کلام: مفتی تقی عثمانی
کلام: مفتی تقی عثمانی
~!~ زبانیں جہاں گنگ ہیں لفظ ششدر ~!~ کلام: مفتی تقی عثمانی حرم کی مقدس فضاؤں میں گم ہوں میں جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں گم ...
علم یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہوکہ 'کیا' کہنا ہے حکمت یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ 'کب' کہنا ہے
آواز مفتی تقی عثمانی دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا سرگشتہ و درماندہ ۔۔۔ بے ہمت و...
اس کے بعد اتفاق سے میرے پاس آج ایک ای میل آئی جس میں اس دن کی پرزور مذمت کی گئی تھی تو میں نے سوچا کہ کچھ اظہار خیال میں بھی کرلوں اس پر۔
کوا چلا ہنس کی چال سیما آفتاب نومبر کے شروع میں فیس بک پر ایک اشتہار پر نظر پڑی کہ ” بلیک فرائیڈے پر شاپنگ کریں حیرت انگیز کم ...
کیا آپ نے سورۃ فاتحہ پڑھی ہے؟ پروفیسر محمد عقیل(کراچی) -------------------------------------------- کیا تم نے سورہ فاتحہ پڑھی...
علم یہ نہیں کہ بات کتنی گہری ہے اور الفاظ کتنے مشکل ہیں, علم یہ ہے کہ بات کتنی ضروری ہے اور الفاظ کتنے سادہ ہیں۔
اللہ اکبر کے الفاظ وہ سب سے بڑی حقیقت ہیں جو کسی انسان کی زبان سے ادا ہو سکتے ہیں ۔ یہ اتنے بڑے الفاظ ہیں کہ آسمان و زمین بھی ان کی ...
آدمی کو چاہئے کہ وه حقیقت پسند بنے - وه خواہشوں کے پیچهے نہ دوڑے - کیوں کہ خواہشیں آدمی کو گڑهے کے سوا کسی اور منزل پر پہنچانے والی نہی...
دراصل تنہائی کے لمحات ہی حق اور سچ ہوتے ہیں انسان اس وقت ”ریئل“ ہوتا ہے جب وہ اکیلا ہو.
~!~ یادِ حرم ~!~ مجھے فرقت میں رہ کر پھر وہ مکہ یاد آتا ہے وہ زم زم یاد آتا ہے، وہ کعبہ یاد آتا ہے پہن کر صرف دو کپڑے م...
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہ...
مرد مسلمان ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان! قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو ...
نومبر 2011 میں ایک ویب ریڈیو(pakistanradio.net) سے وابستگی کے دوران "ڈائری" کے موضوع پر کیے گئے پروگرام کے لئے کچھ اپنی کاوش شامل کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ فیس بک یادداشت کے ذریعے 3 دن پہلے مجھے نظر آئی تو یاد تازہ ہو گئی -
ہے یہ میری ذات کا اک بیاں
ملے اس میں مجھ کو میرا نہاں
میرے ذوق کا، میرے شوق کا
میرے درد کا، میرے چین کا
میری ہر خوشی، میرا کوئی دکھ
وہ ہے اس کے ورق پر عیاں
کبھی اس کو کھول کے دیکھوں تو
یہ ملاتی ہے میری ذات سے
میں نے کب لکھا؟
میں نے کیوں لکھا؟
یہ ملاتی ہے اسی یاد سے
کوئی اس کو اپنی سکھی کہے
کوئی یہ کہے، میری رازداں
مگر میں تو بس اسے یہ کہوں
"میری ڈائری، میرا آئینہ"
" میری ڈائری، میرا آئینہ " نومبر 2011 میں ایک ویب ریڈیو (pakistanradio.net) سے وابستگی کے دوران " ڈائری " کے ...
جو حق کی مخالفت کرتے ہیں وہ اندھے شیطان ہوتے ہیں اور جو اس کا ساتھ نہیں دیتے وہ گونگے شیطان ہوتے ہیں۔ ابو یحییٰ
فقیر نے کہا " حضور بس میرا یہ کاسہ بھر دیجئے ،، مجھے اور کچھ نہیں چاہئے "
بادشاہ ہنسا اور کہنے لگا "بس ...." .... پھر اس نے اپنے سارے پہنے ہوۓ جواہرات کاسے میں ڈال دئے ، مگر کاسہ نہ بھرا ،،،،،، بادشاہ بڑا حیران ہوا ، مگر یہ اسکی عزت کا معاملہ تھا ،،اس نے وزیروں کو حکم دیا ... وہاں موجود سارے وزیروں نے بھی اپنے اپنے جواہرات اتار کر کاسے میں ڈالے ،، پھر بھی کاسہ خالی کا خالی ...
اب بادشاہ نے سلطنت کے خزانے کا منہ کھول دیا ....... سلطنت کا سارا خزانہ کاسے میں ڈال دیا گیا ، مگر کاسہ پھر بھی خالی ہی رہا ..
فقیر مسکراتے ہوۓ واپس جانے لگا ،، بادشاہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا ، کہنے لگا "حضور ، صرف اتنا بتا دیں کہ یہ پیالہ ہے کیا چیز ؟"
فقیر نے جواب دیا ..
"حضور یہ خواہشات کا پیالہ ہے ،،اسے قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی"
مجھے یہ واقعہ یاد نہ آتا اگر میں توفیق صاحب سے نہ ملتا ... میں کل قائد_اعظم لائیبریری میں بیٹھا اسٹڈی کر رہا تھا کہ چار بجے کے قریب مجھے بھوک محسوس ہوئی ... میں کتاب رکھ کے باہر آیا ، دیکھا تو لائبریری کی کنٹین بند تھی ،، آخر باغ_ جناح کی گلشن کینٹین کی جانب چل دیا .. وہاں جا کے دیکھا تو وہ بھی بند ... مایوس ہو کر واپس آ رہا تھا کہ میری نظر اس آدمی پہ پڑی جو کہ آلو چنے بیچ رہا تھا ...
میں نے پوچھا "کتنے کا کپ ہے "
کہنے لگے " 20 کا "
کپ لے کر میں وہیں پہ کھڑا کھڑا چنے کھانا شروع ہوگیا .... کافی مزے کے تھے .... وقت کاٹنے کے لئے گفتگو شروع کر دی
میں نے پوچھا " کیا نام ہے ؟ "
کہنے لگے " توفیق"
پوچھا "آپ کہاں سے ہو "
کہنے لگے " جی میں تاجپورہ سکیم سے ہوں "
" روزانہ اتنی دور کیسے آتے ہو "
بولے " جی پہلے اسٹیشن پر ، اور پھر وہاں سے بس پہ یہاں "
"کب سے آ رہے ہو ؟؟"
"جی میں ضیاء الحق کے دور سے روزانہ یہاں آرہا ہوں "
"یہی کام کر رہے ہیں"
"جی یہی کام کر رہا ہوں "
"گزارہ ہو جاتا ہے اس سے ؟؟"
اس پر وہ کمال اطمینان سے بولے " اللہ کا بڑا کرم ہے ... تین ، چار سو بچ ہی جاتا ہے ،، بڑی اچھی گزر رہی ہے "
"اچھا .. بچے کیا کرتے ہیں "
"جی وہ اقرا پبلک سکول میں پڑھتے ہیں "
"کس کلاس میں ؟"
"کلاس کا تو مجھے نہیں پتا ... میں بس صبح سکول چھوڑ دیتا ہوں ،، اور پھر چھٹی کے وقت انکی ماں انکو لے جاتی ہے "
.... توفیق بھائی کے ساتھ میری بات یہاں ختم ہو گئی ،، مگر میں سوچنا شروع ہو گیا کہ خواہش کیا چیز ہے ، اور ذہنی سکون کا معیار کیا ہے ...
صرف ایک نکتہ سمجھنے والا ہے ، اور وہ یہ کہ دماغی سکون صرف اور صرف جو موجود ہے اس پر مطمئن اورشکرگزار ہونے میں رکھا ہے ... انسان جتنا قانع ہو گا اتنی ہی زیادہ پر سکون زندگی گزارے گا ،،، "ھل من مزید" کی گردان اگر ایک بار شروع ہو جائے تو کبھی ختم نہیں ہوتی ....
آپ کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی ، بہتر سے بہتر کی کوشش تو کرنی چاہیے ، ترقی تو کرنی چائیے ،، میں بہتر کی کوشش کے خلاف نہیں بول رہا ،،،، میں تو یہ کہ رہا ہوں کہ آپ جو مرضی کریں ، مگر جو موجود ہے اس پر مطمئن ہو جائیں ...
توفیق بھائی اپنے کام سے واقعی مطمئن ہیں ،، کیوں کہ کوئی انسان بغیر اطمینان کے ایک کام مسلسل تیس سال نہیں کر سکتا ، اگر وہ نہ ہوتے تو یقینا تیس سال کے عرصے میں یہ کام تبدیل کر چکے ہوتے ....
.... روزمرہ سے متعلق دو چیزیں انسان کی زندگی میں کردار ادا کرتی ہیں ،، بنیادی ضرورت ، اور آسائشات ..... آپ ترقی کریں ، اچھی سے اچھی چیز لائیں ،، مگر بنیادی ضروریات اور آسائشات میں فرق رکھیں ،،، جس دن آپ ناقابل_ رسائی آسائشات کو بنیادی ضروریات کے کھاتے میں لے آئے ، اس دن آپ کا ذہنی سکون ختم ہو جائے گا ... اور آپ ان کے پیچھے بھاگنا شروع ہو جائینگے ، یہ سوچ کر کہ میں تو اچھی زندگی گزار ہی نہیں رہا .... مگر اس میں بات یہ ہے کہ وہ اچھی زندگی کبھی نہیں آئیگی ، کیونکہ جب اس لیول پر پہنچیں گے تو اس سے اوپر والے لیول کی زندگی اچھی اور وہ عام لگنا شروع ہو جائے گی ، اور آپ پھر اس کے لئے بھاگنا شروع کر دینگے ... جسکے پاس ایک ارب روپیہ موجود ہے ، اور اسکی زندگی میں سکون نہیں ہے ، وہی یہی سمجھتا ہے کہ جب یہ ایک ارب ، دو ارب میں تبدیل ہو جائیگا تو سکون آ جائیگا اور زندگی بہتر گزرنا شروع ہو جائیگی ،،، حالانکہ یہ ہونے کے بعد بھی اسے سکون نہیں ملے گا ، اور وہ تین ارب کے پیچھے جائیگا ..
اسکے برعکس توفیق بھائی جیسے لوگ چار سو روپے میں وہ سکون اور خدا پہ بھروسہ پا لیتے ہیں جو اربوں والے نہیں پا سکتے
"کاسہ" بادشاہ نے فقیر سے خوش ہو کر کہا "مانگو کیا مانگتے ہو" فقیر نے کہا " حضور بس میرا یہ کاسہ بھ...
جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے
منظر ہو بیاں کیسے ، الفاظ نہیں ملتے
جس وقت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا دربار نظر آئے
- یہ وہ متبرک مسجد ہے جہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سخت دھوپ میں جب مدینہ قحط کی صورت سے دو چار تھا اور انسانوں سمیت جانور اور درخت تک سوکھ گئے تھے ، الله سبحان و تعالی کی بارگاہ میں بارش کی دعا کی تھی تو دوران دعا بادل کا ایک ٹکڑا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک پر سایہ فگن ہوگیا تھا اور فوری طور سے مدینہ میں بارش شروع ہوگی اور پورا مدینہ ہرا بھرا ہوگیا - اس واقعہ کے وقت آپکے نو عمر نواسے سیدنا حسن رضی الله عنہ بھی آپ کے ساتھہ تھے - اس واقعہ کی مناسبت سے اس مقام پر بنائی جانے والی اس مسجد کا نام '' مسجد غمامہ '' رکھا گیا کیوں کہ عربی میں غمامہ ''بادل '' کو کہتے ہیں -
اس کے علاوہ اس مقام پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عید کی نمازیں بھی پڑھی ہیں اور قربانی کے اونٹ اور بھیڑیں بھی نحر یعنی قربان کی ہیں
سفرِ حج 2015 کے دوران زیارات مدینہ جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے منظر ہو بیاں کیسے ، الفاظ نہیں...
آج کا انسان ایک نا معلوم اندیشے سے دوچار ہے۔ اندیشے کی ضد امید ہے۔ امید اس خوشی کا نام ہے، جس کے سہارے غم کے ایؔام بھی کٹ جاتے ہیں...
ہمارے 2015 کے سفرِ حج کے دوران زیاراتِ مکہ کی چند تصاویر۔ جبل ثور جہاں غار ثور واقع ہے جبل الرحمتہ (عرفات) ...
کچھ میرے بارے میں
مقبول اشاعتیں
فیس بک
بلاگ محفوظات
-
◄
2024
(4)
- ◄ اکتوبر 2024 (1)
- ◄ جنوری 2024 (3)
-
◄
2023
(51)
- ◄ دسمبر 2023 (1)
- ◄ اپریل 2023 (8)
- ◄ فروری 2023 (19)
- ◄ جنوری 2023 (8)
-
◄
2022
(9)
- ◄ دسمبر 2022 (9)
-
◄
2021
(36)
- ◄ دسمبر 2021 (3)
- ◄ اکتوبر 2021 (6)
- ◄ ستمبر 2021 (1)
- ◄ جولائی 2021 (8)
- ◄ فروری 2021 (7)
- ◄ جنوری 2021 (1)
-
◄
2020
(88)
- ◄ اکتوبر 2020 (5)
- ◄ اپریل 2020 (13)
- ◄ فروری 2020 (10)
- ◄ جنوری 2020 (16)
-
◄
2019
(217)
- ◄ دسمبر 2019 (31)
- ◄ نومبر 2019 (28)
- ◄ اکتوبر 2019 (27)
- ◄ ستمبر 2019 (18)
- ◄ جولائی 2019 (32)
- ◄ اپریل 2019 (11)
- ◄ فروری 2019 (7)
- ◄ جنوری 2019 (15)
-
◄
2018
(228)
- ◄ دسمبر 2018 (13)
- ◄ نومبر 2018 (18)
- ◄ اکتوبر 2018 (7)
- ◄ ستمبر 2018 (21)
- ◄ جولائی 2018 (7)
- ◄ اپریل 2018 (21)
- ◄ فروری 2018 (39)
- ◄ جنوری 2018 (38)
-
◄
2017
(435)
- ◄ دسمبر 2017 (25)
- ◄ نومبر 2017 (29)
- ◄ اکتوبر 2017 (35)
- ◄ ستمبر 2017 (36)
- ◄ جولائی 2017 (23)
- ◄ اپریل 2017 (33)
- ◄ فروری 2017 (34)
- ◄ جنوری 2017 (47)
-
◄
2016
(187)
- ◄ دسمبر 2016 (19)
- ◄ نومبر 2016 (22)
- ◄ اکتوبر 2016 (21)
- ◄ ستمبر 2016 (11)
- ◄ جولائی 2016 (11)
- ◄ اپریل 2016 (14)
- ◄ فروری 2016 (23)
- ◄ جنوری 2016 (10)
-
▼
2015
(136)
- ◄ دسمبر 2015 (27)
-
▼
نومبر 2015
(22)
- زبانیں جہاں گنگ ہیں ، لفظ ششدر
- آج کی بات ۔۔۔۔ 29 نومبر 2015
- ایک سوال
- دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
- کوا چلا ہنس کی چال
- کیا ہم نے سورہ الفاتحہ پڑھی ہے؟
- آج کی بات ۔۔۔ 25 نومبر 2015
- اللہ اکبر
- آج کی بات ۔۔۔ 17 نومبر 2015
- آج کی بات ۔۔۔ 14 نومبر 2015
- یادِ حرم
- آج کی بات ۔۔۔ 13 نومبر 2015
- پیغام اقبال
- گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان!
- میری ڈائری، میرا آئینہ (ذاتی کاوش)
- آج کی بات ۔۔۔ 08 نومبر 2015آ
- کاسہ
- سفر مدینہ 2015
- آج کی بات ۔۔۔ 05 نومبر 2015
- زیاراتِ مکہ 2015
- سفرِ سوئے حرم ღ
- کردار کی آزمائش
- ◄ ستمبر 2015 (1)
- ◄ جولائی 2015 (10)
- ◄ اپریل 2015 (4)
- ◄ فروری 2015 (12)
- ◄ جنوری 2015 (9)
-
◄
2014
(117)
- ◄ دسمبر 2014 (5)
- ◄ نومبر 2014 (14)
- ◄ اکتوبر 2014 (11)
- ◄ ستمبر 2014 (11)
- ◄ جولائی 2014 (8)
- ◄ اپریل 2014 (5)
- ◄ فروری 2014 (14)
- ◄ جنوری 2014 (12)
-
◄
2013
(293)
- ◄ دسمبر 2013 (18)
- ◄ نومبر 2013 (21)
- ◄ اکتوبر 2013 (35)
- ◄ ستمبر 2013 (26)
- ◄ اپریل 2013 (59)
- ◄ فروری 2013 (30)
- ◄ جنوری 2013 (27)
-
◄
2012
(56)
- ◄ ستمبر 2012 (2)
- ◄ جولائی 2012 (2)
- ◄ فروری 2012 (14)
- ◄ جنوری 2012 (8)
-
◄
2011
(28)
- ◄ دسمبر 2011 (6)
- ◄ نومبر 2011 (22)