کام آساں ہے ، اسے دشوار ہونا چاہیے



خامشی اچھی نہیں ، انکار ہونا چاہیے
یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہیے

خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی
پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہیے

اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہیے

بات پوری ہے ، ادھوری چاہیے ، اے جانِ جاں
کام آساں ہے ، اسے دشوار ہونا چاہیے

دوستی کے نام پر کیجے نہ کیونکر دشمنی
کچھ نہ کچھ آخر طریقِ کار ہونا چاہیے

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر|
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے

ظفر اقبال
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں