آج کی بات ۔۔۔24 فروری 2019


~!~ آج کی بات ~!~

‏" امراء آسائش نہ چھوڑیں 
صرف نمائش ہی چھوڑ دیں
تو غریبوں کی زندگی آسان ہوسکتی ہے ".

~!~ آج کی بات ~!~ ‏" امراء آسائش نہ چھوڑیں  صرف نمائش ہی چھوڑ دیں تو غریبوں کی زندگی آسان ہوسکتی ہے ".

آج کی بات ۔۔ 19 فروری 2019

↜ آج کی بات ↝

اللہ نے انسان کو جو سب سے قیمتی سرمایہ دیا ہے
 وہ اس کا وقت ہے
 اور اسی کا سب سے مشکل حساب دینا ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

↜ آج کی بات ↝ اللہ نے انسان کو جو سب سے قیمتی سرمایہ دیا ہے  وہ اس کا وقت ہے  اور اسی کا سب سے مشکل حساب دینا ہے۔ تبصرہ کر...

آج کی بات ۔۔۔ 18 فروری 2019

↜ آج کی بات ↝

تعصب ایک ایسی بیماری ہے
 جس میں ہم اپنی غلط بات کو غلط مان کر بھی نہیں چھوڑتے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

↜ آج کی بات ↝ تعصب ایک ایسی بیماری ہے  جس میں ہم اپنی غلط بات کو غلط مان کر بھی نہیں چھوڑتے۔ تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار ک...

مساجد کی تعمیر و ترقی اور اہمیت ... خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 15 فروری 2019

Image result for ‫مدینہ‬‎
مساجد کی تعمیر و ترقی اور اہمیت 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
10 جمادی الثانی1440 بمطابق  15 فروری 2019
امام و خطیب:  ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 10 جمادی ثانیہ1440 کا خطبہ جمعہ " مساجد کی تعمیر و ترقی اور اہمیت" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ انسان کو اللہ تعالی اچھے کاموں میں مصروف رکھے اور اسے خیر کے لئے بارش کا پہلا قطرہ بنا دے یہ انسان کی کامیابی کی علامت ہے، اور مساجد کی تعمیر و ترقی بھی انہیں خیر کے کاموں میں شامل ہے، مساجد آباد کرنے والے کے لئے قرآن مجید اور سنت نبوی میں عظیم اجر بیان کیا گیا ہے، مساجد اللہ تعالی کی محبوب ترین جگہ ہے، ان کی آباد کاری کی توفیق بھی چنیدہ لوگوں کو ملتی ہے، مسلم معاشرے میں مساجد عبادت کے ساتھ تعلیم و تربیت کا مرکز بھی ہوتی ہیں، اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ آ کر سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی، مسجدوں کی طرف اٹھنے والا ہر قدم نیکیوں میں اضافے اور گناہوں میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ مسجدوں کی صف بندی مسلمانوں کے منظم ہونے کا ببانگ دہل اعلان ہے، مسجدیں مسلمانوں کے لئے سماجی مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں، یہاں پر سب مسلمان ایک دوسرے کی بابت دریافت کرتے ہیں اور پھر ضرورت پڑنے پر باہمی مدد بھی کرتے ہیں، آخر میں انہوں نے سب کے لئے جامع دعا کروائی۔

↜ منتخب اقتباس ↝

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اللہ تعالی نے مساجد کو اپنے ہاں بہترین جگہ اور محبوب ترین خطہ قرار دیا، میں اپنے رب کے لئے حمد و شکر بجا لاتا ہوں؛ کیونکہ اس کی نعمتوں کا شمار نہیں اور اس نوازشیں نہ ختم ہونے والی ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، یہ گواہی میرے لیے فیصلے اور قیامت کے دن کام آئے گی، یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے راہِ الہی میں کما حقہ جہاد کیا اور ہمارے لیے خیر و بھلائی کا راستہ واضح فرمایا۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے جب لوگ پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے کے لئے اٹھیں گے۔

انسان کو اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی کامیابی میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان کو اللہ تعالی اپنی اطاعت گزاری میں مشغول رکھے، اسے لوگوں کے کام آنے کے لئے تیار کر دے، اور اسے خیر و بھلائی کا آغاز کار بنا دے۔

مساجد کی تعمیر و ترقی خیر و بھلائی کا کام ہے، اس کی توفیق اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے عطا فرما دے، اور اسے اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود شرف و فضیلت حاصل ہو جائے:
 {إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ}
 اللہ کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں نیز وہ اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ، یہ لوگ امید ہے کہ ہدایت پانے والے ہیں۔[التوبة: 18]

مساجد کو اللہ تعالی کی محبت میں اولین درجہ حاصل ہے، بقیہ کسی بھی جگہ کو یہ شرف حاصل نہیں ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین جگہ مساجد ہیں، اور اللہ تعالی کے ہاں مکروہ ترین جگہ بازار ہیں۔)
 مساجد اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین جگہ اس لیے ہے کہ یہاں پر ذکر الہی، نماز، تلاوت قرآن، اذان اور علمی مجالس منعقد ہوتی ہیں، نیز کلمہ توحید کا پرچار ہوتا ہے۔ انہی مساجد سے ہی علم و عرفان کی قندیلیں روشن ہوتی ہیں، مسلمان مساجد سے ہی دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور تزکیہ نفس پاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ(36) رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ}
 ان گھروں [یعنی مساجد] کو بلند کرنے اور ان میں اللہ کے نام کا ذکر کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرو۔ (36) جن لوگوں کو تجارت اور خریدو فروخت ؛اللہ کے ذکر ،نماز قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔[النور: 36، 37]

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کی زندگی میں مسجد کی اہمیت کو بھانپ لیا تھا، اسی لیے مدینہ آنے پر سب سے پہلے آپ نے مسجد کی تعمیر فرمائی، اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین نے بھی مساجد کی اہمیت کا خوب خیال رکھا، اور اس کے لئے بہترین طریقہ کار اپنایا۔

یہ قدم اللہ کے گھروں میں سے ایک گھر کی جانب بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ اٹھتے ہیں، یہ قدم کتنے شرف والے ہیں! اور ان قدموں کی آہٹ کس قدر عظیم ہے! کہ ہر قدم ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور درجہ بلند کر دیتا ہے، جس قدر آپ کا گھر مسجد سے دور ہو گا تو آپ پر اتنی ہی زیادہ رحمت کی برکھا برسے گی۔

اس لیے مسجد کی طرف جانے والے لوگو! آپ جتنے بھی قدم چل کر مسجد جائیں گے ہر قدم آپ کے لئے نیکی بن جائے گا، تو کیسے ہو سکتا ہے کہ مسجدوں کی جانب بڑھنے والے یہ قدم تھک جائیں، یا سستی اور کاہلی کا شکار ہوں، اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان سنائی دے رہا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص مسجد کی طرف صبح و شام بار بار آتا جاتا ہے تو جب بھی وہ صبح اور شام آتا اور جاتا ہے اللہ تعالی جنت میں اس کے لئے مہمانی تیار کر دیتا ہے۔) بخاری، مسلم

پھر مسجد میں صفیں سیدھی ہو جاتی ہیں اور ان صفوں میں صاحب ثروت غریب آدمی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، آقا اپنے خادم سے جڑ کر صف بناتا ہے، صف میں سب کے کندھے برابر ہوتے ہیں، پاؤں ایک دوسرے کے پہلو میں برابر ہوتے ہیں؛ صرف اس لیے کہ مساوات اور برابری کا اعلی ترین مفہوم اور منظر سامنے آئے۔

مسلمان مسجد میں ایک دوسرے سے مل کر مصافحہ کرتے ہیں، ایک دوسرے سے گھل مل جاتے ہیں، دل بھی آپس میں الفت محسوس کرتے ہیں، تو ایسے میں سب مسلمانوں میں الفت اور محبت کا دور دورہ ہو جاتا ہے، معاشرتی تفاوت مٹ جاتا ہے، اس طرح سب میں اسلامی اخوت مضبوط ہو جاتی ہے، مسجد میں اکٹھے نماز ادا کرنے کی یہ بہت عظیم حکمت ہے۔

مسجد میں مسلمان اپنے بھائی اور پڑوسی کا حال بھی دریافت کرتے ہیں، مثلاً: کسی غریب کو مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کرتے ہیں، کسی پریشان حال کی ڈھارس باندھ دیتے ہیں، کوئی مریض ہو تو اس کی عیادت کر کے درد بانٹے ہیں، کوئی یتیم ہو تو اس پر دست شفقت دراز کر کے اس کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں۔

مسجد میں نمازیوں کا اجتماع یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ امت نظم و نسق کے ساتھ رہنے والی امت ہے۔

چند رکعات معمولی جسمانی حرکتیں، شرعی الفاظ اور بول کے ساتھ منظم صفوں میں ادا کی جاتی ہیں کہ جب امام رکوع کرے تو مقتدی بھی رکوع کرتے ہیں، اور جب سجدہ کرے تو مقتدی بھی سجدہ کرتے ہیں، تمام مقتدی کسی بھی قولی یا فعلی عبادت میں آگے نہیں بڑھتے۔

یا اللہ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر متحد فرما دے، ہمیں تیری کتاب قرآن مجید پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، اور سنت نبوی سے ہمیں سنوار دے، اور ہمارے گناہوں کو بخش دے، بیشک تو ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

مسجد کی آباد کاری جس طرح مضبوط عمارت بنانے سے ہوتی ہے اسی طرح وہاں پابندی کے ساتھ دلوں کی ایمانی آبیاری سے بھی مسجدیں آباد ہوتی ہیں۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے۔ اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، نیز ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے دائمی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں جن میں کبھی تبدیلی یا کمی تک نہیں آئے گی۔

یا اللہ! ہم تجھ سے شروع سے لیکر آخر تک، ابتدا سے انتہا تک ، اول تا آخر ظاہری اور باطنی ہر قسم کی جامع بھلائی مانگتے ہیں، نیز تجھ سے جنتوں میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

مساجد کی تعمیر و ترقی اور اہمیت   خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 10 جمادی الثانی1440 بمطابق  15 فروری 2019 امام و خطیب:  ڈاکٹر عبد ا...

ہر موقعے کو غنیمت جانو۔۔۔۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)

Image
ہر موقعے کو غنیمت جانو!
 خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
جمعۃ المبارک 3 جمادیٰ الآخرۃ 1440ھ بمطابق 8 فروری 2019
امام وخطیب: فضلیۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد معیقلی
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمروزیر

الحمد للہ۔ یہ اسی کی نعمت ہے کہ بندوں کی نیکیاں قبول ہوتی ہیں، انہیں بار بار خیر وبرکت کے مواقع ملتے ہیں، تاکہ ان کے درجات بلند ہو جائیں اور ان کے گناہ مٹ جائیں۔ درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرح صدر عطا فرمایا، آپ کے بوجھ کو ہلکا کیا اور آپ کا ذکر بلند فرمایا۔ اللہ کی رحمتیں، سلامتیاں اور برکتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، نیک اہل بیت پر، پاکیزہ صحابہ کرام پر اور جب تک دن اور رات کا سلسلہ جاری ہے، ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔

بعد ازاں! اے مؤمنو!

اللہ تعالیٰ نے اگلوں اور پچھلوں کو یہی نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنے بلند وبالا الٰہ سے ڈرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پرہیزگاری ہی عزت، کامیابی اور نجات کا ذریعہ ہے۔ جو اس پر قائم رہتا ہے، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا اور جو اسے چھوڑ دیتا ہے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
’’اے لوگو جو عقل رکھتے ہو! اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی‘‘
(المائدہ: 100)

اے امت اسلام!

اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو پیدا فرمایا۔ انہیں زمین کو آباد کرنے اور اسے بہتر بنانے کا حکم دیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے۔‘‘
(ہود: 61)

بسانے میں ہر نفع بخش اور فائدہ مند چیز کی فراہمی شامل ہے، چاہے وہ چیز افراد کے لیے مفید ہو یا گروہوں کے لیے۔ جیسے زراعت، صناعت، عمارتیں بنانا اور گھر تعمیر کرنا، دفاعی اسباب اور طاقت کے ذرائع اپنانا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے  ہر وہ چیز فراہم کی ہے جو زمین میں بسنے کے لیے ضروری ہے۔ اس نے لوگوں کو اپنی ظاہر اور پوشیدہ نعمتیں کھول کر عطا فرمائی ہیں۔ کامیابی اور نجات کے مواقع عطا فرمائے ہیں۔ صاحب توفیق وہی ہے، جو ان مواقع کو غنیمت جانتا ہے، ان سے فائدہ اٹھانے میں سنجیدگی اور محنت دکھاتا ہے، اپنا بھی بھلا کرتا ہے اور اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ بھی ڈالتا ہے اور اپنی امت کو سربلند بھی کرتا ہے۔

اللہ کے بندو!

یہ مواقع قربِ الٰہی اور فرمان برداری کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں، ایسے کاموں کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں جن  کا فائدہ سب کے لیے عام ہو، ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ ڈالنے کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں، اعلیٰ مرتبے پانے کے مواقع بھی ہو سکتے ہیں، جنہیں معاشرے اور ملک کی خدمت کے لیے وقف کیا جا سکتا ہو یا اسلام اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود میں لگایا جا سکتا ہو۔

بلند ہمت والا وہی ہے جو اپنے لیے خود مواقع پیدا کرتا ہے۔ وہ ان کے انتظار میں نہیں بیٹھا رہتا کہ کب وہ اس کے دروازے پر دستک دیں گے۔ بلکہ وہ انہیں پانے میں خود پیش قدمی کرتا ہے۔ چاہے یہ مواقع دنیاوی اعتبار سے فائدہ مند ہوں یا آخرت کے حوالے سے۔

مُصَنَّف ابن ابی شیبہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں اس نکمے شخص کو سخت نا پسند کرتا ہوں جو نہ دنیا کے لیے کچھ کرتا ہے اور نہ آخرت کے لیے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور رسولوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

’’یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دَوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے‘‘
(الانبیاء: 90)

یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو نیکی کے کاموں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے اور کسی ایسے نیک کام کو نہیں چھوڑتے تھے جسے وہ کرنے پر قادر ہوں۔  وہ ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔

 یہ ہیں اللہ کے نبی موسی علیہ السلام ۔  جب رب العالمین کے ساتھ ہم کلام ہونے کے  بعد انہیں شرح صدر نصیب ہو گیا اور وہ جان گئے کہ جس کے ساتھ وہ مخاطب ہیں وہ رب الارباب ہے۔ تو انہوں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ دعا کی کہ:

’’پروردگار، میرا سینہ کھول دے (25) اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے (26) اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے (27) تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں (28) اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے (29) ہارونؑ، جو میرا بھائی ہے (30) اُس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبُوط کر (31) اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے‘‘
(طٰہٰ: 25-32)

تو اللہ تعالی نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا۔
’’فرمایا “دیا گیا جو تو نے مانگا اے موسیٰ‘‘
(طٰہٰ: 36)

جب زکریا علیہ السلام  مریم علیہ السلام کے پاس گئے تو وہ عبادت کے لیے تنہائی میں بیٹھی تھیں۔ ان کا نہ کوئی کمائی کا ذریعہ تھا اور نہ ہی کوئی تجارت تھی۔ اس کے باوجود ان کے پاس  بے موسم پھل موجود تھا۔  
پوچھا کہ ’’مریم!  یہ تیرے پا س کہاں سے آیا؟ اس نے جواب دیا اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے‘‘
(آل عمران: 37)

جب انہوں نے اللہ کے فضل اور رحمت الٰہی کا اثر دیکھا تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انہیں نیک بیٹا عطا فرمائے کیونکہ جو مریم  کو ذریعۂ کمائی کے بغیر بھی رزق دے سکتا ہے وہ بوڑھے انسان کو بیٹے سے بھی نواز سکتا ہے۔

’’یہ حال دیکھ کر زکریاؑ نے اپنے رب کو پکارا پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے (38) جواب میں فرشتوں نے آواز دی، جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ اللہ تجھے یحییٰؑ کی خوش خبری دیتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے و الا بن کر آئے گا اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہو گی، کمال درجہ کا ضابط ہو گا نبوت سے سرفراز ہو گا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا‘‘
(آل عمران: 38-39)

ایک تیسرا موقع، جو کہ بڑا ہی عجیب ہے، اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کا قصہ ہے۔  جب گھوڑوں کی وجہ سے  وہ ذکرِ اور شام کی نماز سے غافل ہو گئے تو انہیں سخت ندامت ہوئی اور انہوں نے تقرب الٰہی کے لیے وہی چیز کی قربانی دے دی جس نے انہیں غافل کیا تھا۔ آپ   نے ان سب گھوڑوں کو قربان کرنے کا اور ان کا گوشت صدقہ کرنے کا حکم دے دیا۔ آپ   نے ندامت وتوبہ کے اس موقعے کے ساتھ ساتھ رحمت الٰہی کے نزول کو بھی غنیمت جانا۔ دعا کی کہ:

’’اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو ہی اصل داتا ہے‘‘
(صٰ: 35)

اللہ تعالیٰ نے آپ   کی دعا قبول فرمائی اور انہیں بہتر نعم البدل نصیب فرمایا۔
ارشادِ ربانی ہے:

’’تب ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا (36) اور شیاطین کو مسخر کر دیا، ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور (37) اور دوسرے جو پابند سلاسل تھے (38) یہ ہماری بخشش ہے، تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے، کوئی حساب نہیں (39) یقیناً اُس کے لیے ہمارے ہاں تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے‘‘
(صٰ: 36-40)

رہی بات ہمارے نبی کی، اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو مواقع سے فائدہ اٹھانے میں بہترین نمونہ تھے۔ جب وہ مدینہ پہنچے اور موقع ملا تو فورًا ہی ذمہ داریوں کو تقسیم کر دیا۔ خصوصی قابلیت اور  صلاحیتوں کے مالک کو آگے کیا اور ان کے لیے مواقع پیدا کیے، بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کی ذمہ داری سونپی، خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  کو تلوار سے دین کی مدد میں لگایا، شعر وادب سے دین کی نصرت میں حسان رضی اللہ عنہ  کا کردار زیادہ رہا۔ اللہ تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جائے۔

مسند  امام احمد میں ہے کہ ایک روز  سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ درخت پر چڑھے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک مسواک توڑ کر لے آئیں۔ آپ کی ٹانگیں کمزور سی تھیں اور جب ہوا چلی تو وہ دائیں بائیں ہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر لوگ ہنسنے لگے۔   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:  کس چیز پر ہنس رہے ہو؟  لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول!  ان کی ٹانگوں کی کمزوری پر۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہی ٹانگیں میزان میں احد پہاڑ سے بھی بھاری ہوں گی۔


یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے لوگوں کو یہ بتا دیا کہ قیامت کے دن لوگ اپنی شکلوں اور جسامت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بہتر نہیں بنیں گے بلکہ اپنی نیکی اور اپنے اعمال کی بدولت ہی وہ بہتر بن سکیں گے۔  کیونکہ اللہ تعالیٰ شکلوں، رنگوں اور جسموں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔

موقع کو غنیمت جاننے کی ایک مثال وہ بھی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن عباس ﷠کی روایت میں آتی ہے  کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ستر ہزار لوگ بغیر کسی حساب یا عذاب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔  تو عُکّاشَہ بن مِحْصِن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول!  اللہ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہی میں شامل فرما دے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اسے اُن میں شامل فرما دے۔ پھر ایک اور انصاری صحابی اٹھے اور انہوں نے بھی کہا کہ اللہ کے رسول!  دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان میں شامل کردے۔  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عکاشہ سبقت لے گیا۔ عکاشہ سبقت لے گیا۔


اے میرے با برکت بھائی!  ذراغور کر کہ عکاشہ رضی اللہ عنہ نے کس طرح پیش قدمی کی اور موقع کو غنیمت جانا۔  پھر ایک ہی لمحے میں،  جی ہاں!  ایک ہی لمحے میں وہ جنت کو بغیر حساب اور عذاب کے پانے میں کامیاب ہوگئے۔

اے مسلمانو!

 نیکی کا ہر موقع غنیمت ہے۔  چاہے وہ بہت چھوٹا اور بظاہر بے وزن ہی کیوں نہ ہو؟ آگ سے بچنے کی کوشش کرو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے سے۔ جسے یہ بھی نہ ملے وہ لوگوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ملے۔

اے مومن بھائیو!

 یاد رکھو کہ کچھ مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا دوبارہ میسر آنا ممکن  نہیں ہوتا ۔ ان میں سے ایک موقع والدین کی  زندگی ہے۔ والدین کی  زندگی ۔ والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔ والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔  اگر چاہو تو اس دروازے کی حفاظت کرو اگر چاہو تو یہ موقع بھی گنوا دوں۔

 صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  وہ شخص ذلیل و رسوا ہو!  پھر ذلیل و رسوا ہوا!  پھر ذلیل و رسوا ہوا۔  کہا گیا:  کون؟ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے بڑھاپے کی حالت میں دونوں والدین مل جائیں یا دونوں میں سے ایک مل جائے اور پھر بھی وہ جنت میں نہ جا سکے۔

افسوس ہے اس شخص پر کہ جس نے والدین کی موجودگی کو غنیمت نہیں جانا اور اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور اب اس کے والدین اس کے پاس نہیں  رہے۔ یاد رکھو کہ اللہ کی خوشنودی والدین کی خوشنودی میں ہے اور اس کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔

 بعد ازاں!  اے مومنو!

انسان کی زندگی ہی اس کے لیے سب سے بڑا موقع ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ دیکھے، اگر وہ نیک عمل کر رہا ہے تو وہ مزید نیک عمل کرنے کی کوشش کرے اور اگر وہ گناہ کررہاہے تو توبہ کر لے اور اللہ کی طرف رجوع کر لے۔

مستدرک  امام حاکم میں  صحیح سند  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:   پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں  سے پہلے غنیمت جانو۔  اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے،  صحت اور تندرستی کو بیماری سے پہلے، مالداری کو فقر و فاقہ سے پہلے،  فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔

 انسان اپنی زندگی میں جتنا سنجیدہ ہو گا، جتنا اپنی خواہشات اور شہوات سے دور ہو گا اتنا ہی وہ موقع سے فائدہ اٹھانے والا ہوگا اور اس طرح وہ دوسروں سے آگے  نکل جائے گا۔ 

فرمان الہٰی ہے:

’’اور آگے والے تو پھر آگے وا لے ہی ہیں (10) وہی تو مقرب لوگ ہیں (11) نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے‘‘
(الواقعہ: 10-13)

یہ اللہ تعالی کی مہربانی ہے کہ اس نے زندگی کے آخری لمحے تک مواقع موجود رکھے ہیں۔

مسند  امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو جائے اور کسی کے ہاتھ میں پودا ہو تو اگر وہ اٹھنے سے پہلے اسے لگا سکے تو لگا کر ہی اٹھے۔

تو اے اللہ کے بندے!  اے اللہ کے بندے!  مواقع ختم ہونے سے پہلے ان سے فائدہ اٹھا لو۔  یاد رکھو کہ مواقع نعمتیں ہیں  اور نعمتیں،  اگر چھین لی جائیں تو عین ممکن ہے کہ وہ پھر کبھی نہ دی جائیں۔  ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

جس شخص کو اللہ تعالی نیکی کا کوئی موقع عطا فرمائے اور پھر وہ اس کا فائدہ نہ اٹھائے تو اللہ تعالی اسے یہ سزا دیتا ہے کہ وہ اس کے دل اور ارادے کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے ارادے کا مالک نہیں رہتا۔

’’جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے‘‘
(الانفال: 24)

جو اپنی سستی اور کاہلی کو اپنائے رکھتا ہے اور خود مواقع ضائع کرتا جاتا ہے تو اسے ایسے وقت میں ندامت کا سامنا ہوگا جس وقت اسے ندامت کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

’’اُس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اُس کے سمجھنے کا کیا حاصل؟ (23) وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اِس زندگی کے لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا!‘‘
(الفجر: 23-24)

تو اے میرے بھائی!  موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو اور اسے ضائع مت کرو۔ کیوں کہ عزت اسی میں ہے کہ مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ عمر کے پہلے حصے کو غنیمت جان کراس سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ جب یہ بڑھاپے کے ساتھ بڑھتی جائے گی تو کم ہوتی جائے گی۔

اے اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جس پر ہمارے معاملے کا دارومدار ہے۔ ہماری دنیا کی اصلاح فرما جس میں ہماری کمائی ہے۔ اور ہماری آخرت کی اصلاح فرما جس کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے۔  اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے! اپنی رحمت سے زندگی کو نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر برائی سے بچنے کا سبب بنا۔

اے اللہ! زوال نعمت سے، عافیت کے خاتمے سے اور تجھے ناراض کرنے والی ہر چیز سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔

آمین یا رب العالمین


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ہر موقعے کو غنیمت جانو!  خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) جمعۃ المبارک 3 جمادیٰ الآخرۃ 1440ھ بمطابق 8 فروری 2019 امام وخطیب: فضلیۃ ا...

وہ آن لائن ہے

Image result for status online

وہ آن لائن ہے

یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا نے دوریوں کو ختم کرکے لوگوں کو آپس میں بہت قریب کر دیا ہے، لیکن وہیں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس شوشل میڈیا کی وجہ سے نہ جانے کتنے رشتے، دوستیاں اور تعلقات تباہ و برباد ہوگئے اور لوگ ایک دوسرے کے متعلق بد گمانی کا شکار ہوگئے۔ چنانچہ جب لوگ ایک دوسرے کو میسج  یا کال  کرتے ہیں اگر فوری طور پر جواب نہیں ملتا تو بہت سے لوگ فورا بدگمانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کی منفی باتیں سوچنے لگتے ہیں اور شیطان بھی ایسے موقع سے فائدہ اٹھا کر دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتا ہے نیز غیبت چغل خوری ہے اور نہ جانے کون کون سے گناہ میں مبتلا کرا دیتا ہے۔ حالانکہ انسان اگر حسن ظن سے کام لے اور یہ سوچ لے کہ ممکن ہے سامنے والے کے ساتھ کوئی مجبوری ہو، کوئی پریشانی ہو یا وہ مصروف ہو ... وغیرہ ... وغیرہ ... تو اس طرح حسن ظن سے انسان اپنے اندر سکون و راحت بھی محسوس کرے گا اور بدگمانی کے گناہ سے بھی بچ جائے گا۔ 

ذیل میں کسی نے "آن لائن ہونے کا" اچھا تجزیہ پیش کیا ہے

❖ وہ آن لائن ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی سے بات کر رہا ہے۔

❖ وہ آن لائن ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جان بوجھ کر تمہیں نظرانداز کر رہا ہے اور تمہیں جواب نہیں دے رہا ہے۔

❖ وہ آن لائن ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فی الفور تمہارا جواب دینے کے لئے تیار ہے۔

❖ وہ آن لائن ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر وقت دوسروں کے لئے بیٹھا ہوا ہے۔

❖ وہ آن لائن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے خاص وقت میں آپ اس کو میسج یا کال کر کے زحمت دیں۔

❖ وہ آن لائن ہے مگر ممکن ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر کسی کا جواب دینے کے لئے آمادہ نہ ہو۔

❖ وہ آن لائن ہے مگر ممکن ہے کہ وہ اپنے دفتر میں فائلوں کو چیک کرنے میں مصروف ہو۔

 ❖ وہ آن لائن ہے مگر ممکن ہے کہ وہ اپنے عزیزواقارب سے کسی خاص مسئلے پر گفتگو میں مشغول ہو۔

 وہ آن لائن ہے مگر ممکن ہے کہ اس کا فون اس کے بچوں یا گھر میں کسی اور کے پاس ہو۔

❖ وہ آن لائن ہے مگر ہو سکتا ہے کہ وہ نیٹ آن کر کے سو گیا ہو یا کوئی اور وجہ پیش آگئی ہو۔

❖ وہ آن لائن ہے مگر ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی دستاویزی فلم وغیرہ دیکھنے میں مصروف ہو۔

❖ وہ آن لائن ہے مگر ممکن ہے کہ وہ کوئی تفریحی ویڈیو دیکھنے میں مشغول ہو۔

 الغرض دوسروں کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے اس لئے کہ بدگمانی نے بہت سارے مضبوط رشتوں کو بھی منتشر اور تباہ و برباد کر دیا ہے۔

لہذا ایسے موقع پر 
دوسروں کے لئے ہزار بہانے تلاش کرو اور حسن ظن سے کام لو۔
دوسروں کی پرائیویسی کا خیال اور احترام کرو اور شیطان کو اس کے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دو کیونکہ شیطان کی تو دن رات یہی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ کیسے دوست و احباب کے درمیان پیارومحبت کی جگہ نفرت وعداوت کی دیوار کھڑی ہو جائے۔

ارشادباری تعالی ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ). [الحجرات: 49/ 12]
اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں.

ارشاد نبوی ہے:
( إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيث)ِ [متفق علیہ]
کہ ’’ گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘

اللہ تعالی ہم سب کو ایک دوسرے کے متعلق حسن ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

وہ آن لائن ہے منقول از " مجھے ہے حکم اذاں " یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا نے دوریوں کو ختم کرکے لوگوں کو آپس میں بہت قریب کر د...

منبعِ بصیرت؛ فہم کتاب و سنت - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

Image result for ‫مدینہ‬‎
منبعِ بصیرت؛ فہم کتاب و سنت 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
21 جمادی اولی 1440 بمطابق 01 فروری 2019
امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر
بشکریہ دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 21 جمادی اولی 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "منبعِ بصیرت؛ فہم کتاب و سنت" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ دینی بصیرت انتہائی عظیم اور اعلی ترین نعمت ہے، بصیرت کتاب و سنت کے صحیح فہم کا نام ہے، مخلوق کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی ہو تو اس سے گریز کرنا بصیرت ہے، دین الہی پر استقامت بصیرت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بصارت صحیح ہو لیکن بصیرت نہ ہو تو انسان کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہو گا، جبکہ بصیرت نورِ کتاب و سنت سے منور ہو تو آنکھوں کا اندھا پن نقصان دہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد بصیرت بھی تھا، اور کلمہ توحید کے ذریعے انسان کو بصیرت عطا ملتی ہے، اسی لیے قرآن کریم کے مطابق کافروں میں بصیرت نہیں پائی جاتی، جبکہ اہل ایمان بصیرت سے معمور ہوتے ہیں، آخر میں انہوں نے حصول بصیرت کے لئے فہم کتاب و سنت کی ترغیب دلائی اور پھر تمام لوگوں کے لئے دعائیں کیں۔

☚ منتخب اقتباس ☛

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اسی نے دینی بصیرت رکھنے والوں کا رتبہ بلند فرمایا، انہیں دین کا محافظ اور اعلی اقدار کا عملی نمونہ بنایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک، اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا سخت سزا کا مستحق ہے وہ ہمیشہ جہنم میں ذلیل و رسوا ہو گا۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جس کے مقتدا اور امام آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں وہ کامیاب ہو گیا، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر دائمی رحمتیں ، برکتیں اور تسلسل کے ساتھ سلامتی نازل فرمائے ۔

اللہ تعالی کی جلیل القدر نعمتوں اور احسانات کی مالا میں دینی بصیرت بھی شامل ہے ۔

بصیرت: عقیدہ توحید اپنانے ،شرک سے بیزاری اور اللہ کی نافرمانی کی صورت میں مخلوق کی اطاعت نہ کرنے کا نام ہے۔

بصیرت: دین الہی پر یقین محکم اور عمل پیہم کا نام ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ}
 آپ کہہ دیں: یہ میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار علی وجہ البصیرت اللہ کی دعوت دیتے ہیں، اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ [يوسف: 108]

بصیرت: فطانت کا نام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: آنکھوں کا نور ختم ہو بھی جائے تو بصیرت کی روشنی ختم نہیں ہوتی۔

بصیرت: اللہ تعالی کی طرف سے دل میں ڈالا جانے والا نور ہے، یہ حق و باطل ، خیر و شر ، نیکی اور بدی میں تفریق کرتا ہے۔

مسلمانو!

نابینا بصیرت ؛ نابینا بصارت سے کہیں زیادہ سنگین، گراں اور ابتر شمار ہوتی ہے کیونکہ نابینا بصیرت حقیقی اندھا پن ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ}
 کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے جو کچھ سمجھتے سوچتے اور کان ایسے جن سے وہ کچھ سن سکتے؛ کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، لیکن اندھے تو وہ دل ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ [الحج: 46]

بصیرت: قرآن و سنت کا نام ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {قَدْ جَاءَكُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا}
 تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرتیں آ چکی ہیں۔ اب جو شخص ان بصیرتوں سے کام لے گا تو اس کا اپنا ہی بھلا ہے اور جو اندھا بنا رہے گا اس کا نقصان بھی وہی اٹھائے گا [الأنعام: 104] 

یعنی مطلب یہ ہے کہ: قرآن کریم اور سنت نبوی کی صورت میں اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے پاس دلائل اور نشانیاں آ گئی ہیں ، ان دونوں سے تمہارے دلوں کو اسی طرح معنوی روشنی ملے گی جیسے تمہاری آنکھوں کو حسی روشنی ملی ہوئی ہے۔ اس لیے قرآن و سنت کے نورِ بصیرت میں آگے بڑھتے چلے جائیں، وہموں اور گناہوں کی گھاٹیوں میں مت گریں۔

مسلمانو!

 تم گناہوں کے جوہڑ میں کس طرح گر سکتے ہو ؟! کہ تمہارے پاس کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں نور اور روشنی موجود ہے!!  چنانچہ تم اللہ تعالی سے اعلی ترین نورِ ہدایت مانگو، اور معمولی سے اندھیرے کو بھی معمولی مت سمجھو۔

جو اللہ تعالی کی نصیحتیں ، قرآنی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سن کر بھی حق بات قبول نہ کرے، اپنی آنکھوں پر باطل کی پٹی باندھے رہے تو وہی جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکا ہوا اندھا ہے!

اللہ تعالی نے انہی لوگوں کے آخرت سے متعلق نظریے کے بارے میں فرمایا:
 {بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْهَا بَلْ هُمْ مِنْهَا عَمُونَ}
 وہ کافر تو آخرت کے متعلق شک میں ہیں، بلکہ وہ آخرت کے بارے میں کورے ہیں۔[النمل: 66]

جبکہ اہل ایمان زیرک اور صاحب بصیرت ہوتے ہیں، اسی لیے مومن کی نگاہ تیز ، بصیرت تیر بہ ہدف، اور اس کے نقوش ان مٹ ہوتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ (19) وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ}
 نابینا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے ، نہ ہی اندھیرا اور اجالا۔[فاطر: 19، 20] 

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: " {وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ} یہ مثال اللہ تعالی نے اطاعت گزاروں اور نافرمانوں کے لئے بیان کی ہے۔"

کسی نے کیا خوب کہا ہے: " انسان کی چار آنکھیں ہیں: دو آنکھیں سر میں دنیا کے لئے تو دو آنکھیں دل میں آخرت کے لئے؛ چنانچہ اگر اس کی سر والی آنکھیں بے نور ہو جائیں لیکن دل کی آنکھیں بینا رہیں تو آنکھوں کی بے نوری اس کے لئے نقصان دہ نہیں ، لیکن اگر سر والی آنکھیں بینا ہوں اور دل کی آنکھیں بے نور ہو جائیں تو آنکھوں کی بینائی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ انسان کو ایسی سماعت اور بصارت کا کیا فائدہ جس کے ذریعے انسان حق سن نہ سکے اور رشد و ہدایت دیکھ نہ سکے!"

"دنیا دار کو اپنی آنکھوں کی ایسی بصارت کا کیا فائدہ کہ جس کے ہاں اندھیرا اور اجالا یکساں ہو جائیں!!"

اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے جو حق بات کو اپنے دل سے دیکھ لیتے ہیں، اور حق ان کی زندگی میں رہنمائی اور قبر میں نور کا باعث بنتا ہے۔

مسلمانو!

یہ اہل ایمان کی خوبی ہے کہ وہ بیدار دل ، اور زیرک عقل والے ہوتے ہیں، اللہ تعالی کے احکامات اور نواہی ، وعدوں اور وعیدوں کو سمجھتے ہیں، جب انہیں اللہ کی آیات سنائی جاتی ہیں تو انہیں اچھی طرح سمجھنے کے لئے قلب و جان کے ساتھ مکمل طور پر متوجہ ہو جاتے ہیں، اللہ تعالی کی نصیحت پر غفلت نہیں برتتے، اور عبادت سے رو گردانی نہیں کرتے۔ ان کا کردار ان لوگوں جیسا نہیں ہوتا جو آنکھوں سے اندھے اور کانوں سے بہرے ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا}
 اور جب انہیں ان کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی جائے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔ [الفرقان: 73]

مسلمانو!

عزت، رفعت، عظمت ، بلندی اور ترقی دینی بصیرت حاصل کرنے کا نام ہے۔

یا اللہ! ہمیں دینی بصیرت رکھنے والوں میں شامل فرما، یا اللہ! ہمیں دینی بصیرت رکھنے والوں میں شامل فرما، یا اللہ! ہمیں دینی بصیرت رکھنے والوں میں شامل فرما، تیری رضا کے لئے سجدے کرنے والوں میں شامل فرما، تیری رضا کے لئے سجدے کرنے والوں میں شامل فرما، تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرنے والوں میں شامل فرما، تیرے احکامات کے سامنے سرنگوں ہونے والوں میں شامل فرما، تیری شریعت کی تعظیم کرنے والوں میں شامل فرما، تیری شریعت کی تعظیم کرنے والوں میں شامل فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا کریم! یا عظیم! یا رحیم!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

منبعِ بصیرت؛ فہم کتاب و سنت   خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 21 جمادی اولی 1440 بمطابق 01 فروری 2019 امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد ...