ہمارے دین میں بھی استاد کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کا سب سے پہلا معلم خود "پروردگارَ عالم" ہے،
قرآن پاک میں ارشاد ہے ،
"اور اٰدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔ؔ (البقرہ۔31) ۔
" رحمٰن ہی نے قراٰن کی تعلیم دی،اس نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی"۔(الرحمٰن)
"پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا"۔(العلق ۔6)
پھر اس کے بعد اللہ نے تمام انبیاء کرام کومعلم و مربی بنا کربھیجا، ہر نبی احکامات الٰہی کا معلم ہونے کے ساتھ کسی نہ کسی فن کا ماہراور معلم بھی ہوا کرتا تھا۔ بہت سے فنون متعدد انبیائے کرام سے منسوب ہیں۔
یعنی درس و تدریس (بطورِ پیشہ) دنیا کے تمام پیشوں سے اعلیٰ و افضل ہے، عربی ضرب المثل ہے کہ
"بہترین مصروفیت و مشغلہ بچوں کی تربیت کرنا ہے۔"
اس اعتبار سے ایک طالب علم کے لیے اپنے استاد کا ادب و احترام لازم ہے۔ ایک عربی شاعر کا کہنا ہے
ترجمہ: "معلّم اور طبیب کی جب تک توقیر و تعظیم نہ کی جائے وہ خیر خواہی نہیں کرتے۔ بیمارنے اگر طبیب کی توہین کر دی تو وہ اپنی بیماری پر صبر کرے اور اگر شاگرد نے اپنے استاد کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔"
ہمارے ہاں ایک عام ضرب المثل ہے
"با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب"
لہٰذا اساتذہ کی تکریم و احترام کے ذریعے ہی ایک طالب علم عمل کے منازل طے کرکے ایک کامیاب اور کارآمد انسان بن پاتا ہے۔
آخر میں میں اپنے تمام اساتذہ کی شکر گزار ہوں جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور زندگی میں جگہ جگہ وہ میرے کام آیا۔ آج نہ جانے وہ سب کہاں ہوں گے مگر میری اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیشہ ان کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے آمین۔ تمام طالب علموں سے گزارش ہے کہ اپنے اساتذہ کو وہ عزت دیں جس کے وہ مستحق ہیں، جب تک ان سے احترام کا ارشتہ نہیں ہوگا ان کے علم سے مستفید ہونا ممکن نہیں۔
سیما آفتاب
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں