⚔شمشیرِ بے نیام⚔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
( قسط نمبر-39)
خالدؓ کے جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی انہیں دی کہ پچھلے معرکے کے بھاگے ہوئے سپاہی بھی مدائن سے آنے والی فوج میں شامل ہورہے ہیں۔ خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں نئی صورتِ حال سے آگاہ کیا ۔’’میرے عزیرساتھیو!‘‘خالدؓ نے انہیں کہا۔’’ ہم یہاں صرف ﷲ کے بھروسے پر لڑنے کیلئے آئے ہیں۔ جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے توہم فارس کی فوج سے ٹکر لینے کے قابل نہیں۔اپنے وطن سے ہم بہت دور نکل آئے ہیں ہمیں کمک نہیں مل سکتی۔ ہم واپس بھی نہیں جائیں گے ۔ہم فارسیوں کو اور کسریٰ کو نہیں آگ کے خداؤں کو شکست دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔‘‘ ’’میں تم سب کے چہروں پر تھکن کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری آنکھیں بھی تھکی تھکی سی ہیں اور تمہاری باتوں میں بھی تھکن ہے لیکن ربِ کعبہ کی قسم ! ہماری روحیں تھکی ہوئی نہیں۔ ہمیں اب روح کی طاقت سے لڑنا ہے ۔‘‘’’ایسی باتیں زبان پر نہ لا ابنِ ولید!‘‘ ایک سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔’’ ہمارے چہروں پر تھکن کے آثار ہیں مایوسی کے نہیں ۔‘‘’’ہمارے ارادوں میں کوئی تھکن نہیں ابنِ ولید۔‘‘دوسرے سالار عدی بن حاتم نے کہا۔’’ہم نے آرام کر لیا ہے ۔سپاہ نے بھی آرام کر لیا ہے۔‘‘’’میں اسی لیے یہاں خیمہ زن ہوگیا تھا کہ ﷲ کے سپاہی آرام کر لیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا ۔’’تمہارے ارادے تھکے ہوئے نہیں تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں دوسری باتیں کرنا چاہتا ہوں جو زیادہ ضروری ہیں۔تم نے دیکھا ہے کہ ہم نے فارسیوں کو پہلے معرکے میں شکست دی تو وہ پھر ہمارے سامنے آ گئے ۔ان کے ساتھ ان کے وہ سپاہی بھی آ گئے جو پہلے معرکے سے بھاگے تھے ۔اب مجھے پھر اطلاع ملی ہے کہ دوسرے معرکے سے بھاگے ہوئے سپاہی مدائن سے آنے والی فوج کے ساتھ راستے میں ملتے آ رہے ہیں۔ اب تمہیں یہ کوشش کرنی ہے کہ اگلے معرکے میں آتش پرستوں کا کوئی سپاہی زندہ نہ جا سکے ۔ہلاک کرو یا پکڑ لو۔ کسریٰ کی فوج کا نام و نشان مٹا دینا چاہتا ہوں۔‘‘’’ہمارا ﷲ یونہی کرے گا۔‘‘تین چار آوازیں سنائی دیں۔’’سب ﷲکے اختیار میں ہے ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ ہم اسی کی خوشنودی کیلئے گھروں سے اتنی دور آگئے ہیں ۔اب جو صورت ہمارے سامنے ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرو۔یہ فیصلے جذبات سے نہیں کیے جا سکتے ہیں۔اس حقیقت کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ فارسیوں کی جنگی طاقت اور تعداد جو اب آ رہی ہے ،ہم اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ۔لیکن پسپائی کو دل سے نکال دو۔تازہ اطلاعوں کے مطابق مدائن کی فوج دجلہ عبور کر آئی ہے۔آج رات فرات کو بھی عبورکر لے گی،پھر وہ دلجہ پہنچ جائے گی،ان کی دوسری فوج بھی آ رہی ہے۔ہمارے جاسوس اس کا کوچ دیکھ رہے ہیں اور مجھے اطلاعیں دے رہے ہیں……‘‘’ﷲ ذوالجلال ہماری مدد کر رہا ہے ۔یہ اسی کی ذاتِ باری کا کرم ہے کہ فارس کی یہ دوسری فوج جو اک سالار بہمن جاذویہ کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔اس کی رفتار تیز نہیں ۔وہ پڑاؤ زیادہ کر رہی ہے۔ہم اپنی قلیل نفری سے دونوں فوجوں سے ٹکر لے سکتے ہیں ۔میری عقل اگر صحیح کام کر رہی ہے تو میں یہی ایک بہتر طریقہ سمجھتا ہوں کہ مدائن کی فوج جو سالار اندرزغر کے ساتھ آ رہی ہے وہ دلجہ تک جلدی پہنچ جائے گی۔پیشتر اس کے کہ بہمن کی فوج بھی اس سے آ ملے،ہم اندرزغر پر حملہ کر دیں گے ،کیا میں نے بہتر سوچا ہے؟‘‘
’’اس سے بہتر اور کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔‘‘سالار عاصم نے کہا۔’’مجھے مدائن کی اس فوج میں ایک کمزوری نظر آرہی ہے۔اس فوج میں عیسائیوں کی فوج کے قبیلوں کے لوگ بھی ہیں جو لڑنا تو جانتے ہوں گے لیکن انہیں جنگ اور باقاعدہ معرکے کا تجربہ نہیں ۔میں انہیں ایک مسلح ہجوم کہوں گا ۔دشمن کی دوسری کمزوری وہ سپاہی ہیں جو پچھلے معرکے سے بھاگے ہوئے مدائن کی فوج کو راستے میں ملے تھے۔مجھے یقین ہے کہ وہ ڈرے ہوئے ہوں گے۔انہوں نے اپنے ہزاروں ساتھیوں کو تلواروں تیروں اور برچھیوں کا شکار ہوتے دیکھا ہے، پسپائی کی صورت میں وہ سب سے پہلے بھاگیں گے۔‘‘’’ﷲ کی قسم عمرو!‘‘خالدؓ نے پرجوش آواز میں کہا۔’’تجھ میں وہ عقل ہے جو ہر بات سمجھ لیتی ہے۔‘‘خالدؓ نے ان سب پر نگاہ دوڑائی جو وہاں موجود تھے۔انہوں نے کہا۔’’تم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس بات کو نہ سمجھ سکاہو۔لیکن دشمن کے اس پہلو کو نہ بھولنا کہ اس کے پاس سازوسامان اور رسد اور کمک کی کمی نہیں۔صرف اندرزغر کی فوج ہماری فوج سے چھ گنا زیادہ ہے۔میں نے جو طریقہ سوچا ہے وہ موزوں اور موثر ضرور ہوگا لیکن آسان نہیں۔لڑنا سپاہ نے ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔پھر بھی انہیں اچھی طرح سے سمجھا دوکہ ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے اور ہم مدائن میں ہوں گے یا ﷲ بزرگ و برتر کے حضور پہنچ جائیں گے۔‘‘دومؤرخوں طبری اور یاقوت نے لکھا ہے کہ یہ فہم و فراست کی جنگ تھی۔اگر تعداد اور سازوسامان اور دیگر جنگی احوال وکوائف کو دیکھا جاتا تو آتش پرستوں اور مسلمانوں کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔خالدؓ کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔ان کی راتیں گہری سوچ میں گذر رہی تھیں۔خیمہ گاہ میں وہ چلتے چلتے رک جاتے اور گہری سوچ میں کھو جاتے۔انہیں زمین پر بیٹھ کر انگلی سے مٹی پر لکیریں ڈالتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔خالدؓ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ آتش پرستوں سے فیصلہ کن معرکہ لڑے بغیر واپس نہ آنے کا عہدکر چکے تھے۔انہوں نے حسبِ معمول اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔پہلے کی طرح دائیں اور بائیں پہلوؤں پر سالارعاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو رکھا۔اپنے ساتھ انہوں نے صرف ڈیڑھ ہزار نفری رکھی جن میں پیدل تھے اور گھڑ سوار بھی۔اس تقسیم کے بعد انہوں نے کوچ کاحکم دیا ۔یہ حکم انہوں نے جاسوس کی اس اطلاع کے مطابق دیا کہ اندرزغر کی فوج دریائے فرات عبور کر رہی ہے۔خالد ؓنے اپنی رفتار ایسی رکھی کہ آتش پرست دلجہ میں جونہی پہنچیں ،وہ اس کے سامنے ہوں۔یہ جنگی فہم وفراست کا غیر معمولی مظاہرہ تھا۔ایسے ہی ہوا ،جیسے انہوں نے سوچا تھا۔اندرزغر کی فوج دلجہ پہنچی تو اسے خیمے گاڑنے کا حکم ملا کیونکہ اسے بہمن کی فوج کا انتظار کرناتھا۔فوج اتنے لمبے سفر کی تھکی ہوئی خیمے گاڑنے لگی اور اس کے ساتھ ہی شور بپا ہو گیا کہ بہمن جاذویہ کی فوج آ رہی ہے۔تما م سپاہ اس کے استقبال میں خوشی کا شوروغل مچانے لگی لیکن یہ شور اچانک خاموش ہو گیا۔’’یہ مدینہ کی فوج ہے۔‘‘کسی نے بلند آواز سے کہااور اس کے ساتھ یہ کئی آوازیں سنائی دیں۔’’دشمن آگیا ہے……تیار……ہوشیار۔‘
اندرزغر گھوڑے پر سوار آگے گیا اور اچھی طرح دیکھا۔یہ خالدؓ کی فوج تھی اور جنگی ترتیب میں رہ کر پڑاؤ ڈال رہی تھی،یہ فوج خیمے نہیں گاڑ رہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان لڑائی کیلئے تیار ہیں۔’’سالارِ اعلیٰ!‘‘اندرزغرکو ایک سالار نے کہا۔’’ہماری دوسری فوج نہیں پہنچی۔معلوم ہوا ہے کہ وہ ابھی دور ہے۔ورنہ ہم ان مسلمانوں کو ابھی کچل ڈالتے۔یہ تیار ہیں اور ہماری سپاہ تھکی ہوئی ہے۔‘‘’’کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ ان کی تعداد کتنی تھوڑی ہے۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’بمشکل دس ہزار ہوں گے۔میں انہیں چیونٹیوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ان کے گھوڑ سوار دستے کہاں ہیں؟‘‘’’کہاں ہو سکتے ہیں؟‘‘اس کے سالار نے کہا۔’’کھلا میدان ہے، جو کچھ ہے صاف نظر آ رہا ہے۔‘‘’’معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سالاروں کو اور کمانداروں کو ایک ایک کے چھ چھ نظر آتے رہے ہیں۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’شکست کھا کر بھاگنے والوں نے مدائن میں بتایا تھا کہ مسلمانوں کا سالار بڑا زبردست ہے اور اس کے سوار لڑنے کے اتنے ماہر ہیں کہ کسی کے ہاتھ نہیں آتے……مجھے تو ان کے سالار کہیں نظر نہیں آرہا۔‘‘’’ہمیں جھوٹی اطلاعیں دی گئی ہیں۔‘‘سالار نے کہا۔’’ہم بہمن کا انتظارنہیں کریں گے،اس کے آنے تک ہم ان مسلمانوں کو ختم کر چکے ہوں گے۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار وہاں نہیں تھے ۔وہی تھوڑے سے سوار تھے جو پیادوں کے ساتھ تھے یا خالد ؓکے ساتھ کچھ گھوڑ سوار محافظ تھے ۔آتش پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے ۔اندرزغر کیلئے یہ فتح بڑی آسان تھی۔خالد ؓنے اتنی تھوڑی سی نفری کے ساتھ اتنے بڑے لشکر کے سامنے آکر غلطی کی تھی۔جس میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں وہ ہموار میدان تھا ۔اس کے دائیں اور بائیں دو بلند ٹیکریاں تھیں۔ ایک ٹیکری آگے جا کر مڑ گئی تھی۔ اس کے پیچھے ایک اور ٹیکری تھی۔ خالدؓ نے اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کر رکھا تھا ۔ادھر آتش پرست بھی جنگی ترتیب میں ہو گئے اور دونوں فوجوں کے سالار ایک دوسرے کا جائزہ لینے لگے۔خالدؓ نے دیکھا کہ آتش پرستوں کے پیچھے دریا تھا لیکن اندرزغرنے اپنی فوج کو دریا سے تقریباً ایک میل دور رکھا تھا۔آتش پرستوں کے پہلے سالاروں نے اپنا عقب دریا کے بہت قریب رکھا تھا تاکہ عقب محفوظ رہے۔لیکن اندرزغر نے اپنے عقب کی اتنی احتیاط نہ کی ۔اسے یقین تھا کہ یہ مٹھی بھر مسلمان اس کے عقب میں آنے کی جرات نہیں کریں گے۔’’زرتشت کے پجاریو!‘‘اندرزغر نے اپنی سپاہ سے خطاب کیا۔’’ یہ ہیں وہ مسلمان جن سے ہمارے ساتھیوں نے شکست کھائی ہے۔انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، کیا ان سے شکست کھا کر تم ڈوب نہیں مرو گے۔کیا تم انہیں فوج کہو گے؟یہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کا گروہ ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ جائے۔‘‘وہ دن یونہی گزر گیا۔سالار ایک دوسرے کی فوج کو دیکھتے اور اپنی اپنی فوج کی ترتیب سیدھی کرتے رہے۔اگلے روز خالدؓ نے اپنی فوج کو حملے کا حکم دے دیا۔فارس کی فوج تہہ در تہہ کھڑی تھی۔مسلمانوں کا حملہ تیز اور شدید تھا لیکن دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مسلمانوں کوپیچھے ہٹنا پڑا۔ دشمن نے اپنی اگلی صف کو پیچھے کرکے تازہ دم سپاہیوں کو آگے کر دیا۔خالدؓ نے ایک اور حملے کیلئے اپنے چند ایک دستوں کو آگے بھیجا۔ گھمسان کا معرکہ رہا لیکن مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔آتش پرستوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور وہ نیم زرہ پوش بھی تھے۔ مسلمانوں کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک دیوار سے ٹکرا کر واپس آ گئے ہوں ۔
خالدؓ نے کچھ دیر اور حملے جاری رکھے مگر مجاہدین تھکن محسوس کرنے لگے۔متعدد مجاہدین زخمی ہو کر بیکار ہو گئے۔ خالدؓ نے اس خیال سے کہ ان کی فوج حوصلہ نہ ہار بیٹھے خود حملے کیلئے سپاہیوں کے ساتھ جانے لگے۔اس سے مسلمانوں کا جذبہ تو قائم رہا لیکن ان کے جسم شل ہو گئے۔ آتش پرست ان پر قہقہے لگا رہے تھے۔اس وقت تک مسلمانوں نے خالدؓ کی زیرِ کمان جتنی لڑائیاں لڑی تھیں ان میں یہ پہلی لڑائی تھی جس میں مسلمانوں میں اپنے سالارکے خلاف احتجاج کیا۔احتجاج دبا دبا سا تھا لیکن فوج میں بے اطمینانی صاف نظر آنے لگی۔ خالدؓ جیسے عظیم سالار کے خلاف سپاہیوں کی بے اطمینانی عجیب سی بات تھی۔وہ پوچھتے تھے کہ اپنا سوار دستہ کہاں ہے؟ وہ محسوس کر رہے تھے کہ خالدؓ اپنے مخصوص انداز سے نہیں لڑ رہے۔خالدؓ سپاہیوں کی طرح ہر حملے میں آگے جاتے تھے پھر بھی ان کے سپاہیوں کو کسی کمی کا احساس ہو رہا تھا۔دشمن کی اتنی زیادہ نفری دیکھ کر بھی مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ انہیں شکست نظر آنے لگی تھی۔آتش پرستوں نے ابھی ایک بھی ہلہ نہیں بولا تھا۔ اندرزغر مسلمانوں کو تھکا کر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ مسلمان تھک چکے تھے ۔خالدؓاپنی فوج کی یہ کیفیت دیکھ رہے تھے اسی لیے انہوں نے حملے روک دیئے تھے ،وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب کیا چال چلیں کہ آتش پرستوں کی طرف سے ایک دیو ہیکل آدمی سامنے آیا اور اس نے مسلمانوں کو للکار کر کہاکہ جس میں میرے مقابلے کی ہمت ہے آگے آ جائے۔یہ ہزار مرد پہلوان اور تیغ زن تھا۔فارس میں ’’ہزار مرد‘‘ کا لقب اس جنگجو پہلوان کو دیا جاتا تھا جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا تھا۔ ہزار مردکا مطلب تھا کہ یہ ایک آدمی ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے۔اندرزغر اس دیو کو آگے کرکے مسلمانوں کا تماشہ دیکھنا چاہتا تھا ۔مسلمانوں میں اس کے مقابلے میں اترنے والا کوئی نہ تھا۔ خالدؓ گھوڑے سے کود کر اترے تلوار نکالی اور ہزار مرد کے سامنے جا پہنچے۔ کچھ دیردونوں کی تلواریں ٹکراتی رہیں اور دونوں پینترے بدلتے رہے۔آتش پرست پہلوان مست بھینسالگتا تھا ۔اس میں اتنی طاقت تھی کہ اس کا ایک وار انسان کو دو حصوں میں کاٹ دیتا ۔خالد ؓنے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وار کم کر دیئے اسے وار کرنے کا موقع دیتے رہے تاکہ وہ تھک جائے اس پر انہوں نے یہ ظاہر کیا جیسے وہ خود تھک کر چور ہو گئے ہوں۔
ایرانی پہلوان خالدؓ کو کمزور اور تھکا ہوا آدمی سمجھ کر ان کے ساتھ کھیلنے لگا۔کبھی تلوار گھما کر کبھی اوپر سے نیچے کو وار کرتا اور کبھی وار کرتا اور ہاتھ روک لیتا ۔وہ طنزیہ کلامی بھی کر رہا تھا۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں لاپرواہ سا ہو گیا۔ ایک بار اس نے تلوار یوں گھمائی جیسے خالدؓ کی گردن کاٹ دے گا۔ خالد ؓیہ وار اپنی تلوار پر روکنے کے بجائے تیزی سے پیچھے ہٹ گئے۔ پہلوان کا وار خالی گیا تو وہ گھوم گیا۔اس کا پہلو خالدؓ کے آگے ہو گیا۔خالدؓ اسی کے انتظار میں تھے انہوں نے نوک کی طرف سے پہلوان کے پہلو میں تلوار کا اس طرح وار کیا کہ برچھی کی طرح تلوار اس کے پہلو میں اتار دی۔وہ گرنے لگا تو خالدؓ نے اس کے پہلو سے تلوار کھینچ کر ایسا ہی ایک اور وار کیا،اور تلوار اس کے پہلو میں دور اندر تک لے گئے ۔طبری اور ابو یوسف نے لکھا ہے کہ پہلوان گرا اور مر گیا۔خالدؓ اس کے سینے پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ انہیں کھانا دیا جائے۔ انہیں کھانا دیا گیا جو انہوں نے ہزار مرد کی لاش پر بیٹھ کر کھایا ۔اس انفرادی معرکے نے مسلمانوں کے حوصلے میں جان ڈال دی۔
آتش پرست سالار اندرزغر نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمان تھک گئے ہیں چنانچہ اس نے حملے کا حکم دے دیا ۔اسے بجا طور پراپنی فتح کی پوری امید تھی ۔یہ آتش پرست سمندر کی موجوں کی طرح آئے، مسلمانوں کو اب کچلے جانا تھا۔ انہوں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے بے جگری سے مقابلہ کیا ۔ایک ایک مسلمان کا مقابلہ دس دس بارہ بارہ آتش پرستوں سے تھا۔اب ہر مسلمان ذاتی جنگ لڑ رہا تھا اس کے باوجود انہوں نے ڈسپلن کا دامن نہ چھوڑا اور بھگدڑ نہ مچنے دی۔اس موقع پر بھی سپاہیوں کو خیال آیا کہ خالدؓ اپنے پہلوؤں کو اس طریقے سے کیوں نہیں استعمال کرتے جو ان کا مخصوص طریقہ تھا۔خالد ؓخود سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے اور ان کے کپڑوں پر خون تھا۔جو ان کے کسی زخم سے نکل رہا تھا۔چونکہ ایرانیوں کی نفری زیادہ تھی اس لئے جانی نقصان انہی کا زیادہ ہو رہا تھا۔اندرزغر نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹالیا اور تازہ دم دستوں سے دوسرا حملہ کیا۔یہ حملہ زیادہ نفری کا تھا۔مسلمان ان میں نظر ہی نہیں آتے تھے اندرزغر کا یہ عہد پورا ہو رہا تھا کہ ایک بھی مسلمان کو زندہ نہیں جانے دیں گے۔اندرزغر نے مسلمانوں کا کام جلدی تمام کرنے کیلئے مزید دستوں کو ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔اب تو مسلمانوں کیلئے بھاگ نکلنا بھی ممکن نہ رہا۔وہ اب زخمی شیروں کی طرح لڑ رہے تھے۔ خالدؓ اس معرکے سے آگے نکل گئے تھے ،ان کا علمبردار ان کے ساتھ تھا۔انہوں نے علم اپنے ہاتھ میں لے کر اوپر کیا اور ایک بار دائیں اور ایک بار بائیں کیا پھر علم علمبردار کو دے دیا،یہ ایک اشارہ تھا ۔اس کے ساتھ ہی میدانِ جنگ کے پہلوؤں میں جو ٹیکریاں تھیں ان میں سے دو ہزار گھوڑ سوار نکلے ۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جو انہوں نے آگے کر لیں، گھوڑے سر پڑ دوڑے آ رہے تھے۔ وہ ایک ترتیب میں ہو کر آتش پرستوں کے عقب میں آ گئے ۔جنگ کے شوروغل میں آتش پرستوں کو اس وقت پتا چلا کہ ان پر عقب سے حملہ ہو گیا ہے جب مسلمانوں کے گھوڑ سوار ان کے سر پر آ گئے۔یہ تھے مسلمان کے وہ سوار دستے جنہیں اندرزغر ڈھونڈ رہا تھا ۔خود خالدؓ کی سپاہ پوچھ رہی تھی کہ اپنے سوار دستے کہاں ہیں۔خالد ؓنے اپنی نفری کی کمی اور دشمن کی نفری کی افراط دیکھ کر یہ طریقہ اختیار کیا کہ رات کو تمام گھوڑ سواروں کو ٹیکری کے عقب میں اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ اپنی فوج کو بھی پتا نہ چل سکے۔ان کے علم کے دائیں بائیں ہلنے کا اشارہ مقرر کیا تھا گھوڑوں کو ایسی جگہ چھپایا گیا تھا جو دشمن سے ڈیڑھ میل کے لگ بھگ دور تھیں۔وہاں سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز دشمن تک نہیں پہنچ سکتی تھی ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ رات کو گھوڑوں کے منہ باندھ دیئے گئے تھے ان دو ہزار گھوڑ سواروں کے کماندار بُسر بن ابی رہم اور سعید بن مرّہ تھے۔ جب صبح لڑائی شروع ہوئی تھی تو ان دونوں کے کمانداروں نے گھوڑ سوار وں کو پابرکاب کر دیا تھا اور خود ایک ٹیکری پر کھڑے ہوکر اشارے کا انتظار کرتے رہے تھے۔آتش پرستوں پر عقب سے قیامت ٹوٹی ،توخالد ؓ نے اگلی چال چلی جو پہلے سے طے کی ہوئی تھی۔ پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم نے لڑتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بچا کررکھا ہوا تھا انہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔جب گھوڑ سواروں نے دشمن پر عقب سے ہلہ بولا تو پہلوؤں کے ان دونوں سالاروں نے اپنے اپنے پہلو پھیلا کر آتش پرستوں کو گھیرے میں لے لیا۔دشمن کو دھوکا دینے کیلئے خالدؓنے اپنا محفوظ ریزرو دستہ بھی معرکے میں پہلے ہی جھونک دیا تھا۔
آتش پرستوں کے فتح کے نعرے آ ہ وبکا میں تبدیل ہو گئے ۔مسلمان گھوڑ سواروں کی برچھیاں انہیں کاٹتی اور گراتی جا رہی تھیں۔دشمن میں بھگدڑ تو ان ہزاروں عیسائیوں نے مچائی جنہیں جنگ کا تجربہ نہیں تھا اور اس بھگدڑ میں اضافہ دشمن کے ان سپاہیوں نے کیا جو پہلے معرکوں سے بھاگے ہوئے تھے ۔وہ جانتے تھے کہ مسلمان کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔اب مسلمانوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔جنگ کا پانسہ ایسا پلٹا کہ زرتشت کی آگ سرد ہو گئی ۔بعض مؤرخوں نے دلجہ کے معرکے کو دلجہ کا جہنم لکھا ہے۔ آتش پرستوں کیلئے یہ معرکہ جہنم سے کم نہ تھا۔اتنا بڑا لشکر ڈری ہوئی بھیڑ بکریوں کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ بھاگ رہے تھے کٹ رہے تھے ۔گھوڑ ے تلے روندے جا رہے تھے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اندرزغر زندہ بھاگ گیا لیکن مدائن کی طرف جانے کے بجائے اس نے صحرا کا رخ کیا ،اسے معلوم تھا کہ اگر وہ واپس گیا تو اردشیر اسے جلاد کے حوالے کر دے گا۔وہ صحرا میں بھٹکتا رہا اور بھٹک بھٹک کر مر گیا. دوسرے آتش پرست سالار بہمن جاذویہ کی فوج ابھی تک دلجہ نہیں پہنچی تھی ۔مسلمانوں کو ایسا ہی ایک اور معرکہ لڑنا تھا ۔ آتش پرستوں کے دوسرے سالار بہمن جاذویہ کو بھی دلجہ پہنچنا تھا اور کسریٰ اردشیر کے مطابق اس کے لشکر کو اپنے ساتھی سالار اندرزغر کے لشکر کے ساتھ مل کر خالدؓ کے لشکر پر حملہ کرنا تھا مگر وہ دلجہ سے کئی میل دور تھااور اسے یقین تھا کہ وہ اور اندرزغر مسلمانوں کو تو کچل ہی دیں گے، جلدی کیا ہے ۔اس کا لشکر آخری پڑاؤ سے چلنے لگا تو چار پانچ سپاہی پڑاؤ میں داخل ہوئے ۔ان میں دو زخمی تھے اور جو زخمی نہیں تھے ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں ۔تھکن اتنی کہ وہ قدم گھسیٹ رہے تھے ۔چہروں پر خوف اور شب بیداری کے تاثرات تھے اور ان تاثرات پر دھول کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔’’کون ہو تم؟‘‘ان سے پوچھا گیا۔’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
’’ہم سالار اندرزغر کے لشکر کے سپاہی ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے تھکن اور خوف سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’سب مارے گئے ہیں۔‘‘ دوسرے نے کہا۔’’ وہ انسان نہیں ہیں۔‘‘ ایک اور کراہتے ہوئے بولا۔’’ تم نہیں مانو گے ……تم یقین نہیں کرو گے دوستوں!‘‘ ’’یہ جھوٹ بولتے ہیں ۔‘‘جاذویہ کے لشکر کے ایک کماندار نے کہا۔’’ یہ بھگوڑے ہیں اور سب کو ڈرا کر بے قصور بن رہے ہیں ۔انہیں سالار کے پاس لے چلو ۔ہم ان کے سر قلم کر دیں گے۔ یہ بزدل ہیں۔‘‘ انہیں سالار بہمن جاذویہ کے سامنے لے گئے ۔’’تم کون سی لڑائی لڑ کر آرہے ہو؟‘‘جاذویہ نے کہا۔’’ لڑائی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ہے ۔میرا لشکر تو ابھی……‘‘
’’محترم سالار!‘‘ ایک نے کہا۔’’جس لڑائی میں آپ نے شامل ہونا تھا وہ ختم ہو چکی ہے ۔سالار اندرزغر لاپتا ہیں ،ہمارے تیغ زن پہلوان ہزار مرد مسلمانوں کے سالار کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ہم جیت رہے تھے ،مسلمانوں کے پاس گھوڑ سوار دستے تھے ہی نہیں تھے ۔ہمیں حکم ملا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کاٹ دو ۔ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی، ہم ان کے جسموں کی بوٹیاں بکھیر نے کیلئے نعرے لگاتے اور خوشی کی چیخیں بلند کرتے آگے بڑھے۔ جب ہم ان سے الجھ گئے تو ہمارے پیچھے سے نا جانے کتنے ہزار گھوڑ سوار ہم پر آ پڑے۔ پھر ہم میں سے کسی کو اپنا ہوش نہ رہا۔‘‘’’سالاراعلی مقام!‘‘زخمی سپاہی نے ہانپتے ہوئے کہا ۔’’سب سے پہلے ہمارا جھنڈا گرا۔ کوئی حکم دینے والا نہ رہا۔ہر طرف نفسا نفسی اور بھگدڑ تھی۔مجھے اپنوں کی صرف لاشیں نظر آتی تھیں۔‘‘’’میں کس طرح یقین کر لوں کہ اتنے بڑے لشکر کو اتنے چھوٹے لشکر نے شکست دی ہے ؟‘‘جاذویہ نے کہا۔اتنے میں اسے اطلاع دی گئی کہ چند اور سپاہی آ ئے ہیں ۔انہیں بھی اس کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔یہ تیرہ چودہ سپاہی تھے ۔ان کی حالت اتنی بری تھی کہ تین چار گر پڑنے کے انداز سے بیٹھ گئے۔’’تم مجھے ان میں سب سے زیادہ پرانے سپاہی نظر آتے ہو۔‘‘جاذویہ نے ایک ادھیڑ عمر سپاہی سے جس کا جسم توانا تھا ‘کہا۔’’کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ میں نے جو سنا ہے یہ کہاں تک سچ ہے؟ تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ بزدلی کی ، میدانِ جنگ سے بھاگ آنے کی اور جھوٹ بولنے کی سزا کیا ہے؟‘‘’’اگر آپ نے یہ سنا ہے کہ سالار اندرزغر کی فوج مدینہ کی فوج کے ہاتھوں کٹ گئی ہے تو ایسا ہی سچ ہے جیسا آپ سالار ہیں اور میں سپاہی ہوں۔ ‘‘اس پرانے سپاہی نے کہا۔’’اور یہ ایسے ہی سچ ہے جیسے وہ آسمان پر سورج ہے اور ہم سب زمین پر کھڑے ہیں۔میں نے مسلمانوں کے خلاف یہ تیسری لڑائی لڑی ہے۔ ان کی نفری تینوں لڑائیوں میں کم تھی۔بہت کم تھی۔زرتشت کی قسم !میں جھوٹ بولوں تو یہ آگ مجھے جلا دے جس کی میں پوجا کرتا ہوں۔ ان کے پاس کوئی ایسی طاقت ہے جو نظر نہیں آتی ‘ان کی یہ طاقت اس وقت ہم پر حملہ کرتی ہے جب انہیں شکست ہونے لگتی ہے۔‘‘’’مجھے اس لڑائی کا بتاؤ۔‘‘ سالار بہمن جاذویہ نے کہا۔’’تمہارے لشکر کو شکست کس طرح ہوئی؟‘‘اس سپاہی نے پوری تفصیل سے سنایا کہ کس طرح مسلمان اچانک سامنے آ گئے اور انہوں نے حملہ کر دیا اور اس کے بعد یہ معرکہ کس طرح لڑا گیا۔
’’ان کی وہ جو طاقت ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے ۔‘‘سپاہی نے کہا۔’’ وہ گھوڑ سوار دستے کی صورت میں سامنے آئی۔اس دستے میں ہزاروں گھوڑے تھے ان کے حملے سے پہلے یہ گھوڑے کہیں نظر نہیں آئے تھے۔ اتنے ہزار گھوڑوں کو کہیں چھپایا نہیں جا سکتا۔ہمارے پیچھے دریا تھا‘ گھوڑے دریا کی طرف سے آئے اور ہمیں اس وقت پتا چلا جب مسلمان سواروں نے ہمیں کاٹنا اور گھوڑوں تلے روندنا شروع کر دیا تھا۔اعلی مقام! یہ ہے وہ طاقت جس کی میں بات کر رہا ہوں ۔‘‘’’تم میں ایمان کی طاقت ہے۔‘‘خالدؓ اپنے لشکر سے خطاب کر رہے تھے۔’’ یہ ﷲ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ تم میں صرف بیس ایما ن والے ہوئے تو وہ دو سو کفار پر غالب آ ئیں گے۔‘‘ آتش پرستوں کا لشکر اور ان کے ساتھی عیسائی بھاگ کر دور نکل گئے تھے ۔ میدانِ جنگ میں لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ایک طرف مالِ غنیمت کا انبار لگا ہوا تھا۔خالدؓ اس انبار کے قریب اپنے گھوڑے پر سوار اپنی فوج سے خطاب کر رہے تھے۔ ’ﷲ کی قسم!‘‘ خالدؓ کہہ ر ہے تھے ۔’’قرآن کا فرمان تم سب نے عملی صورت میں دیکھ لیا ہے ۔کیا تم آ تش پرستوں کے لشکر کو دیکھ کر گھبرا نہیں گئے تھے؟ آنے والی نسلیں کہیں گی کہ یہ کمال خالد بن ولید کا تھا کہ اس نے اپنے سواروں کو چھپا کر رکھا ہوا تھا اور انہیں اس وقت استعمال کیا جب دشمن مسلمانوں کو کاٹنے اور کچلنے کیلئے آگے بڑھ آیا تھا لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ کرشمہ ایمان کی قوت کا تھا۔ ﷲ ان کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کے رسولﷺکی ذات پر ایمان لاتے ہیں۔میرے دوستو !ہمیں اور آگے جانا ہے ۔یہ آتش پرستوں کی نہیں ﷲ کی سرزمین ہے اور ہمیں زمین کے آخری سرے تک ﷲ کا پیغام پہنچانا ہے۔‘‘
میدانِ جنگ فتح و نصرت کے نعروں سے گونج رہا تھا ۔اس کے بعد خالدؓ نے اپنی سپاہ میں مالِ غنیمت تقسیم کیا۔معلوم ہوا کہ اب کے مالِ غنیمت پہلی دونوں جنگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ خالدؓ نے حسبِ معمول مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کیلئے مدینہ بھجوا دیا۔ اس وقت تک آتش پرستوں کے سالار بہمن جاذویہ کو پوری طرح یقین آ گیا تھا کہ اندرزغر کا لشکر مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گیا ہے اور اندرزغر ایسا بھاگا ہے کہ لاپتا ہو گیا ہے۔ بہمن جاذویہ نے اپنے ایک سالار جابان کو بلایا۔ ’’تم اندرزغر کا انجام سن چکے ہو۔‘‘ جاذویہ نے کہا۔’’ ہمارے لیے کسریٰ کا حکم یہ تھا کہ ہم دلجہ میں اندرزغر کے لشکر سے جا ملیں ۔اب وہ صورت ختم ہو گئی ہے۔ کیا تم نے سوچا ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘’’ہم اور جو کچھ بھی کریں ۔‘‘جابان نے کہا ۔’’ہمیں بھاگنا نہیں چاہیے۔‘‘
’’لیکن جابان!‘‘ جاذویہ نے کہا ۔’’ہمیں اب کوئی کارروائی اندھا دھند بھی نہیں کرنی چاہیے ۔مسلمان ہمیں تیسری بار شکست دے چکے ہیں۔ کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ وہ وقت گزر گیا ہے جب ہم مدینہ کے لشکر کو صحرائی لٹیرے اور بدو کہا کرتے تھے۔ اب ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔‘‘’’ہماری ان تینوں شکستوں کی وجہ صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا جو بھی سالار مدینہ والوں سے ٹکر لینے گیا وہ اس انداز سے گیا جیسے وہ چند ایک صحرائی قزاقو ں کی سرکوبی کیلئے جا رہا ہو ۔‘‘جابان نے کہا۔’’جو بھی گیا وہ دشمن کو حقیر اور کمزور جان کر گیا۔ہماری آنکھیں پہلی شکست میں ہی کھل جانی چاہیے تھیں لیکن ایسا نہ ہوا۔ آپ نے بھی تو کچھ سوچا ہو گا؟‘‘’’سب سے پہلی سوچ تو مجھے یہ پریشان کررہی ہے۔‘‘ جاذویہ نے کہا۔’’کہ کسریٰ اردشیر بیمار پڑا ہے ۔میں جانتا ہوں ا سے پہلی دو شکستوں کے صدمے نے بستر پر ڈال دیا ہے ایک اور شکست کی خبر اسے لے ڈوبے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شکست کی خبر پہنچانے والے کو وہ قتل ہی کرا دے۔‘‘’’لیکن جاذویہ!‘‘ جابان نے کہا۔’’ہم کسریٰ کی خوشنودی کیلئے نہیں لڑ رہے ۔ہمیں زرتشت کی عظمت اور آن کی خاطر لڑنا ہے۔‘‘
’’میں تم سے ایک مشورہ لینا چاہتا ہوں جابان !‘‘جاذویہ نے کہا۔’’تم دیکھ رہے ہو کہ کسریٰ نے ہمیں جو حکم دیا تھا وہ بے مقصد ہو چکا ہے ۔میں مدائن چلا جاتا ہوں ۔کسریٰ سے نیا حکم لوں گا۔ میں اس کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اسے بھی یہ کہنے کی عادت ہو گئی ہے کہ جاؤ اور مسلمانوں کو کچل ڈالو ۔اسے ابھی تک کسی نے بتایا نہیں کہ جنگی طاقت صرف ہمارے پاس نہیں ،میں نے مان لیا ہے کہ لڑنے کی جتنی اہلیت اور جتنا جذبہ مسلمانوں میں ہے وہ ہمارے یہاں نا پید ہے۔ جابان! طاقت کے گھمنڈ سے کسی کو شکست نہیں دی جا سکتی۔‘‘’’میں بھی اسی کو بہتر سمجھوں گا۔‘‘جابان نے کہا۔’’آپ کوچ کو روک دیں اور مدائن چلے جائیں۔‘‘’’کوچ روک دو۔‘‘جاذویہ نے حکم کے لہجے میں کہا۔’’لشکر کو یہیں خیمہ زن کر دو۔ میری واپسی تک تم لشکر کے سالار ہو گے۔‘‘’’اگر آپ کی غیر حاضری میں مسلمان یہاں تک پہنچ گئے یا ان سے آمنا سامنا ہو گیا تو میرے لیے آپ کا کیا حکم ہے ؟‘‘جابان نے پوچھا۔’’ کیا میں ان سے لڑوں یا آپ کے آنے تک جنگ شروع نہ کروں ؟‘‘’’تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ میری واپسی تک تصادم نہ ہو۔‘‘ جاذویہ نے کہا۔آتش پرستوں کے لشکر کا کوچ روک کر اسے وہیں خیمہ زن کر دیا گیا اور بہمن جاذویہ اپنے محافظ دستے کے چند ایک گھوڑ سواروں کو ساتھ لے کر مدائن کو روانہ ہوگیا۔بکربن وائل کی بستیوں میں ایک طرف گریہ و زاری تھی اوردوسری طرف جوش و خروش اور جذبہ انتقام کی للکار۔اس عیسائی قبیلے کے وہ ہزاروں آدمی جو للکارتے اور نعرے لگاتے ہوئے آتش پرست لشکر کے ساتھ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکالنے گئے تھے وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کر اپنی بستیوں کو چلے گئے تھے ۔یہ وہ تھے جو زندہ نکل گئے تھے ان کے کئی ساتھی مارے گئے تھے ۔ان میں بعض زخمی تھے جو اپنے آپ کو گھسیٹتے آ رہے تھے مگر راستے میں مر گئے تھے ۔یہ عیسائی جب سر جھکائے ہوئے اپنی بستیوں میں پہنچنے لگے تو گھر گھر سے عورتیں ،بچے اور بوڑھے نکل گئے ۔ان شکست خوردہ ٹولیوں میں عورتیں اپنے بیٹوں، بھائیوں اور خاوندوں کو ڈھونڈنے لگیں ۔بچے اپنے باپوں کو دیکھتے پھر رہے تھے۔ انہیں پہلا صدمہ تو یہ ہوا کہ وہ پٹ کر لوٹے تھے ۔پھر صدمہ انہیں ہوا جب کے عزیز واپس نہیں آئے تھے، بستیوں میں عورتوں کی آہ و فغاں سنائی دینے لگی ۔وہ اونچی آواز سے روتی تھیں۔’’پھر تم زندہ کیوں آ گئے ہو؟‘‘ ایک عورت نے شکست کھا کر آنے والوں سے چلّاچلّا کر کہا۔’’ تم ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے وہیں کیوں نہیں رہے۔‘‘یہ آواز کئی عورتوں کی آواز بن گئی۔ پھر عورتوں کی یہی للکار سنائی دینے لگی ۔’’تم نے بکر بن وائل کا نام ڈبودیا ہے ۔تم نے ان مسلمانوں سے شکست کھائی ہے جو اسی قبیلے کے ہیں۔جاؤ اور شکست کا انتقام لو۔مثنیٰ بن حارثہ کا سر کاٹ کر لاؤ جس نے ایک ہی قبیلے کو دو دھڑوں میں کاٹ دیا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ اسی قبیلے کا ایک سردار تھا۔ اس نے کچھ عرصے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کے زیرِ اثر اس قبیلے کے ہزاروں لوگ مسلمان ہو گئے تھے ۔ان مسلمانوں میں سے کئی خالد ؓکی فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ اسی طرح ایک ہی قبیلے کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے تھے ۔
طبری اور ابنِ قطیبہ نے لکھا ہے کہ شکست خوردہ عیسائی اپنی عورتوں کے طعنوں اور ان کی للکار سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گئے۔ بیشتر مؤرخین نے لکھا ہے کہ عیسائیوں کو اس لئے بھی طیش آیا تھا کہ ان کے اپنے قبیلے کے کئی ایسے افراد نے اسلام قبول کر لیا تھا جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن وہی افراد اسلامی فوج میں جا کر ایسی طاقت بن گئے تھے کہ فارس جیسے طاقتور شہنشاہیت کو نا صرف للکار رہے تھے بلکہ اسے تیسری شکست بھی دے چکے تھے۔’’اب ان لوگوں کو اپنے مذہب میں واپس لانا بہت مشکل ہے۔‘‘ بکر بن وائل کے ایک سردار عبدالاسود عجلی نے کہا۔’’ان کا ایک ہی علاج ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے ۔‘‘عبدالاسود بنو عجلان کا سردار تھا۔یہ بھی بکر بن وائل کی شاخ تھی ۔ا سلئے وہ عجلی کہلاتا تھا ۔مانا ہوا جنگجو عیسائی تھا۔ ’’کیا تم مسلمانوں کے قتل کو آسان سمجھتے ہو؟‘‘ ایک بوڑھے عیسائی نے کہا۔’’ میدانِ جنگ میں تم انہیں پیٹھ دکھا آئے ہو۔‘‘’’میں ایک مشورہ دیتا ہوں۔‘‘ اس قبیلے کے ایک اور بڑے نے کہا۔’’ ہمارے ساتھ جو مسلمان رہتے ہیں انہیں ختم کر دیا جائے ۔پہلے انہیں کہا جائے کہ عیسائیت میں واپس آ جائیں اگر انکار کریں تو انہیں خفیہ طریقوں سے قتل کیا جائے۔‘‘ ’’نہیں!‘‘ عبدالاسود نے کہا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ ہمارے قبیلے کے ان مسلمانوں نے خفیہ کارروائیوں سے فارس کی شہنشاہیت میں کیسی تباہی مچائی تھی۔انہوں نے کتنی دلیری سے فارس کی فوجی چوکیوں پر حملے کیے تھے۔انہوں نے کسریٰ کی رعایا ہو کر کسریٰ کی فوج کے کئی کمانداروں کو قتل کر دیا تھا۔ اگر تم نے یہاں کسی ایک مسلمان کو خفیہ طریقے سے قتل کیا تو مثنیٰ بن حارثہ کا گروہ خفیہ طریقوں سے تمہارے بچوں کو قتل کر جائے گا اور تمہارے گھروں کو آگ لگا دے گا۔ ان میں سے کوئی بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘’’پھر ہم انتقام کس طرح لیں گے؟‘‘ایک نے پوچھا۔’’تمہارے لیے تو انتقام بہت ہی ضروری ہے کیونکہ تمہارے دو جوان بیٹے دلجہ کی لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں ۔‘‘’’شہنشاہِ فارس اور مسلمانوں کی اپنی جنگ ہے ۔‘‘عبدالاسود نے کہا۔’’ہم اپنی جنگ لڑیں گے لیکن فارس کی فوج کی مدد کے بغیر شاید ہم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکیں گے۔ اگر تم لوگ مجھے اجازت دو تو میں مدائن جا کر شہنشاہِ فارس سے ملوں گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں مدد دے گا۔ اگر اس نے مدد نہ دی تو ہم اپنی فوج بنا کر لڑیں گے۔تم ٹھیک کہتے ہو ۔مجھے مسلمانوں سے اپنے دو بیٹوں کے خون کا حساب چکانا ہے۔‘‘عیسائیوں کے سرداروں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ جس قدر لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو سکیں وہ دریائے فرات کے کنارے اُلیّس کے مقام پر اکھٹے ہو جائیں اور ان کا سردارِ اعلیٰ عبدالاسود عجلی ہو گا۔قبیلہ بکر بن وائل اور اس کے ذیلی قبیلوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ ان کے زخم تازہ تھے ۔مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے گھروں میں ماتم ہورہا تھا۔ ان حالات اور اس جذباتی کیفیت میں نوجوان بھی اور وہ بوڑھے بھی جو اپنے آپ کو لڑنے کے قابل سمجھتے تھے ‘لڑنے کیلئے نکل آ ئے ۔یہ لوگ اس قدر بھڑکے ہوئے تھے کہ جوان لڑکیاں بھی مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے تیار ہو گئیں۔
عراقی عیسائیوں کے عزائم، جنگی تیاریاں اور الیس کے مقام پر ان کاایک فوج کی صورت میں اجتماع خالدؓ سے پوشیدہ نہیں تھا۔ خالدؓ کی فوج وہاں سے دور تھی لیکن انہیں دشمن کی ہر نقل و حرکت کی اطلاع مل رہی تھی ان کے جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے تھے ۔عیسائیوں کے علاقے میں عرب کے مسلمان بھی رہتے تھے۔ ان کی ہمدردیاں مدینہ کے مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔مسلمانوں کی فتوحات کو دیکھ کر انہیں آتش پرستوں سے آزادی اور دہشت گردی سے نجات بڑی صاف نظر آنے لگی تھی۔ وہ دل و جان سے مسلمانوں کے ساتھ تھے ۔وہ کسی کے حکم کے بغیر خالدؓ کیلئے جاسوسی کررہے تھے۔خالدؓ کے لشکر کے حوصلے بلند تھے۔ اتنی بڑی جنگی طاقت پر مسلسل تین فتوحات نے اور بے شمار مالِ غنیمت نے اور اسلامی جذبے نے ان کے حوصلوں کو تروتازہ رکھا ہوا تھا لیکن خالد ؓجانتے تھے کہ ان کے مجاہدین کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں ۔مجاہدین کے لشکر کوآرام ملا ہی نہیں تھا ۔وہ کوچ اور پیش قدمی کی حالت میں رہے یا میدانِ جنگ میں لڑتے رہے تھے ۔’’انہیں مکمل آرام کرنے دو۔‘‘خالدؓ اپنے سالاروں سے کہہ رہے تھے۔’’ ان کی ہڈیاں بھی دکھ رہی ہوں گی۔ جتنے بھی دن ممکن ہوسکا میں انہیں آرام کی حالت میں رکھوں گااور ان دستوں کو بھی یہیں بلا لو جنہیں ہم دجلہ کے کنارے دشمن پر نظر رکھنے کیلئے چھوڑ آئے تھے۔ تم میں مجھے مثنیٰ بن حارثہ نظر نہیں آ رہا؟‘‘’’وہ گذشتہ رات سے نظر نہیں آیا۔‘‘ایک سالار نے جواب دیا۔ایک گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیئے جو قریب آرہے تھے ۔گھوڑا خالدؓ کے خیمے کے قریب آکر رکا۔’’مثنیٰ بن حارثہ آیا ہے۔‘‘ کسی نے خالد ؓکو بتایا۔مثنیٰ گھوڑے سے کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خالدؓ کے خیمے میں داخل ہوا۔’’تجھ پر ﷲکی رحمت ہو ولید کے بیٹے !‘‘مثنیٰ نے پر جوش آواز میں کہا اور بیٹھنے کے بجائے خیمے میں ٹہلنے لگا ۔’’ﷲ کی قسم ابنِ حارثہ!‘‘ خالدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’تیری چال ڈھال اور تیرا جوش بتا رہا ہے کہ تجھے کہیں سے خزانہ مل گیا ہے۔‘‘’’خزانے سے زیادہ قیمتی خبر لایا ہوں ابنِ ولید !‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’میرے قبیلے کے عیسائیوں کا ایک لشکر تیار ہو کر الیس کے مقام پر جمع ہونے کیلئے چلا گیا ہے۔ان کے سرداروں نے دروازے بند کر کے ہمارے خلاف جو منصوبہ بنایا ہے وہ مجھ تک پہنچ گیا ہے۔‘‘ ’’کیا یہی خبر لانے کیلئے تو رات سے کسی کو نظر نہیں آیا ؟‘‘خالد نے پوچھا۔’’ہاں !‘‘مثنیٰ نے جواب دیا۔’’وہ میرا قبیلہ ہے‘ میں جانتا تھا کہ میرے قبیلے کے لوگ انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔میں اپنا حلیہ بدل کر انکے پیچھے چلا گیا تھا جس مکان میں بیٹھ کر انہوں نے ہمارے خلاف لڑنے کا منصوبہ بنایا ہے‘ میں اس کے ساتھ والے مکان میں بیٹھا ہوا تھا۔میں وہاں سے پوری خبر لے کر نکلا ہوں۔ دوسری اطلاع یہ ہے کہ ان کے سردار اس مقصد کیلئے مدائن چلے گئے ہیں اور وہ اردشیر سے فوجی مدد لے کر ہم پر حملہ کریں گے۔‘‘’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اپنے لشکر کو آرام کی مہلت نہیں دے سکوں گا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا تم پسند نہیں کرو گے جس طرح ہم نے دلجہ میں آتش پرستوں کو تیاری کی مہلت نہیں دی تھی اسی طرح ہم عیسائیوں اور آتش پرستوں کے اجتماع سے پہلے ہی ان پر حملہ کر دیں۔‘‘’’ ﷲ تیری عمر دراز کرے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’طریقہ یہی بہتر ہے کہ دشمن کا سر اٹھنے سے پہلے ہی کچل دیاجائے۔‘‘خالدؓنے اپنے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا جیسے وہ ان سے مشورہ مانگ رہے ہوں ۔
’’ہونا تو ایسا ہی چاہیے۔‘‘سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔’’لیکن لشکر کی جسمانی حالت دیکھ لیں۔ کیا ہمارے لیے یہ فائدہ مند نہ ہوگا کہکم از کم دو دن لشکر کو آرام کرنے دیں؟‘‘’’ ہاں ابنِ ولید!‘‘دوسرے سالار عدی بن حاتم نے کہا۔’’کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلی تین فتوحات کے نشے میں ہمیں شکست کا منہ دیکھنا پڑے۔‘‘’’ابنِ حاتم!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’میں تیرے اتنے اچھے مشورے کی تعریف کرتا ہوں لیکن یہ بھی سوچ کہ ہم نے دو دن عیسائیوں کو دے دیئے تو کیا ایسا نہیں ہو گا کہ فارس کا لشکر ان سے آن ملے؟‘‘’’ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘عدی بن حاتم نے کہا۔’’لیکن بہتر یہ ہو گا کہ آتش پرستوں کے لشکر کو آنے دیں۔یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم بکر بن وائل کے عیسائیوں سے الجھے ہوں اور آتش ہرست عقب سے ہم پر آپڑیں۔جس جس کو ہمارے خلاف لڑنا ہے اسے اس میدان میں آنے دیں جہاں وہ لڑنا چاہتے ہیں۔‘‘’’ابنِ ولید !‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا ۔’’کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ عیسائیوں پر حملے کی پہل میں کروں؟‘‘’’تو نے ایسا کیوں سوچا ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’اس لیے کہ جتنا انہیں میں جانتا ہوں اتنا کوئی اور نہیں جانتا۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’اور میں اس لیے بھی سب سے آگے ہو کر ان پر حملہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے قبیلے کے جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے انہیں قتل کر دیا جائے۔میں انہیں کہوں گا کہ دیکھو کون کسے قتل کر رہا ہے؟‘‘’’اس وقت ہماری نفری کتنی ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’اٹھارہ ہزار سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔‘‘ایک سالار نے جواب دیا۔’’جب ہم فارس کی سرحد میں داخل ہوئے تھے تو ہماری نفری اٹھارہ ہزار تھی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اس علاقے کے مسلمانوں نے میری نفری کم نہیں ہونے دی۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ان تین جنگوں میں بہت سے مسلمان شہید اور شدید زخمی ہوئے تھے ۔بعض نے لکھا ہے کہ نفری تقریباًآدھی رہ گئی تھی لیکن مثنیٰ بن حارثہ کے قبیلے نے نفری کی کمی پوری کر دی تھی۔آتش پرستوں کا سالار بہمن جاذویہ اردشیر سے نیا حکم لینے مدائن پہنچ چکا تھا ۔لیکن شاہی طبیب نے اسے روک لیا۔
’’اگر کوئی اچھی خبر لائے ہو تو اندر چلے جاؤ۔‘‘طبیب نے کہا۔’’اگر خبر اچھی نہیں تو میں تمہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘’’خبر اچھی نہیں۔‘‘جاذویہ نے کہا۔’’ہماری فوج تیسری بار شکست کھا چکی ہے۔اندرزغر ایسا بھاگا ہے کہ لاپتا ہو گیا ہے۔‘‘’’جاذویہ!‘‘طبیب نے کہا۔’’اردشیر کیلئے اس سے زیادہ بری خبر اور کوئی نہیں ہو سکتی۔اندرزغر کو تو کسریٰ اردشیر اپنی جنگی طاقت کا سب سے زیادہ مضبوط ستون سمجھتا تھا۔جب سے یہ سالار گیا ہے،شہنشاہ دن میں کئی بار پوچھتا رہا کہ اندرزغر مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکال کر واپس آیا ہے یا نہیں؟تھوڑی دیر پہلے بھی اس نے پوچھا تھا۔‘‘
’’محترم طبیب!‘‘جاذویہ نے کہا۔’’کیا ہم ایک حقیقت کو چھپا کر غلطی نہیں کر رہے؟کسریٰ کو کسی نہ کسی دن تو پتا چل ہی جائے گا۔‘‘’’جاذویہ!‘‘طبیب نے کہا۔’’میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ اگر تم نے یہ خبر شہنشاہ کو سنائی تو اس کا خون تمہاری گردن پر ہوگا۔‘‘جاذویہ وہیں سے لوٹ گیا لیکن اپنے لشکر کے پاس جانے کی بجائے اس خیال سے مدائن میں رُکا رہا کہ اردشیر کی صحت ذرا بہتر ہوگی تو وہ اسے خود شکست کی خبر سنائے گا۔اور اسکے ساتھ وعدہ کرے گا کہ وہ مسلمانوں سے تینوں شکستوں کا انتقام لے گا۔اس روز یا ایک دو روز بعد عیسائیوں کا ایک وفد اردشیر کے پاس پہنچ گیا۔اس کا طبیب اور شاہی خاندان کا کوئی بھی فرد قبل از وقت نہ جان سکا کہ یہ وفد کس مقصد کیلئے آیا ہے۔اردشیر کو چونکہ معلوم تھا کہ عیسائیوں نے اس لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی ہے اس لیے اس نے بڑی خوشی سے ان عیسائیوں کو ملاقات کی اجازت دے دی۔اس وفد نے اردشیر کو پہلی خبر ی سنائی کہ سالار اندرزغر شکست کھا گیا ہے۔’’اندرزغر شکست نہیں کھا سکتا۔‘‘اردشیر نے ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔’’کیا تم لوگ مجھے یہ جھوٹی خبر سنانے آئے ہو؟……کہاں ہے اندرزغر؟اگر ا س کی شکست کی خبر صحیح ہے تو یہ بھی صحیح ہے کہ جس روز وہ مدائن میں قدم رکھے گا وہ اس کی زندگی کا آخری روز ہو گا۔‘‘’’ہم جھوٹی خبر سنانے نہیں آئے۔‘‘وفد کے سربراہ نے کہا۔’’ہم آپ کی اس تیسری شکست کو فتح میں بدلنے کا عہد لے کر آئے ہیں لیکن آپ کی مدد کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘اردشیر کچھ دیر چپ چاپ خلا ء میں گھورتا رہا،اس کی بیماری بڑھتی جا رہی تھی۔وہ بہت کمزور ہو چکا تھا۔دواؤں کا اس پر الٹا اثر ہو رہاتھا۔اب تیسری شکست کی خبر نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔اس کا طبیب اس کے پاس کھڑا تھا۔’’کسریٰ کو اس وقت آرام کی ضرورت ہے۔‘‘طبیب نے کہا۔’’معزز مہمان اس وقت چلے جائیں تو کسریٰ کیلئے بہتر ہوگا۔‘‘عیسائیوں کا وفد اٹھ کھڑا ہوا۔’’ٹھہرو!‘‘اردشیر نے نحیف آواز میں کہا۔’’تم لوگوں نے شکست کو فتح میں بدلنے کی بات کی تھی۔تم کیا چاہتے ہو؟‘‘’’اپنے کچھ دستے جن میں سوار زیادہ ہوں ہمیں دے دیں۔‘‘وفد کے سردارنے کہا۔’’ہمارا پورا قبیلہ الیس پہنچ چکا ہوگا۔‘‘’’جو مانگو گے دوں گا۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’بہمن جاذویہ کے پاس چلے جاؤاور اس کا لشکر اپنے ساتھ لے لو۔جاذویہ دلجہ کے قریب کہیں ہوگا۔‘‘’’بہمن جاذویہ مدائن میں ہے۔‘‘کسی نے اردشیر کو بتایا۔’’وہ شہنشاہ کے پاس آیا تھا لیکن طبیب نے اسے آپ تک آنے نہیں دیا۔‘‘’’اسے بلاؤ!‘‘اردشیر نے حکم دیا۔’’مجھ سے کچھ نہ چھپاؤ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔