شکریہ نورین تبسم صاحبہ ۔۔۔ اپنے سالگرہ کے دن یہ تحریرایک خوبصورت پیغام کی صورت یہاں پوسٹ کر رہی ہوں۔ :)
"اگر ہراُترتی شب ہم اپنا محاسبہ نہ بھی کر سکیں تو سال کا آخری روز پورے سال کے اعمال کا جائزہ لینے کو کافی ہوتا ہے لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں کم از کم ایک دن تو ایسا آتا ہے جب اتنی بڑی کائنات میں وہ دن صرف ہمارا ہوتا ہے۔۔۔
ہمارا جنم دن ۔۔۔۔۔ اگر اس روز ہمارا احساس نہ جاگے ایک پل کو بھی یہ خیال نہ آئے کہ ہم کیوں اس دُنیا میں آئے؟ ہماری تخلیق کا مقصد کیا تھا؟ تو اس سے بڑی زیادتی اپنے آپ کے ساتھ اورکوئی نہیں ۔ بے شک اس سوال کا جواب ہمیں کبھی نہیں ملتا اور نہ ہی ہم اس کو جاننے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ پر کسی سوال کا جواب نہ ملنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ سوال لایعنی ہے۔ اہم یہ ہے کہ اس روز اپنے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے،اپنے آپ کو وقت دیا جائے۔اور ہم اس کے برعکس اپنے آپ کو فراموش کر کے اپنی خوشیاں دوسروں کی آنکھوں میں تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے پیاروں کے احساس میں وہ ہمیں ضرور ملتی ہیں لیکن جتنی خوشی ہم اپنے آپ کو دے سکتے ہیں اتنی شاید کسی کا بڑے سے بڑا تحفہ بھی نہیں دے سکتا۔ " سکون" وہ نعمت وہ تحفہ ہے جو اپنے جنم دن کی صبح بستر سے صحت اور سلامتی کے ساتھ اٹھنے کے بعد ملتا ہے۔اگر ہم اس پل اس خوشگوار احساس کو محسوس کر سکیں ۔
" سوال ہمارے وجود کے شجر سے پھوٹتی وہ نرم ونازک کونپلیں ہیں جو خیال کی بارش کے بعد نمودار ہوتی ہیں اور اِسے سرسبز بناتی ہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو ٹنڈ منڈ درخت نہ سایہ دیتے ہیں اورنہ ہی بارآور ہوتے ہیں"۔
جنم دن سالگرہ کا دن بھی کہلاتا ہے۔ گزرتے سال جو کھویا جو پایا اُس کو گرہ کی صورت ذہن نشیں کر لینا آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ماضی کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرنے والے نہ صرف حال سے مطمئن نہیں ہوتے بلکہ مستقبل کے وسوسے اوراندیشے بھی کسی پل چین نہیں لینے دیتے۔ سالگرہ کے بعد آنے والا اگلا دن ہمارا ایک نیا جنم دن ہوتا ہے جس میں آنے والے سال کے خواب ہمارے ساتھ آنکھیں کھولتے ہیں ۔ خواب اور حقیقت کے مابین فاصلہ رکھنا ہی اصل کمائی اوراہلیت ہے۔ جن کے خواب زندہ رہتے ہیں حقیقت کی دُنیا میں بھی پوری تابندگی کےساتھ جگمگانا اُن کا مقدر ہے۔ ورنہ محض خواب دیکھنے والی آنکھیں عمل سے دور اپنی ذات کی اسیر ہوجاتی ہیں ۔
از: نورین تبسم (سالگرہ)