قرآن کہانی ۔۔۔ حضرت یونس علیہ السلام


 ❞ قرآن کہانی❝
حضرت یونس علیہ السلام
تحریر:عمیرہ علیم
بشکریہ:الف کتاب ویب

حضرت یونس  کا شمار اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر انبیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ کو حضرت یونس  بن متی بھی پکارا جاتا ہے۔ آپ بنی اسرائیل پر مبعوث کیے گئے۔ ہدایت و تبلیغ کے لیے آپ کو عراق کی طرف بھیجا گیا۔ اس کے شہر نینویٰ میں لوگ اس قدر بے راہ روی کا شکار ہوچکے تھے کہ ان کی ہدایت کے لیے آپ بھیجے گئے۔ اس شہر کے کھنڈراب بھی دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے واقع شہر موصل کے مقابل موجود ہیں۔ حضرت یونس کو قرآن مجید میں وَذَالنُّوْن اور صاحبِ الْحُوْتِ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی ایک سورت کا نام ''یونس'' ہے، لیکن اس میں بھی آپ کا ذکرِ مبارک مختصراً ملتا ہے بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں چند مقامات پر آپ کا ذکر فرمایا ہے اور آپ  کی زندگی کے بیشتر واقعات کو پوشیدہ رکھا گیا ہے۔

اہلِ نینویٰ کے باسی دولت مند شمار ہوتے تھے۔ دولت کی ریل پیل نے اس قوم میں اُن تمام برائیوں کو اجاگر کردیا جس کی وجہ سے وہ دین سے دور ہوگئے اور خدا سے بغاوت و سرکشی کے مرتکب ہوئے۔ حضرت یونس جب حکمِ الٰہی سے نبی بنائے گئے تو آپ اپنی قوم کو شرک اور بت پرستی سے روکنے لگے اور انہیں خبردار کیا کہ یہ گناہِ عظیم ہے کیوں کہ شرک و بت پرستی کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے، لیکن وہ گناہوں کی دلدل میں بُری طرح دھنس چکے تھے کہ اپنے نبی کی آواز پر کان نہیں دھرتے تھے جب کہ حضرت یونس کی پاکیزہ زندگی اور دربارِ الٰہی میں کی جانے والی عبادت اس بات کا مظہر تھی کہ آپ ایک باکمال، پاکیزہ اور راست گو ہستی ہیں۔

قومِ یونس نے جب اپنے پیغمبر کی بات پر کان نہ دھرے، تو آپ  سخت غضب ناک ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم کو حکمِ الٰہی سنا دیا کہ تین دنوں میں ان پر عذاب ِ الٰہی آنے والا ہے اور پھر آپ انہیں چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ آپ نے خیال کیا کہ اب ان کا یہاں قیام کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کی تباہی و بربادی یقینی ہوچکی۔ اب اس قوم پر رشد و ہدایت بے اثر ہے اور حکمِ خداوندی آنے سے پہلے ہی اپنی قوم کو تنہا چھوڑ گئے۔ آپ نے خود ہی قیاس کیا اور اس مقام سے نکل آئے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ناپسندیدہ ٹھہری۔ آپ کوئی عام انسان نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر تھے سورة الصافات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

''اور بے شک یونس بھی (ہمارے) رسولوں میں سے ہیں۔''

چوں کہ رب کریم کو اپنے نبی کی یہ ادا پسند نہ آئی تو اللہ تعالیٰ نے قومِ یونس کے دلوں میں خوفِ الٰہی ڈال دیا اور وہ نادم ہوئے کہ ہم نے اپنے نبی سے یہ گستاخی کیوں کی۔ تمام قوم گھروں سے باہر نکل آئی۔ گڑگڑا کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنے لگی۔ مائوں نے بچوں کو خود سے چھڑوا دیا۔ سبھی آہ و بکا کرنے لگے۔ بکرے، بکریاں، بھیڑیں، گائے اور بچھڑے رونے لگے۔ بچوں کا بلکنا، بڑوں کا تڑپنا، جانوروں اور مویشیوں کا رونا اتنا ہول ناک منظر پیش کررہا تھا کہ رحمتِ الٰہی جوش میں آگئی اور ان پر سے عذاب ہٹا لیا گیا۔ یہ وہ واحد قوم ہے جسے عذاب کی خبر سنائی گئی، لیکن انہوں نے توبہ کی اور ایمان لے آئے تو دردناک عذاب سے مستثنیٰ قرار دیے گئے اور ان کو ایک خاص مدت تک دنیا کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

''پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونس کی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں)۔ وہ قوم جب ایمان لے آئی تو البتہ ہم نے اس پر دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدّت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیا۔'' (سورۂ یونس)

حضرت یونس  نے عذاب کی خبر دی اور اللہ تبارک تعالیٰ کے حکم کے بغیر اپنا مستقر چھوڑا۔ ابھی عذاب کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے ہی تھے کہ قوم کے توبہ و استغفار کی وجہ سے ان کو معافی مل گئی۔ اللہ کی کتاب میں یہ خدائی دستور واضح ہے کہ کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں آتا جب تک مہلت پوری نہ ہو جائے اور اللہ کا نبی آخری وقت تک نصیحت و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھتا ہے جب کہ حضرت یونس اپنی قوم کو چھوڑ گئے۔ اپنے نبی کی ہجرت کی وجہ سے اللہ کے انصاف نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس قوم کو عذاب دیا جائے کیوں کہ اللہ کی مقرر کردہ شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں۔ قومِ یونس  کی توبہ اور فرعون کی توبہ میں فرق ہی یہ ہے کہ جیسے ہی ان کو حضرت یونس نے عذاب کی اطلاع دی، تو ان کے دل پلٹ گئے۔ عذاب چوں کہ شروع نہیں ہوا تھا، صرف آثار ہی ظاہر ہونا شروع ہوئے تھے، تو قوم اپنے نبی کو ڈھونڈنے نکل پڑی جب کہ حضرت یونس  ہجرت کرچکے تھے۔ دوسری طرف فرعون کو جس وقت احساس ہوا کہ اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں تو تب اس نے کہا تھا کہ میں موسیٰ  کے خدا پر ایمان لاتا ہوں، حالاں کہ وہ عذاب کے بھنور میں جکڑا جاچکا تھا۔

جب حضرت یونس  اپنی بستی کے مسلسل انکار پر ناراض ہوکر چل دیے اور سمندر پر پہنچے، تو وہاں ایک کشتی مسافروں کے لیے  لے جانے کو تیار کھڑی تھی۔ آپ  بھی اس میں سوار ہوگئے۔ سمندر کے وسط میں جاکر کشتی ڈولنے لگے۔ مسافر پریشان ہوگئے۔ کشتی پر بوجھ زیادہ تھا۔ ملاح نے کہا: ''کشتی والو! میرے تجربے کے مطابق جب کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگ کر آتا ہے، تو کشتی ایسے ہی ڈولتی ہے۔ باہم مشورے سے طے پایا کہ قرعہ اندازی کی جائے اور جس کا نام نکلے اُسے کشتی سے پھینک دیا جائے تاکہ  بوجھ کچھ کم ہو، کیوں کہ اپنی مرضی سے کوئی بھی مسافر پانی میں کودنے پر تیار نہ ہوتا۔ جب قرعہ اندازی ہوئی تو حضرت یونس  کا نام نکلا۔ آپ کی وضع قطع اور بردباری آپ کی شخصیت سے ظاہر تھی۔ اس لیے کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ ایک نیک بندے کو اپنے سے جدا کرلیں۔ پھر قرعہ نکالا گیا۔ دوبارہ بھی آپ کا نام نکلا۔ آپ  کپڑے اتارنے لگے، لیکن سواریوں نے روک دیا کہ ہم آپ کو سمندر میں نہیں ڈال سکتے۔ آپ کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا کہ وحی ٔالٰہی کی آمد سے قبل انہیں اپنی قوم کو نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ تیسری مرتبہ نام نکلنے پر آپ نے خود ہی سمندر میں چھلانگ لگا دی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ ہمارے بندے یونس  کو اپنے پیٹ میں رکھ۔ وہ تیری غذا نہیں بلکہ تیرا پیٹ اس کے لیے قید خانہ ہے۔اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

  ''جب بھاگ کر گئے بھری ہوئی کشتی کی طرف (سوار ہونے کے لیے) پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوئے اور دھکیلے ہوئوں میں سے ہوگئے۔ پس نگل لیا انہیں مچھلی نے حالاں کہ وہ اپنے آپ کو ملامت کررہے تھے۔ '' (سورۂ الصافات)

حضرت یونس  کو جب مچھلی نے نگلا، تو آپ  کو لگا کہ آپ کی جان قبض کرلی گئی لیکن جب آپ نے جسم کو ہلایا جلایا، تو سمجھ گئے کہ کیا معاملہ ہوا ہے۔ آپ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگئے اور ایسی جگہ کو عبادت گاہ بنا لیا جہاں پہلے کسی نے سجدہ نہ کیا تھا۔ مچھلی آپ کو لے کر سمندر میں پھرتی رہی۔ کہتے ہیں کہ اس مچھلی کو بھی ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا تھا۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں کتنی مدت رہے، اس کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ مختلف اقوال کے مطابق آپ ایک دن، تین دن، پانچ دن، سات دن یا چالیس دن رہے۔ (واللہ اعلم)

جب حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں قید ہوئے تو باقاعدہ مچھلی کو وحی کی گئی کہ یہ اللہ کا خاص بندہ ہے، اس کو خراش نہ آئے اور نہ ہی اس کی ہڈی ٹوٹے۔ مچھلی نے آپ کو نگل لیا اور آپ کو لے کر پانی کی تہوں میں اتری، تو وہاں آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ کس طرح کی آواز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی کہ یہاں سمندری مخلوق اپنے رب کی تسبیح کررہی ہے۔

حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے رب کی پاکی بیان کی۔ فرشتوں نے آپ کی تسبیح سنی تو عرض گزار ہوئے:
''اے پروردگار! ایک باریک اور نحیف سی آواز کسی اجنبی زمین سے سنتے ہیں۔'' اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
''یہ میرا بندہ یونس ہے۔ اس نے میری حکم عدولی کی۔ میں نے اسے مچھلی کے پیٹ میں قید کردیا۔ اب وہ سمندر میں ہے۔'' فرشتوں نے پھر پوچھا: ''وہ پاک باز بندہ جس کی طرف سے تیرے لیے روزانہ صبح و شام صالح اعمال چڑھتے رہے؟'' ارشاد ہوا: ہاں! وہی بندہ۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس وقت فرشتوں نے حضرت یونس کی سفارش کی۔ اللہ نے مچھلی کو حکم دیا کہ میرے بندے کو ساحل پر اگل دو۔ تبھی تو ربِ کریم سورة الصافات میں فرماتا ہے:

''پس اگر وہ اللہ کی پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، تو پڑے رہتے مچھلی کے پیٹ میں قیامت کے دن تک۔''

آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کے پرہیزگار اور عبادت گزار بندے تھے۔ اپنی قوم کی اصلاح کے بعد جو وقت بچتا وہ یادِ الٰہی میں گزارتے اور جب اپنی غلطی کی پاداش میں سمندر کی تاریکیوں کو آپ کا مسکن بنایا گیا، تو آپ اپنی غلطی کا احساس ہونے پر اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوئے اور معافی کے طلب گار رہے۔ لاالہ الا انت سبحنک انی کنت من الظالمین۔ (کوئی معبود نہیں سوائے تیرے پاک ہے تو، بے شک میں ہی قصور وار ہوں (سورۃ الانبیاء)'' جسے آیتِ کریمہ بھی کہا جاتا ہے، آپ سے منسوب ہے۔

آپ نے جس عاجزی وانکساری سے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب فرمائی اور اپنی غلطی پر توبہ کی، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو معاف فرمادیا۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

''پس ہم نے ان کی پکار کو قبول فرما لیا اور نجات بخش دی انہیں غم و اندھیرے سے اور یونہی نجات دیا کرتے ہیں مومنوں کو۔'' (سورۃ الانبیاء)

حضرت یونس کی دعا کو آیتِ کریمہ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ کلمات ہیں جن کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ان کلمات کے بارے میں حضرت ابنِ عباس کی بیان کردہ حدیث ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

''اے بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں انہیں یاد کرلے۔ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ تجھے اپنی حفظ و امان میں رکھے گا۔ ان کلمات کو یاد کر لے تو اللہ تعالیٰ کو تو ہر جگہ مددگار پائے گا۔ تو اللہ کو فراخی میں پہچان، اللہ تعالیٰ تجھے شدت میں پہچانے گا۔''

حضرت سعد ابن ابی وقاص روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی محمد صلی اللی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

''اللہ تعالیٰ کا وہ نام جس کے ذریعے دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتا ہے اور جب اس نام کے ذریعے اس کی بارگاہ میں سوال کیا جائے تو ضرور پورا ہوتا ہے۔ وہ حضرت یونس بن متی  کی دعا ہے۔ '' فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ! کیا یہ دعا یونس کے لیے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
''یہ حضرت یونس کے لیے خاص تھی اور اب تمام مومنوں کے لیے بھی ہے۔''

اللہ رب العزت بڑے بڑے گناہ گاروں کو معاف فرمانے والا ہے جب کہ آپ  تو اس کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ معافی مل گئی، مچھلی کو حکم مل گیا۔ میرے بندے کو خیریت کے ساتھ ساحلِ سمندر پر پہنچا دو۔ مچھلی نے آپ کو کھلے میدان میں ڈال دیا۔ وہاں اللہ کے حکم سے کدو یا اس جیسی کوئی بیل اگ آئی۔ ارشاد ربانی ہے:

''پھر ہم نے ڈال دیا انہیں کھلے میدان میں اس حال میں کہ وہ بیمار تھے اور ہم نے اُگا دی ان پر کدو کی بیل۔'' (سورۂ الصافات)

اس بیل کے پتے نرم و نازک تھے۔ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے آپ بہت کم زور ہوگئے تھے اور جسم پر کوئی بال بھی نہ بچا تھا۔ دھوپ کی تپش سے آپ کو تکلیف ہوتی حتیٰ کہ مکھی کے بیٹھنے پر بھی آپ بے زار ہو جاتے۔ اس بیل کے پتوں نے اس چٹیل میدان پر آپ کو بستر کی نرمی اور سایہ دیا۔ آپ اس بیل کا پھل بھی کھایا کرتے۔ حکمِ خداوندی سے ایک جنگلی بکری آپ کے پاس صبح شام آتی اور آپ کو اپنا دودھ پلاتی جو آپ کے لیے فرحت بخش تھا۔ آہستہ آہستہ آپ کی جسمانی کمزوری دور ہونے لگی۔ جسم پر بال بھی دوبارہ اُگ آئے۔ کچھ عرصے بعد آپ تندرست و توانا ہوگئے اور حکم ہوا کہ واپس اپنی بستی کی طرف جائیں اور ان کا حال دریافت کریں۔ آپ نے واپسی کا سفر کیا اور اپنی قوم میں آگئے۔ آپ کی قوم کی تعداد تقریباً ایک لاکھ یا اس سے کچھ زائد تھی۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:

''اس کے بعد ہم نے اسے ایک لاکھ یا اس سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا اور وہ ایمان لائے اور ہم نے ایک وقتِ خاص تک انہیں باقی رکھا۔'' (سورۂ الصافات)

اللہ تعالیٰ کو آپ کی تعداد میں کوئی شک نہیں تھا، لیکن لوگوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ اس بستی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ایک گنجان آباد بستی ہے اور آپ دوبارہ اس لیے بھیجے گئے تاکہ قوم یونس اپنے نبی پر باقاعدہ ایمان لے آئیں۔ واپسی پر آپ کا شان دار استقبال ہوا۔ قوم سنبھل چکی تھی اور آپ اپنی قوم کی اصلاح میں مشغول ہوگئے۔

حضرت یونس  سے غلطی ہوئی، پھر انہیں اس کا احساس ہوگیا، تو آپ نے رب تعالیٰ سے معافی طلب فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی توبہ قبول فرمائی۔ آپ بھی انسان تھے تبھی خطا کار ہوئے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہر عیب سے مستثنیٰ ہے۔ حضرت یونس  کے بلند مرتبے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آپ  چیدہ ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

''آخر کار اس کے رب نے اسے برگزیدہ فرما لیا اور اسے صالح بندوں میں شامل کرلیا۔''

پھر فرمایا:

''ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولادِ یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی۔'' (سورة النساء)۔

سورة الانعام میں آپ کا ذِکر مبارک ان الفاظ میں آتا ہے:

''اسماعیل، الیسع اور یونس اور لوط کو (راستہ دکھایا)۔ ان میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام دنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔''

ایک مرتبہ ایک یہودی کو ایک مسلمان نے اس لیے تھپڑ مارا کہ اس نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو تمام عالموں پر چن لیا ہے۔ جب معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں پہنچا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
''کسی شخص کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمانا آپ کی عاجزی و انکساری کا مظہر ہے جب کہ آپ کے مقام کی ابتدا تو وہاں سے ہوتی ہے جہاں تمام رسولوں اور نبیوں کے مقام کی انتہا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ساتھی انبیائے اکرام کی فضیلت و مرتبے کو بلند کیا کیوں کہ وہ ایسی ہستیاں ہیں جن کے بارے میں عام مسلمان کو سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اہلِ مکہ کے ایمان نہ لانے پر پریشان رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کافروں کے معاملات پر صبر و برداشت کی تلقین فرمائی اور قصہ یونس بیان فرمایا اور بتایا کہ جتنا کوئی شخص اللہ کا مقرب ہوتا ہے اتنا ہی اس کا امتحان سخت ہوتا ہے اور اس کی بہت معمولی سی خطا بھی قابلِ گرفت ہوتی ہے۔ مصائب و آلام سے گھبرانا نہیں چاہیے یادِالٰہی سے ان کا خاتمہ ممکن ہے۔ وہ بے قرار کی دعا سنتا ہے اور اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ پسندیدہ عمل ہے۔ 
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو راہِ ہدایت سے فیض یاب کرے اور سب کے لیے آسانیاں فرمائے۔ (آمین)
٭…٭…٭



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں