اشک حاضر کریں



اشک ھرگز مداوا نہیں ھیں مگر
اک دلاسہ تو ھیں
آئیے
اشک حاضر کریں
اُن بلکتے ھوئے خاندانوں کے کٹتے کلیجوں پہ گریہ کریں
جن کے نوخیز پھولوں کو ظلمت کی آندھی اڑا لے گئی
مائیں تکتی رہیں
اور اسکول سے ان کے بچّے تو کیا
ان کے بچّوں کے بستے بھی سالم نہیں آ سکے !!
آئیے
اپنے اپنے گھروں میں چراغوں کو روشن کریں
ان نگاھوں کی بیچارگی
جو قیامت تلک اپنے پیاروں کی تصویر سینے لگائے
"مِری جان" کہ کر بہت روئیں گی
ان کو پرسہ کہیں
آئیے
اُن سخی مرتبت ماوں بہنوں کی ھمت پہ اپنے سروں کو جھکا کر سلامی کہیں
وہ جنھوں نے بنامِ وطن اپنے عثمان و حیدر کو صدقہ کِیا
آئیے
اشک حاضر کریں
سیدہ فاطمہ کی ردائے مقدس کی اجلی قسم کھا کے وعدہ کریں
ان تڑپتی سسکتی بلکتی ھوئی
ماوں بہنوں سے اور اپنے ننھے شہیدوں کی معصوم روحوں سے وعدہ کریں
عصرِ حاضر کی تازہ تریں کربلا ھم نہیں بھولیں گے
بس بہت ھو گیا
ھم مسالک میں بٹ کر تہی ھو گئے
لازمی تھے کبھِی،واجبی ھو گئے
آئیے مل کے وعدہ کریں
سب ارادہ کریں
اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر
مسلکی مذھبی نفرتوں کو دلوں سے روانہ کریں
اِن شہیدوں کی روحوں کو ناظر کریں
اشک حاضر کریں !!!
اشک حاضر کریں .. !!

شاعر:  علی زریون

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں