سیلاب : رحمت یا زحمت
( از ابو یحییٰ: ماہنامہ انذار، اکتوبر 2014)
پاکستان ایک دفعہ پھر سیلاب کی زد میں ہے۔سیکڑوں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ہزاروں ایکڑ زرعی اور رہائشی زمین زیر آب آچکی ہے ۔ لاکھوں لوگ متاثرہوچکے ہیں۔
( از ابو یحییٰ: ماہنامہ انذار، اکتوبر 2014)
پاکستان ایک دفعہ پھر سیلاب کی زد میں ہے۔سیکڑوں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ہزاروں ایکڑ زرعی اور رہائشی زمین زیر آب آچکی ہے ۔ لاکھوں لوگ متاثرہوچکے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا اور آخری سیلاب نہیں ۔ فیڈرل فلڈ کمیشن کے مطابق پاکستان میں اب تک دو درجن بڑے سیلاب آئے ہیں ۔ان میں سب سے بڑا سیلاب 2010کا تھا۔ یہ وہی سیلاب تھا جس میں بعض نادان مذہبی دانشوروں نے یہ غیر ضروری بحث اٹھادی کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ہم نے اُس وقت بھی پے در پے مضامین لکھ کر قرآ ن مجید اور عقل عام کی روشنی میں یہ ثابت کیا تھا کہ سیلاب عذاب نہیں ہوتا، اصل عذاب وہ نااہل فکری اور سیاسی قیادت ہوتی ہے جسے لوگ اپنے جذبات و تعصبات کی بنا پر خود اپنے اوپر مسلط کرلیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک زرعی ملک کے لیے بارشیں اور ان سے آنے والا سیلاب اللہ کی عظیم نعمت ہے۔خاص کر ایک ایسے دور میں جب دنیا میں پانی کی کمی کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کرگیا ہو۔ سیلاب اپنے ساتھ پانی کا ایسا ذخیرہ لاتا ہے جسے ڈیموں میں جمع کرلیا جائے تو کئی برس تک پانی کی کمی کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔سیلاب اپنے ساتھ ایسی زرخیر مٹی لاتا ہے جو مردہ زرعی زمینوں کو دوبارہ زندہ کردیتی ہے۔ مگر ان فوائد سے وہی قومیں فائدہ اٹھاتی ہیں جن کی لیڈر شپ مال بنانے سے زیادہ ڈیم بنانے اور واٹر مینجمنٹ کو اہم سمجھتی ہو۔
مگر جہاں دانشور سیلاب میں چھپے مواقع دیکھنے کے بجائے عذاب کی دہائی دیتے رہیں، جہاں سیاسی رہنماصرف سیلاب کے زمانے میں متحرک ہوتے ہوں وہاں ہر دفعہ سیلاب آنے پر وہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ان دو درجن سیلابوں میں ہوا ہے۔یعنی جان و مال کی بربادی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی دنیا میں ہر مصیبت میں ایک خیر پوشیدہ ہوتی ہے۔ مگر یہ خیر اُسی کو ملتی ہے جو اسے لینے کے لیے تیار ہو۔ باقیوں کو صرف بربادی ملتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں