نصیحت کے پھول منقول ہم میں سے اکثریت یہ سوچ کر کسی کی اچھی نصیحت رد کر دیتی ہے " مجھے سمجھانے سے پہلے خود عمل کرو ...
ــــــــــــــــ
شاید پہلے بھی لکھا ہو۔۔ پھر لکھ دیتی ہوں۔۔۔
بازار میں پیاس لگے، کوئی جوس خریدا، پیا اور خالی ڈبہ بیگ میں رکھ لیا، اسٹرا اور اسٹرا پہ چڑھی پتلی سی پنؔی سمیت۔۔۔۔
گھر لاکر کوڑے دان میں ڈال دیا۔
چاروں طرف کوڑا بکھرا ہوا ہے ایک ڈبے سے کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں
ـــــــــــــــــــ
گھر میں سودا آتا ہے، چائے کی پتؔی، گلوکوز، شیمپو، مچھر بھگائو کوائل، دوا اور اسی طرح کی مختلف اشیاء۔۔۔
سب کے گتے کے ڈبے، بوتل، صاف کاغذ، اسٹیل وغیرہ روزانہ کے کچرے میں پھیکنے کے بجائے ایک صاف شاپر میں جمع کرتی ہوں اور بھر جانے پہ گتا/کاغذ چننے والے کو دے دیتی ہوں، جسے وہ بیچ کر پیسہ کماتا ہے اور یہ اشیاء مکرر گھمائو یعنی ری سائیکلڈ ہوکر دوبارہ استعمال میں آتی ہیں۔۔۔
اتنی درد سری کی ضرورت نہیں، روز کا روز پھینک دوں ۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔۔
ــــــــــــــــ
نناوے فیصد ایسا نہیں ہوتا مگر کبھی بجلی کی مہربانی سے کوئی غذائی شے ناقابل طعام ہوجائے تو اسے باہر جاکر مٹی میں ڈال کر اسے مٹی سے ڈھانپ دیتی ہوں تاکہ مٹی میں مل کر کھاد بن جائے اور کوڑے دان میں سڑ کر بدبو کا باعث نا بنے۔
کھرپی اٹھا کر باہر نکل کر مٹی میں ڈال کر کھرپی سے مٹی ڈالنے سے آسان کوڑے دان میں پھینک دینا ہے۔۔۔ مگر نہیں
ــــــــــــــ
دھلائی کے دوران رکابی و پتیلیوں میں کھانے کے کچھ نا کچھ ذرے رہ جاتے ہیں۔ چائے بنا کر اسکی پتی بچ جاتی ہے۔ اسکے لئے ایک فاضل چھنؔی رکھی ہے جس سے تمام ذرات و پتی چھان کر برتن دھوتی ہوں تاکہ نکاس کے پائپ میں یہ ذرات جاکر اور جمع ہو کر رکائو کا باعث نا بنیں۔۔۔
کبھی یہ رکائو آپ کے گھر کی نالی میں ہوتا ہے جس کے لئے آپ کو پیسہ خرچ کر کے خاکروب بلوانا پڑتا ہے اور کبھی یہ رکائو گلی کے گٹر میں ہوتا ہے جہاں سے ’خوشبودار‘ پانی بہہ کر آپ کی ناک کو آتے جاتے معطر کرتا ہے۔
دھلائی میں وقت ذیادہ لگتا ہے ۔۔۔۔ مگر خیر ہے۔۔
ـــــــــــــــ
بازار سے خریداری کر کے آؤ تو دس پندرہ ہر سائز کے شاپر ساتھ آتے ہیں۔ آسانی تو یہ ہے کہ سامان نکالو اور شاپرز پھینکو مگر سارے شاپر جمع کرلیتی ہوں۔ ہلکا پھلکا کوئی سامان لینا ہو تو گھر سے شاپر لے کر جاتی ہوں اور ساتھ ہی جمع شدہ شاپرز کا بنڈل کسی نا کسی دکاندار کو پکڑا دیتی ہوں جسے وہ عموماً خوشدلی سے قبول کرلیتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــ
معلمہ فردِ واحد ہیں، شاید ان کے کچھ کرنے سے فرق تو کچھ نہیں پڑتا ۔۔۔
شہر کا کچرا کم نہیں ہوتا
تمام سوکھا کچرا مکرر گھمائو کا حصہ نہیں بنتا
تمام گیلا کچرا کھاد نہیں بنتا
گٹر ابلنے سے نہیں رکتا
کینسر کی وجہ بننے والے شاپرز ختم نہیں ہوتے
مگر مگر مگر
ایک احساس بہت خوش کُن ہوتا ہے
کہ
شہر کے پھیلے کچرے معلمہ کا حصہ نہیں ہے
کچھ اشیاء جو دوبارہ قابلِ استعمال ہوئی ہیں ان میں معلمہ کی کاوش شامل ہے
کوئی مسکرانا گلاب معلمہ کی بنائی کھاد کا ثمر ہے
گلی میں بہتا گندے پانی میں معلمہ سے گھر سے نکلا کوئی رکاوٹ ڈالنے والا مادہ شامل نہیں
نالوں میں پھنسے شاپرز میں کوئی معلمہ کا پھینکا ہوا نہیں
کیا آپ کے پاس بھی یہ احساس ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ تحریر: لبنیٰ سعدیہ عتیق ــــــــــــــــ شاید پہلے بھی لکھا ہو۔۔ پھر لکھ دیتی ہوں۔۔۔ بازار میں پیاس لگے، کوئی ...
⇚ آج کی بات ⇛ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جسے عزت دی ہے اس کی عزت کرنا لازم ہے لیکن جسے ذلیل کیا اسے ذلیل کرنا ضروری نہیں۔
〜》 رازِ زندگی《〜 اقتباس از محمود الحق جب دعویٰ عمل سے بڑا ہو تو دراز قد والا بھی چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کو جاننے والے راز زن...
سہولت کار منقول ٭ برائی کو پھیلانے والے کتنے ہیں؟ ٭٭ بہت ہی کم۔ شاید ایک فیصد بھی نہیں۔ ٭ اور برائی کے خلاف جہاد کرنے والے...
↬آج کی بات ↫ اپنی زندگی میں اُصولوں کی حدود قائم کیجئے۔ ان حدود کا یہ مقصد نہیں کہ لوگوں کو دور رکھے، بلکہ یہ تو خود کو محفوظ ...
خیر خواہی۔۔۔ دین کا بنیادی حصہ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 15 ربیع الاول 1440 بمطابق 23 نومبر 2018 امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر ...
سب سے بڑی وجہ تو ظاہر پرستی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بننا ہے تو اپنا ظاہر ان کے مطابق کرنا ہوگا۔ داڑھی کم از کم ایک مشت ہونی چاہیے، ٹخنوں سے اوپر پائنچے ہونے چاہئیں، سر پر ٹوپی یا عمامہ وغیرہ۔ حالانکہ نبی کریم کے جس اسوہ کو مشعل راہ بنایا گیا وہ آپ کا ظاہری حلیہ نہیں بلکہ باطنی کیفیت تھی۔ وہ ایمان جو بندے کو خدا کے قریب کرتا، وہ تعلق باللہ جو اس کی شخصیت کا تزکیہ کرتا، وہ رب سے محبت جو اس کی انا کو جھکا دیتی، وہ اطاعت خداوندی جو اس کے گفتار کو درست کرتی اور اس کے کرادر کو اجلا بنادیتی ہے۔ ظاہر پرستی ہی کی بنا پر ہم نبی کی اصل شخصیت سے دور ہوگئے ہیں۔
ایک اور وجہ نبی کریم سے ادھورا تعلق ہے۔ ہماری اکثریت نبی کریم سے جذباتی وابستگی تو رکھتی ہے لیکن عقلی طور پر اسے علم ہی نہیں کہ آپ کی نبوت کی اصل دلیل کیا ہے؟ اور آپ کن علمی بنیادوں پر خدا کے سچے پیغمبر کہلائے جاتے ہیں؟ اس کم علمی کی بنا ہمارا نبی سے تعلق جذبات کی حد تک ہوتا ہے اور اس کی کوئی زیادہ عقلی گہرائی نہیں ہوتی۔ چنانچہ جذباتی موقعوں پر ہم نبی کے لیے مرنے کا دعوی کرنے کو تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن ان کے مطابق جینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ مرنے کا دعوی کرنے لیے محض ایک جذباتی اور وقتی ابال کافی ہوتا ہے جبکہ نبی کے طریقے کے مطابق جینے کے لیے عقلی تعلق بھی چاہیے ہوتا ہے اور مسلسل نفس کو مجاہدے سے گزارنا پڑتا ہے ۔ اسی بنا پر نبی کا مقام ہمیں عید ، بقرعید، بارہ ربیع الاول اور چند اور مقامات پر تو یاد آتا ہے لیکن ہماری روزمرہ زندگی میں اس کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہوتا۔
ایک اور وجہ نبی کریم کے مشن اور پیغام کو محض چند رسمی عبادات تک محدود کردینا اور باقی زندگی کے معاملات کو سنت یا آپشنل مان لینا ہے۔ چنانچہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی بات کی جاتی ہے تو معاملات نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ اور قرآن کے تلفظ کو حلق سے نکالنے سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ زیادہ محبت کا مظاہر ہ کرنا ہوتو کھانے کے بعد میٹھا کھانے، سیدھی کروٹ نیند لینے، داڑھی ایک مشت کرنے اور دیگر ظاہری امور پر توجہ کرنے ہی کو مذہب سمجھا جاتا ہے۔حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ مذہب یا دین کا بنیادی مقصد صراط مسقتیم یا وہ راہ دکھانا ہے جس کے ذریعے بندہ خدا تک پہنچ جاتا اور دنیا و آخرت میں سرخروہوجاتا ہے۔ یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل پیغا م تھا کہ بندوں کو خدا سے ملانا، بندوں کو بندگی سکھانا اور ان کے نفس کو تربیت سے گزار کر آگے ارتقا کے مراحل طے کرانا۔ جب تک یہ فلسفہ واضح نہ ہو، نبی کریم کے مشن سے آگاہی ممکن ہی نہیں۔ اور جب آگاہی ہی نہیں ہوگی تو عمل کیسے ہوگا؟
ایک اور وجہ سنت کے تصور کا غلط اطلاق ہے۔سنت وہ اعمال نہیں جو نبی کریم نے کلچر، عادت، ذوق یا کسی اور ذاتی وجہ سے اپنائے۔ سنت وہ طریقہ ہے جس پر چل کر وہ خود خدا تک پہنچے اور جس پر چل کر ہم بھی خدا کی رضا حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ زبان کی سنت گالیوں کے جواب میں بھی میٹھا بولنا ہے۔ ہونٹوں کی سنت مشکلات میں بھی مسکراتے رہنا ہے۔ ہاتھ کی سنت اس سے کسی کو ناحق نقصان پہنچانے سے گریز کرنا ہے۔ نگاہوں کی سنت اسے خدا کے حکم کے مطابق پست رکھنا ہے۔ سیاست کی سنت اقتدار کی ہوس کی بجائے انسانوں کی خدمت ہے۔ ۔ تجارت کی سنت دیانتداری سے لین دین کرنا ہے۔ ملازمت کی سنت ایمانداری سے اپنا کام کرنا ہے، معاشرت کی سنت حسن سلوک اور عہد کو مشکل حالات میں بھی نبھانا ہے۔
آخری معاملہ ہمارے قول فعل کا تضاد ہے۔ نبی کریم نے کبھی وہ دعوی نہیں کیا جس پر آپ نے عمل نہ کیا ہو۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہِیں اور جو کرتے ہیں وہ بیان نہیں کرتے کیونکہ وہ شاید بیان کرنے کے لائق ہی نہیں ہوتا۔ ہم جو جو اشیاء بیچتے ہیں ان کے بارے میں کہتے کچھ اور ہیں اور ان کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ ہم تنخواہ پوری لیتے ہیں اور کام ادھورا کرتے ہیں۔ ہم دعوی خدا پرستی کا کرتے ہیں اور پوجا اپنی خواہش کی کرتے ہیں۔ ہم بات حیا کی کرتے ہیں اور میڈیا میں بے حیائی کو دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔ ہم بات نرم گوئی کی کرتے ہیں اور جلسوں میں گالیاں نچھاور کرتے ہیں۔ ہم بات بھائی چارے کی کرتے ہیں اور سیاسی و کاروباری مخالفت میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتےہیں۔ ہم بحیثیت فرد، جماعت اور ادارہ اسی قول و فعل کا شکا رہیں جس کی قرآن و سنت نے سختی سے مذمت کی ہے۔
جب تک ان سب باتوں کی اصلاح نہیں ہوگی ، خدا کی مدد ہمارے پاس نہیں آئے گی ۔ اگر ہم ان حقیقی سنتوں کو نہیں اپنائیں گے تو یونہی ملاوٹ شدہ اشیاء ہمارا مقدر بنی رہیں گی، ہسپتال میں مریض سسکتے رہیں گے، منبروں سے قتل کا پیغام ملتا رہے گا، بد سے بدتر حکمران مسلط ہوتے رہیں گے، گل محلے تعفن سے سڑتے رہیں گے، عورتوں اور بچوں کی عزتیں لٹتی رہیں گی، قتل و غارت گری جاری رہے گی اور تنزلی و تباہی تھمنے کا نام نہیں لے گی۔
یہ سب کچھ ہوتا رہے گا خواہ ہم کتنے ہی میلاد منعقد کرلیں، کتنی ہی خوشیاں منالیں، کتنا ہی شور مچا کر نبی کی محبت کا اعلان کرتے پھریں۔ لیکن نبی کے ساتھ اگرجذبات کے ساتھ ساتھ عقلی و روحانی تعلق قائم نہیں کیا، نبی کی ظاہری سنتوں کے علاوہ حقیقی سنتوں پر عمل نہیں کیا، نبی کے مشن کو رسمی عبادت سے آگے بڑھا کر معیشت ، معاشرت، اخلاقیات و معاملات تک وسیع نہیں کیا تو پھر عید میلاد النبی آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے ، لوگ خوشیاں مناتے رہیں گے لیکن خدا کے فرشتے افسوس کے ساتھ یہ پڑھتے ہوئے گذرجائیں گے کہ ۔
ہماری تباہی اور اسوہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ڈاکٹر محمد عقیل آخر کیا وجہ ہے کہ رسول کریم کا اسوہ مبارک ہم سب کے لیے نمونہ ...
~✓~ آج کی بات ~✓~ حقیقی رشتوں میں سمجھوتہ اجنبی رابطوں کی الجھنوں سے بہتر ہے۔ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی
مٹی (مکالمہ) از عمر الیاس زندہ ہونے کا پتہ دیتی ہے نرمی ورنہ بعد مرنے کے تو سب جسم اکڑجاتے ہیں فیاض فاروقی انسان کی سم...
مسلمان کی تذلیل ۔۔۔ ہم اور ہمارا میڈیا خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 08 ربیع الاول 1440 بمطابق 16 نومبر 2018 امام و خطیب: ڈاکٹر ...
زندگی دریا کی طرح ہے۔۔۔ جو بہتا رہے تو بہتر ہے۔ تحریر: ڈاکٹر خالد سہیل ایک مشرقی محبوبہ کی طرح دھیرے دھیرے مجھ پر یہ راز بے نق...
دلی راحت اور سکون کے شرعی نسخے خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) 24 صفر 1440 بمطابق 02 نومبر 2018 امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن...
کچھ میرے بارے میں
مقبول اشاعتیں
فیس بک
بلاگ محفوظات
-
◄
2024
(4)
- ◄ اکتوبر 2024 (1)
- ◄ جنوری 2024 (3)
-
◄
2023
(51)
- ◄ دسمبر 2023 (1)
- ◄ اپریل 2023 (8)
- ◄ فروری 2023 (19)
- ◄ جنوری 2023 (8)
-
◄
2022
(9)
- ◄ دسمبر 2022 (9)
-
◄
2021
(36)
- ◄ دسمبر 2021 (3)
- ◄ اکتوبر 2021 (6)
- ◄ ستمبر 2021 (1)
- ◄ جولائی 2021 (8)
- ◄ فروری 2021 (7)
- ◄ جنوری 2021 (1)
-
◄
2020
(88)
- ◄ اکتوبر 2020 (5)
- ◄ اپریل 2020 (13)
- ◄ فروری 2020 (10)
- ◄ جنوری 2020 (16)
-
◄
2019
(217)
- ◄ دسمبر 2019 (31)
- ◄ نومبر 2019 (28)
- ◄ اکتوبر 2019 (27)
- ◄ ستمبر 2019 (18)
- ◄ جولائی 2019 (32)
- ◄ اپریل 2019 (11)
- ◄ فروری 2019 (7)
- ◄ جنوری 2019 (15)
-
▼
2018
(228)
- ◄ دسمبر 2018 (13)
-
▼
نومبر 2018
(18)
- نصیحت کے پھول
- کیا فرق پڑتا ہے
- آج کی بات ۔۔۔ 27 نومبر 2018
- رازِ زندگی
- سہولت کار
- آج کی بات ۔۔۔ 25 نومبر 2018
- خیر خواہی۔۔۔ دین کا بنیادی حصہ ۔۔ خطبہ جمعہ مسجد ن...
- ہماری تباہی اور اسوہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
- آج کی بات۔۔۔۔ 21 نومبر 2018
- آج کی بات ۔۔۔ 20 نومبر 2018
- مٹی (مکالمہ) از عمر الیاس
- مسلمان کی تذلیل ۔۔۔ ہم اور ہمارا میڈیا - خطبہ جمعہ...
- زندگی دریا کی طرح ہے۔۔۔ جو بہتا رہے تو بہتر ہے۔
- دلی راحت اور سکون کے شرعی نسخے ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد ...
- کنارے سے بندھی کشتی
- دیوار میں در رکھنا
- قرآن کہانی ۔۔۔ حضرت یونس علیہ السلام
- آج کی بات ۔۔۔ 01 نومبر 2018
- ◄ اکتوبر 2018 (7)
- ◄ ستمبر 2018 (21)
- ◄ جولائی 2018 (7)
- ◄ اپریل 2018 (21)
- ◄ فروری 2018 (39)
- ◄ جنوری 2018 (38)
-
◄
2017
(435)
- ◄ دسمبر 2017 (25)
- ◄ نومبر 2017 (29)
- ◄ اکتوبر 2017 (35)
- ◄ ستمبر 2017 (36)
- ◄ جولائی 2017 (23)
- ◄ اپریل 2017 (33)
- ◄ فروری 2017 (34)
- ◄ جنوری 2017 (47)
-
◄
2016
(187)
- ◄ دسمبر 2016 (19)
- ◄ نومبر 2016 (22)
- ◄ اکتوبر 2016 (21)
- ◄ ستمبر 2016 (11)
- ◄ جولائی 2016 (11)
- ◄ اپریل 2016 (14)
- ◄ فروری 2016 (23)
- ◄ جنوری 2016 (10)
-
◄
2015
(136)
- ◄ دسمبر 2015 (27)
- ◄ نومبر 2015 (22)
- ◄ ستمبر 2015 (1)
- ◄ جولائی 2015 (10)
- ◄ اپریل 2015 (4)
- ◄ فروری 2015 (12)
- ◄ جنوری 2015 (9)
-
◄
2014
(117)
- ◄ دسمبر 2014 (5)
- ◄ نومبر 2014 (14)
- ◄ اکتوبر 2014 (11)
- ◄ ستمبر 2014 (11)
- ◄ جولائی 2014 (8)
- ◄ اپریل 2014 (5)
- ◄ فروری 2014 (14)
- ◄ جنوری 2014 (12)
-
◄
2013
(293)
- ◄ دسمبر 2013 (18)
- ◄ نومبر 2013 (21)
- ◄ اکتوبر 2013 (35)
- ◄ ستمبر 2013 (26)
- ◄ اپریل 2013 (59)
- ◄ فروری 2013 (30)
- ◄ جنوری 2013 (27)
-
◄
2012
(56)
- ◄ ستمبر 2012 (2)
- ◄ جولائی 2012 (2)
- ◄ فروری 2012 (14)
- ◄ جنوری 2012 (8)
-
◄
2011
(28)
- ◄ دسمبر 2011 (6)
- ◄ نومبر 2011 (22)