نصیحت کے پھول

Related image

نصیحت کے پھول
منقول


ہم میں سے اکثریت یہ سوچ کر کسی کی اچھی نصیحت رد کر دیتی ہے " مجھے سمجھانے سے پہلے خود عمل کرو

یہ ضروری نہیں جو شخص آپکی اصلاح کر رہا ہو ، آپکو سیدھے راستے کی طرف نشاندہی کر رہا ہو ، آپ میں موجود کسی خامی کو دور کرنے کا کہہ رہا ہو وہ شخص خود اپنی ذات میں مکمل ہو ، عیب سے پاک ہو ، سیدھے راستے پر ہو ، 
ہو سکتا ہے وہ شخص بیسیوں خامیوں کا مجموعہ ہو لیکن آپ کو نصیحت کر کے وہ آپ کے اندر موجود کسی خامی کو دور کر کے آپکی ذات کو مکمل کرنا چاہتا ہو ۔ 

سچ پوچھیے تو بہت خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں کوئی نصیحت کرنے والا ملتا ہے ۔ 
گمراہ راہوں پر چلنے سے باز رکھتا ہے ۔۔ 
بظاہر غصہ آتا ہے جب آپ اپنے نفس کی خواہش پر چلنا چاہیں اور کوئی آپ کا بڑا ، آپ کا ہمدرد آپ کو سمجھائے ، آپ کو روکے لیکن جب ہمارے یہ بڑے ، یہ ہمدرد ہم سے منہ موڑ لیتے ہیں ، جب انکا سایہ اٹھ جاتا ہے تو پھر تمام عمر کان اس ایک جملے کو ترستے ہیں:

" بیٹا یہ نا کرو
" دوست ایسا مت کرو
"بھائی آپکی بھلائی کے لیے ہی کہہ رہا ہوں

ان الفاظ کا درد آج بھی سینے میں محسوس کرتا ہوں جب میلے کپڑوں میں ملبوس ایک کم سن بچے کو سگریٹ پیتے دیکھا تو پوچھا " بیٹا سگریٹ کیوں پیتے ہو ؟ کوئی منع کرنے والا نہیں ؟ ابو کچھ نہیں کہتے ؟؟
اسکا جواب میرے پاوں سے زمین کھینچنے کیلئے کافی تھا ۔۔۔ کہنے لگا ۔۔

" میرے ابو مر گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے دوستو ! جہاں سے نصیحت ملے لے لیا کرو ۔۔۔ یہ دیکھے بغیر کہ کہنے والا خود کتنا با عمل ہے ۔۔۔۔


نصیحت کے پھول منقول ہم میں سے اکثریت یہ سوچ کر کسی کی اچھی نصیحت رد کر دیتی ہے " مجھے سمجھانے سے پہلے خود عمل کرو ...

کیا فرق پڑتا ہے

Related image
کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔
تحریر: لبنیٰ سعدیہ عتیق

ــــــــــــــــ
شاید پہلے بھی لکھا ہو۔۔ پھر لکھ دیتی ہوں۔۔۔
بازار میں پیاس لگے، کوئی جوس خریدا، پیا اور خالی ڈبہ بیگ میں رکھ لیا، اسٹرا اور اسٹرا پہ چڑھی پتلی سی پنؔی سمیت۔۔۔۔
گھر لاکر کوڑے دان میں ڈال دیا۔
چاروں طرف کوڑا بکھرا ہوا ہے ایک ڈبے سے کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں
ـــــــــــــــــــ
گھر میں سودا آتا ہے، چائے کی پتؔی، گلوکوز، شیمپو، مچھر بھگائو کوائل، دوا اور اسی طرح کی مختلف اشیاء۔۔۔
سب کے گتے کے ڈبے، بوتل، صاف کاغذ، اسٹیل وغیرہ روزانہ کے کچرے میں پھیکنے کے بجائے ایک صاف شاپر میں جمع کرتی ہوں اور بھر جانے پہ گتا/کاغذ چننے والے کو دے دیتی ہوں، جسے وہ بیچ کر پیسہ کماتا ہے اور یہ اشیاء مکرر گھمائو یعنی ری سائیکلڈ ہوکر دوبارہ استعمال میں آتی ہیں۔۔۔
اتنی درد سری کی ضرورت نہیں، روز کا روز پھینک دوں ۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔۔
ــــــــــــــــ
نناوے فیصد ایسا نہیں ہوتا مگر کبھی بجلی کی مہربانی سے کوئی غذائی شے ناقابل طعام ہوجائے تو اسے باہر جاکر مٹی میں ڈال کر اسے مٹی سے ڈھانپ دیتی ہوں تاکہ مٹی میں مل کر کھاد بن جائے اور کوڑے دان میں سڑ کر بدبو کا باعث نا بنے۔
کھرپی اٹھا کر باہر نکل کر مٹی میں ڈال کر کھرپی سے مٹی ڈالنے سے آسان کوڑے دان میں پھینک دینا ہے۔۔۔ مگر نہیں
ــــــــــــــ
دھلائی کے دوران رکابی و پتیلیوں میں‌ کھانے کے کچھ نا کچھ  ذرے رہ جاتے ہیں۔ چائے بنا کر اسکی پتی بچ جاتی ہے۔ اسکے لئے ایک فاضل چھنؔی رکھی ہے جس سے تمام ذرات و پتی چھان کر برتن دھوتی ہوں تاکہ نکاس کے پائپ میں یہ ذرات جاکر اور جمع  ہو کر رکائو کا باعث نا بنیں۔۔۔
کبھی یہ رکائو آپ کے گھر کی نالی میں ہوتا ہے جس کے لئے آپ کو پیسہ خرچ کر کے خاکروب بلوانا پڑتا ہے اور کبھی یہ رکائو گلی کے گٹر میں ہوتا ہے جہاں سے ’خوشبودار‘ پانی بہہ کر آپ کی ناک کو آتے جاتے معطر کرتا ہے۔
دھلائی میں وقت ذیادہ لگتا ہے ۔۔۔۔ مگر خیر ہے۔۔
ـــــــــــــــ
بازار سے خریداری کر کے آؤ تو دس پندرہ ہر سائز کے شاپر ساتھ  آتے ہیں۔ آسانی تو یہ ہے کہ سامان نکالو اور شاپرز پھینکو مگر سارے شاپر جمع کرلیتی ہوں۔ ہلکا پھلکا کوئی سامان لینا ہو تو گھر سے شاپر لے کر جاتی ہوں اور ساتھ ہی جمع شدہ شاپرز کا بنڈل کسی نا کسی دکاندار کو پکڑا دیتی ہوں جسے وہ عموماً خوشدلی سے قبول کرلیتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــ
معلمہ فردِ واحد ہیں، شاید ان کے کچھ کرنے سے فرق تو کچھ نہیں پڑتا ۔۔۔
شہر کا کچرا کم نہیں ہوتا
تمام سوکھا کچرا مکرر گھمائو کا حصہ نہیں بنتا
تمام گیلا کچرا کھاد نہیں بنتا
گٹر ابلنے سے نہیں رکتا
کینسر کی وجہ بننے والے شاپرز ختم نہیں ہوتے
مگر مگر مگر
ایک احساس بہت خوش کُن ہوتا ہے
کہ
شہر کے پھیلے کچرے معلمہ کا حصہ نہیں ہے
کچھ اشیاء جو دوبارہ قابلِ استعمال ہوئی ہیں ان میں معلمہ کی کاوش شامل ہے
کوئی مسکرانا گلاب معلمہ کی بنائی کھاد کا ثمر ہے
گلی میں بہتا گندے پانی میں معلمہ سے گھر سے نکلا کوئی رکاوٹ ڈالنے والا مادہ شامل نہیں
نالوں میں پھنسے شاپرز میں کوئی معلمہ کا پھینکا ہوا نہیں
کیا آپ کے پاس بھی یہ احساس ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ تحریر: لبنیٰ سعدیہ عتیق ــــــــــــــــ شاید پہلے بھی لکھا ہو۔۔ پھر لکھ دیتی ہوں۔۔۔ بازار میں پیاس لگے، کوئی ...

آج کی بات ۔۔۔ 27 نومبر 2018

 ⇚ آج کی بات ⇛

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جسے عزت دی ہے اس کی عزت کرنا لازم ہے 
لیکن جسے ذلیل کیا اسے ذلیل کرنا ضروری نہیں۔

 ⇚ آج کی بات ⇛ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جسے عزت دی ہے اس کی عزت کرنا لازم ہے  لیکن جسے ذلیل کیا اسے ذلیل کرنا ضروری نہیں۔

رازِ زندگی

Image result for ‫راز زندگی‬‎

〜》 رازِ زندگی《〜
اقتباس از محمود الحق

جب دعویٰ عمل سے بڑا ہو تو دراز قد والا بھی چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کو جاننے والے راز زندگی پا جاتے ہیں۔ پھر جینا انہیں اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ انسانوں پر عدم اعتماد کی وجہ سے فطرت سے دل لگا لیتے ہیں۔ کیونکہ انسان کا  چلن کسی فارمولہ کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے لئے دودھ شہد کی نہر خود کھودتا ہے۔ دینا نہ بھی چاہے  تو اس کے بس میں ہے مگر دکھانے کا مکمل اختیار رکھتا ہے کیونکہ چھپانا اس کے بس میں نہیں۔ زندگی گزارنے والے سینکڑوں ملتے ہیں مگر جینے والے بہت کم اور وہ بھی عدم اعتماد رکھنے والے۔

درسگاہوں میں استاد تعلیم وہی دیتے ہیں جنہیں سلیبس میں رکھا جاتا ہے۔ امتحان وہی ہوتا ہے جو پڑھایا جاتا ہے۔ محنت کے صلے پاس یا فیل کی صورت میں نکلتے ہیں۔ علم درسگاہوں اور استادوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ تو پہاڑوں پر برسنے والی اس بارش کی مانند ہے جو اپنے راستے خود بناتی ہوئی  آبشاروں، ندیوں ،دریاؤں سے گزرتی سمندر تک جا پہنچتی ہے۔

〜》 رازِ زندگی《〜 اقتباس از محمود الحق جب دعویٰ عمل سے بڑا ہو تو دراز قد والا بھی چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کو جاننے والے راز زن...

سہولت کار

Related image

منقول

٭ برائی کو پھیلانے والے کتنے ہیں؟

٭٭ بہت ہی کم۔ شاید ایک فیصد بھی نہیں۔

٭ اور برائی کے خلاف جہاد کرنے والے زیادہ ہیں، شاید 2 فیصد یا 5 فیصد۔

٭٭ لیکن پھر بھی برائی پھیل رہی ہے۔

٭ آخر کیوں ؟

٭٭ کیونکہ زیادہ تر لوگ یعنی 98 فیصد یا 95 فیصد لوگ نیوٹرل رہنا پسند کرتے ہیں۔

٭ اور یہی نیوٹرل رہنے والے برائی پھیلانے والوں کے سہولت کار ہیں۔

سہولت کار منقول ٭ برائی کو پھیلانے والے کتنے ہیں؟ ٭٭ بہت ہی کم۔ شاید ایک فیصد بھی نہیں۔ ٭ اور برائی کے خلاف جہاد کرنے والے...

آج کی بات ۔۔۔ 25 نومبر 2018

↬آج کی بات ↫

اپنی زندگی میں اُصولوں کی حدود قائم کیجئے۔
 ان حدود کا یہ مقصد نہیں کہ لوگوں کو دور رکھے، 
بلکہ یہ تو خود کو محفوظ رکھنے کا ایک سمجھ دارانہ فعل ہے۔

↬آج کی بات ↫ اپنی زندگی میں اُصولوں کی حدود قائم کیجئے۔  ان حدود کا یہ مقصد نہیں کہ لوگوں کو دور رکھے،  بلکہ یہ تو خود کو محفوظ ...

خیر خواہی۔۔۔ دین کا بنیادی حصہ ۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 23 نومبر 2018

Related image

خیر خواہی۔۔۔ دین کا بنیادی حصہ
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
 15 ربیع الاول 1440 بمطابق 23 نومبر 2018
امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 15 ربیع الاول 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "خیر خواہی۔۔۔ دین کا بنیادی حصہ" ارشاد فرمایا جس انہوں نے کہا کہ قرآن کریم پر توجہ کر کے ہم دنیا اور آخرت میں کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں، اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوامع الکلم عطا کیے تھے، اس لیے ایسی احادیث کو اچھی طرح دیا بھی کریں اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لئے انہیں سمجھیں ، انہی احادیث میں سے ایک حدیث "دین خیر خواہی کا نام ہے۔۔۔" ہے اس کی انہوں نے مکمل شرح بیان کی اور بتلایا کہ کتاب و سنت کی روشنی میں اللہ تعالی، رسول اللہ، کتاب اللہ ، مسلمان حکمران، اور عامۃ الناس کی خیر خواہی کس طرح ممکن ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ خیر خواہی پیغمبروں کا شیوہ اور مومنوں کی امتیازی خوبی ہے، اگر انسان اپنے دل میں تمام لوگوں کے لیے خیر خواہی بسا لے تو انتہائی عظیم مقام پا سکتا ہے، آخر میں انہوں نے سب کے لئے کروائی۔

⤽منتخب اقتباس ⤼

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ عزت اور کرم والا اور تمام جانداروں کو پیدا کرنے والا ہے، اس کا فضل اور نعمتیں بہت وسیع ہیں، میں اپنے رب کی معلوم اور نامعلوم نعمتوں پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں وہ معزز ترین اور نہایت کرم کرنے والا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ کو اللہ تعالی نے جوامع الکلم سے نوازا، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد ، ان کی آل اور راہ راست پر چلنے والے صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اپناؤ اور اس کے لیے نیک اعمال کے ذریعے قرب الہی کی جستجو کرو، حرام کاموں سے بچو؛ کیونکہ متقی ہی کامیاب و کامران ہوں گے، جبکہ ہوس پرست اور کوتاہی برتنے والے نامراد ہوں گے۔

مسلمانو!

اپنا محاسبہ خود ہی کر لو قبل ازیں کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، دلوں کو غفلت سے بیدار کرو، اپنے نفوس کو حرام کاموں اور ان کی لذت سے روکو، گناہوں سے توبہ کر لیں اس سے قبل کہ موت آئے، امیدیں بکھر جائیں اور مزید عمل کرنا ممکن نہ رہے۔

آپ سالہا سال اور ایام تیزی کے ساتھ گزرتے دیکھ رہے ہیں، اس زندگی کے بعد موت ہی ہے، اور موت کے بعد یا تو نعمتوں والی جنت ہو گی یا درد ناک عذاب۔

آپ جس طرح فانی دنیا کے لئے کد و کاوش کرتے ہیں اسی طرح دائمی آخرت کے لئے بھی محنت کریں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى}
 بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو [16] حالانکہ آخرت بہتر اور دائمی رہنے والی ہے۔ [الأعلى: 16، 17]

مسلمانو!

قرآن کریم پر توجہ دیں اسی میں تمہاری عزت اور سعادت ہے، اسی سے تمہارے حالات سنور سکتے ہیں، اسی میں تمہاری موت کے بعد کامیابی ہے، فتنوں سے تحفظ بھی اسی سے ملے گا اور یہ فتنے قربِ قیامت تک بڑھتے چلے جائیں گے، یہ فتنے ایسے ہیں کہ ابتدائی طور پر واضح نہیں ہوتے، لیکن جب انتہا ہو جائے تو ان کے بارے میں آنکھیں کھل جاتی ہیں؛ چنانچہ ان فتنوں سے وہی محفوظ رہ سکے گا جو قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھام لے، اور ملت اسلامیہ کے ہم رکاب رہے، اس لیے کتاب اللہ پر غور و فکر کرو، اسی پر عمل پیرا رہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یاد کرو تا کہ دین قائم رہے، عقیدہ صحیح رہے اور عبادات مکمل ہوں، خصوصاً ایسی احادیث پر توجہ دو جن میں فضیلت والے اسلامی اعمال کے احکام جمع ہیں، ان احادیث کا معنی اور مفہوم ان پر عمل کرنے کے لئے اچھی طرح سمجھیں، سلف صالحین کا یہی منہج ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: 
{وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ} 
مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے [التوبہ: 100]

میں یہاں پر ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو کہ جوامع الکلم میں سے ہے، ہر حالت میں اس حدیث پر عمل ہر مسلمان مرد و زن کی ذمہ داری ہے، جسم میں جب تک روح باقی ہے اس وقت تک تمام آدمیوں اور عورتوں کے لئے اس پر عمل ضروری ہے، وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: (دین خیر خواہی کا نام ہے ) تو ہم نے کہا: "کن کی خیر خواہی؟" تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی ، کتاب اللہ، رسول اللہ، مسلم حکمرانوں اور عوام الناس کی) اس حدیث کو امام مسلم نے تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

نیز اس حدیث کو امام مسلمؒ کے علاوہ دیگر بہت سے محدثین نے روایت کیا ہے، یہ حدیث بہت عظیم حدیث ہے۔ امام ابو داودؒ کہتے ہیں: "فقہ پانچ احادیث کا نچوڑ ہے، پہلی حدیث: (حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔۔۔) دوسری حدیث: (نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی کسی اور کو نقصان دو) تیسری حدیث: (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے) چوتھی حدیث: (دین خیر خواہی کا نام ہے) پانچویں حدیث: (جس چیز سے میں تمہیں روک دوں اس سے فوری رک جاؤ، اور جس چیز کے کرنے کا حکم دوں تو اس پر حسب استطاعت عمل کرو)"

اور اس بات کی دلیل کہ اس حدیث پر عمل ہر مسلمان مرد اور عورت پر ہر حالت میں واجب اور ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ عبادات کو بعض مکلف افراد مرد یا عورتوں سے کسی عذر یا دیگر کسی سبب کی بنا پر ساقط کر دیا لیکن خیر خواہی کو کسی حالت میں بھی ساقط نہیں فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ}
 کمزور ،مریض اور وہ لوگ جن کے پاس انفاق فی سبیل اللہ کے لئے کچھ نہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کریں ۔ نیکی کرنے والوں پر [اعتراض ]کا کوئی راستہ نہیں، اور اللہ درگزر کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ [التوبہ: 91] 
تو اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ کسی بھی مسلمان کا ایک لمحے کے لئے بھی خیر خواہی سے عاری ہونا قبول نہیں ہے۔

عربی زبان میں "النصيحة" [خیر خواہی]نصح سے ہے، جو کہ کسی بھی چیز کو ملاوٹ، مٹی اور غیر متعلقہ چیز سے صاف کرنے کو کہتے ہیں، چنانچہ: "نَصَحَ العَسْلُ" اس وقت کہا جاتا ہے جب شہد کو موم سے صاف ستھرا کر لیا جائے۔


اس حدیث میں اللہ تعالی کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ سے محبت ہو، اللہ کے سامنے عاجزی اور انکساری ہو، شریعت الہی کے سامنے مکمل سرنگوں ہو کر تابعداری اس لیے ہو کہ اللہ کی رضا اور ثواب ملے، اللہ کے غضب اور عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کی اطاعت کریں، فرمان باری تعالی ہے: 
{إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (15) تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ} 
ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انہیں ان کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ [15] ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [السجدة: 15، 16]

اللہ تعالی کی عظیم ترین خیر خواہی یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی اور عبادت کی جائے، اخلاص، سنت نبوی، اور طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عبادت کریں، ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالی کے لیے بجا لائیں۔ دعا، مدد طلبی ،استغاثہ اور توکل اللہ پر ہی کریں ، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا}
 آپ کہہ دیں: میں تو اپنے پروردگار کو ہی پکارتا ہوں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔[الجن: 20]

اللہ تعالی کی بندگی اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ صفاتِ کمال اور جلال کا مالک ہے، وہ ہمہ قسم کے نقائص اور عیوب سے پاکیزہ اور منزہ ہے، ساری مخلوقات پر اسی کی نعمتیں ہیں، سب لوگ اسی کی رحمت کے سوالی ہیں، اس لیے اللہ کی عبادت اللہ تعالی سے خیرات ملنے کا باعث ہے۔ اللہ کی بندگی؛ زندگی میں اور زندگی کے بعد بلائیں ٹالنے کا باعث ہے۔ اللہ تعالی کی خیر خواہی یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے لیے ثابت کیا ہے اور جو کچھ اسما و صفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے لئے ثابت قرار دی ہیں انہیں اسی انداز سے ثابت مانا جائے جیسے سلف صالحین نے مانا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: آپ سے محبت ہو، آپ کا احترام کیا جائے، آپ کی سنت کی تعظیم ہو اور آپ کے احکامات کی تعمیل کریں، آپ کے منع کردہ کاموں سے بچیں، آپ کی شریعت کے مطابق اللہ کی عبادت کریں، آپ کی سیرت کو اپنائیں، آپ کی احادیث کی تصدیق کریں، ان احادیث کو آگے پھیلائیں، دین محمدی کی جانب لوگوں کو دعوت دیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا} 
کہہ دو: اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو، لیکن اگر تم پھر جاؤ تو رسول کے ذمے صرف وہ ہے جس کا وہ مکلف بنایا گیا ہے اور تمہارے ذمے وہ جس کے تم مکلف بنائے گئے اور اگر اس کا حکم مانو گے تو ہدایت پا جاؤ گے۔ [النور: 54]

کتاب اللہ کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: قرآن کریم کی تعظیم کریں، قرآن سے محبت کریں، اسے سیکھنے ، سکھانے اور قرآنی احکام سمجھنے کی پوری کوشش کریں، قرآن کریم کی صحیح انداز سے تلاوت کریں، قرآن کے احکامات کی تعمیل کریں اور ممنوعہ امور سے اجتناب کریں، پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کریں، قرآن کے حروف اور حدود کو یاد رکھیں، قرآن کریم کی تفسیر، معنی اور مراد کی معرفت حاصل کریں، قرآن کریم پر تدبر کریں، اپنا اخلاق قرآن کے مطابق بنائیں، قرآن و سنت کے فہم میں غلطی کھانے والوں کو جواب دیں، ان کی باطل باتوں کا رد کریں اور ان سے خبردار کریں۔ فرمانِ باری تعالی ہے: 
{إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ}
 بیشک یہ قرآن اسی کی رہنمائی کرتا ہے جو انتہائی مضبوط راستہ ہے۔[الإسراء: 9]

مسلم حکمرانوں کے لئے خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: حکمرانوں کے لئے خیر پسند کریں، ان کے عدل کو پسند کریں، ان کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کریں، انہیں دھوکا نہ دیں، ان کے ساتھ خیانت نہ کریں، ان کے خلاف بغاوت نہ کریں، ان کے خلاف مظاہرے نہ کریں۔ حق بات پر ان کے ساتھ تعاون کریں، گناہوں کے علاوہ ہر کام میں ان کی اطاعت کریں، ان کی کامیابی اور فیصلوں میں درستگی کی دعا کریں۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "اجتماعیت میں جو چیز تمہیں ناگوار ہے، وہ اختلاف میں تمہاری چاہت سے بہتر ہے۔"

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیف مقام پر اپنے خطاب میں فرمایا تھا: (تین چیزوں کے بارے میں کسی مسلمان کا دل کمی نہیں کرتا: عمل کرتے ہوئے اللہ کے لئے اخلاص، حکمرانوں کی خیر خواہی، اور ملت اسلامیہ کا التزام) اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

مسلمان عامۃ الناس کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: عوام الناس کو ان کے فائدے کی باتیں بتلائیں، انہیں دین سکھلائیں، ان کی عیب پوشی کریں، ان کی ضروریات پوری کریں، انہیں دھوکا مت دیں، خیانت سے کام مت لیں، ان سے حسد مت کریں، ان کی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر کریں۔

خیر خواہی انبیائے کرام اور رسولوں کی صفت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}
 بلاشبہ یقیناً تمہارے پاس تمہی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت گراں ہے، تمہارا بہت خیال رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ [التوبہ: 128]

اسی طرح نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
 {أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنْصَحُ لَكُمْ}
 میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں [الأعراف: 62]

ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: 
{أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ}
 میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارے لیے ایک امانت دار، خیر خواہ ہوں۔ [الأعراف: 68]

ایسے ہی صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
 {لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ}
 بلاشبہ یقیناً میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی [الأعراف: 79]

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور و فکر کرو:
 {وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ} 
مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے دوست ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا، بے شک اللہ سب پر غالب اور کمال حکمت والا ہے۔ [التوبہ: 71]
 اس آیت میں مسلمانوں کے باہمی تعاون، مدد، خیر خواہی، تکافل، اخوت، مودت اور شفقت کا ذکر ہے۔

ابو بکر مزنی ؒ کہتے ہیں: "ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ کرام پر نماز اور روزے کی وجہ سے امتیازی مقام نہیں رکھتے تھے، بلکہ یہ ان کے دل میں کسی چیز کی وجہ سے تھا" اس کی تفصیل میں ابن علیہؒ کہتے ہیں: "سیدنا ابو بکر کے دل میں جو چیز تھی وہ اللہ کی محبت اور خلق خدا کی خیر خواہی تھی"

اور جناب حکیم بن ابو یزید اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ: (جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ طلب کرے تو اسے خیر خواہی پر مبنی مشورہ دے) اس حدیث کو احمد نے اور طبرانی نے الکبیر میں روایت کیا ہے۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
 یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56] اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا) اس لئے سید الاولین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد۔

یا اللہ! یا ذالجلال والا کرام! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اگلے ، پچھلے ، خفیہ ، اعلانیہ سارے گناہ معاف فرما دے، وہ بھی معاف فرما جنہیں تو ہم سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی تہہ و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کے قریب کرنے والے قول اور فعل کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم کے قریب کرنے والے ہر قول اور فعل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم عذاب قبر اور جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے سب معاملات کے نتائج بہتر فرما دے، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ }
اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [النحل: 90، 91]

صاحب عظمت و جلالت کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اللہ تعالی اسے جانتا ہے ۔

خیر خواہی۔۔۔ دین کا بنیادی حصہ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)  15 ربیع الاول 1440 بمطابق 23 نومبر 2018 امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر ...

ہماری تباہی اور اسوہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)


ہماری تباہی اور اسوہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
ڈاکٹر محمد عقیل


آخر کیا وجہ ہے کہ رسول کریم کا اسوہ مبارک ہم سب کے لیے نمونہ ہے لیکن مسلمان اس کوسوں دور معلوم ہوتے ہیں؟
آئیے جذبات سے بالاتر ہوکر اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

سب سے بڑی وجہ تو ظاہر پرستی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بننا ہے تو اپنا ظاہر ان کے مطابق کرنا ہوگا۔ داڑھی کم از کم ایک مشت ہونی چاہیے، ٹخنوں سے اوپر پائنچے ہونے چاہئیں، سر پر ٹوپی یا عمامہ وغیرہ۔ حالانکہ نبی کریم کے جس اسوہ کو مشعل راہ بنایا گیا وہ آپ کا ظاہری حلیہ نہیں بلکہ باطنی کیفیت تھی۔ وہ ایمان جو بندے کو خدا کے قریب کرتا، وہ تعلق باللہ جو اس کی شخصیت کا تزکیہ کرتا، وہ رب سے محبت جو اس کی انا کو جھکا دیتی، وہ اطاعت خداوندی جو اس کے گفتار کو درست کرتی اور اس کے کرادر کو اجلا بنادیتی ہے۔ ظاہر پرستی ہی کی بنا پر ہم نبی کی اصل شخصیت سے دور ہوگئے ہیں۔ 

ایک اور وجہ نبی کریم سے ادھورا تعلق ہے۔ ہماری اکثریت نبی کریم سے جذباتی وابستگی تو رکھتی ہے لیکن عقلی طور پر اسے علم ہی نہیں کہ آپ کی نبوت کی اصل دلیل کیا ہے؟ اور آپ کن علمی  بنیادوں پر خدا کے سچے پیغمبر کہلائے جاتے ہیں؟ اس کم علمی کی بنا ہمارا نبی سے تعلق جذبات کی حد تک ہوتا ہے اور اس کی کوئی زیادہ عقلی گہرائی نہیں ہوتی۔ چنانچہ جذباتی موقعوں پر ہم نبی کے لیے مرنے کا دعوی کرنے کو تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن ان کے مطابق جینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ مرنے کا دعوی کرنے لیے محض ایک جذباتی اور وقتی ابال  کافی ہوتا ہے جبکہ نبی کے طریقے کے مطابق جینے کے لیے عقلی تعلق بھی چاہیے ہوتا ہے اور مسلسل نفس کو مجاہدے سے گزارنا پڑتا ہے ۔ اسی بنا پر نبی کا مقام ہمیں عید ، بقرعید، بارہ ربیع الاول اور چند اور مقامات پر تو یاد آتا ہے لیکن ہماری روزمرہ زندگی میں اس کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہوتا۔
ایک اور وجہ نبی کریم کے مشن اور پیغام کو محض چند رسمی عبادات تک محدود کردینا اور باقی زندگی کے معاملات کو سنت یا آپشنل مان لینا ہے۔ چنانچہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی بات کی جاتی ہے تو معاملات نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ اور قرآن کے تلفظ  کو حلق  سے نکالنے   سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ زیادہ محبت کا مظاہر ہ کرنا ہوتو کھانے کے  بعد میٹھا کھانے، سیدھی کروٹ نیند لینے، داڑھی ایک مشت کرنے اور دیگر ظاہری امور پر توجہ کرنے ہی کو مذہب سمجھا جاتا ہے۔حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ مذہب یا دین کا بنیادی مقصد صراط مسقتیم یا وہ راہ دکھانا ہے جس کے ذریعے بندہ خدا تک پہنچ جاتا اور دنیا و آخرت میں سرخروہوجاتا ہے۔ یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل پیغا م تھا کہ بندوں کو خدا سے ملانا، بندوں کو بندگی سکھانا اور ان کے نفس کو تربیت سے گزار کر آگے ارتقا کے مراحل طے کرانا۔ جب تک یہ فلسفہ واضح نہ ہو، نبی کریم کے مشن سے آگاہی ممکن ہی نہیں۔ اور جب آگاہی ہی نہیں ہوگی تو عمل کیسے ہوگا؟ 

ایک اور وجہ سنت کے تصور کا غلط اطلاق ہے۔سنت وہ اعمال نہیں جو نبی کریم نے کلچر، عادت، ذوق یا کسی اور ذاتی وجہ سے اپنائے۔ سنت وہ طریقہ ہے جس پر چل کر وہ خود خدا تک پہنچے اور جس پر چل کر ہم بھی خدا کی رضا حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ زبان کی سنت گالیوں کے جواب میں بھی میٹھا بولنا ہے۔ ہونٹوں کی سنت مشکلات میں بھی مسکراتے رہنا ہے۔ ہاتھ کی سنت اس سے کسی کو ناحق نقصان پہنچانے سے گریز کرنا ہے۔ نگاہوں کی سنت اسے خدا کے حکم کے مطابق پست  رکھنا ہے۔ سیاست کی سنت اقتدار کی ہوس کی بجائے انسانوں کی خدمت ہے۔ ۔  تجارت کی سنت دیانتداری سے لین دین کرنا ہے۔ ملازمت کی سنت ایمانداری سے اپنا کام کرنا ہے، معاشرت کی سنت حسن سلوک اور عہد کو مشکل حالات میں بھی نبھانا ہے۔

آخری معاملہ ہمارے قول فعل کا تضاد ہے۔ نبی کریم نے کبھی وہ دعوی نہیں کیا جس پر  آپ نے عمل نہ کیا ہو۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہِیں اور جو کرتے ہیں وہ بیان نہیں کرتے کیونکہ وہ  شاید بیان کرنے کے لائق ہی نہیں ہوتا۔ ہم جو جو اشیاء بیچتے ہیں ان کے بارے میں کہتے کچھ اور ہیں اور ان کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ ہم تنخواہ پوری لیتے ہیں اور کام ادھورا کرتے ہیں۔ ہم دعوی خدا پرستی کا کرتے ہیں اور پوجا اپنی خواہش کی کرتے ہیں۔ ہم بات حیا کی کرتے ہیں اور میڈیا میں بے حیائی کو دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔ ہم بات نرم گوئی کی کرتے ہیں اور جلسوں میں گالیاں نچھاور کرتے ہیں۔  ہم بات بھائی چارے کی کرتے ہیں اور سیاسی و کاروباری مخالفت میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتےہیں۔ ہم بحیثیت فرد، جماعت اور ادارہ اسی قول و فعل کا شکا رہیں جس کی قرآن و سنت نے سختی سے مذمت کی ہے۔ 

جب تک ان سب باتوں کی اصلاح نہیں ہوگی ، خدا کی مدد ہمارے پاس نہیں آئے گی ۔ اگر ہم ان حقیقی سنتوں کو نہیں اپنائیں گے تو یونہی ملاوٹ شدہ اشیاء ہمارا مقدر بنی رہیں گی، ہسپتال میں مریض سسکتے رہیں گے، منبروں سے قتل کا پیغام ملتا رہے گا، بد سے بدتر حکمران مسلط ہوتے رہیں گے، گل محلے تعفن سے سڑتے  رہیں  گے، عورتوں اور بچوں  کی عزتیں لٹتی رہیں گی، قتل و غارت گری جاری  رہے گی اور تنزلی و تباہی تھمنے کا نام نہیں لے گی۔ 

یہ سب کچھ ہوتا رہے گا خواہ ہم کتنے ہی میلاد منعقد کرلیں، کتنی ہی خوشیاں منالیں، کتنا ہی شور مچا کر نبی کی محبت کا اعلان کرتے پھریں۔ لیکن نبی کے ساتھ اگرجذبات کے ساتھ ساتھ عقلی و روحانی  تعلق قائم نہیں کیا، نبی کی ظاہری سنتوں کے علاوہ حقیقی سنتوں پر عمل نہیں کیا، نبی کے مشن کو رسمی عبادت سے آگے بڑھا کر معیشت ، معاشرت، اخلاقیات و معاملات تک وسیع نہیں کیا تو پھر عید میلاد النبی آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے ، لوگ خوشیاں مناتے رہیں گے لیکن خدا کے فرشتے افسوس کے ساتھ یہ پڑھتے ہوئے گذرجائیں گے کہ ۔

صم بکم عمی فہم لایرجعون۔۔۔۔۔

 یہ اندھے ، گونگے بہرے لوگ ہیں جو ہرگز اپنی غلطی سے رجوع کرنے والے نہیں۔

ہماری تباہی اور اسوہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ڈاکٹر محمد عقیل آخر کیا وجہ ہے کہ رسول کریم کا اسوہ مبارک ہم سب کے لیے نمونہ ...

آج کی بات۔۔۔۔ 21 نومبر 2018


~✓~ آج کی بات ~✓~

حقیقی رشتوں میں سمجھوتہ اجنبی رابطوں کی الجھنوں سے بہتر ہے۔

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

~✓~ آج کی بات ~✓~ حقیقی رشتوں میں سمجھوتہ اجنبی رابطوں کی الجھنوں سے بہتر ہے۔ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

آج کی بات ۔۔۔ 20 نومبر 2018


❀ آج کی بات ❀

زبان کی حفاظت دولت کی حفاظت سے زیاده مشکل ہے.

❀ آج کی بات ❀ زبان کی حفاظت دولت کی حفاظت سے زیاده مشکل ہے.

مٹی (مکالمہ) از عمر الیاس

Image result for soil
مٹی (مکالمہ)

زندہ ہونے کا پتہ دیتی ہے نرمی ورنہ
بعد مرنے کے تو سب جسم اکڑجاتے ہیں

فیاض فاروقی


انسان کی سمجھ نہیں آتی۔ ایک طرف اِتنا شعور ، اور دوسری طرف اتنی جہالت۔

کیا ہو گیا! یہ مشاہدے ، یہ طرزِ تخاطب۔ کُچھ شکوہ شکوہ سا لگ رہا ہے۔

میں دراصل ایک ریسرچ کے نتائج دیکھ رہا تھا۔ میری ماسٹرز ڈگری کا تحقیقی مقالہ فائنل سٹیج میں ہے۔ اُس میں معاشرتی خصوصاً انٹر پرسنل سطع پر کافی عجیب و غریب رویے دیکھنے کو مِلتے ہیں۔

تو آپ نے اِس سے کیا سیکھا؟

میری نظر میں انسان کا اصل روپ کوئی نہیں۔ سب کُچھ اضافی ہے۔ حالات ، واقعات ، معاملات ، جبر ، قدر۔ یہ سب ایک طرف ، اور ہماری چوائس یا انتخاب کا حق دوسری طرف ۔ ہم اپنی چوائسز کا نتیجہ ہیں۔ پر یہ کافی اُلجھی ہوئی تصویر ہے۔

اِس کا تو پتا نہیں ، پر ہم اس کے بارے میں اُلجھے ہوئے ضرور ہیں۔

درست۔

انسان کو سمجھنے کی لئے اس کا بُنیادی عنصر سمجھ لیں۔

اور وہ کیا ہے؟

مٹی۔

اور مٹی کو کیسے سمجھا جائے؟

مٹی سے انسان کو بنایا گیا۔ اس کے علاوہ، قرآن میں آتا ہے کہ ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا گیا۔ لہٰذا یہ طے ہو گیا کہ انسان کی بُنیاد مٹی ، اور اُس میں زندگی کا محرک پانی ہے۔ اور روح تو ہے ہی۔

اس سے کیا پتہ چلا؟

پانی رواں ہوتا ہے۔ مٹی ساکن،۔ پانی مٹی کو متحرک کرتا ہے۔ اسے نرم کرتا ہے۔

نرم۔ یہ دلچسپ بات ہے۔

بالکل۔ پانی سے مٹی نرم ہوتی ہے۔ پانی زیادہ ہو جائے ، تو بہہ بھی جایا کرتی ہے۔ اِس لئے توازن ضروری ہے۔

واہ۔

آپ نے دیکھا ہو گا ، اچھا کُمہار یا فنکار ، مٹی سے شاہکار تخلیق کر سکتا ہے۔

جی۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ مٹی سے زیادہ بنانٓے والا اہم ہے، اُس پر کام کرنے والا اہم ہے۔ اسی لیے ، آج تک جو بھی انبیاء اور عظیم انسان بھیجے گئے ، انھوں سے انسانوں پر کام کیا ، چیزوں پر نہیں۔

بالکل۔

مٹی کی خصوصیت ہے کہ وہ زمین پر ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ پر اُس کی ساخت اور اوصاف مُختلف ہوتے ہیں۔ کہیں وہ پتھریلی ہوتی ہے ، کہیں نرم۔ کہیں ریتیلی ، کہیں دھاتی۔ کہیں بُھربھری۔ کہیں نمک سے بھرپور، کہیں کیچڑ نُما، کہیں کیمیاوی مادوں سے لبریز۔

اس میں تو میرے سوال کا جواب مِل گیا۔

☺️

واقعی۔ ایسے ہی ہے۔

مٹی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اسے اگر مناسب طریقے سے پکایا جائے، تو یہ تعمیر سازی میں  بہترین چوائس ہے۔ یہ ساری بڑی بڑی عمارتیں اینٹوں سے تیار ہوتی ہیں ، جو مٹی سے بنتی ہیں۔ اس سے پتہ چلا کہ انسان اور اُسکی مادی ترقی ایک جیسے اصولوں پر نشونما پاتے ہیں۔

یہ تو ہے۔

 وہ انسان جو مٹی سے قریب رہتے ہیں ، وہ انسانیت سے قریب رہتے ہیں۔ جن لوگوں کا تعلق دیہات سے ہے وہ مٹی کے قریب ہیں ۔ انھیں موجودہ جدید دور کی بہت سی بیماریاں نہیں ہیں۔

ارے واہ۔

مٹی اور انسانوں سے بلاواسطہ تعلق رکھنے والے پیشے بھی دلچسپ ہوتے ہیں۔ غور کرنا ۔ اچھے مالی ، اُستاد اور ڈاکٹر ، سب ایک طرح سے سوچتے ہیں۔ وہ صبر والے ہوا کرتے ہیں ، اور پُرامید ، استقامت والے اور محنت کش۔

مزیدار بات۔

مٹی کی ایک بہت اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ جلتی نہیں۔ ان شاء اللہ ، جلے گی بھی نہیں۔

ان شاء اللہ۔

سب سے اہم بات۔ مٹی کا تعلق سب مادوں سے ، سب چیزوں سے رہتا ہے۔ ہوا ، پانی ، ماحول ، روشنی ، برف، پودے۔ پر مٹی کا سب سے گہرا تعلق معلوم ہے کِس چیز کے ساتھ ہے؟

کِس کے ساتھ؟

مٹی کا سب سے پکّا رِشتہ خون کے ساتھ ہوتا ہے۔

مٹی (مکالمہ) از عمر الیاس زندہ ہونے کا پتہ دیتی ہے نرمی ورنہ بعد مرنے کے تو سب جسم اکڑجاتے ہیں فیاض فاروقی انسان کی سم...

مسلمان کی تذلیل ۔۔۔ ہم اور ہمارا میڈیا - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ... 16 نومبر 2018

Image result for ‫مدینہ‬‎
مسلمان کی تذلیل ۔۔۔ ہم اور ہمارا میڈیا 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
08 ربیع الاول 1440 بمطابق 16 نومبر 2018
امام و خطیب:  ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 08 ربیع الاول 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "مسلمان کی تذلیل ،،، ہم اور ہمارا میڈیا" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ زبان خیر اور شر دونوں میں ید طولی رکھتی ہے، اور اسی لیے اس کا ایک ایک لفظ لکھا جا رہا ہے؛ کیونکہ ہر بول کا حساب دینا پڑے گا۔ بسا اوقات ایک لفظ کی وجہ سے انسان جہنم میں جا گرتا ہے، بلکہ سب سے زیادہ گناہ اسی زبان سے صادر ہوتے ہیں، غیبت، چغلی، کینہ، سب و شتم اور دیگر گناہ اسی کی کارستانیاں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سب سے بد ترین ربا یہ ہے کہ مسلمان بھائی کی ناحق ہتک عزت ہو۔ زبان کی تباہ کاریوں میں جھوٹی خبریں، افواہیں، من گھڑت باتیں پھیلانا بھی شامل ہے؛ ان کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان امت نے اٹھایا ہے، کسی مومن کی تذلیل کبیرہ ترین گناہ ہے، متعدد احادیث میں اس عمل کی سخت الفاظ میں مذمت ہے، کسی مسلمان کی عیب جوئی کرنے والے کو اللہ تعالی اس کے گھر میں ہی ذلیل فرما دیتا ہے، اور ایک مسلمان کی عزت کعبہ سے بھی زیادہ ہے، نیز زبان کی وجہ سے انسان آخرت کے مفلسوں میں شامل ہو جاتا ہے، آخر میں انہوں نے مملکت سعودی عرب کے خلاف ریشہ دوانیوں کی مذمت کی اور اسے تمام مسلمانوں کی دل آزاری قرار دیا، پھر سب کے لئے جامع دعا کروائی ۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اس انسان کو پیدا کیا اور فضیلت سے نوازا، اللہ تعالی نے انسان کو عقل عطا کی جو کہ آلۂ ادراک اور مکلف بننے کا سبب ہے، نیز انسان کو آداب بھی سکھائے، بندے کو بولنے اور بیان کرنے کے لئے زبان دی اور علم عطا کیا، چنانچہ انسان کو کامل بنانے والی ذات پاکیزہ ہے، اور اللہ تعالی بہترین خالق ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ تعالی نے آپ کو ہدایت اور دین حق دے کر شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا، آپ حق لے کر آئے اور حق کی تصدیق بھی فرمائی۔ اللہ تعالی آپ پر ،آپ کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔

اللہ بندو!

میں آپ سب کو تقوی الہی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں، یہ اللہ تعالی کی گزشتہ و پیوستہ سب لوگوں کو تاکیدی نصیحت ہے، 
{وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ} 
ہم نے یقینی طور پر ان لوگوں کو بھی تاکیدی نصیحت کی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور تمہیں بھی کہ تقوی الہی اختیار کرو۔[النساء: 131]

مسلم اقوام!

اعضا اور جوارح کے زخم متنوع تاثیر رکھتے ہیں، لیکن دلوں پر ان کی چوٹ انتہائی دیر پا اور با اثر ہوتی ہے۔

جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَهَا التِّئَامُ

وَلَا يَلْتَامُ مَا جَرَحَ اللِّسَانُ

تیغ و تیر کے زخم تو بھر جاتے ہیں، لیکن زبان کے زخم کبھی نہیں بھرتے۔

زبان گفتگو اور بیان کا ذریعہ ہے، یہ مافی الضمیر کی ترجمان بھی ہے، زبان قد و قامت میں تو چھوٹی ہے لیکن اس کی اچھائی یا برائی بہت مؤثر ہوتی ہے، زبان سے ہی کفر اور ایمان واضح ہوتا ہے جو کہ گناہ یا اطاعت کے نتائج ہیں۔ جس طرح خیر کے کاموں میں زبان کا بہت وسیع میدان ہے اسی طرح برائی میں بھی اس کا بہت لمبا ہاتھ ہے: تو زبان ہی سے الزامات اور پاک دامن مومن خواتین پر تہمت لگائی جاتی ہے۔ لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ زبان سے پردوں میں چھپی باتیں عیاں ہوتی ہیں۔ چادر اور چار دیواری کی حرمت تار تار ہوتی ہے۔ اسی زبان سے سینوں میں کینے، دکھ اور پریشانیاں بوئی جاتی ہیں، زبان سے ہی دشنام، چغلی، طعنے اور عیب جوئی کی جاتی ہے۔ افواہیں، لعن طعن، غیبت، تہمت، فحش گوئی، بد کلامی اسی کے کام ہیں۔ زبان حرکت کرنے سے نہیں تھکتی، اس کی باتیں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں، اس کے باوجود یہ سب کچھ لکھا جا رہا ہے، روزِ قیامت ان سب باتوں کا حساب ہو گا۔ اللہ کا فرمان ہے: 
{مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ}
 جب بھی کوئی لفظ اس کی زبان سے نکلتا ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود ہوتا ہے ۔[ق: 18]

ایک بار : (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کو پکڑا اور کہا: معاذ! تم اسے روک کر رکھو!) تو اس پر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے تعجب سے کہا: "کیا ہماری باتوں کا بھی احتساب ہو گا؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (معاذ تیری ماں تجھے گم پائے! لوگوں کو آگ میں اوندھے منہ یا ناک کے بل یہی زبان کی کارستانیاں ہی تو گرائیں گی)

ایک بار "سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ صفا پہاڑی پر چڑھے اپنی زبان کو پکڑا اور پھر کہا: زبان ! توں اچھی بات کرے گی تو تیرا فائدہ ہے، بری باتوں سے خاموشی اپنائے گی سلامتی پائے گی، وگرنہ تمہیں ندامت ہی ملے گی، پھر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (اولاد آدم کے اکثر گناہ زبان سے صادر ہوتے ہیں۔)"

اللہ کے بندو!

(کسی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان کی تمام مسلمانوں پر جان، مال اور آبرو حرام ہے)

مسلمان اپنے بھائی کو اس کی موجودگی یا عدم موجودگی میں دین، دنیا یا جسمانی اعتبار سے سب و شتم کا نشانہ بنائے تو اس کا ہر حال میں حکم یکساں ہے، کوئی مسلمان کسی مسلمان کے اخلاق، خِلقت، مال، اولاد، بیوی، لباس، یا حرکات و سکنات کو نشانہ بنائے، یا اس کے بارے میں بول کر ، اشارے سے ، کنایے سے، لکھ کر یا نقل اتار کر برائی بیان کرے تو یہ غیبت ہے، اور اگر وہ برائی سرے سے مسلمان میں موجود ہی نہ ہو تو پھر یہ غیبت بھی ہے، ظلم، بہتان اور افترا پردازی بھی ہے۔

مسلم اقوام!

زبان کی تباہ اور سیاہ کاریوں میں سے شدید ترین یہ ہے کہ جھوٹی افواہیں پھیلائی جائیں، من گھڑت خبریں نشر کی جائیں اور من مانی باتیں بنا اور پھیلا کر مسلمانوں کا آپس میں اعتماد مخدوش کریں کہ سب ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں! باہمی اخوت اور وحدت گدلی ہو جائے، سب ایک دوسرے کا دست و بازو بننے کی بجائے دست و گریبان ہو جائیں۔

ان افواہوں نے کتنے معصوم لوگوں کو پریشان کیا!

کتنے بڑے بڑے حوصلوں کو پست کیا!

کتنے تعلقات میں دراڑیں ڈالیں!

کتنے جرائم ان افواہوں کی وجہ سے کیے گیے!

کتنی دوستیوں کو توڑ کر رکھ دیا!

کتنے معاشرے اور گھرانے ان افواہوں نے اجاڑ دیے!

کتنے پیاروں کو جدا کر دیا!

کتنا پیسہ ان کی وجہ سے ضائع ہوا!

کتنے دل ریزہ ریزہ ہوئے!

کتنے سینوں میں آگ بھڑکائی!

کتنے ہی لوگوں کو افسردہ کیا!

اور یہ افواہیں کتنی ہی اقوام کی ترقی میں تاخیر کا سبب بنیں!

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ}
 اے ایمان والو! بہت سے گمان سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہیں ۔[الحجرات: 12]

 ایسے ہی فرمایا:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ} 
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔ [الحجرات: 6]

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ا نہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص کسی مومن کے بارے میں ایسی بات کہے جو اس میں ہے ہی نہیں تو اللہ تعالی اسے ردغۃ الخبال میں ٹھہرائے گا، [ردغۃ الخبال] جہنمیوں [کے خون پیپ ] کا نچوڑ ہے)

سہل بن معاذ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے کسی مسلمان کی ہتک عزت کے لئے تہمت لگائی تو اللہ تعالی اسے جہنم کے پل پر روک لے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے پاک ہو جائے) [حسن، ابو داود]

مسلم اقوام!

اللہ تعالی نے مسلمانوں کی عزت آبرو کی حرمت بھی ویسی ہی قرار دی ہے جیسے ان کی جان اور مال کی حرمت ہے، بلکہ عزت نفس کا دفاع کرنے کے لئے مال و جان لگانے کو بھی شرعا جائز قرار دیا، اس لیے مسلمانوں کی عزت نفس کو افواہوں سے داغ دار کرنا اور اسے کی عزتی پھیلانا، شکوک ،خدشات اور من گھڑت باتوں کے ذریعے اسے نشر کرنا ، جھوٹ ،افترا پردازی ، بہتان بازی، اور مذاق اڑانا ۔ ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطے کے ذرائع کو زہر پھیلانے اور فتنہ بپا کرنے کے لئے استعمال کرنا یہ سب کچھ مسلمان کی ہتک عزت ہے، اور یہ مہلک گناہوں میں سے ایک ہے، اس لیے مسلمان کے لئے ایسے کسی بھی اقدام سے بچنا ضروری ہے۔

یہ بھی غور سے سن لیں کہ بری بات پھیلانے والا اور اس کا موجد دونوں برابر ہیں، یہ بھی غور سے سن لیں کہ بری بات پھیلانے والا اور اس کا موجد دونوں برابر ہیں، دونوں کے حکم میں کوئی فرق نہیں، بری بات کے موجد پر ان تمام لوگوں کا بھی بوجھ ہو گا جو اسے پھیلاتے رہیں گے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے) مسلم

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ} 
جب تم اس [افواہ] کو اپنی زبانوں سے بیان کر رہے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کچھ علم نہیں اور تم اسے معمولی بھی سمجھتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔ [النور: 15]

مسلم اقوام!

کسی کی پگڑی اچھالنا اور عیب جوئی انتہائی سنگین مسئلہ اور بیماری ہے، اس عمل کا شمار بڑے گناہوں اور شدید فتنوں میں ہوتا ہے، اس کے نتائج ایمان میں کمزوری کی صورت میں بر آمد ہوتے ہیں، جیسے کہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اے وہ لوگو! جو اپنی زبان سے تو ایمان لے آئے ہو لیکن ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کی غیبت نہ کرو، نہ ہی ان کی عیب جوئی کرو؛ کیونکہ جو بھی مسلمانوں کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالی اس کے عیوب تلاش کرتا ہے، اور جس کے عیوب اللہ تلاش کرے تو اُسے اس کے گھر میں بھی رسوا فرما دیتا ہے۔) اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

اس لیے اپنی عزت آبرو کی حفاظت کرو اور زبان کو لگام دو۔

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کو منیٰ میں خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (لوگو ! تمہیں معلوم ہے آج یہ کون سا دن ہے؟) ہم نے عرض کی "اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن نام تبدیل کریں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (کیا یہ قربانی کا دن نہیں) ہم بولے" جی بالکل" ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ( یہ مہینہ کون سا ہے؟) ہم نے کہا: "اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں" آپ اس مرتبہ بھی خاموش ہو گئے اور ہمیں خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کا نام تبدیل کریں گے، لیکن آپ نے فرمایا: ( کیا یہ ذوالحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟) ہم بولے: "بالکل"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (یہ شہر کون سا ہے؟) ہم نے عرض کی: "اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں"، اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح خاموش ہو گئے کہ ہم نے سمجھا کہ آپ اس شہر کا نام تبدیل کریں گے، لیکن آپ نے فرمایا کہ: (یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ) ہم نے عرض کیا: بالکل ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (بس تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے، تاآنکہ تم اپنے رب سے جاملو۔ کہو کیا میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟) لوگوں نے کہا : "ہاں"۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( یا اللہ ! تو گواہ رہنا! یہاں موجود افراد غیر حاضر افراد کو یہ پیغام پہنچا دیں کیوں کہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گا سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ثابت ہوں گے اور میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی [ناحق ] گردنیں مارنے لگو) بخاری

اللہ کے بندو!

حرام اور گناہ کے کاموں سے بچاؤ نیکیوں اور اچھے اعمال سے زیادہ ضروری ہے؛ اس لیے کہ مفلس وہی ہے جو بڑی محنت اور تگ و دو کر کے عمل کرتا ہے اور نیکیوں کی جمع پونجی بناتا ہے لیکن اپنی بیوقوفی کی وجہ سے سب لٹوا لیتا ہے، جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟) صحابہ نے کہا: " ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی مال و متاع"۔ آپ نے فرمایا: (میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ [دنیا میں] کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر بہتان لگایا ہو گا، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو دیا جائے گا، اگر حساب چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو اُن کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا

مسلم اقوام!

مملکت سعودی عرب، بلاد حرمین شریفین ہے، اس کی دھرتی پر وحی نازل ہوتی رہی، یہ مسلمانوں کا قبلہ بھی ہے، مسلمانوں کے دل اس کے ساتھ دھڑکتے ہیں، اللہ تعالی نے اس دھرتی کو اپنے دین کی نشر و اشاعت اور دعوت کے لئے منتخب فرمایا، یہ ملک فرزندان توحید کی آماجگاہ ہے، یہاں سے اسلام کا نور پھیلا، یہاں پر اعتدال اور سلامتی کے اصول و ضوابط پختہ ہوئے، علم اور ایمان کی آبیاری ہوئی، اس دھرتی نے یہاں پر آنے والے تمام مسلمانوں کو ماں کی مامتا کی طرح سینے سے لگایا، اس لیے اللہ تعالی یہاں کہ حکمرانوں کو بہترین بدلے سے نوازے۔

یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ اس ملک کے خلاف حاسدین اور کینہ پرور افراد کی جانب سے پھیلائی جانے والی افواہیں، بے بنیاد خبریں اور من گھڑت باتیں در حقیقت ہمارے دین دشمنوں اور اعدائے امت کی جانب سے بھڑکائی جانے والی آگ اور جنگ ہے، اس لیے ہم اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں اور دشمنوں کی چالوں کے سامنے اسی کے ذریعے قوت حاصل کرتے ہیں۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، اپنے موحد بندوں کی مدد فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا رب العالمین!


مسلمان کی تذلیل ۔۔۔ ہم اور ہمارا میڈیا   خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 08 ربیع الاول 1440 بمطابق 16 نومبر 2018 امام و خطیب:  ڈاکٹر ...

زندگی دریا کی طرح ہے۔۔۔ جو بہتا رہے تو بہتر ہے۔

Image result for river
زندگی دریا کی طرح ہے۔۔۔ جو بہتا رہے تو بہتر ہے۔

ایک مشرقی محبوبہ کی طرح دھیرے دھیرے مجھ پر یہ راز بے نقاب ہوا کہ زندگی ایک دریا کی طرح ہے جو بہتا رہے تو بہتر ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دریا کا ایک حصہ اگر بہنا بند کر دے تو وہ جوہڑ بن جاتا ہے جس میں پہلے کاہی جمتی ہے اور پھر اس سے بدبو آنے لگتی ہے۔

زندگی کے اس راز سے سب سے پہلے میرا تعارف میڈیکل کالج میں ہوا۔ جب میں جسمانی صحت اور بیمای کے راز سیکھ رہا تھا تو میں نے اساتذہ اور طب کی کتابوں سے یہ جانا کہ صحتمند انسان کے دل کی نالیوں میں خون ہر دم بہتا رہتا ہے۔ اگر وہ خون کی گردش رک جائے تو انسان کو ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے اور وہ مر بھی سکتا ہے۔ دل کی نالیوں کی طرح اگر جسم کے کسی اور حصے کی نالیاں بند ہو جائیں تو انسان کے جسم کا وہ عضو مفلوج ہو سکتا ہے اور مر بھی سکتا ہے۔

خون کی نالیوں کی طرح نظامِ انہضام کا بھی یہی عالم ہے۔ اگر ہماری آنتوں میں خوراک کی گردش رک جائے تو پہلے قبض ہوتا ہے اور پھر INTESTINAL OBSTRUCTION ہوتی ہے جس سے انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

خون کی نالیوں اور نظامِ انہضام کی طرح انسانی دماغ اور اعصاب کا بھی یہی عالم ہے۔ اگر اعصابی نظام میں برقی لہریں چلنی بند ہو جائیں تو انسان کے جسم کا کوئی حصہ بے حس بھی ہو سکتا اور مفلوج بھی۔

ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ انسانی جسم کا ہر نظام دریا کی طرح بہتا رہے کیونکہ یہی جسمانی صحت کا راز ہے۔

جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت کا دارومدار بھی حرکت پر ہے۔ صحتمند انسان اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ جو ان کا اظہار نہیں کرتے وہ اکثر کڑھتے رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنے کلینک میں ہم ان مریضوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار زبانی یا تحریری طور پر کریں تا کہ ان کے جذبات اور خیالات کا دریا دوبارہ بہنا شروع کر دے اور وہ ایک صحتمند اور بامعنی زندگی گزار سکیں۔

جب زندگی کا دریا بہہ رہا ہوتا ہے تو لوگ اپنی چیزیں خوشی سے دوسروں سے شیر کرتے ہیں اور دوسروں کو اپنی دکھ اور سکھ‘ دولت اور طاقت میں شریک کرنے سے خوشی محسوس کرتے ہیں۔

مجھے یہ کالم لکھتے ہوئے لوک ورثہ کی ایک کہانی یاد آ رہی ہے۔ دانائی کی بات جہاں بھی ملے میں اسے اپنے ذہن اور دل میں سنبھال رکھتا ہوں۔

ایک پادری نے خدا سے کہا کہ میں ہر ہفتے اپنی قوم کو جنت دوزخ کی کہانیاں سناتا رہتا ہوں لیکن میں نے کبھی جنت اور دوزخ دیکھے نہیں۔ اے خدا کیا میں دوزخ دیکھ سکتا ہوں؟ خدا نے پادری کی دعا قبول کی اور کہا کہ سیدھا جاؤ تمہیں بائیں طرف ایک دروازہ نطر آئے گا اسے کھولو اور اندر جاؤ وہاں تمہیں دوزخ نطر آئے گی۔ پادری نے حکم پر عمل کیا اور جب بائیبں دروازے سے داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بہت بڑا برتن ہے جس میں لذیذ کھانا ہے لیکن اس کے چاروں طرف جو مرد اور عورتیں بیٹھے ہیں وہ سب بھوکے اور غمزدہ ہیں۔ ان مردوں اور عورتوں میں کالے بھی ہیں گورے بھی مشرقی لوگ بھی ہیں اور مغربی بھی۔ جب اس پادری نے غور سے انہیں دیکھا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ لوگ بھوکے اور غمزدہ کیوں ہیں تو اسے یہ نظر آیا کہ انسانوں کے ہاتھوں میں چھ فٹ لمبے چمچ ہیں۔ وہ اس چمچ سے کھانا اٹھا تو لیتے ہیں لیکن اپنے آپ کو کھلا نہیں سکتے اسی لیے وہ سب بھوکے اور غمزدہ ہیں۔

پادری واپس آیا تو اس نے جنت دیکھنے کی دعا کی۔ خدا نے کہا کہ اس دفعہ سیدھا جاؤ اور تمہیں دائیں طرف ایک دروازہ نطر آئے گا اس دروازے سے داخل ہو تو تمہیں جنت نظر آئے گی۔ پادری بڑے شوق سے گیا۔ دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہے کہ اسی طرح کا بڑا برتن ہے اسی طرح کے ہر رنگ ’ نسل اور قوم کے مرد اور عورتیں ہیں اور ان کے ہاتھوں میں چھ فٹ کے چمچ ہیں لیکن وہ سب ہنس رہے ہیں اور خوشحال ہیں۔ پادری نے ان کی خوشی کا راز جاننے کی کوشش کی تو اسے اندازہ ہوا کہ ان لوگوں نے زندگی کا یہ راز جان لیا تھا کہ وہ چمچ سے کھانا اٹھا کر اپنے سامنے والے انسان کو کھلاتے تھے۔ گورے کالوں کو‘ مرد عورتوں کو اور مغربی لوگ مشرقی لوگوں کا۔

پادری جنت اور دوزخ کا راز جان کر بہت خوش ہوا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں انسان ایک دوراہے پر کھڑے ہیں ایک راستہ جنگ اور تباہی کی طرف جاتا ہے دوسرا امن اور آشتی کی طرف۔ یا تو انسان اجتماعی خود کشی کر لیں گے یا ارتقا کی اگلی منزل کی طرف بڑھیں گے۔ ارتقا کی طرف جانے والے یہ راز جاتے ہیں کہ ہم سب انسان ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اور ہم سب دھرتی کے باسی ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے۔ اور یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم یہ راز جان لیں کہ زندگی دریا کی طرح ہے جو بہتا رہے تو بہتر ہے۔

زندگی دریا کی طرح ہے۔۔۔ جو بہتا رہے تو بہتر ہے۔ تحریر:    ڈاکٹر خالد سہیل  ایک مشرقی محبوبہ کی طرح دھیرے دھیرے مجھ پر یہ راز بے نق...

دلی راحت اور سکون کے شرعی نسخے ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 02 نومبر 2018

دلی راحت اور سکون کے شرعی نسخے 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 
24 صفر 1440 بمطابق 02 نومبر 2018
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 24 صفر 1440 کا خطبہ جمعہ "دلی راحت اور سکون کے شرعی نسخے" کے عنوان پر مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ دنیاوی زندگی میں مشکلات لازمی جز ہیں، جبکہ پریشانیوں سے نجات تمام مخلوقات کی چاہت ہے، اور یہ شرح صدر کے بغیر ممکن نہیں، انہوں نے کہا کہ دلی سکون کے اسباب میں : ذات باری تعالی کی معرفت، اللہ تعالی پر مکمل توکل، حالت ایمان میں عمل صالح، تقدیر پر ایمان، صبر و شکر ، اللہ سے حسن ظن، قلبی راحت کی دعا، ذکر الہی، تلاوت قرآن، تسبیح، تحمید، نوافل کی ادائیگی، تقوی، نماز فجر کی پابندی، کتاب و سنت کا علم، خلقت کے ساتھ نیکی، للہیت سے بھر پور رفاہی کام، دوسروں کی غلطیوں سے چشم پوشی، اچھے لوگوں کی صحبت، اہل لوگوں سے مشورہ، قناعت، ماضی و استقبال کی بجائے حال پر توجہ، فراغت کے اوقات میں مثبت سرگرمیاں، گناہوں سے اجتناب اور دلی بیماریوں سے نجات شامل ہیں، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: مملکت حرمین شریفین پر اللہ تعالی کی لا تعداد نعمتیں ہیں، یہ ملک مسلمانوں کا قبلہ اور قلب ہے، اس ملک کے متعلق افواہوں اور اڑتی پھرتی خبروں پر کان مت دھریں، اس ملک کے دشمن جتنی کوشش کریں گے یہاں کے عوام اپنے حکمرانوں پر اعتماد اتنا ہی بڑھاتے جائیں گے، مسلمانوں کو چاہیے کہ مثبت سرگرمیوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں، آخر میں انہوں نے دعا کروائی۔

⇥ منتخب اقتباس ⇤

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللی علیہ وسلم- اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

دنیا آزمائش اور امتحان کا گھر ہے، تنگی ترشی دنیا کی فطرت میں شامل ہے، یہاں انسان بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ}
ہم نے انسان کو تکلیفیں برداشت کرتے رہنے والا پیدا کیا ہے۔ [البلد: 4]
 دنیا میں انسان کی زندگی مختصر ہوتی ہے، اور اس کا بھی وہی حصہ کام آتا ہے جو اچھا گزرے۔

قلبی سکون کا حصول جبکہ پریشانی اور غموں کا خاتمہ ہر انسان کی تمنا ہے، اگر ایسا ہو جائے تو خوشحال زندگی میسر آتی ہے۔

ساری مخلوقات خوشحالی کی چاہت رکھتی ہیں اور اس کے لیے کد و کاوش بھی کرتی ہیں، شرح صدر اور قلبی اطمینان خوشحالی کی بنیاد ہیں؛ اسی لیے جب اللہ تعالی کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما لے تو اس کی شرح صدر فرما دیتا ہے ، اس سے بڑی نعمت بھی کوئی نہیں ہے۔ شرح صدر عظیم ترین نعمت اور اسباب ہدایت میں شامل ہے جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "شرح صدر جس طرح ہدایت کا سبب ہے اسی طرح یہ ہر نعمت اور بھلائی کی بنیاد بھی ہے"

اسی لیے جب موسی علیہ السلام کو فرعون کی جانب بھیجا گیا تو انہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالی سے شرح صدر ہی مانگی اور کہا: 
{قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي}
انہوں نے کہا: میرے پروردگار! میری شرح صدر فرما دے۔ [طہ: 25]
 پھر نبی صلی اللی علیہ وسلم پر نعمتوں کے شمار میں اللہ تعالی نے اسی کو سب سے پہلے ذکر کیا اور فرمایا: 
{أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ}
کیا ہم نے تمہاری شرح صدر نہیں فرمائی؟! [الشرح: 1]

ایمان اور عمل صالح شرح صدر کے موجب بننے والے بنیادی اسباب میں شامل ہیں، ان سے قلب و بدن میں بہتری آتی ہے، ظاہر اور باطن بھی سنور جاتا ہے، ان دونوں کی بدولت اچھی زندگی اور دائمی سعادت حاصل ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً}
 کوئی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں جو بھی نیک عمل کرے تو ہم اسے لازما بہترین زندگی میں رکھیں گے۔[النحل: 97]

اللہ تعالی سے محبت ،انابت اور لذت کے ساتھ عبادت کے ذریعے سب سے زیادہ شرح صدر ہوتی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر تم اپنے دل میں عبادت کی لذت اور شرح صدر نہ پاؤ تو اپنے آپ پر نظر ثانی کرو؛ کیونکہ اللہ تعالی انتہائی قدر دان ہے۔"

خوشحالی اور بدحالی لوگوں کی زندگی کے لازمی عناصر ہیں، ان سے راہ فرار کسی کو حاصل نہیں تو ایسے میں اللہ کے فیصلوں پر اطمینان عین سعادت مندی ہے، اس لیے خوشی ملے تو شکر اور تکلیف ملے تو صبر کرے، رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مومن کا معاملہ بہت تعجب خیز ہے کہ اس کا ہر معاملہ ہی خیر والا ہوتا ہے، یہ امتیاز مومن کے علاوہ کسی کا نہیں، چنانچہ اگر مومن کو خوشی ملے تو شکر کرتا ہے تو یہ شکر اس کے لیے خیر بن جاتا ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے تو صبر اس کے لیے خیر بن جاتا ہے) مسلم

اللہ تعالی سے ملاقات اور اجر الہی پر یقین رکھنے والے کا دل بہتر سے بہترین کی تمنا رکھتا ہے، کوئی چیز نصیب میں نہ لکھی ہو تو غم نہیں کرتا بلکہ وعدہ شدہ چیزوں پر خوش رہتا ہے، اس طرح اس کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتی ہیں

تمام معاملات کی باگ ڈور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہ جیسے چاہتا ہے کہ دلوں کو ڈھال دیتا ہے: صحیح یا خراب، تنگ یا فراخ اور نیک بخت یا بد بخت بنا دیتا ہے۔ تو جس ذات کے ہاتھ میں یہ سب کچھ ہے اسی پر توکل کرنا اور سب کچھ اسی کے سپرد کرنا شرعی طور پر واجب ہے، بلکہ یہ دنیا کی جنت ہے، فرمان باری تعالی ہے: 
{وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ}
 اور جو اللہ پر توکل کرے تو اللہ ہی اسے کافی ہے۔ [الطلاق: 3]
 لوگوں کا رزق اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، کوئی بھی جاندار اپنا رزق پورا حاصل کیے بغیر نہ مرے گا، اس لیے اللہ تعالی نے جو تمہارے لیے لکھ دیا ہے اس سے راضی رہو، اگر کوئی چیز تمہیں نصیب نہ ہو تو اس پر غم نہ کرو۔

قلبی راحت اور سکون کے متلاشی کو رب کریم کا دروازہ زیادہ سے زیادہ کھٹکھٹانا چاہیے؛ کیونکہ اللہ تعالی دعائیں کرنے والے کے قریب ہوتا ہے اور اللہ سے امید لگانے والا نامراد نہیں ہوتا، دعاؤں سے دنیا و آخرت کے سب امور سنور سکتے ہیں، نبی صلی اللی علیہ وسلم کی ایک دعا ہے:
 (اَللهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي، وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي، وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي، وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ 
[ترجمہ: اے اللہ! میرے دین کو درست کر دے، جو میرے ہر کام کے تحفظ کا ذریعہ ہے اور میری دنیا کو درست کر دے اس میں میرا معاش ہے اور میری آخرت کو درست کر دے وہیں پر میں نے لوٹنا ہے اور میری زندگی کو میرے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا سبب بنا دے اور میری وفات کو میرے لیے ہر شر سے راحت بنا دے۔])

قلبی راحت اور سکون کے لیے ذکر کی تاثیر بھی بہت عمدہ ہے، ذکر سے پریشانیاں اور غم دھل جاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ}
 جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں، توجہ کریں! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔ [الرعد: 28] 
رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم پریشانی کے وقت فرمایا کرتے تھے:
 (لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ۔
[ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں جو صاحب عظمت اور بردباد ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو زمین و آسمان اور عرش کریم کا مالک ہے۔]) بخاری

قرآن کریم افضل ترین ذکر ہے، اللہ کا کلام رہنمائی اور شفا پر مشتمل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ}
 لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت اور سینوں کی بیماریوں کے لیے شفا آ گئی ہے، یہ مومنین کے لیے رہنمائی اور رحمت بھی ہے۔[يونس: 57] 
چنانچہ قرآن کریم کی تلاوت کر کے اس پر عمل کرنے والے لوگ راحت اور سعادت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{طه (1) مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى} 
طہ، ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ شقاوت میں ڈوب جائیں۔[طہ: 1، 2]

سبحان اللہ اور الحمدللہ کہنے ، کثرت سے نوافل ادا کرنے نیز اطاعت پر استقامت سے دل میں راحت پیدا ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ (97) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ (98) وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ}
 یقیناً ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ ان کی باتوں سے کڑھتا ہے [97] تو آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدے کرنے والوں میں شامل رہیں [98] اور یقین [یعنی موت] آنے تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں۔[الحجر: 97 - 99]

جب انسان اپنے دن کا آغاز نماز سے کرے تو اس کا سارا دن بہترین گزرتا ہے؛ کیونکہ نماز فجر پڑھنے والا اللہ کے ذمے ہوتا ہے، اور جو شخص نماز فجر کی سنتیں بھی ادا کرے تو دن کے آخر میں اللہ تعالی اسے کافی ہوتا ہے، آپ صلی اللی علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم! دن کے آغاز میں تم چار رکعات پڑھنے سے قاصر مت رہو تو میں دن کے آخر میں تمہارے لیے کافی ہوں گا) احمد

اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم سے حاصل شدہ علم با عمل بھی قلبی راحت کا باعث ہے، ایسے اہل علم کے سینے وسیع ، کشادہ، پر اطمینان، خوش و خرم اور بہترین اخلاق کے مالک ہوتے ہیں، جس قدر انسان کا علم بڑھتا جائے اس کی قلبی راحت بھی بڑھتی جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا}
 ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کردیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہ پائے؟ [الأنعام: 122]

ابن قیم رحمہ اللہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں کہتے ہیں: "میں نے آپ سے بڑھ کر کسی کو خوش و خرم نہیں دیکھا، حالانکہ آپ بہت تنگ حالات سے گزرے، آپ عیش و عشرت سے کوسوں دور تھے، مزید برآں آپ کو قید و بند، دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا رہا، لیکن اس کے باوجود آپ خوش و خرم تھے، قلبی راحت اور قوت کے مالک تھے، خوشی آپ کے چہرے پر چمکتی ہوئی نظر آتی تھی"

نیک اہل علم، اور دیندار لوگوں کی صحبت میں پیار بھی ملتا ہے اور محبت بھی، ان کی صحبت سے انسان علم ، حکمت اور تزکیہ نفس حاصل کرتا ہے، نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے والا شخص اپنے ہم عمروں میں نمایاں نظر آتا ہے۔

اپنے معاملات میں اہل دانش اور مشاورت کی صلاحیت رکھنے والوں سے رجوع کرنے پر دلی اطمینان حاصل ہوتا ہے اور فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ}
 جب انہیں کوئی خبر امن یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس خبر کو رسول (ﷺ) اور مقتدر افراد کے حوالے کر دیتے تو تجزیہ کار لوگ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے۔[النساء: 83]

شیطان کی انسان دشمنی لازوال ہے، شیطان سے پناہ حاصل کرنے پر برے وسوسوں سے نجات مل سکتی ہے، اسلام میں مسلمانوں کے لیے ایسے اسباب اپنانے کی ترغیب ہے جن سے مسلمان چاق و چوبند ہو جائے ؛ لیکن شیطان ایسا ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے، آپ صلی اللی علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب کوئی سویا ہوا ہوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ کہتا ہے کہ ابھی بہت رات باقی ہے، اس لیے سوئے رہو۔ لیکن اگر وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر وضو کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب نماز فجر پڑھ لے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور وہ خوش مزاج اور ہشاش بشاش رہتا ہے، بصورت دیگر وہ بد مزاج اور سست رہ کر اپنا دن گزارتا ہے) متفق علیہ

مومن کی ایمانی قوت ہشاش بشاش رہنے کے لیے انتہائی اہم ماخذ ہے، اس لیے کہ مومن وہمی باتوں کے پیچھے نہیں لگتا، دکھی باتوں کے سامنے ہمت نہیں ہارتا، نیز مشکلات کے سامنے ڈھیر بھی نہیں ہوتا، بلکہ ہر وقت مضبوط دل کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، لہذا بندہ اللہ کے فضل اور نعمتوں کو اپنے ذہن میں اجاگر کر لے تو اس سے دل مطمئن ہو جاتا ہے اور شرح صدر حاصل ہوتی ہے۔

اپنے حال پر توجہ مرکوز کرنے والا انتہائی پرسکون رہتا ہے، کیونکہ وہ ماضی کے متعلق افسوس نہیں کرتا اور مستقبل کے متعلق پریشان نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ گزرا ماضی واپس نہیں آئے گا جبکہ مستقبل غیب بھی ہے اور لکھا ہوا بھی، اسی لیے آپ صلی اللی علیہ وسلم کی دعا میں یہ بھی شامل تھا:
 (اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ
[یا اللہ! مستقبل کی پریشانی اور ماضی کے غم سے تیری پناہ چاہتا ہوں])بخاری

فارغ اوقات سے مستفید نہ ہوں تو یہ ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے اس لیے اپنے وقت کو مثبت سرگرمیوں اور حصول علم میں صرف کرنے سے ذہنی دباؤ پیدا ہی نہیں ہوتا۔

قلبی راحت کا جامع ترین راستہ یہ ہے کہ مفید سرگرمیوں کے لیے اللہ تعالی سے مدد مانگیں، اور منفی چیزوں سے دور رہیں، منفی امور دل اور قوت ارادی کو کمزور بناتے ہیں، آپ صلی اللی علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مفید سرگرمیوں کا اہتمام کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور مایوس ہو کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں اس طرح کرتا تو ایسا ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: یہ اللہ کا فیصلہ ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس لیے کہ کاش [حسرت سے کہنا] شیطانی عمل کو کھول دیتا ہے۔)مسلم

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

اسلام ہی ہر طرح کی بھلائی اور سعادت مندی کی بنیاد ہے، اہل اسلام ہی دنیاوی جنت اور دائمی نعمتوں میں رہتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ}
 جن لوگوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ان کا بدلہ بھلائی ہے، جبکہ آخرت کا گھر اس سے بھی بہتر ہے، اور متقی لوگوں کا گھر تو بہت اعلی ہے۔[النحل: 30] جاہلوں کی بدبختی جسے معلوم ہو وہی اسلام اور مسلمانوں کی خوشحالی کا اندازہ لگا سکتا ہے، اس پر وہ اللہ کا شکر ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ اپنے دین پر مزید مضبوط ہو گا، اسلام پر ثابت قدمی اس کے لیے اعزاز ہو گی، اور دوسروں کو دین اسلام کی دعوت بھی دے گا۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ:
 {فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ}
 جسے اللہ ہدایت دینا چاہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے تو اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے، اسی طرح اللہ ان لوگوں پر پلیدگی ڈال دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ [الأنعام: 125]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے ہیں اگر توں ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
 اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

دلی راحت اور سکون کے شرعی نسخے   خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)  24 صفر 1440 بمطابق 02 نومبر 2018 امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن...