مغفرت کا مہینہ (استاد نعمان علی خان) حصہ اول

اس لیکچر میں انشاءاللہ میں آپ سے رمضان کے متعلق بات کروں گا، اور بتاؤں گا کہ کس طرح قرآن اس مہینے کی عکاسی کرتا ہے. اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں صرف ایک دفعہ رمضان کے متعلق بیان فرمایا ہے. تقویٰ،آخرت،مختلف انبیاء،اور مختلف احکام، کے بارے میں کئی دفعہ فرمایا،پر جب رمضان کے بارے میں بات کی تو صرف ایک دفعہ. اور اس کا ذکر سورہ البقرہ میں کیا گیا ہے. اور جس جگہ اس بارے میں فرمایا گیا وہ جاننا بہت ضروری ہے.
 سورہ البقرہ کے شروع کے آدھے حصے میں اللہ نے ہمیں یہ بتایا کہ بنی اسرائیل اب منتخب شدہ قوم(اسپیشل) کیوں نہیں رہی. ان کی کیا غلطیاں تھیں. اس سب کے متعلق اللہ نے سورہ البقرہ میں بیان فرمایا. اس کے بعد اللہ نے ابراہیم علیہ اسلام کے بارے میں بیان کیا. کیوں؟ کیونکہ ابراہیم علیہ اسلام عرب اور یہودیوں کو جوڑتے ہیں. (وہ دونوں کے درمیان ایک لِنک ہیں) اور وہ کیوں ہیں؟ عرب، اسماعیل علیہ اسلام کی اولاد تھے. اور یہودی، اسحاق علیہ اسلام کے. دونوں قوموں کے درمیان جو تعلق بنتا تھا وہ ابراہیم علیہ اسلام سے تھا. ان کو ابراہیم علیہ اسلام کے متعلق یاد دہانی کروائی گئی تھی (یہودیوں کو)، کیونکہ وہ کہتے تھے ہم تب ہی نبی کو مانیں گے جب وہ ہماری نسل میں سے ہوگا. یعنی، اسحاق علیہ اسلام کی جنریشن میں سے. اور اللہ انہیں یاد کرواتا ہے کہ تم لوگ اسحاق علیہ اسلام کی اولاد کو ہی کیوں مان رہے ہو، اور تمہیں ابراہیم علیہ اسلام کی پرواہ نہیں ہے. کیونکہ ابراہیم علیہ اسلام، اسماعیل علیہ اسلام کے والد تھے اور ان کے ذریعے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا. اس سب کے پیچھے خیال یہ تھا کہ، (chosen ummah) منتخب شدہ امت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد تھی. پہلے اسحاق علیہ اسلام کے نسب سے رہی، اور اب اسماعیل علیہ اسلام کے نسب سے ہے. مگر آخر میں وہ سب ہی ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد ہیں. کوئی فرق تو نہ تھا. تو اب جب، اللہ نے وہ پوری فہرست بیان کردی، (کہ کیوں انہیں رسالت نہیں دی جائے گی اب) پھر انہیں ابراہیم علیہ اسلام کے متعلق یاد کروایا گیا، اور ابراہیم علیہ اسلام کا جو قصہ بیان ہوا وہ یہ تھا:
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (البقرہ)
جب ابراہیم علیہ اسلام کعبہ کی بنیاد رکھ رہے تھے.
اور اس واقعے کا ذکر سورہ البقرہ کے پہلے آدھے حصے کے فوراً بعد ہوا. یہ جاننا کیوں ضروری ہے کہ ابراہیم علیہ اسلام نے کعبہ تعمیر کیا؟ کچھ آیات کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ اب وہ مسجد الاقصٰی کو اپنا قبلہ نہیں بنائیں گے بلکہ مسجد الحرام کی طرف نماز ادا کریں گے. اور اس سے پہلے اللہ نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ اسلام نے ہی اس کو تعمیر کیا تھا. کیوں؟ کیونکہ یہودی، اور ہم، تب تک مسجد الاقصٰی کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے. اور اس حکم کے بعد مسلمان کعبہ کی طرف رخ کر کے ادا کرنے لگ گئے. جب نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم مکہ میں تھے، تو مسجد الحرام کی طرف رخ کرنا اور ساتھ ہی مسجد الاقصٰی کی طرف رخ کرنا آسان تھا. دونوں طرف ایک ساتھ کیا جا سکتا تھا. جب آپ حرم کی رخ میں کھڑے ہوتے تھے تو آپ مسجد الاقصی کے ہی رخ میں ہوتے تھے. مگر جب آپ مدینہ جائیں تو ایسا نہیں ہے. یا تو آپ کعبہ رخ ہونگے، یا پھر کعبہ سے رخ پھیر کر مسجد الاقصٰی کی طرف کھڑے ہونگے. دونوں کی طرف ایک ہی وقت میں رخ ممکن نہیں ہے. جب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم مکہ میں تھے تو وہ دونوں طرف ایک ساتھ رخ کرسکتے تھے. پر جب مدینہ تشریف لے گئے تو اب ایک ہی طرف رخ کیا جاسکتا تھا. اور وہ مسجد الاقصٰی کی طرف رخ کرتے تھے. اور اس بات سے انہیں دکھ پہنچتا تھا. اور جب کعبہ طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تھا تو اللہ نے فرمایا تھا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھتے دیکھ لیا تھا. سو اس لیے ہم قبلہ بدل رہے ہیں.
 میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ، ایک قوم اپنے دارالحکومت کے ذریعے جانی جاتی ہے. خاص طور پر جب آپ ایک بہت بڑی قوم ہیں. تب آپ کے پاس ایک کیپیٹل (دارلحکومت) ہونا چاہیے، وہ آپ کی شناخت ہوتی ہے. اگر ملک کا ایک شہر دشمنوں کے ہاتھ لگ جائے تو اتنی بڑی بات نہیں ہوتی. پر کب پورے ملک کو ہرادیا جاتا ہے؟ "جب آپ کیپیٹل پر قبضہ کرلیتے ہیں". قبلہ، مسلمانوں کے لیے، ان کی شناخت ہے. وہ ہمارا کیپیٹل ہے. جس وقت اللہ نے ہمارا قبلہ تبدیل کیا تھا، اس نے ہماری شناخت بدل دی تھی. اللہ ہم میں اور یہودیوں میں فرق ظاہر کرنا چاہتے تھے. اور جیسے ہی اس کا حکم ہوا، اللہ نے فرمایا:"اور اس طرح بنادیا ہم نے تم کو ایک امت وسط" ہمیں ایک نئی قوم کی حیثیت سے متعارف کروایا. اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ہمیں بتایا، کہ تحویل قبلہ یہودیوں کو پسند نہ آیا. سوال پیدا ہوتا ہے، انہیں یہ بات کیوں نہیں پسند آئی؟ "کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب تک مسلمان مسجد الاقصٰی کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہیں گے، وہی کیپیٹل رہے گا، جس کا مطلب ہے ہم (یہودی) منظور شدہ لوگوں میں شامل رہیں گے. پر جب قبلہ بدلے گا، تو ہمیں ان کا کیپیٹل قبول کرنا ہوگا، یعنی، ہمیں ابراہیم علیہ اسلام اور اسماعیل علیہ اسلام کو بھی قبول کرنا پڑے گا. ہماری اپنی کوئی شناخت نہ ہوگی. اللہ کی نظر میں ہماری اب کوئی حیثیت نہ رہے گی. اور یہ ثبوت تھا اس بات کا کہ وہ دل ہی دل میں نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کو مانتے تھے.
 "وہ انہیں ایسے جانتے تھے جیسے اپنی اولاد کو جاتے تھے" (سورہ البقرہ) 
وہ جانتے تھے کہ یہی اللہ کے نبی ہیں. ان کے رویے سے یہ ظاہر تھا. مگر وہ ماننے کو تیار نہ تھے. سو جس پہلی چیز نے ہمیں یہودیوں سے منفرد کیا تھا وہ تحویل قبلہ تھی. ہم روزے بھی انہی دنوں میں رکھا کرتے تھے جن دنوں میں یہودی رکھتے تھے. پانچ نمازوں سے قبل ہمارے اوقات الصلوۃ بھی ایک تھے. کیونکہ وہ موسی علیہ اسلام کی شریعت تھی، جب تک نئی شریعت نافذ نہ کی جاتی ہمیں اسی شریعت کی پیروی کرنا تھا. 
ہم انہی دنوں روزے رکھتے تھے جن دنوں میں یہودی رکھا کرتے تھے، اور پھر آیت نازل ہوئی:
 أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ
 اے ایمان والوں فرض کیے گئے ہیں تم پر روزے
 كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ
 جیسے فرض کیے گئے تھے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے
 کون تھے وہ لوگ؟ یہودی، بنی اسرائیل. اب ہم میں اور یہودیوں میں مشترک چیز "روزے" تھے.
 پھر اللہ نے فرمایا: 
 لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
 تاکہ تم پرہیزگار بن سکو(اپنی حفاظت کر سکو). 
 سورہ البقرہ کے پہلے حصے میں اللہ عزوجل یہودیوں کے بارے میں بیان کر رہے تھے، کہ تم لوگوں میں تقویٰ کیوں نہیں ہے. ان کا مسئلہ ہی یہ تھا کہ وہ پرہیزگار نہیں تھے. اور اب اللہ فرمارہے ہیں کہ تم لوگوں کو بھی وہی مشق دی گئی ہے(روزے) تاکہ تم لوگ پرہیزگار بن جاو. دوسری مشترکہ بات یہودیوں اور ہم میں یہ تھی کہ "ہم پرہیزگار بن جائیں".
 میں آپ سے اسی موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ تقویٰ اصل میں ہے کیا. عموماً تقویٰ کے معنی "اللہ کا خوف" ہے. تقوی، لفظ "وقایا" سے نکلتا ہے. جس کے معنی "بچاو" کے ہیں. تقویٰ "اتقاء" سے ملتا جلتا ہے، جس کا مطلب ہے "خود کو محفوظ رکھنا، اپنا بچاو کرنا". اس لیے روز قیامت ہر کوئی اپنی حفاظت کرنا چاہے گا.
جیسے اللہ فرماتے ہیں: -
 فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ
 تم کس طرح خود کو محفوظ کروگے جبکہ تم کفر کرتے ہو. 
یہاں لفظ تتقون کا استعمال کیا "حفاظت کے لیے".
 اللہ نے فرمایا اس نے تم پر روزے فرض کیے تاکہ تم خود کی حفاظت کر سکو. 
اس کا مطلب کیا ہے؟
جاری ہے۔۔۔۔۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں