کا شہر موصل )کی بستی کی ہدایت کے لیے بھیجا۔نینویٰ میں آپؑ کئی سال تک ان کو تبلیغ کی دعوت دیتے رہے ۔مگر قوم ایمان نہ لائی تو آپ ؑ نے ان کو عذاب کے آنے کی خبر دی اور ترشیش (موجودہ تیونس )کی طرف جانے کے لئے نکلے۔حضرت یونس ؑ جب قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے تو قوم نے آپ ؑ کے پیچھے توبہ کرلی ۔ دوسری طرف آپ ؑ اپنے سفر کے دوران دریا کو عبورکرنے کے لیے اسرائیل کے علاقہ یافا میں کشتی میں سوار ہوئے ۔کچھ دور جاکر کشتی بھنور میں پھنس گئی ۔ اس وقت کے دستور اور رواج کے مطابق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جب کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگ کر جارہا ہو اور کشتی میں سوار ہوتو وہ کشتی اس وقت تک کنارے پر نہیں پہنچتی جب
تک اس غلام کو کشتی سے اتار نہ لیں ۔
اب کشتی کے بھنور میں پھنسنے پر ان لوگوں نے قرعہ ڈالا جو حضرت یونس ؑ کے نام نکلا۔تین دفعہ قرعہ آپ ؑ کے نام ہی نکلا تو آ پ ؑ نے فرمایا کہ میں ہی غلام ہوں جو اپنے آقا کو چھوڑ کا جار ہا ہوں۔ آپ ؑ نے خود ہی دریا میں چھلانگ لگادی تاکہ دوسرے لوگ کنارے پر پہنچ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کے دل میں القا ء کیا اور حکم دیا کہ حضرت یونس ؑ کو بغیر نقصان پہنچائے ،نگل لے ۔ اس طرح آپؑ مچھلی کے پیٹ میں آگئے ۔یہ آپ ؑ پر ایک امتحان تھا۔
حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ میں جانے کی وجہ سے ” ذوالنون” اور ” صاحب الحوت” کہا گیا ہے کیونکہ نون اور حوت دونوں کا معنی مچھلی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ ۔۔ ﴿ الانبیاء ۔87﴾
(اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے)
دوسری طرف مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونے کے بعد حضرت یونس ؑ نے یہ سمجھا کہ وہ مرچکے ہیں مگر پاؤں پھیلایا تو اپنے آپ کو زندہ پایا ۔بارگاہ الہی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا او ر توبہ استغفار کی ،کیونکہ وہ وحی الہی کا انتظار اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لئے بغیر اپنی قوم سے ناراض ہوکر نینویٰ سے نکل آئے تھے ۔ پھر مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس ؑ نے اپنی خطا کی یوں معافی مانگی۔
فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿ الانبیاء ۔87﴾
(آخر کو اُس نے تاریکیوں میں پکارا “نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا )
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کی پرسوز آواز کو سنا اور دعا قبول کی تو مچھلی کو حکم ہوا کہ حضرت یونس ؑ کو جو تیرے پاس ہماری امانت ہے ،اُگل دے۔چناچہ مچھلی نے دریا کے کنارے حضرت یونس ؑ کو 40 روز بعد اُگل دیا۔وہ ایسی ویران جگہ تھی جہاں نہ کوئی درخت تھا نہ سبزہ ،بلکہ بالکل چٹیل میدان تھا ،جب کہ حضرت یونس ؑ بے حد کمزور و نحیف ہوچکے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت یونس ؑ نومولود بچے کی طرح ناتواں کمزور تھے ۔آپ ؑکا جسم بہت نرم ونازک ہوگیا تھا اورجسم پر کوئی بال نہ تھا۔چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت یونس ؑ کے قریب کدو کی بیل اُگا دی تاکہ اس کے پتے آپ ؑ پر سایہ کئے رہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کےبموجب ایک جنگلی بکری صبح وشام آپ ؑ کو دودھ پلا کر واپس چلی جاتی ،یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل ہی تھا ورنہ آپ ؑ ضعیف اور کمزور تر ہوتے چلے جاتے۔(بحوالہ تفسیر روح المعانی ،ابن کثیر)۔ قرآن مجید مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد حضرت یونس ؑ کی حالت کو اس طرح بیان کرتا ہے:
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ﴿145﴾ وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ ﴿146﴾
آخرکار ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیااور اُس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا۔ (الصافات)
آج کئی سو سال بعد جدید سائنس نے اتنی بڑی مچھلی کے موجود ہونے کی تصدیق کر دی ہے اور کئی تحقیقاتی ادروں نے اتنی بڑی مچھلیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ ذیل میں ہم وہیل یا عنبر مچھلی پر چند تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔
وہیل مچھلی کے متعلقہ جدید معلومات
ذیل میں ہم اس آبی جانور کی قامت وجسامت ،اوصاف و خصائل اور مخصوص عادات میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں تاکہ اس معجزے کے وقوع کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ سب اوصاف وخصائص کسی اور قسم کی وہیل یا مچھلی مثلاً شارک وغیرہ میں بیک وقت نہیں پائے جاتے ۔ اس لیے ان میں سے کسی ایک کا تعلق بھی اس معجزے سے نہیں ہوسکتا ۔
وہیل دراصل دیوپیکر عظیم الجثہ مچھلیوں کے ایک وسیع خاندان کا نام ہے ۔ جس میں بڑی وہیل ،بوتل کی ناک والی وہیل ،قاتل وہیل ،نیلی وہیل ،ڈولفن، پائلٹ وہیل اور ناروہیل شامل ہیں۔ وہیل عام مچھلیوں سے مختلف ہے ۔ ان کے برعکس یہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔جی ہاں !یہ پستان رکھنے والا جانور ہے ۔ یہ انسانوں کی طرح پھیپھڑوں سے سانس لیتی ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا خون گرم ہوتا ہے۔
وہیل کے منہ کے قریب دو نتھنے ہوتے ہیں جو تیرے وقت عموماًسطح سمندر سے اوپر ہوتے ہیں ۔چناچہ اسے سانس لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ یہ خاصی دیر تک گہرے پانی میں رہ سکتی ہے۔انسان صرف ایک منٹ تک سانس روکے ہوئے پانی میں رہ سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ تجربہ کار غوطہ خوروں کو بھی جو سمندر کی گہرائی سے سیپ اور موتی نکالتے ہیں ،ڈھائی منٹ کے بعد سطح پر آنا پڑتا ہے ۔ اس کے برعکس پور کوئیل وہیل ،جس کی پشت پر پَر ہوتے ہیں ،چالیس منٹ اور سپر م وہیل ایک گھنٹے سے زائد بغیر سانس لیے گہرے پانی میں رہ سکتی ہے ۔ ایک سپرم وہیل سطح سمندر سے 1134 میٹر نیچے گہرے پانی میں پائی گئی ۔ بالین وہیل کسی وجہ سے خو فزدہ ہ ہو تو چار پانچ سو میٹر گہرائی تک غوطہ لگا سکتی ہے ۔
وہیل کی جسامت چارتا سو فٹ اور وزن ایک سو پونڈ تا ڈیڑہ سو ٹن ہوتا ہے ۔ ایک مرتبہ 98 فٹ لمبی وہیل کو تولا گیا تو اس کا وزن ہاتھی کے وزن کے برابر نکلا۔ اس کی دم ہوائی جہاز کی طرح ہوتی ہے جس کا ایک سرا اوپر کی سمت اُٹھا ہوتا ہے۔ اس کی جلد شفاف اور چکنی اور منہ کے قریب مونچھوں کی طرح لمبے لمبےبال ہوتے ہیں۔وہیل کے دانت یکساں اور ایک ہی قطار میں ہوتے ہیں ۔اکثر اسے شکار کو پکڑنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ اس کے لئے تیرے وقت بس اپنا بڑھا سا منہ کھلا رکھنا ہی کافی ہوتا ہے کیونکہ بے شمار مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور اپنے آپ اس کاچارہ بننے کے لیے چلے آتے ہیں ۔ اگر دنیا میں وزنی اور بڑی زبان کا مقابلہ کیا جائے تو نیلی وہیل سرفہرست رہے گی کیونکہ اس کی زبان کا وزن 6 پونڈ کے لگ بھگ ہوتا ہے اور اس میں بے پناہ قوت ہوتی ہے ۔وہیل گینڈےکی طرح بلا کی پیٹو ہوتی ہے اور مسلسل کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہے ۔
وہیل کا منہ ہی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں بیس ،پچیس آدمی ایک ساتھ بڑی آسانی سے کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ مال گاڑی کا ایک ڈبہ وہیل کے منہ میں باآسانی رکھا جا سکتا ہے ۔ کلکتہ کے عجائب گھر میں وہیل کے گال کے دو کھوپڑے ہیں جو 25-30 ہا تھ لمبے ہیں ۔ وہیل کا جسم جتنا لمبا ہوتا ہے اس کا ایک تہائی منہ ہوتا ہے ۔
جسامت کے لحاظ سے وہیل کی ایک قسم جسے نیلی وہیل یا “بلو وہیل ” کہتے ہیں سب وہیلوں سے بڑی ہوتی ہے اس کی لمبائی 100-125 فٹ تک ہوتی ہے اور وزن 150 ٹن تک ہوتا ہے ۔ عنبر کی اوسط لمبائی 70- 60 فٹ تک ہوتی ہے اور اس کا وزن 90 ٹن تک دیکھنے میں آیا ہے ۔ نیلی وہیل کے مقابلے میں عنبر کی لمبائی اور وزن کم ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر بیل اور ڈاکٹر بینٹ نے ایک عنبر کی لمبائی 84 فٹ لکھی ہے ۔ ڈاکٹر بیل کے مطابق 36فٹ اور زمین پر لٹانے کے بعد اس کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 12 سے 14 فٹ ہوتی ہے ۔ عنبر وہیل کے مشہور شکاری بلن نے اپنی مشہور کتاب (Cruise of the Cacgalot)میں لکھا ہے کہ ایک عبنر کی لمبائی جو اس کے مشاہدے میں آئی 70 فٹ تھی ۔ یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ پیدائش کے وقت عنبر کے بچے کی لمبائی تقریباً 13،14 فٹ اور وزن ایک ٹن سے کچھ زائد ہوتا ہے ۔ دو سال میں اس کی لمبائی 24 فٹ اور وزن 4 ٹن تک ہو جاتا ہے ۔
اس کاحلق بہت فراخ اور وسیع ہوتا ہے ،جس سے یہ ایک لحیم و شحیم انسان کو با آسانی نگل سکتی ہے اور بعد میں خاص حالات میں اسے اگل کر باہر پھینک سکتی ہے ۔ اس کے خلق کے نیچے کئی جھریاں (Folds)بھی ہوتی ہیں اور جب اسے معمول سے زیادہ بڑی چیز نگلنا پڑ جائے تو ا س کا حلق جھریوں کے کھل جانے سے وسیع تر ہوسکتا ہے ۔ اور وہ ایک عام انسان کی جسامت سے بڑی اشیاء کو بھی باآسانی نگل سکتی ہے ۔
قرآن کی تین سورتوں میں حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے نگل لینے کا واقعہ آیا ہے ۔ بعض ماڈرن حضرات اس واقعہ کی اصلیت کو شک کی نظر دیکھتے ہیں کہ آخر اتنے دن تک آپ ؑ بغیر کھائے پئے چاروں طرف سے بند ایک اند ھیر ی کوٹھری میں زندہ کیسے رہے ؟بات یہ ہے کہ معجزات ہمیشہ محیر العقول ہوتے ہیں ،جن کو دیکھنے اور سننے والے حیران وششدر رہ جاتے ہیں ،ان کو معجزہ کہا ہی اسی لیے جاتا ہے۔ لیکن بحرحال یہ ایک حقیقت ہے اور زیر نظر واقعات ہم اسی حقیقت کے تناظر میں پیش کررہے ہی ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
دور نبوی ﷺ میں دیوقامت مچھلی کا وجود
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں :
حضور نبی کریم ﷺ نے ہم تین سو سواروں کو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کی قیادت میں کسی مہم پر روانہ فرمایا۔ہم ساحلی علاقے کی سمت نکل گئے اور ہمارا راشن ختم ہوگیا ۔غذائی کمی اتنی ہوگئی کہ ہم نے کانٹے دار جھاڑیاں بھی کھائیں ۔کیا دیکھتے ہیں کہ سمندر نے ایک بہت بڑی مچھلی ساحل پر پھینک دی ہے ۔ہم نے اس مچھلی کو آدھ مہینہ کھایا ۔پھر ابو عبیدہ ؓ نے ایک دن اس مچھلی کی پسلی لی اور اس کو کھڑا کیا ، ایک اونٹ پر سوار آدمی آرام سے اس پسلی کے نیچے سے گذر گیا ۔مدینہ واپس آکر ہم نے اس مچھلی کا کچھ گوشت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں روانہ کیا اور انہوں نے اسے قبول فرمایا۔
اس مچھلی کو عنبر کا نام دیا گیا ۔اب کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ دواؤں میں استعمال ہونے والا عنبر یا عبنر اشہب اسی مچھلی کا فضلہ ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے عنبر کا سراغ نبی ﷺ نے عطا فرمایا ۔ تین سو فاقہ ذدہ سواروں نے اس مچھلی کو صبح وشام 15 دن تک کھایا ۔جب مدینہ آئے تو ان کے تھیلوں میں ابھی بھی اس کا گوشت کا موجود تھا ۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اس میں سے نوش فرمایا کیونکہ سمندر کا شکار حلا ل ہے ۔ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مچھلی وہیل تھی۔
مچھلی کے پیٹ میں جانے کے جدید واقعات
جناب انتظام اللہ شہابی کی کتاب ’’جغرافیہ قرآن‘‘ (مطبوعہ انجمن ترقی ٔاردو، پاکستان) میں حضرت یونس علیہ السلام بن متی کو حضرت یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بن یامین کا سبط (نواسہ) لکھا ہے۔ اسی کتاب میں ’’مسلم راج پوت گزٹ‘‘ 1928ء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈاکٹر امروز جان ولسن، فیلو، کوئنز کالج آکسفورڈ(Dr. Imroz John Wilson, Fellow, Queen’s College Oxford)نے حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے بارے میں ایک مقالہ تھیولوجیکل ریویو میں تحریر کیا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں سانس لینے کے لئے کافی آکسیجن ہوتی ہے۔ اس کے پیٹ کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے جو انسان کے لئے بخار کا درجہ ہے1890ء میں ایک جہاز فاک لینڈ (Falkland) کے قریب وہیل مچھلی کا شکار کر رہا تھا کہ اس کا ایک شکاری جیمس سمندر میں گر پڑا اور وہیل مچھلی نے اسے نگل لیا۔ بڑی کوشش سے دو روز بعد یہ مچھلی پکڑلی گئی۔ اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ نکلا، البتہ اس کا جسم مچھلی کی اندرونی تپش کی وجہ سے سفید ہوگیا تھا۔ چودہ دن کے علاج کے بعد بالآخر وہ صحت یاب ہوگیا۔
1958ء ’’ستارۂ مشرق‘‘ نامی جہاز فاک لینڈ میں وہیل مچھلیوں کا شکار کررہا تھا اس کا ’’بار کلے‘‘ نامی ملاح سمندر میں گرا، جسے ایک مچھلی نے نگل لیا۔ اتفاق سے وہ مچھلی پکڑی گئی۔ پورا عملہ اسے کلہاڑیوں سے کاٹنے لگا۔ دوسرے دن بھی یہ کام جاری تھا کہ مردہ مچھلی کے پیٹ میں حرکت محسوس ہوئی۔ انہوں نے سمجھا کہ کوئی زندہ مچھلی نگلی ہوئی ہوگی۔ پیٹ چیرا تو اس میں سے ان کا ساتھی بارکلے نکلا جو تیل اور چربی میں لتھڑا ہوا تھا۔ بے ہوش بارکلے دو ہفتوں کے علاج سے ہوش میں آیا اور پھر صحت مند ہوگیا۔ اس نے اپنی بپتا سنائی ’’جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں ایک شدید سرسراہٹ محسوس کی جو ایک وہیل مچھلی کی دم سے پیدا ہورہی تھی۔ میں بے اختیار اس کی طرف کھنچا جارہا تھا۔ اچانک مجھے ایک تہ بہ تہ تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب میں نے اپنے آپ کو ایک نرم مگر تنگ راستے سے گزرتا ہوا محسوس کیا، یہاں حد درجہ پھسلن تھی۔
کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ میں ایک وسیع تر جگہ میں ہوں۔ اردگرد نرم، گداز اور چکنی دیواریں کھڑی تھیں، جنہیں ہاتھ سے چھوا۔ اب حقیقت کھلی کہ میں وہیل کے پیٹ میں ہوں۔میں نے خوف کی جگہ اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کی۔ موت کو لبیک کہنے کو تیار ہونے لگا۔یہاں روشنی بالکل نہ تھی البتہ سانس لے سکتا تھا۔ سانس لینے پر ہر بار ایک عجیب سی حرارت میرے اندر دوڑ جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگا۔ میری بیماری ماحول کی خاموشی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ اب جو میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو جہاز کے کپتان کے کمرے میں پایا۔ بارکلے کو ہسپتال میں داخل کردیا گیا جہاں وہ مکمل صحت یاب ہوگیا۔
یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو علم اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ کئی نامہ نگاروں نے انٹرویو لیا۔ ایک مشہور سائنسی جرنل کے ایڈیٹر مسٹر ایم ڈی پاول نے تحقیقِ احوال کے بعد واقعہ کی تصدیق کی اور لکھا ’’اس حقیقت کے منکشف ہوجانے پر میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، وہ حرف بہ حرف صحیح ہے اور اس میں شک کرنا ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانے کے برابر ہے۔(ماہنامہ ’’الحرم‘‘ میرٹھ (جنوری1959ء) ماخوذ از ’’دیواریں اور غاریں‘‘ از حافظ نذر احمد)
1992 ء میں آسٹریلیا کا 49 سالہ ماہی گیر ٹورانسے کائس وہیل مچھلی کے پیٹ میں 8 گھنٹے رہنے کے بعد معجزانہ طور پر بچ گیا ۔وہ بحرہند میں ایک چھوٹے ٹرالر پر مچھلیا ں پکڑ رہا تھا کہ سمندر کی ایک بڑی لہر اس کے ٹرالر کو بہا لے گئی ۔ وہ کئی گھنٹوں تک بے رحم لہروں کے چنگل سے آزاد ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ،لیکن ساحل تک نہ پہنچ سکا ۔ دن کی روشنی تاریکی میں بدل گئی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اسے روشنی کی کرن دیکھنا کبھی نصیب نہیں ہوگی ۔ اسی اثنا ء میں اس نے خو د کو ایک بھنور میں گرفتار پایا ۔ اسے ایسا لگا جیسے دوتین شارک مچھلیاں اس کی طرف بڑھ رہی ہوں لیکن جلد ہی اسے معلوم ہوگیا کہ وہ ایک بہت بڑی وہیل مچھلی کی زد میں ہے جو منہ کھولے اس کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ وہیل نے جلد ہی اسے اپنے منہ میں دبا لیا لیکن یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ جبڑوں میں ہی چمٹا رہا ،مچھلی کے مضبو ط جبڑے اسے معدے میں پہنچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ برابر اس کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے تھا اور یہی وجہ تھی کہ اسے آکسیجن مل رہی تھی اور وہ ابھی تک زندہ تھا۔ مچھلی کے پیٹ میں 8 گھنٹے گزرے تھے کہ ٹور انسے نے خود کو آسٹریلیا میں آگسا کے ساحل پر پایا ۔ دراصل مچھلی نے اسے نگلنے میں ناکامی پر اُگل دیا اور اس طرح اسے دوبارہ زندگی مل گئی ۔(مقامات انبیاء کا تصویری البم۔ از مولانا ارسلان بن اختر میمن۔ ص260-267)
Source: http://ranasillia.blogspot.com/2014/07/blog-post_10.html
حضرت یونس علیہ السلام کامچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا۔ جدید واقعات و تحقیقات کی روشنی میں کاتب: طارق اقبال بتاريخ: حضرت یونس ؑ کو اللہ ...
آپکا دماغ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے شعور اور لاشعور ۔ شعور آپ کے دماغ کا بہت چھوٹا حصہ ہوتا ہے جو آپ کے وجود کو وجود مانتا ہے اور اس طرح آپ کے فیصلے کب کیا کرنا ہے کرتا ہے ۔ جب آپ سائیکل چلانا سیکھتے ہیں تو آپکا شعور اس کام میں پیش پیش ہوتا ہے کہ کس طرح بیلنس کرنا ہے کس طرح پیڈل چلانے ہیں کب بریک مارنا ہے کب رفتار تیز کرنی ہے ان سب کاموں میں جب ہم بہتر طریقے سے مہارت حاصل کرلیتے ہیں تو یہ سارا ڈیٹا ہمارے لاشعور میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ جب ہم اگلی بار سائیکل کی سواری کرتے ہیں تو کسی خود کار مشین کی طرح آسانی سے انجام دے دیتے ہیں کیوں کہ ہم اب وہ کام اپنے لا شعور سے کررہے ہوتے ہیں ۔ لاشعور ہمارے دماغ کا بہت بڑا حصہ رکھنے والا حصہ ہوتا ہے جس میں آپ کے گرد و نواح کی تمام انفارمیشن خواہ وہ آپ کے کام کی ہوں یا نہ ہو اسٹور ہوتی جاتی ہیں اتنی باریک باریک ڈیٹیل تک آپ کے لا شعور میں منتقل ہوجاتی ہیں جن کے بارے میں آپ شعوری طور پر وہم و گمان تک نہیں کرسکتے ۔ آپ اپنے شعور میں صرف وہ چیزیں ہی لاتے ہیں جن چیزوں کی جس حد تک آپ کو ضرورت ہو باقی سب آپ کے لاشعور میں saveرہتی ہیں جو آپ کے خیالات ، جذبات اور موڈ تک بنانے میں کردار ادا کرتی ہیں یہ ایک ایسا عمل ہے جس پر آپ چاہتے ہوئے بھی قابو نہیں پاسکتے ۔ آپ کا لاشعور لاشعوری طور پر بہت ایسی کام کرتا ہے جس میں آپ کچھ نہیں کرسکتے مثلاً آپ کا سانس لینا ، آپ کے دل کا دھڑکنا، کھانے کا ہضم کرنا اور کسی بھی چیز کے متعلق آپ کے جذبات بنانا کوئی انسان کبھی بھی اپنے لاشعور کے متعلق شعور نہیں رکھ سکتا اور اس پر قابو پانا بھی لوہے کے چنے چبانے کے جیسا ہے ۔ آپ کا لاشعور ارد گرد کے ماحول جو آپ دیکھتے سمجھتے سنتے ہیں اس کے مطابق آپ کا سراپا تعمیر کرتا ہے ۔ جیسے اکثر بچپن سے عام طور پر ایک خؤف بچوں میں پایا جاتا ہے کہ وہ اندھیرے سے ڈرتے ہیں ظاہر ہے یہ خوف کوئی پیدا ہونے کے ساتھ تو نہیں لایا ہوگا نہ یہ خوف بچپن سے آپ کے اندر ڈالا جاتا ہے کبھی ماں باپ بھائی بہنوں یا کسی بڑے کی زبانی آپ کو اندھیرے سے ڈرایا جاتا ہےکوئی خؤفناک فلم ڈرامہ دیکھ کر یہ خوف آپ کے اندر سرایت کرجاتا ہے ایک خاص عمل ہوتا ہے hammering کاجس کے مقصد مسلسل ایک چیز بول بول کر آپ کے لاشعور کو یقین دلانا کہ یہ حقیقت ہے مسلسل ایک چیز سن کر ہمارا لاشعور اس بات پر ایمان لے آتا ہے اور جب اندھیرے سے سامنا ہوتا ہے تو غیر محسوس طریقے سے ہم ڈر جاتے ہیں ۔
بس یہی طریقے استعمال کر کے دجالی قوتیں مسلسل اپنا تسلسل قائم کرنے کے لئے بچپن سے ہمارے ذہنوں کے ساتھ کھیلتی رہتی ہیں یہ گھناؤنا کھیل عمر کے اسی حصہ سے شروع ہوجاتا ہے جب ہم اپنی شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہیں۔ جب ہم کارٹون دیکھنا شروع کرتے ہیں کہانیاں پڑھنا شروع کرتے ہیں جن میں اکثر اوقات ایک سپر ہیرو دکھایا جاتا ہے جو مختلف قوتوں کا حامل ہوتا ہے اور دنیا کا مسیحا ہوتا ہے بچپن میں ہر بچہ خود کو کھیل میں اسی مشہور سپر ہیرو سے تشبیہ دینا شروع کردیتا ہے اور اس جیسا بننا چاہتا ہے اور اس سے کافی انسپائر ہوجاتا ہے اور اس سو کے ساتھ بڑا ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسیحا آئگا دنیا کو بچانے والا تو وہ مختلف قوتوں کا حامل ہوگا۔یہ بھی س ہے کہ ہم میں سے تقریباً سب ہی اسی سو چ کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں ۔ جیسا کے میں نے اوپر بیان کیا کے اندھرے سے حقیقت سامنا کرنے پرہی وہ ڈر ہمارے اندر غیر محسوس انداز سے سرایت کر کے ہمیں محسوس ہوتا ہے تو اس طرح اللہ ہی بہتر جانتا ہے جب کوئی ایسی عجیب و غریب طاقتوں والا ہمارے سامنے آئے گا تو ہم میں سے کتنے غیر محسوس طریقوں سے اس کو نجات دہندہ مان لیں گیں ۔ اور یہ معاملات صرف ہمارے ساتھ نہیں پوری دنیا کی بات کررہا ہوں میں اس فتنہ سے بچاؤ کا واحد بہترین حل وہی hammering کا طریقہ ہے جو ہم خود پر استعمال کرسکتے ہیں اور وہ صرف ہماری روزانہ کی عبادات سے ہمارے ایمان کے پختہ ہونے پر ہی ممکن ہے۔اس طرح فتنوں کے اس دور میں ٹی وی کے ذریعے اور بہت سی چیزیں ہمارے لا شعور میں ڈالی جاتی ہیں جن میں کچھ خاص گانوں میں میں بیک گراونڈ کے الفاظ ہوتے ہیں جو ہمارا شعور تو نہیں سمجھ پاتا لیکن ہماری لاشعور با خوبی saveکرلیتا ہے جو ہمیں تشدد اور فحاشی کی تعلیم دیتا ہے ۔ اگر اسکی مثال ایسے لی جائے کے کچھ عرصے پہلے تک جو چیزیں ہم فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے جیسے نا چ گانے وہ آج کل اکثریت کا معمول ہے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ایوارڈ شو دیکھنا ایک نہایت معمولی بات ہے ۔ اس طرح visually ہمارے ذہن میں ایک آنکھ کا نشان اس طرح ڈالا جاتا ہے کے ہمیں محسوس تک نہیں ہوتا اس بات کے ثبوت کے لئے آپ صرف گوگل کریں دیکھیں جو فلمیں ڈرامے اور کارٹون آج تک آپنے دیکھے ان میں کتنوں میں آپ نے اس نشان کو لاشعور میں جانے کی اجازت دی بات پھر وہی ہے جب یہ نشان اپنی پوری طاقت کے ساتھ جلوہ پذیر ہوگا تب اس کے آگے آپ کے لاشعور کی انفارمیشن آپ کو کیا فیصلے اور جذبات عطا کرتی ہے۔ اللہ ہم سب کو اس فتنہ کے دور میں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ایمان کی حالات میں موت عطا کرے آمین ۔۔
۔ دماغ آپ کے وجود کا وہ اہم حصہ جو آپ کو چیزیں سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے ۔ آپ اپنے آس پاس کی چیزوں، حالات و واقعات کے بارے میں جو رائ...
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم سورۃ کھف ترجمہ : مولا فتح محمد جالندھری الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أ...
کچھ میرے بارے میں
مقبول اشاعتیں
فیس بک
بلاگ محفوظات
-
◄
2024
(4)
- ◄ اکتوبر 2024 (1)
- ◄ جنوری 2024 (3)
-
◄
2023
(51)
- ◄ دسمبر 2023 (1)
- ◄ اپریل 2023 (8)
- ◄ فروری 2023 (19)
- ◄ جنوری 2023 (8)
-
◄
2022
(9)
- ◄ دسمبر 2022 (9)
-
◄
2021
(36)
- ◄ دسمبر 2021 (3)
- ◄ اکتوبر 2021 (6)
- ◄ ستمبر 2021 (1)
- ◄ جولائی 2021 (8)
- ◄ فروری 2021 (7)
- ◄ جنوری 2021 (1)
-
◄
2020
(88)
- ◄ اکتوبر 2020 (5)
- ◄ اپریل 2020 (13)
- ◄ فروری 2020 (10)
- ◄ جنوری 2020 (16)
-
◄
2019
(217)
- ◄ دسمبر 2019 (31)
- ◄ نومبر 2019 (28)
- ◄ اکتوبر 2019 (27)
- ◄ ستمبر 2019 (18)
- ◄ جولائی 2019 (32)
- ◄ اپریل 2019 (11)
- ◄ فروری 2019 (7)
- ◄ جنوری 2019 (15)
-
◄
2018
(228)
- ◄ دسمبر 2018 (13)
- ◄ نومبر 2018 (18)
- ◄ اکتوبر 2018 (7)
- ◄ ستمبر 2018 (21)
- ◄ جولائی 2018 (7)
- ◄ اپریل 2018 (21)
- ◄ فروری 2018 (39)
- ◄ جنوری 2018 (38)
-
◄
2017
(435)
- ◄ دسمبر 2017 (25)
- ◄ نومبر 2017 (29)
- ◄ اکتوبر 2017 (35)
- ◄ ستمبر 2017 (36)
- ◄ جولائی 2017 (23)
- ◄ اپریل 2017 (33)
- ◄ فروری 2017 (34)
- ◄ جنوری 2017 (47)
-
◄
2016
(187)
- ◄ دسمبر 2016 (19)
- ◄ نومبر 2016 (22)
- ◄ اکتوبر 2016 (21)
- ◄ ستمبر 2016 (11)
- ◄ جولائی 2016 (11)
- ◄ اپریل 2016 (14)
- ◄ فروری 2016 (23)
- ◄ جنوری 2016 (10)
-
◄
2015
(136)
- ◄ دسمبر 2015 (27)
- ◄ نومبر 2015 (22)
- ◄ ستمبر 2015 (1)
- ◄ جولائی 2015 (10)
- ◄ اپریل 2015 (4)
- ◄ فروری 2015 (12)
- ◄ جنوری 2015 (9)
-
▼
2014
(117)
- ◄ دسمبر 2014 (5)
- ◄ نومبر 2014 (14)
- ◄ اکتوبر 2014 (11)
- ◄ ستمبر 2014 (11)
- ▼ جولائی 2014 (8)
- ◄ اپریل 2014 (5)
- ◄ فروری 2014 (14)
- ◄ جنوری 2014 (12)
-
◄
2013
(293)
- ◄ دسمبر 2013 (18)
- ◄ نومبر 2013 (21)
- ◄ اکتوبر 2013 (35)
- ◄ ستمبر 2013 (26)
- ◄ اپریل 2013 (59)
- ◄ فروری 2013 (30)
- ◄ جنوری 2013 (27)
-
◄
2012
(56)
- ◄ ستمبر 2012 (2)
- ◄ جولائی 2012 (2)
- ◄ فروری 2012 (14)
- ◄ جنوری 2012 (8)
-
◄
2011
(28)
- ◄ دسمبر 2011 (6)
- ◄ نومبر 2011 (22)