شایانِ نبی کیسے کوئی مدح سرا ہو


کلام: پروفیسر اقبال عظیم

شایانِ نبی کیسے کوئی مدح سرا ہو
سرکار کی توصیف کا حق کیسے ادا ہو

ہادی کوئی ایسا جو صداقت ہو سراپا
مُصلِح کوئی ایسا جو امانت میں کَھرا ہو

اُمّی کوئی ایسا جو معلم ہو جہاں کا
 بے سر کوئی ایسا جو شہہِ ہر دو سرا ہو

ایسا کوئی سلطان کہیں دیکھا ہے تو نے
مٹی کا دیا جس کے شبستاں میں جلا ہو

ہے کوئی جو عاصی کو بھی سینے سے لگا لے
اور خون کے پیاسوں کے لئے محوِِ دعا ہو

ہر دور کی تاریخ سے یہ پوچھ رہا ہوں
ہے تیرے یہاں کوئی جو آقا سے بڑا ہو


صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کلام: پروفیسر اقبال عظیم شایانِ نبی کیسے کوئی مدح سرا ہو سرکار کی توصیف کا حق کیسے ادا ہو ہادی کوئی ایسا جو صداقت ہو سراپا مُصلِح کوئی ایسا ...

وفات کے وقت نبی صلى الله عليه وسلم کی وصیت​


وفات کے وقت نبی صلى الله عليه وسلم کی وصیت​

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی ( الغاط)​


حديث :عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِى مَرَضِهِ الَّذِى لَمْ يَقُمْ مِنْهُ:" لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ".قَالَتْ فَلَوْلاَ ذَاكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ غَيْرَ أَنَّهُ خُشِىَ أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا.البخاری :1330الجنائز ، صحیح مسلم :529المساجد}
ترجمہ :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ،وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جس مرض سے صحت یاب نہ ہو سکے اس میں فرمایا :اللہ تعالی کی لعنت ہو یہود ونصاری پر کہ ان لوگوں نے اپنےنبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ{عبادت کی جگہ }بنالیا تھا ،حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ کی قبر باہر بنائی جاتی مگر یہ خوف لاحق تھا لوگ آپ کی قبر کو مسجد بنالیں گے۔ { صحیح بخاری ، صحیح مسلم }

تشریح :اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہر مخلص و خیر خواہ انسان اپنی وفات کے وقت اپنے پس ماندگا ن اور پیر وکاروں کو بعض ایسے امور کی وصیت کرتا ہے جو اسکی نظر میں اہم اور پس ماندگان کے لئے قیمتی ہوتے ہیں ، ان امور کی ان کے مستقبل کی زندگی میں سخت ضرورت اور ان کے خوش حال رہنے میں ان کا بڑا کردار ہوتا ہے ، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ عقلمند پس ماندگان اور سمجھدار پیروکاروں کے نزدیک وصیت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور لوگ اسے نافذ کرنے کے بڑے حریص رہتے ہیں ، ہمارے نبی رحمت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب اللہ تعالی کی طرف سے قرب اجل کا اشارہ ہو اتو وفات سے قبل آپ نے بھی بڑی قیمتی اور اہم وصیتیں فرمائیں جنھیں آپ کے سچے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یاد کیا ، اس پر عمل پیرا رہے اور اپنے بعد آنے والے مسلمانوں تک اسے پہنچایا ، لیکن آج امت کے سواد اعظم کی بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ ان وصیتوں کو بھولے ہوئے ہیں یا کہیے کہ بھلائے ہوئے ہیں ، آج عید میلاد کے جلسے تو منعقد ہوتے ہیں ان جلسوں اور محفلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے لے کر ہجرت اور اس کے بعد تک کے جھوٹے سچے قصے تو بیان کئے جاتے ہیں لیکن ان وصیتوں پر توجہ نہیں دی جاتی ، افادہ ٔ عامہ کی غرض سے ذیل میں ان میں سے چند وصیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے ، شاید کہ کسی گم گشتہ راہ کو اس سے عبرت حاصل ہو ۔

{1} نبیوں اور بزرگوں کی قبر وں کو نماز ،دعا ، سجدہ اور دیگر عبادتوں کی جگہ نہ بنایا جائے : زیر بحث حدیث اسکا بین ثبوت ہے ۔ نیز حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وفات سے صرف پانچ دن قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غور سے سنو ! تم سے پہلے کے لوگ اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو مسجد {عبادت گاہ}بنالیتے تھے ، دھیان رکھو!تم لوگ قبروں کو مسجد یں نہ بنا نا ، میں تمھیں اس سے منع کررہاہوں ۔ [صحیح مسلم :532 المساجد ] 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ تو میری قبر کو بت نہ بنا کہ اسکی بوجا کی جائے ۔پھر فرمایا : اللہ تعالی کی لعنت ہو اس قوم پر جو اپنے نبیوں کی قبر کو مسجد بنا لیا ہے ۔[مسند احمد :2/246]

{2} کتاب الہٰی پر جم جاؤ: حضرت طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی [شخص کو کسی خاص ]چیز کی وصیت کی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا ، نہیں ، پھر پوچھا :تو عام مسلمانوں کو کس چیز کی وصیت فرمائی ؟ جواب دیا : کتاب اللہ پر جمے رہنے کی وصیت ۔ [صحیح البخا ری :2740 الوصایا، صحیح مسلم :1634 الوصیۃ]

{3} انصار کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید: حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور یہ آخری بار تھی کہ میں نے آپ کو منبر پر دیکھا ، آپ نے فرمایا :لوگو ! میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں ، انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں ، لہذا ان کے نیکو کار سے قبول کرنا اور ان کے خطا کار سے درگزر کرنا ، الحدیث [صحیح البخاری :3791 المناقب ]

{4} ابو بکر کی جانشینی: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی امامت کرنے سے عاجز آگئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ امام مقرر فرمایا[صحیح البخاری :664الاذان ، صحیح مسلم :418 الصلاۃ ] 
اور اپنی فات سے چار دن قبل ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا : مسجد کے صحن میں کھلنے والے جتنے دروازے ہیں وہ بند کر دیے جائیں سوائے ابو بکر کے دروازے کے [صحیح البخاری :3654 الفضائل ، صحیح مسلم : 2382 الفضائل ]

{5} جزیرہ عرب صرف مسلمانوں کے لئے ہے : شاید جمعرات کا دن تھا آپ نے لوگوں کو تین باتوں کی وصیت فرمائی ، دو باتیں تو راوی نے یاد رکھیں اور تیسری بھول گئے ، 
[1] مشرکین کو جزیرۂ عربیہ سے باہر نکال دینا ۔
[2] اور وفود کو اسی طرح نوازتے رہنا جس طرح میں نواز تا رہا ہوں [صحیح البخاری :4431 المغازی]

{6} اللہ کے ساتھ حسن ظن : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین دن قبل ہم نے سنا آپ فرما رہے تھے :تم میں سے کسی شخص کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ عز وجل کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو [صحیح مسلم :2877 ، سنن ابو داود: 3113 الجنائز ]

{7} نماز کی اہمیت اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے آخری وصیت جس پر آپ کی روح پر واز کر گئی وہ بقول حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا یہ تھی کہ نماز ، نماز [کا خصوصی اہتمام کرنا] اور تمھارے غلام [انکے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا ] [سنن ابن ماجہ :1625] حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہ تھی کہ نماز [کا دھیان رکھنا]نماز[کا دھیان رکھنا]اور اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈر تے رہنا ۔ ابو داود:5156، مسند احمد :1/78


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

وفات کے وقت نبی صلى الله عليه وسلم کی وصیت​ خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی ( الغاط)​ بشکریہ: اردو مجلس فورم حديث :عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنه...

فخرِ ‏پاکستان ‏۔۔۔ ‏عبد ‏القدیر ‏خان




ڈاکٹر عبد القدیر خان جو کہ بلا شبہ محسنِ پاکستان اور فخرِ پاکستان ہیں جنہوں نے اپنی ان تھک محنت سے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔ آج وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرکے اپنی اصل منزل کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

رواں سال ہم پاکستان کی ٹیم نے یوم تکبیر کے موقع پر محسنِ پاکستان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک نغمہ جاری کیا تھا جو میری معلومات کے مطابق ان کے لیے اب تک کا واحد نغمہ ہے۔ 



عبد القدیر خان۔۔ عبد القدیر خان
ارضِ وطن کی شان، عبد القدیر خان

دشمن کی نگاہوں میں ہوا کرتی تھی تحقیر
وہ ہم کو مٹانے کی کیا کرتا تھا  تدبیر
پھر رب نے عطا کردی، ہمیں جوہری شمشیر
ہر آن ہوا پھر سے، بلند نعرہ تکبیر

اس محسنِ وطن نے کیا ہم پہ یہ احسان

عبد القدیر خان۔۔ عبد القدیر خان
ارضِ وطن کی شان، عبد القدیر خان

ہاں فخرِ پاکستان عبد القدیر خآن
عبد القدیر خان۔۔ عبد القدیر خان

ہر اُٹھتی میلی آنکھ کو اس نے جھکا دیا
سر قوم کا فخر سے جہاں میں اٹھا دیا
کمزور جو سمجھتے تھے ان کو دکھا دیا
نصر من اللہ کا مطلب بتادیا
نصر من اللہ کا مطلب بتادیا

پُر امن ہی فتح کا جس نے کیا اعلان

عبد القدیر خان۔۔ عبد القدیر خان
ارضِ وطن کی شان، عبد القدیر خان

ہاں فخرِ پاکستان عبد القدیر خآن
عبد القدیر خان۔۔ عبد القدیر خان

باطل کی ہر سو پھیلی تھی ہیبت جہان میں
ہم ابھرے بن کے ایٹمی قوت جہان میں
تسلیم حق کی کی گئی عظمت جہان میں
ہوئی پاک سرزمیں کی شہرت جہان میں
ہوئی پاک سرزمیں کی شہرت جہان میں

دنیا میں جس نے اک الگ ہم کو دی پہچان

عبد القدیر خان۔۔ عبد القدیر خان
ارضِ وطن کی شان، عبد القدیر خان

ہاں فخرِ پاکستان عبد القدیر خآن
عبد القدیر خان۔۔ عبد القدیر خان







ڈاکٹر عبد القدیر خان جو کہ بلا شبہ محسنِ پاکستان اور فخرِ پاکستان ہیں جنہوں نے اپنی ان تھک محنت سے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔ آج...

استاد ہی لکھتے ہیں نئی صبح کی تحریر



آج دنیا بھر میں "اساتذہ" کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے "یومِ اساتذہ" منایا جا رہا ہے۔ انسان کی زندگی میں، اس کی شخصیت کو بنانے اور نکھارنے میں ماں باپ کے بعد اساتذہ کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ ماں باپ کے بعد اساتذہ ہی اس کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں، چھوٹا بچہ اپنے اساتذہ کی چھوٹی سے چھوٹی ہر بات کونوٹ کرتا ہے پھر اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک استاد ہی آنے والے کل کے لیے ایک انسان کو تیار کرتا ہے، اساد کا کام علم پہنچانے کے ساتھ ساتھ طالب علموں کی کردارسازی بھی ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا سرمایہ ہیں جو ہر طرح کے حالات میں نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیتے ہیں۔ 

ہمارے دین میں بھی استاد کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کا سب سے پہلا معلم خود "پروردگارَ عالم" ہے، 
قرآن پاک میں ارشاد ہے ،
"اور اٰدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔ؔ (البقرہ۔31) ۔

" رحمٰن ہی نے قراٰن کی تعلیم دی،اس نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی"۔(الرحمٰن)

"پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا"۔(العلق ۔6)

پھر اس کے بعد اللہ نے تمام انبیاء کرام کومعلم و مربی بنا کربھیجا، ہر نبی احکامات الٰہی کا معلم ہونے کے ساتھ کسی نہ کسی فن کا ماہراور معلم بھی ہوا کرتا تھا۔ بہت سے فنون متعدد انبیائے کرام سے منسوب ہیں۔ 

یعنی درس و تدریس (بطورِ پیشہ) دنیا کے تمام پیشوں سے اعلیٰ و افضل ہے، عربی ضرب المثل ہے کہ

"بہترین مصروفیت و مشغلہ بچوں کی تربیت کرنا ہے۔"

اس اعتبار سے ایک طالب علم کے لیے اپنے استاد کا ادب و احترام لازم ہے۔ ایک عربی شاعر کا کہنا ہے 

ترجمہ: "معلّم اور طبیب کی جب تک توقیر و تعظیم نہ کی جائے وہ خیر خواہی نہیں کرتے۔ بیمارنے اگر طبیب کی توہین کر دی تو وہ اپنی بیماری پر صبر کرے اور اگر شاگرد نے اپنے استاد کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔"
 
ہمارے ہاں ایک عام ضرب المثل ہے 

"با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب"

لہٰذا اساتذہ کی تکریم و احترام کے ذریعے ہی ایک طالب علم عمل کے منازل طے کرکے ایک کامیاب اور کارآمد انسان بن پاتا ہے۔ 

آخر میں میں اپنے تمام اساتذہ کی شکر گزار ہوں جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور زندگی میں جگہ جگہ وہ میرے کام آیا۔ آج نہ جانے وہ سب کہاں ہوں گے مگر میری اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیشہ ان کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے آمین۔ تمام طالب علموں سے گزارش ہے کہ اپنے اساتذہ کو وہ عزت دیں جس کے وہ مستحق ہیں، جب تک ان سے احترام کا ارشتہ نہیں ہوگا ان کے علم سے مستفید ہونا ممکن نہیں۔

سیما آفتاب



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

آج دنیا بھر میں " اساتذہ " کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے " یومِ اساتذہ " منایا جا رہا ہے۔ انسان کی زندگی میں، اس کی شخصی...

راستہ ہم کو دکھاتے ہیں ہمارے استاد



ہمارے استاد
شاعر: کیف احمد صدیقی

کتنی محنت سے پڑھاتے ہیں ہمارے استاد 
ہم کو ہر علم سکھاتے ہیں ہمارے استاد 

توڑ دیتے ہیں جہالت کے اندھیروں کا طلسم 
علم کی شمع جلاتے ہیں ہمارے استاد 

منزل علم کے ہم لوگ مسافر ہیں مگر 
راستہ ہم کو دکھاتے ہیں ہمارے استاد 

زندگی نام ہے کانٹوں کے سفر کا لیکن 
راہ میں پھول بچھاتے ہیں ہمارے استاد 

دل میں ہر لمحہ ترقی کی دعا کرتے ہیں 
ہم کو آگے ہی بڑھاتے ہیں ہمارے استاد 

سب کو تہذیب و تمدن کا سبق دیتے ہیں 
ہم کو انسان بناتے ہیں ہمارے استاد 

ہم کو دیتے ہیں بہر لمحہ پیام تعلیم 
اچھی باتیں ہی بتاتے ہیں ہمارے استاد 

خود تو رہتے ہیں بہت تنگ و پریشان مگر 
دولت علم لٹاتے ہیں ہمارے استاد 

ہم پہ لازم ہے کہ ہم لوگ کریں ان کا ادب 
کس محبت سے بڑھاتے ہیں ہمارے استاد 


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ہمارے استاد شاعر: کیف احمد صدیقی کتنی محنت سے پڑھاتے ہیں ہمارے استاد  ہم کو ہر علم سکھاتے ہیں ہمارے استاد  توڑ دیتے ہیں جہالت کے اندھیروں کا...

آج ‏کی ‏بات ‏۔ ‏518


❤️ آج کی بات ❤️

طوفانوں کا رخ موڑنے کا اختیار صرف "اللّہ" کو ہے، 
کسی "عبد اللّہ" کو نہیں۔

سیما آفتاب

❤️ آج کی بات ❤️ طوفانوں کا رخ موڑنے کا اختیار صرف " اللّہ " کو ہے،  کسی " عبد اللّہ " کو نہیں۔ سیما آفتاب