خدا ترسی ؛ عبادات کا ہدف ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 24 مئی 2019


خدا ترسی ؛ عبادات کا ہدف
خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)
19 رمضان 1440 بمطابق 24 مئی 2019
امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد لعزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد لعزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 19 رمضان 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "خدا ترسی ؛ عبادات کا ہدف" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ بلند اخلاقی اقدار کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت اور ضرورت ہے، عبادات کے طور طریقے الگ الگ ہونے کے باوجود ان کے مشترکہ اہداف بھی ہیں، یہ اہداف مسلم معاشرے کو تہذیب و تمدن کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں، اور پورا مسلم معاشرہ ان خوبیوں اور اچھائیوں سے مہک اٹھتا ہے، خدا ترسی ان خوبیوں میں سے ایک ہے، چنانچہ ماہ رمضان کی عبادات میں بھی یہ صفت پائی جاتی ہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں خوب صدقہ خیرات کرتے تھے، نبوی تعلیمات کے مطابق انسانی اعضا کا بھی روزہ ہوتا ہے اس لیے خلاف شریعت بات کہنے یا اس پر عمل کرنے سے ہر وقت گریز ضروری ہے، رمضان میں خدا ترسی کی بہت سی صورتیں ہیں، ان تمام صورتوں پر عمل پیرا ہو کر انسان خدا ترسی کا وسیع ترین مفہوم اپنے ذہن میں اجاگر کرتا ہے، کتاب و سنت میں خدا ترسی کی فضیلت اور ضرورت بھی ذکر ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی خدا ترس تھے، حتی کہ کافروں کے بارے میں بھی رحمدلی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ جہاں پر لوگ اکٹھے ہوں وہاں پر رحمدلی اور خدا ترسی کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے اس لیے حرمین شریفین میں عمرہ، طواف، سعی، قیام، فرض نمازوں اور قیام وغیرہ کے دوران اعلی اخلاقیات کا مظاہرہ ضروری ہے، اگر کسی کے دل سے خدا ترسی اٹھا لی جائے تو یہ بدبختی کی علامت ہے، خدا ترس لوگوں پر اللہ تعالی بھی رحم فرماتا ہے، انہوں نے ائمہ کرام کو لمبی دعاؤں کے دوران کمزور لوگوں کا خیال رکھنے کی تلقین کی اور نبوی تعلیمات ذکر کیں، دوسرے خطبے میں انہوں نے مکمل عشرے کی راتوں میں خوب عبادات کی ترغیب دلائی اور آخر میں لمبی دعا منگوائی۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اسی کے لئے اچھے اچھے نام اور اعلی ترین صفات ہیں، بے شمار اور لا تعداد نعمتوں پر اسی کا شکر ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، دنیا اور آخرت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور چنیدہ نبی ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام متقی صحابہ کرام پر سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

لوگو! میں آپ سب سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، متقی کو اللہ تعالی ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتا ہے اور اسی کبھی نقصان میں نہیں ڈالتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ}
 تقوی اپنانے والے کے لئے اللہ نجات کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔[الطلاق: 2، 3]
 ایک اور مقام پر فرمایا:
{وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا}
 اللہ تقوی اپنانے والے کی خطائیں مٹا دیتا ہے اور اسے ڈھیروں اجر سے نوازتا ہے۔[الطلاق: 5]

اسلامی بھائیو!

اخلاقی اقدار اور اعلی خوبیوں کی اسلام میں بہت عظیم قدر و قیمت اور شان ہے، اسی لیے اخلاق حسنہ اور اچھی خوبیوں پر ترغیب کے لئے تواتر کے ساتھ شرعی نصوص موجود ہیں، اللہ تعالی نے افضل المخلوقات جناب محمد ﷺ کے بارے میں فرمایا:
{وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ}
 بیشک آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔[القلم: 4]

شرعی عبادات الگ الگ ہونے کے باوجود بھی اپنے اندر مختلف ضمنی مقاصد بھی رکھتی ہیں، اور ان کے ڈھیروں اہداف بھی ہیں ، یہ مقاصد اور اہداف مسلمان کو اچھے اخلاق اور بہترین صفات سے متصف ہونے پر ابھارتے ہیں؛ تا کہ پورے معاشرے کی اجتماعی زندگی اعلی اخلاقیات پر استوار ہو، اچھی خوبیاں پورے معاشرے کو خوشحال اور تہذیب یافتہ بنا دیں، پورا معاشرہ ہمہ قسم کی خوبیوں اور ہر طرح کی اچھائیوں سے مہک اٹھے۔

اسلامی بھائیو!

ماہ رمضان میں ایسی عبادات شریعت نے رکھی ہیں جن سے انسان کی تربیت ہوتی ہے اور تزکیہ نفس ہوتا ہے، ان عبادات سے انسان مہذب بن جاتا ہے، یہ عبادات انسان کو ایسا بنا دیتی ہیں جن کا فائدہ تمام مسلمانوں کو ہوتا ہے، رمضان کی عبادات انسان کو بہترین راستے پر گامزن کر دیتی ہیں اور انہیں اعلی اخلاق کا مالک بنا دیتی ہیں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے سخی تھے، آپ اس وقت مزید سخی ہو جاتے جب رمضان میں جبریل آپ سے ملتے، جبریل آپ سے ہر رات ملتے تھے اور آپ کے ساتھ قرآن کریم کا مذاکرہ فرماتے، اس وقت تو آپ تیز اندھیری سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ سخاوت فرماتے تھے) متفق علیہ

حدیث کے عربی الفاظ میں "جود" کے مفہوم میں ہر طرح کی خیر، بھلائی اور حسن اخلاق شامل ہیں۔

مسلم اقوام!

ماہ رمضان کے روزوں میں خلقت کی ہر قسم کی برائی سے دور رہنے کی تربیت ہوتی ہے، روزہ انسان کو بری باتوں سے دور رہنے کی تربیت دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص خلاف شریعت بات کرنے اور اس پر عمل سے باز نہیں رہتا تو اللہ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے) بخاری

اسی تربیت کے زیر اثر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جب تم روزہ رکھو تو تمہاری سماعت، بصارت اور زبان کا بھی جھوٹ اور گناہ سے روزہ ہونا چاہیے، ملازمین کو تکلیف مت دیں، اور روزے والے دن آپ پر وقار اور سکینت ہونی چاہیے"

مطلب یہ ہے کہ آپ ان تمام اچھی خوبیوں پر ہمیشگی کے ساتھ عمل پیرا رہیں اور دائمی طور پر انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

رمضان میں مسلمانوں کی خدا ترسی پر تربیت ہوتی ہے، اس تربیت کی بہت سی شکلیں ہیں، خدا ترسی پر تربیت کے مظاہر میں یہ بھی ہے کہ رمضان میں صدقات، عطیات، روزہ افطاری، کھانا کھلانے اور محتاج کی ضروریات پوری کرنے کی خصوصی فضیلت ہے، اسی فضیلت کی بدولت خدا ترسی کا مفہوم وسیع ترین دائرے اور خوبصورت ترین انداز میں مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا ہے، خدا ترسی بذات خود ایک ایسی صفت ہے جو مسلمانوں میں ہر جگہ اور زندگی کے تمام گوشوں میں نمایاں ہونی چاہیے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ}
 پھر وہ ان لوگوں سے ہو جائے جو ایمان لائیں اور ایک دوسرے کو صبر اور خدا ترسی کی وصیت کریں۔ [البلد: 17]

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (تم مومنوں کو باہمی خدا ترسی، شفقت اور محبت میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے، بالکل اسی طرح جیسے اگر جسم کا ایک عضو بھی تکلیف میں ہو تو سارا جسم ہی بے خوابی اور بخار کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔) متفق علیہ

اس لیے مخلوق پر خدا ترسی بہت عظیم خوبی ہے اور اس کا حصول بہت بڑا ہدف ہے، نیز خدا ترسی روزہ سمیت تمام عبادات کے تربیتی مقاصد میں بھی شامل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ}
 اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔ [الأنبياء: 107]

اسی طرح اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوبی بھی ذکر فرمائی کہ:
{بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}
 آپ مومنوں کے ساتھ نہایت مشفق اور رحمدل ہیں[التوبة: 128]

ابو ہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: "آپ مشرکوں کے خلاف بد دعا فرما دیں" تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے بہت زیادہ لعنت بھیجنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ) مسلم

مسلم اقوام!

حج اور رمضان لوگوں کے اکٹھے ہونے کا وقت ہوتے ہیں، اس دوران فرض نمازوں اور قیام کے لئے رش بڑھ جاتا ہے، افطاری کے وقت بھی سب لوگ جمع ہوتے ہیں، ایسے ہی اعتکاف اور عمرے کی ادائیگی میں بھی لوگوں کا رش ہوتا ہے، تو اس صورت میں یہ انتہائی ضروری اور لازمی ہے کہ باہمی خدا ترسی، نرمی، سکینت اور اطمینان کا اعلی ترین مظاہرہ ہو، آپ کا رویہ اور تعامل ایسا ہو کہ اس عظیم دین کی عظمت اور خوبیوں کو آشکار کرے۔

اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار کیا کہ ہمارے تمام معاملات میں یہ تمام خوبیاں اور بلند اخلاقی اقدار ہر وقت موجود رہیں، زندگی کے تمام گوشے ان سے معمور رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو لوگوں پر شفقت نہیں کرتا اللہ بھی اس پر رحمت نہیں فرماتا) متفق علیہ

اس لیے ہم چھوٹوں پر شفقت کریں، بڑوں کا احترام کریں، نیز کمزور اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، اور بڑوں کی عزت کا اعتراف نہ کرے) اس حدیث کو احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے، اور امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں اتنی عبادت فرماتے جو کسی اور دن میں نہیں فرماتے تھے، چنانچہ صحیح بخاری اور مسلم میں سیدہ عائشہ -اللہ آپ اور آپ کے والد سے راضی ہو گیا- کہتی ہیں کہ: (جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو شب بیداری فرماتے، اپنے گھر والوں کو بیدار رکھتے اور کمر کس لیتے)

اللہ تم پر رحم فرمائے، اپنے شب و روز کے اوقات نیکیوں سے بھر پور رکھیں، خیر و بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، تمہیں زمین و آسمانوں کے پروردگار کی رضا مل جائے گی۔

ہمیں اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے، اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد.

یا اللہ! خلفائے راشدین، اہل بیت، تمام صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین نیز ان کے نقش قدم پر روزِ قیامت تک بہترین انداز سے چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔

یا اللہ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی سے نواز، نیز ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمارے اگلے، پچھلے، خفیہ ، اعلانیہ سب گناہ معاف کر دے، اور وہ بھی معاف فرما دے جن گناہوں کو تو ہم سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی پست و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔

یا اللہ! ہمارے سارے گناہ معاف فرما دے، ابتدائی ، آخری، ظاہری، باطنی، اعلانیہ اور خفیہ سب گناہ معاف فرما دے، یا غفور! یا رحیم!

یا اللہ! ہمیں تقوی عطا فرما، یا اللہ! ہمارا تزکیہ نفس فرما، تو ہی بہترین تزکیہ کرنے والا ہے، تو ہی ہمارا والی اور مولا ہے۔

یا اللہ! ہمیں لیلۃ القدر کا قیام کرنے والوں اور عظیم اجر پانے والوں میں شامل فرما ۔ یا اللہ! ہمیں لیلۃالقدر میں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی توفیق عطا فرما۔ یا اللہ! ہمیں لیلۃ القدر میں قیام عطا فرما دے، یا اللہ! اس رات میں ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما لینا جن سے تو راضی ہو گا، جس سے تو راضی ہو جائے تو وہ کبھی بد بختی میں نہیں پڑے گا، یا حیی! یا قیوم! یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! جس نے بھی ہمارے ساتھ جمعہ ادا کیا، اور ہماری بات سنی ہے، یا اللہ! اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، یا اللہ! ان سے راضی بھی ہو جا، یا اللہ! اس سے دنیا و آخرت میں راضی ہو جا، یا اللہ! پوری دنیا میں کہیں بھی مسلمان ہیں ان سب سے راضی ہو جا، یا رب العالمین! یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! ہمیں خالی ہاتھ مت موڑنا، یا اللہ! ہماری جھولیوں کو خالی مت لوٹانا، یا اللہ! ہمیں خالی ہاتھ مت موڑنا، بیشک تو ہی قوی اور غالب ہے، تو ہی کرم کرنے والا ہے، یا حیی! یا قیوم!

اللہ کے بندو!

اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، صبح اور شام اللہ اسی کی تسبیحات بیان کرو۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں