استقبال رمضان۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 03 مئی 2019


استقبال رمضان
خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
28 شعبان 1440هـ بمطابق 3 مئی 2019
امام و خطیب:  ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی
ترجمہ:  فرہاد احمد سالم( مکہ مکرمہ)

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 28 شعبان 1440 کا خطبہ '' استقبال رمضان'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ، چنانچہ ان ہی عبادات کے اہم موسموں میں سے ایک موسم کہ جس میں رب کی رحمتیں برستیں، اس کے اطاعت کے کام کیے جاتے ، عمل پر اجر و ثواب کو بڑھا دیا جاتا نیز جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں وہ عظیم موسم ماہ رمضان ہے جس کی عظیم راتیں اور افضل ایام آنے والے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام کو اس موسم کی خوشخبری دیا کرتے تھے۔ یہ ماہ مبارک گناہوں کی معافی کا بہترین موقعہ ہے۔ اس میں مسلمان اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھتے ہیں، روزہ صرف کھانے پینے اور خواہشات نفس سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں تمام حرام کاموں سے بھی بچنا ہے۔ روزے کا مقصد تقرب الہی اور تقوی کا حصول ہے ، رمضان اور قرآن کا گہرا تعلق ہے ،یہ ماہ قرآن بھی ہے اس میں کثرت تلاوت قرآن کی بہت اہمیت اور اجر و ثواب ہے۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے روزے کو ڈھال اور جنت تک پہنچنے کا راستہ بنایا۔ میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان ہوں اور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، نیز اسی سے گناہوں کی بخشش بھی مانگتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا، امانت ادا کی، امت کی خیر خواہی فرمائی اور کما حقہ اللہ کے راستے میں جہاد کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ کی طرف سے پیغام اجل آگیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی آل ، صحابہ ،نیز ان کے طریقے پر چل کر اقتدا کرنے والوں ، اور قیامت تک ان کے طرزِ زندگی اپنانے والوں پر بھی اللہ کی سلامتی اور درود نازل ہوں۔

مومنو! میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں، یہ تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔
آپ پر صبر و تحمل اور محنت و کوشش لازم ہے، اور یہ یاد رکھیئے کہ دنیا گنتی کے چند دن اور محدود سانسوں کا نام ہے، ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس نے کب رخصت ہو جانا ہے؟ اس لیے اللہ کے بندو! ہمیں چاہیے کہ جب تک زندگی ہے تیاری کریں، اور ہم یہ بھی یاد رکھیں کہ موت اچانک غفلت میں آتی ہے، نیز راتوں کو محنت کرنے والے صبح اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

{وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ } [البقرة: 281]

اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

امت مسلمہ! 
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ } [الذاريات: 56]
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

روزانہ اللہ کی اطاعت کے کام ہو رہے ہیں اور اس کی رحمتیں برس رہی ہیں، نیکی کی اللہ تعالی جسے چاہے توفیق دیتا ہے، اللہ بہت عظیم فضل والا ، پاک ، معاف اور بہت رحم کرنے والا ہے۔

بےشک آپ کے سامنے عظیم راتیں اور افضل ایام آ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آنے کی خوشخبری دیتے تھے؛ چنانچہ مسند امام احمد میں ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تمہارے پاس مبارک ماہ رمضان آ چکا ہے ،اللہ تعالی نے اس میں تم پر روزے فرض کیے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اور شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے ۔جو اس رات کی خیر سے محروم رہا تو وہی حقیقی محروم ہے۔

ابن رجب (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں ، یہ حدیث لوگوں کو ایک دوسرے کو رمضان کی مبارک باد دینے کی دلیل ہے۔ مومن جنت کے دروازے کھلنے اور گناہگار جہنم کے دروازے بند ہونے کی خوشخبری کیوں نہ دیے جائیں، اسی طرح عقلمند آدمی شیطان کو بیڑیوں میں بند ہونے کی خوشخبری کیوں نہ دیا جائے، اس جیسا وقت پھر اور کہاں۔

بےشک رمضان کا مہینہ روزوں، قیام، قرآن اور احسان کرنے کا مہینہ ہے، یہ مہینہ فضیلت والے اعمال کا مجموعہ ہے۔ روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے رب میں نے اس کو دن میں کھانے اور شہوت سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا : میں نے اس کو رات کو سونے سے روکا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔

صحیحین میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے حالت ایمان میں حصول ثواب کے لیے ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔

اللہ تعالی نے روزے کا اجر اپنے ذمہ لیا ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے،


حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان جو نیکی کرتا ہے، وہ اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا تک لکھی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مگر روزہ کہ وہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور کھانے پینے سے دست کش ہوتا ہے۔

بےشک یہ عظیم مہینہ اور پیاری بہار ہے، اس میں فرشتے روزہ دار کے لئے افطاری تک دعا کرتے رہتے ہیں، روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت افطاری کی خوشی اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت روزے کا ثواب پا کر۔

اللہ تعالی روزانہ جنت کو مزین کرتا اور فرماتا ہے: يُوشِكُ عِبَادِي الصَّالِحُونَ أَنْ يُلْقُوا عَنْهُمُ الْمُؤْنَةَ وَالْأَذَى، وَيَصِيرُوا إِلَيْكِ
عنقریب میرے نیک بندے اپنے اوپر سے محنت اور تکلیف کو اتار دیں گے اور تیر ے پاس آئیں گے، اللہ کی طرف سے آواز لگانے والا آواز لگاتا ہے۔: يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ، أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ، أَقْصِرْ،
اے خیر کے متلاشی آگے بڑھ اور اے برائی کے رسیا رک جا۔ چنانچہ دل اپنے خالق کے قریب اور نفوس اپنے پیدا کرنے والے کے لئے خالص ہوتے ہیں۔

رمضان میں روزہ داروں کی دعائیں رد نہیں ہوتیں ، اور دعا کی قبولیت کہ بہت سی گھڑیاں ہیں، پس ان میں کثرت سے دعا کریں، اللہ تعالی نے آیات صیام میں ذکر کیا ہے کہ وہ مومن بندوں کے قریب ہوتا اور دعائیں قبول کرتا ہے، چنانچہ فرمایا:
{وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ} [البقرة: 186]
اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ دیجئے کہ میں (ان کے) قریب ہی ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں لہذا انہیں چاہیے کہ میرے احکام بجا لائیں اور مجھ پر ایمان لائیں اس طرح توقع ہے کہ وہ ہدایت پا جائیں گے۔

رمضان میں بھلائی کے بہت سے دروازے ہیں مثلاً جس نے کسی روزہ دار کی افطاری کروائی چاہے ایک کھجور ہی کے ذریعے تو اس کو روزے دار کے برابر اجر ملے گا اور روزے دار کے اجر میں کچھ بھی کمی نہیں ہو گی۔ 

اسی طرح رمضان کا صدقہ بہترین صدقہ ہے، چنانچہ حساب کے دن سے ڈرنے والے کو چاہیے کہ بھوکے مسکین کو کھانا کھلائے، بیوہ اور یتیم کی ضرورت کو پورا کرے۔

ماہ رمضان تقوی کا عظیم موسم ہے اسی لیے روزہ ڈھال ہے، یعنی فواحش اور محرمات کے مقابلے میں محفوظ قلعہ ہے۔ اللہ سبحانہ نے روزوں کی آیات کا آغاز اور اختتام بھی تقوی کے ذکر سے ہی کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے روزہ کے احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا:
 {كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ} [البقرة: 187]

اسی انداز سے اللہ تعالیٰ اپنے احکام لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں۔
تقوی بہترین زاد راہ اور تقوی پر مبنی لباس؛ بہترین لباس ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ} [الطلاق: 2، 3] {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا} [الطلاق: 5] {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا} [الطلاق: 4]

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ اس کی برائیاں دور کر دیتا ہے اور اسے بڑا اجر دیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لئے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔

مسلم اقوام! تقوی کے ذریعے اس جنت کی حقیقی سعادت حاصل ہوتی ہے کہ جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے اور وہ متقین کے لئے تیار کی گئی ہے، نیز اس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی گزرا۔

{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } [يونس: 62 - 64]
سن لو! بے شک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور بچا کرتے تھے۔ انہی کے لیے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتوں کے لیے کوئی تبدیلی نہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

مسلمانو!
رمضان حصولِ رضائے الہی ، راہِ راست پر استقامت اور اللہ سے ملاقات کی تیاری کا موقعہ ہے، پس آج عمل ہے اور حساب نہیں اور کل حساب ہوگا عمل نہیں۔
{وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى} [البقرة: 197]
اور زاد راہ ساتھ لے لیا کرو اور بہتر زاد راہ تو پرہیزگاری ہے۔

مومنو! 
رمضان کے مقاصد میں اطاعت الہی اور گناہ سے بچنے پر نفس کی تربیت اور تزکیہ بھی شامل ہے۔ جیسے کہ مسلمان اپنے نفس کو حالت روزہ میں بعض حلال چیزوں سے روکتا ہے، ا س سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو حرام سے بچائے۔ پس روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں ایمان اور عمل صالح کے نتائج سامنے آتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص جھوٹ اور فریب کاری ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ(روزے کے نام سے) اپنا کھانا پیناچھوڑ دے۔

رمضان میں تلاوت قرآن کی خصوصی فضیلت ہے ،پس قرآن کی تلاوت، تدبر اور غور فکر سے زیادہ کوئی چیز دل کے لئے نفع بخش نہیں۔ جیسے کہ ابن القیم (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں:
قرآن وہ تمام پسندیدہ اوصاف پیدا کرتا ہے جو دل کی حیات کا باعث ہیں، اسی طرح وہ ان تمام برے اوصاف سے روکتا بھی ہے جن سے دل میں بگاڑ اور تباہی پیدا ہوتی ہے۔ اگر لوگ جان لیں کہ تدبر کے ساتھ تلاوت قرآن میں کیا ہے تو وہ اس کے علاوہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر اس ہی میں مشغول ہو جائیں۔


مسند امام احمد میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت کے ساتھ رکوع وسجود کرتے رہے، (وہ آیت یہ ہے:) {إِنْ تُعَذِّ بْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکَیْمُ}
اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔

اے عاجزی کرنے والو! نیکی کے دن آ چکے ہیں اور صدقہ کرنے کا موسم سایہ فگن ہے پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاؤ، اپنے اوقات کو نیکیوں سے آباد کرو، اطاعت کے کاموں میں بڑھو نیز اپنے رب کے لئے خالص ہو جاؤ اور سنت نبوی کی پیروی کرو۔

مخلوق میں سب سے بہتر اور انسانوں میں سب سے پاکیزہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجو۔
مومنوں جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں بڑے پیارے کام کا حکم دیا ہے جس کی ابتدا اپنے آپ سے کرتے ہوئے فرمایا: 
{ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمً} [الأحزاب: 56]

اے اللہ ہمارے دلوں کو تقوی دے، ان کو پاکیزہ کر دے ، تو ہی ان کو سب سے بہتر پاک کرنے والا اور تو ہی ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔

یا اللہ ! ہم تجھ سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، اور دنیا و آخرت میں ہمیشہ معافی کا سوال کرتے ہیں۔

یا اللہ ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما ، ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرما اور ہمارے معاملات آسان فرما، نیز ہمیں اپنے رضا والوں کاموں کی توفیق عطا فرما۔

یا اللہ! ہمیں ، ہمارے والدین ان کے والدین اور ان کی اولادوں کو معاف فرما بے شک تو دعا سننے والا۔


آمین یا رب العالمین!!

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں